الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ابن ماجه کل احادیث (4341)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن ابن ماجه
كتاب الجهاد
کتاب: جہاد کے فضائل و احکام
41. بَابُ: الْبَيْعَةِ
41. باب: بیعت کا بیان۔
حدیث نمبر: 2866
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق ، وَيَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، وَعُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ ، وَابْنُ عَجْلَانَ ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الْوَلِيدِ بْنِ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ ، قَالَ:" بَايَعْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى السَّمْعِ وَالطَّاعَةِ فِي الْعُسْرِ وَالْيُسْرِ، وَالْمَنْشَطِ وَالْمَكْرَهِ، وَالْأَثَرَةِ عَلَيْنَا، وَأَنْ لَا نُنَازِعَ الْأَمْرَ أَهْلَهُ، وَأَنْ نَقُولَ الْحَقَّ حَيْثُمَا كُنَّا، لَا نَخَافُ فِي اللَّهِ لَوْمَةَ لَائِمٍ".
عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے تنگی اور فراخی، خوشی و ناخوشی، اور اپنے اوپر دوسروں کو ترجیح دئیے جانے کی حالت میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سننے اور اطاعت کرنے پر بیعت کی، نیز اس بات پر بیعت کی کہ حکمرانوں سے نہ جھگڑیں، اور جہاں بھی ہوں حق بات کہیں، اور اللہ کے سلسلے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجهاد/حدیث: 2866]
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الفتن 2 (7056)، الأحکام 43 (7199، 7200)، صحیح مسلم/الإمارة 8 (1709)، سنن النسائی/البیعة 1 (4154، 4155)، (تحفة الأشراف: 5118)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الجہاد1 (5)، مسند احمد (4/314، 318، 319، 321، 325) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: یعنی جس بات میں اللہ کی خوشی ہو یعنی ثواب اور عبادت کے کام میں کسی کی بدگوئی سے ہم کو ڈر نہ ہو، یہ مومنین کاملین کی شان ہے کہ وہ سنت پر چلنے میں کسی سے نہیں ڈرتے اور نہ ہی جاہلوں اور اہل بدعت کے غلط پروپگنڈہ سے متاثر ہوتے ہیں، جاہل اور بدعتی حدیث سے محبت رکھنے اور ان پر عمل کرنے والوں کو برے القاب اور خطابات سے پکارتے اور انہیں طرح طرح سے بدنام کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جب یہ محبان رسول نماز میں زورسے آمین، رفع یدین اور امام کے پیچھے سورہ فاتحہ کی قرأت کرتے ہیں، تو جاہل مقلد اور بدعتی ان کو لا مذہب کہتے ہیں اور جب شرک کے کاموں سے پرہیز کرتے ہیں، اور غیر اللہ کے پکارنے یا ماسوا اللہ کی عبادت کرنے یا مدد مانگنے سے خود رکتے ہیں اور دوسروں کو روکتے ہیں، تو یہ لوگ انہیں وہابی کے نام سے بدنام کرتے ہیں، اور جب یہ محبان رسول، اللہ تعالیٰ کی صفات جیسے استواء علی العرش، ضحک، (ہنسنا) نزول (آسمان دنیا پر اترنا) وغیرہ وغیرہ ثابت کرتے ہیں تو یہ انہیں مشبہہ کہتے ہیں، اور جب ید (ہاتھ)، وجہ (چہرہ)، عین (آنکھ)، قدم، صوت (آواز) جیسی صفات کا اثبات کرتے ہیں تو وہ انہیں مجسمہ کا لقب دیتے ہیں، لیکن ان سب تہمتوں سے حق پرستوں کو کوئی ڈر نہیں، اور وہ جاہلوں اور بدعتیوں کی عیب جوئی، اور گالی گلوج اور غلط پروپگنڈے سے ڈرتے اور گھبراتے نہیں بلکہ بلا کھٹکے احادیث صحیحہ پر عمل کرتے ہیں، اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبر و ثبات پر اور شرع کی اطاعت اور حاکم کی اطاعت پر بیعت لی۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

حدیث نمبر: 2867
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ التَّنُوخِيُّ ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ يَزِيدَ ، عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيِّ ، عَنْ أَبِي مُسْلِمٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي الْحَبِيبُ الْأَمِينُ أَمَّا هُوَ إِلَيَّ فَحَبِيبٌ، وَأَمَّا هُوَ عِنْدِي فَأَمِينٌ عَوْفُ بْنُ مَالِكٍ الْأَشْجَعِيُّ ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَبْعَةً أَوْ ثَمَانِيَةً أَوْ تِسْعَةً، فَقَالَ:" أَلَا تُبَايِعُونَ رَسُولَ اللَّهِ؟"، فَبَسَطْنَا أَيْدِيَنَا، فَقَالَ قَائِلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا قَدْ بَايَعْنَاكَ، فَعَلَامَ نُبَايِعُكَ؟، فَقَالَ:" أَنْ تَعْبُدُوا اللَّهَ، وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا، وَتُقِيمُوا الصَّلَوَاتِ الْخَمْسَ، وَتَسْمَعُوا وَتُطِيعُوا وَأَسَرَّ كَلِمَةً خُفْيَةً، وَلَا تَسْأَلُوا النَّاسَ شَيْئًا"، قَالَ: فَلَقَدْ رَأَيْتُ بَعْضَ أُولَئِكَ النَّفَرِ يَسْقُطُ سَوْطُهُ، فَلَا يَسْأَلُ أَحَدًا يُنَاوِلُهُ إِيَّاهُ.
عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہم سات یا آٹھ یا نو آدمی تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم لوگ اللہ کے رسول سے بیعت نہیں کرو گے؟ ہم نے بیعت کے لیے اپنے ہاتھ پھیلا دئیے (بیعت کرنے کے بعد) ایک شخص نے کہا: اللہ کے رسول! ہم آپ سے بیعت تو کر چکے لیکن یہ کس بات پر ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس بات پر کہ اللہ کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، پانچ وقت کی نماز کا اہتمام کرو، حکم سنو اور مانو، پھر ایک بات چپکے سے فرمائی: لوگوں سے کسی چیز کا سوال نہ کرو، راوی کا بیان ہے کہ (اس بات کا ان لوگوں پر اتنا اثر ہوا کہ) میں نے ان میں سے بعض کو دیکھا کہ اس کا کوڑا بھی گر جاتا تو کسی سے یہ نہ کہتا کہ کوڑا اٹھا کر مجھے دو ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجهاد/حدیث: 2867]
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الزکاة 35 (1043)، سنن ابی داود/الزکاة 27 (1642)، سنن النسائی/الصلاة 5 (461)، (تحفة الأشراف: 10919) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: یہ بات عادت میں داخل ہے کہ جب آدمی گھوڑے یا کسی دوسری سواری پر ہو اور اس کا کوڑا گر پڑے تو کسی سے بھی کہتا ہے کہ بھائی ذرا میرا کوڑا اٹھا دو، اور ہر ایک راہ چلتا یہ کام کر دیتا ہے، بلکہ اگر کوئی نہ کرے تو لوگ اس کو برا کہیں گے، مگر ان لوگوں نے جن کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیعت میں یہ فرمایا تھا کہ کسی سے کچھ مت مانگنا، اتنا کام بھی اپنا کسی اور سے کرانا گوارا نہ کیا، یہ بہت بڑا مرتبہ ہے کہ آدمی سوا اپنے مالک کے کسی سے درخواست نہ کرے، نہ کسی سے کچھ مانگے اور چونکہ یہ کام بہت مشکل تھا اور ہر ایک شخص اس کو نہیں کر سکتا تھا، لہذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آہستہ سے اس کو فرمایا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم

حدیث نمبر: 2868
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَتَّابٍ مَوْلَى هُرْمُزَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ ، يَقُولُ:" بَايَعْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى السَّمْعِ وَالطَّاعَةِ، فَقَالَ: فِيمَا اسْتَطَعْتُمْ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سننے اور اطاعت کرنے پر بیعت کی، تو آپ نے فرمایا: جہاں تک تم سے ہو سکے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجهاد/حدیث: 2868]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 1087)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/119، 172، 185) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: سبحان اللہ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ماں باپ سے زیادہ اپنی امت پر مہربان تھے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جہاں تک تم سے ہو سکے تاکہ وہ لوگ جھوٹے نہ ہوں جب کسی ایسی بات کا ان کو حکم دیا جائے جو ان کی طاقت سے خارج ہو۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن

حدیث نمبر: 2869
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ ، أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ: جَاءَ عَبْدٌ فَبَايَعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْهِجْرَةِ، وَلَمْ يَشْعُرِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ عَبْدٌ، فَجَاءَ سَيِّدُهُ يُرِيدُهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" بِعْنِيهِ"، فَاشْتَرَاهُ بِعَبْدَيْنِ أَسْوَدَيْنِ، ثُمَّ لَمْ يُبَايِعْ أَحَدًا بَعْدَ ذَلِكَ، حَتَّى يَسْأَلَهُ: أَعَبْدٌ هُوَ؟.
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک غلام آیا، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہجرت پر بیعت کر لی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کے غلام ہونے کا معلوم ہی نہ ہوا، چنانچہ اس کا مالک جب اسے لینے کے مقصد سے آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ غلام مجھے بیچ دو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دو کالے غلاموں کے عوض خرید لیا، پھر اس کے بعد کسی سے بھی یہ معلوم کئے بغیر بیعت نہیں کرتے کہ وہ غلام تو نہیں ہے؟۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجهاد/حدیث: 2869]
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المساقاة 23 (1602)، سنن ابی داود/البیوع 17 (3358مختصرا)، سنن الترمذی/البیوع 22 (1239)، السیر 36 (1596)، سنن النسائی/البیعة 21 (4189)، البیوع 64 (4625)، (تحفة الأشراف: 2904)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/349، 372) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم