الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ابن ماجه کل احادیث (4341)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن ابن ماجه
كتاب الوصايا
کتاب: وصیت کے احکام و مسائل
1. بَابُ: هَلْ أَوْصَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
1. باب: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وصیت کی تھی؟
حدیث نمبر: 2695
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي وَأَبُو مُعَاوِيَةَ ، ح وَحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ شَقِيقٍ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ:" مَا تَرَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دِينَارًا وَلَا دِرْهَمًا وَلَا شَاةً وَلَا بَعِيرًا وَلَا أَوْصَى بِشَيْءٍ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اپنی وفات کے وقت) دینار، درہم، بکری اور اونٹ نہیں چھوڑے اور نہ ہی کسی چیز کی وصیت کی ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الوصايا/حدیث: 2695]
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الوصایا 6 (1635)، سنن ابی داود/الوصایا1 (2863)، سنن النسائی/الوصایا 2 (3651)، (تحفة الأ شراف: 17610)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/44) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: یعنی دنیاوی امور کے متعلق، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا میں کوئی مال چھوڑا ہی نہیں، اور فرمایا: جو میں چھوڑ جاؤں وہ میری بیویوں اور عامل کی اجرت سے بچے تو وہ صدقہ ہے، سبحان اللہ، جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے صاف رہ کر دنیا میں آئے تھے ویسے دنیا سے تشریف بھی لے گئے، البتہ دین کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے وصیت کی ہے جیسے دوسری حدیث میں ہے کہ وفات کے وقت بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ نماز کا خیال رکھو، اور غلام لونڈی کا، اور ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفود کی خاطر تواضع کرنے کے لئے وصیت کی، اور ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکوں کو جزیرۃ العرب سے نکال دینے کے لئے وصیت کی اور محال ہے کہ آپ اور مومنین کو تو وصیت کی ترغیب دیتے اور خود وصیت نہ فرماتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی کتاب یعنی قرآن پر چلنے اور اہل بیت سے محبت رکھنے کی وصیت کی۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم

حدیث نمبر: 2696
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ مَالِكِ بْنِ مِغْوَلٍ ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ مُصَرِّفٍ ، قَالَ: قُلْتُ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى : أَوْصَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِشَيْءٍ؟ قَالَ: لَا، قُلْتُ: فَكَيْفَ أَمَرَ الْمُسْلِمِينَ بِالْوَصِيَّةِ؟، قَالَ:" أَوْصَى بِكِتَابِ اللَّهِ".
طلحہ بن مصرف کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی چیز کی وصیت کی ہے؟ انہوں نے جواب دیا: نہیں، میں نے کہا: پھر کیوں کر مسلمانوں کو وصیت کا حکم دیا؟ تو انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی کتاب (قرآن) پر چلنے کی وصیت فرمائی ۱؎۔ مالک کہتے ہیں: طلحہ بن مصرف کا بیان ہے کہ ہزیل بن شرحبیل نے کہا: بھلا ابوبکر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصی پر حکومت کر سکتے تھے؟ ابوبکر رضی اللہ عنہ کا تو یہ حال تھا کہ اگر وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم پاتے تو تابع دار اونٹنی کی طرح اپنی ناک میں (اطاعت کی) نکیل ڈال لیتے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الوصايا/حدیث: 2696]
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الوصایا 1 (2740)، المغازي 83 (4460)، فضائل القران 18 (5022)، صحیح مسلم/الوصایا 5 (1634)، سنن الترمذی/الوصایا 4 (2119)، سنن النسائی/الوصایا 2 (3650)، (تحفة الأ شراف: 5170، 19507)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/354، 355، 381)، سنن الدارمی/الوصایا 3 (3224) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: یعنی اس حکم پر سب سے پہلے ابوبکر رضی اللہ عنہ چلتے اس کے بعد اور لوگ، کیونکہ ابوبکر رضی اللہ عنہ سب صحابہ سے زیادہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مطیع تھے، ان کے بارے میں گمان بھی نہیں ہو سکتا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی اور کو خلیفہ بنانے کے لئے فرمایا ہو اور خود خلافت لے لیں، بلکہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کو تو خلافت کی خواہش ہی نہ تھی، جب ثقیفہ بنو ساعدہ میں صلاح و مشورہ ہوا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یہ رائے دی کہ دو آدمیوں میں سے ایک کے ہاتھ بیعت کر لو، عمر بن خطاب کے ہاتھ پر یا ابو عبیدہ بن جراح کے ہاتھ پر، اور اپنا نام ہی نہ لیا، لیکن عمر رضی اللہ عنہ نے زبردستی ان سے بیعت کی، اس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی بیعت کر لی، آسمان گر پڑے اور زمین پھٹ جائے ان بے ایمانوں پر جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جانثار جانباز صحابہ کے خلاف الزام تراشی کرتے ہیں، اور معاذ اللہ یہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صراحۃ علی رضی اللہ عنہ کو اپنے بعد خلیفہ بنایا تھا اور صحابہ اس کو جانتے تھے، لیکن عمداً انہوں نے علی رضی اللہ عنہ کا حق دبایا اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنایا: «سبحانك هذا بهتان عظيم» (سورة النور: 16) اگر صراحت تو کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذرا بھی اشارہ ہوتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد علی رضی اللہ عنہ خلیفہ ہیں تو تمام صحابہ جان و دل سے اس حکم کی اطاعت کرتے، اور علی رضی اللہ عنہ کو اسی وقت خلیفہ بناتے بلکہ خلافت کے لئے مشورہ ہی نہ کرتے، کیونکہ جو امر منصوص ہو اس میں صلاح و مشورہ کی کیا حاجت ہے، اگر بالفرض ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس حکم کے خلاف بھی کیا ہوتا تو انصار جن کی جماعت بہت تھی وہ کیونکر ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت قبول کر لیتے بلکہ حدیث پر چلنے کے لئے ان کو مجبور کر دیتے، وہ تو حدیث کے ایسے ماننے والے تھے کہ جب ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث سنائی: «الأ ئمۃ من قریش» امام قریش میں سے ہوں گے تو انہوں نے اپنی امامت کا دعوی چھوڑ دیا، پھر وہ دوسرے کی امامت حدیث کے خلاف کیسے مانتے، اور سب سے زیادہ تعجب یہ ہے کہ بنی ہاشم اور خود علی رضی اللہ عنہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت کیسے تسلیم کرتے اور ان سے بیعت کیوں کرتے، برا ہو ان کا جو علی رضی اللہ عنہ کو ایسا بزدل مانتے ہیں کہ اپنا واجبی حق بھی نہ لے سکے، معاذ اللہ یہ سب دروغ بے فروغ ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح ق دون قول الهزيل بن شرحبيل أبو بكر الخ

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

حدیث نمبر: 2697
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْمِقْدَامِ ، حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، سَمِعْتُ أَبِي يُحَدِّثُ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: كَانَتْ عَامَّةُ وَصِيَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ حَضَرَتْهُ الْوَفَاةُ وَهُوَ يُغَرْغِرُ بِنَفْسِهِ:" الصَّلَاةَ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے قریب جب آپ کا سانس اٹک رہا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عام وصیت یہ تھی: لوگو! نماز اور غلام و لونڈی کا خیال رکھنا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الوصايا/حدیث: 2697]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأ شراف: 1229، ومصباح الزجاجة: 954)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/117) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف¤ إسناده ضعيف¤ قتادة مدلس وعنعن¤ ولحديثه شواھد كلھا ضعيفة انظر (ح 1625)¤ والحديث الآتي (الأصل: 2698) يغني عنه¤ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 476

حدیث نمبر: 2698
حَدَّثَنَا سَهْلُ بْنُ أَبِي سَهْلٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ ، عَنْ مُغِيرَةَ ، عَنْ أُمِّ مُوسَى ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ ، قَالَ:" كَانَ آخِرُ كَلَامِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّلَاةَ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ".
علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری بات یہ تھی: نماز کا اور اپنے غلام و لونڈی کا خیال رکھنا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الوصايا/حدیث: 2698]
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الأدب 133 (5156)، (تحفة الأ شراف: 10343)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/78) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: یعنی نماز کو اپنے وقت پر شرائط اور اداب کے ساتھ پڑھو، بے وقت مت پڑھو، اور اس میں دیر مت کرو، اور غلاموں اور لونڈیوں کا خیال رکھو کہ ان پر ظلم مت کرو، طاقت سے زیادہ ان سے کام نہ لو، ان کو کھانے پہننے کی تکلیف نہ دو، جو لوگ نماز کا خیال نہیں رکھتے اس کو قضاء کر دیتے ہیں یا جلدی بغیر خشوع و خضوع کے پڑھ لیتے ہیں یا طہارت میں احتیاط نہیں کرتے یا اپنے لونڈی غلام اور خادم پر ظلم و ستم کرتے ہیں وہ کس طرح کے مسلمان ہیں، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری وصیت کا بھی ان کو خیال نہیں ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح