عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس مسلمان کے پاس وصیت کرنے کے قابل کوئی چیز ہو، اسے یہ حق نہیں ہے کہ وہ دو راتیں بھی اس حال میں گزارے کہ اس کی وصیت اس کے پاس لکھی ہوئی نہ ہو“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الوصايا/حدیث: 2699]
وضاحت: ۱؎: یعنی اس کے پاس مال ہو جس کے لئے وصیت کی ضرورت ہو یا کسی کی امانت ہو تو ضروری ہے کہ ہمیشہ وصیت لکھ کر یا لکھوا کر اپنے پاس رکھا کرے ایسا نہ ہو کہ موت آ جائے اور وصیت کی مہلت نہ ملے، اور لوگوں کے حقوق اپنے ذمہ رہ جائیں۔
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”محروم وہ ہے جو وصیت کرنے سے محروم رہے“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الوصايا/حدیث: 2700]
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص وصیت کر کے مرا، وہ راہ (راہ راست) پر اور سنت کے مطابق مرا، نیز پرہیزگاری اور شہادت پر اس کا خاتمہ ہوا، اس کی مغفرت ہو گی“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الوصايا/حدیث: 2701]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأ شراف: 3000، ومصباح الزجاجة: 956) (ضعیف)» (بقیہ مدلس ہیں، اور حدیث عنعنہ سے روایت کی ہے)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف¤ إسناده ضعيف جدًا¤ يزيد: مجهول،عمر بن صبح: متروك كذبه ابن راهويه (تقريب: 7760،4922)¤ وأسقطه المدلس محمد بن المصفي (انظر التقريب: 6304) من السند والصواب اثباته بين يزيد وأبي الزبير انظر الكامل لابن عدي (1685/5)¤ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 476
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسلمان کے لیے یہ بات مناسب نہیں کہ وہ دو راتیں بھی اس طرح گزارے کہ اس کی وصیت لکھی ہوئی اس کے پاس نہ ہو، جب کہ اس کے پاس وصیت کرنے کے لائق کوئی چیز ہو“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الوصايا/حدیث: 2702]