الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ابن ماجه کل احادیث (4341)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن ابن ماجه
كتاب الطب
کتاب: طب کے متعلق احکام و مسائل
22. بَابٌ في أَيِّ الأَيَّامِ يَحْتَجِمُ
22. باب: کن دنوں میں پچھنا لگوایا جائے؟
حدیث نمبر: 3486
حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ , حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ مَطَرٍ , عَنْ زَكَرِيَّا بْنِ مَيْسَرَةَ , عَنْ النَّهَّاسِ بْنِ قَهْمٍ , عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ:" مَنْ أَرَادَ الْحِجَامَةَ , فَلْيَتَحَرَّ سَبْعَةَ عَشَرَ , أَوْ تِسْعَةَ عَشَرَ , أَوْ إِحْدَى وَعِشْرِينَ , وَلَا يَتَبَيَّغْ بِأَحَدِكُمُ الدَّمُ فَيَقْتُلَهُ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص پچھنا لگوانا چاہے تو (ہجری) مہینے کی سترہویں، انیسویں یا اکیسویں تاریخ کو لگوائے، اور (کسی ایسے دن نہ لگوائے) جب اس کا خون جوش میں ہو کہ یہ اس کے لیے موجب ہلاکت بن جائے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطب/حدیث: 3486]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 1628، ومصباح الزجاجة: 1214)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الطب 12 (2051) (صحیح) (تراجع الألبانی: رقم: 385)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱ ؎: ابوداود نے کبشہ سے روایت کی کہ ان کے باپ منگل کے دن پچھنا لگوانے کو منع کرتے تھے اور کہتے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: منگل کے دن ایک ساعت ایسی ہے جس میں خون بند نہیں ہوتا، اور منگل کا دن خون کا دن ہے، اور آگے ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث میں آتا ہے کہ پیر اور منگل کے دن پچھنے لگواؤ، پس دونوں میں تعارض ہو گیا، اس کا جواب یوں دیا گیا ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث میں وہ منگل مراد ہے جو مہینے کی سترھویں تاریخ کو پڑے کیونکہ طبرانی میں معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے کہ جس نے منگل کے دن سترھویں تاریخ کو پچھنے لگوائے، وہ اس کے لئے سال بھر تک دوا ہوں گے، اور کبشہ کی حدیث میں وہ منگل مراد ہے جو سترہویں تاریخ کے سوا اور کسی تاریخ میں پڑے اور سنن ابی داود میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے جس نے پچھنے لگوائے سترھویں، یا انیسویں، یا اکیسویں کو وہ ہر بیماری سے شفا پائیں گے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف¤ إسناده ضعيف جدًا¤ نهاس بن قھم: ضعيف¤ وتلميذه زكريا بن ميسرة مستور،و عثمان بن مطر: ضعيف (تقريب: 2027،4519)¤ والراوي عنه سويد بن سعيد ضعيف¤ فالسند ظلمات¤ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 503

حدیث نمبر: 3487
حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ , حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ مَطَرٍ , عَنْ الْحَسَنِ بْنِ أَبِي جَعْفَرٍ , عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُحَادَةَ , عَنْ نَافِعٍ , عَنْ ابْنِ عُمَرَ , قَالَ: يَا نَافِعُ , قَدْ تَبَيَّغَ بِيَ الدَّمُ , فَالْتَمِسْ لِي حَجَّامًا وَاجْعَلْهُ رَفِيقًا إِنِ اسْتَطَعْتَ , وَلَا تَجْعَلْهُ شَيْخًا كَبِيرًا وَلَا صَبِيًّا صَغِيرًا , فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ:" الْحِجَامَةُ عَلَى الرِّيقِ أَمْثَلُ , وَفِيهِ شِفَاءٌ وَبَرَكَةٌ , وَتَزِيدُ فِي الْعَقْلِ وَفِي الْحِفْظِ , فَاحْتَجِمُوا عَلَى بَرَكَةِ اللَّهِ يَوْمَ الْخَمِيسِ , وَاجْتَنِبُوا الْحِجَامَةَ يَوْمَ الْأَرْبِعَاءِ , وَالْجُمُعَةِ وَالسَّبْتِ , وَيَوْمَ الْأَحَدِ تَحَرِّيًا , وَاحْتَجِمُوا يَوْمَ الِاثْنَيْنِ وَالثُّلَاثَاءِ , فَإِنَّهُ الْيَوْمُ الَّذِي عَافَى اللَّهُ فِيهِ أَيُّوبَ مِنَ الْبَلَاءِ , وَضَرَبَهُ بِالْبَلَاءِ يَوْمَ الْأَرْبِعَاءِ , فَإِنَّهُ لَا يَبْدُو جُذَامٌ وَلَا بَرَصٌ , إِلَّا يَوْمَ الْأَرْبِعَاءِ أَوْ لَيْلَةَ الْأَرْبِعَاءِ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ انہوں نے (اپنے غلام) نافع سے کہا: نافع! میرے خون میں جوش ہے، لہٰذا کسی پچھنا لگانے والے کو میرے لیے تلاش کرو، اور اگر ہو سکے تو کسی نرم مزاج کو لاؤ، زیادہ بوڑھا اور کم سن بچہ نہ ہو، اس لیے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: پچھنا نہار منہ لگانا بہتر ہے، اس میں شفاء اور برکت ہے، اس سے عقل بڑھتی ہے اور قوت حافظہ تیز ہوتی ہے، تو جمعرات کو پچھنا لگواؤ، اللہ برکت دے گا، البتہ بدھ، جمعہ، سنیچر اور اتوار کو پچھنا لگوانے سے بچو، اور ان دنوں کا قصد نہ کرو، پھر سوموار (دوشنبہ) اور منگل کے دن پچھنا لگواؤ، اس لیے کہ منگل وہ دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے ایوب علیہ السلام کو بیماری سے نجات دی، اور بدھ کے دن آپ کو اس بیماری میں مبتلا کیا تھا، چنانچہ جذام (کوڑھ) اور برص (سفید داغ) کی بیماریاں (عام طور سے) بدھ کے دن یا بدھ کی رات میں پیدا ہوتی ہیں۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطب/حدیث: 3487]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 8421، ومصباح الزجاجة: 1215) (حسن) (تراجع الألبانی: رقم: 474)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: حسن

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف¤ ضعيف¤ الحسن بن أبي جعفر: ضعيف¤ وعثمان بن مطر: ضعيف¤ وللحديث شواهد ضعيفة¤ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 503

حدیث نمبر: 3488
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُصَفَّى الْحِمْصِيُّ , حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ , حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عِصْمَةَ , عَنْ سَعِيدِ بْنِ مَيْمُونٍ , عَنْ نَافِعٍ , قَالَ: قَالَ بْنُ عُمَرَ: يَا نَافِعُ , تَبَيَّغَ بِيَ الدَّمُ فَأْتِنِي بِحَجَّامٍ وَاجْعَلْهُ شَابًّا , وَلَا تَجْعَلْهُ شَيْخًا وَلَا صَبِيًّا , قَالَ: وَقَالَ ابْنُ عُمَرَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ:" الْحِجَامَةُ عَلَى الرِّيقِ أَمْثَلُ , وَهِيَ تَزِيدُ فِي الْعَقْلِ , وَتَزِيدُ فِي الْحِفْظِ , وَتَزِيدُ الْحَافِظَ حِفْظًا , فَمَنْ كَانَ مُحْتَجِمًا فَيَوْمَ الْخَمِيسِ عَلَى اسْمِ اللَّهِ , وَاجْتَنِبُوا الْحِجَامَةَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ , وَيَوْمَ السَّبْتِ , وَيَوْمَ الْأَحَدِ , وَاحْتَجِمُوا يَوْمَ الِاثْنَيْنِ وَالثُّلَاثَاءِ , وَاجْتَنِبُوا الْحِجَامَةَ يَوْمَ الْأَرْبِعَاءِ , فَإِنَّهُ الْيَوْمُ الَّذِي أُصِيبَ فِيهِ أَيُّوبُ بِالْبَلَاءِ , وَمَا يَبْدُو جُذَامٌ وَلَا بَرَصٌ , إِلَّا فِي يَوْمِ الْأَرْبِعَاءِ أَوْ لَيْلَةِ الْأَرْبِعَاءِ".
نافع کہتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: نافع! میرا خون جوش میں ہے، لہٰذا کوئی پچھنا لگانے والا لاؤ، جو جوان ہو، ناکہ بوڑھا یا بچہ، نافع کہتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: نہار منہ پچھنا لگانا بہتر ہے، اس سے عقل بڑھتی ہے، حافظہ تیز ہوتا ہے، اور یہ حافظ کے حافظے کو بڑھاتی ہے، لہٰذا جو شخص پچھنا لگائے تو اللہ کا نام لے کر جمعرات کے دن لگائے، جمعہ، ہفتہ (سنیچر) اور اتوار کو پچھنا لگانے سے بچو، پیر (دوشنبہ) اور منگل کو لگاؤ پھر چہار شنبہ (بدھ) سے بھی بچو، اس لیے کہ یہی وہ دن ہے جس میں ایوب علیہ السلام بیماری سے دوچار ہوئے، اور جذام و برص کی بیماریاں بھی بدھ کے دن یا بدھ کی رات ہی کو نمودار ہوتی ہیں۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطب/حدیث: 3488]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 7667، ومصباح الزجاجة: 1216) (حسن)» ‏‏‏‏ (سند میں عثمان و عبداللہ بن عصمہ اور سعید بن میمون مجہول ہیں، لیکن متابعات کی وجہ سے حسن ہے، نیز ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی: 766)

قال الشيخ الألباني: حسن

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف¤ إسناده ضعيف¤ (ح 3489،ترمذي 2055،انظر ص 242،317)¤ عبد اللّٰه بن عصمة:مجهول وشيخه سعيد بن ميمون: مجهول (تقريب: 3478،2402)¤ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 503