الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ابن ماجه کل احادیث (4341)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن ابن ماجه
كتاب الفتن
کتاب: فتنوں سے متعلق احکام و مسائل
20. بَابُ: الأَمْرِ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّهْيِ عَنِ الْمُنْكَرِ
20. باب: امر بالمعروف اور نہی عن المنکر (یعنی بھلی باتوں کا حکم دینے اور بری باتوں سے روکنے) کا بیان۔
حدیث نمبر: 4004
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ , حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ هِشَامٍ a> , عَنْ هِشَامِ بْنِ سَعْدٍ , عَنْ عَمْرِو بْنِ عُثْمَانَ , عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ عُثْمَانَ , عَنْ عُرْوَةَ , عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ:" مُرُوا بِالْمَعْرُوفِ , وَانْهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ , قَبْلَ أَنْ تَدْعُوا فَلَا يُسْتَجَابَ لَكُمْ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: تم بھلی بات کا حکم دو، اور بری بات سے منع کرو، اس سے پہلے کہ تم دعا کرو اور تمہاری دعا قبول نہ کی جائے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 4004]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 16349، ومصباح الزجاجة: 1408)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/159) (حسن)» ‏‏‏‏ (سند میں عمر بن عثمان مستور، اور عاصم بن عمر مجہول راوی ہیں، لیکن شواہد کی بناء پر حدیث حسن ہے، نیز ابن حبان نے تصحیح کی ہے، ملاحظہ ہو: تراجع الألبانی: رقم: 383)

قال الشيخ الألباني: حسن

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف¤ إسناده ضعيف¤ عاصم بن عمر بن عثمان: مجھول (تقريب: 3070)¤ و للحديث شواھد ضعيفة عند الطبراني (الأوسط: 1389) والخطيب (تاريخ بغداد 13/ 92) وغيرهما¤ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 519

حدیث نمبر: 4005
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ , حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ , وَأَبُو أُسَامَةَ , عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ أَبِي خَالِدٍ , عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ , قَالَ: قَامَ أَبُو بَكْرٍ فَحَمِدَ اللَّهَ , وَأَثْنَى عَلَيْهِ , ثُمَّ قَالَ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ , إِنَّكُمْ تَقْرَءُونَ هَذِهِ الْآيَةَ: يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَيْكُمْ أَنْفُسَكُمْ لا يَضُرُّكُمْ مَنْ ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ سورة المائدة آية 105 وَإِنَّا سَمِعْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ:" إِنَّ النَّاسَ إِذَا رَأَوْا الْمُنْكَرَ لَا يُغَيِّرُونَهُ , أَوْشَكَ أَنْ يَعُمَّهُمُ اللَّهُ بِعِقَابِهِ" , قَالَ أَبُو أُسَامَةَ مَرَّةً أُخْرَى: فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ.
قیس بن ابی حازم کہتے ہیں کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی، اس کے بعد فرمایا: لوگو! تم یہ آیت پڑھتے ہو: «يا أيها الذين آمنوا عليكم أنفسكم لا يضركم من ضل إذا اهتديتم» اے ایمان والو! اپنے آپ کی فکر کرو، اور تمہیں دوسرے شخص کی گمراہی ضرر نہ دے گی، جب تم ہدایت پر ہو (سورة المائدة: 105)۔ اور بیشک ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: جب لوگ کوئی بری بات دیکھیں اور اس کو دفع نہ کریں تو قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ ان پر اپنا عام عذاب نازل کر د ے۔ ابواسامہ نے دوسری بار کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 4005]
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الملاحم 17 (4338)، سنن الترمذی/الفتن 8 (2168)، تفسیر القرآن سورة المائدة 18 (3057)، (تحفة الأشراف: 6615)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/2، 5، 7، 9) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح

حدیث نمبر: 4006
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ , حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ , حَدَّثَنَا سُفْيَانُ , عَنْ عَلِيِّ بْنِ بَذِيمَةَ , عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ بَنِي إِسْرَائِيلَ لَمَّا وَقَعَ فِيهِمُ النَّقْصُ , كَانَ الرَّجُلُ يَرَى أَخَاهُ عَلَى الذَّنْبِ فَيَنْهَاهُ عَنْهُ , فَإِذَا كَانَ الْغَدُ لَمْ يَمْنَعْهُ مَا رَأَى مِنْهُ أَنْ يَكُونَ أَكِيلَهُ وَشَرِيبَهُ وَخَلِيطَهُ , فَضَرَبَ اللَّهُ قُلُوبَ بَعْضِهِمْ بِبَعْضٍ وَنَزَلَ فِيهِمُ الْقُرْآنُ , فَقَالَ: لُعِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ عَلَى لِسَانِ دَاوُدَ وَعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ حَتَّى بَلَغَ وَلَوْ كَانُوا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالنَّبِيِّ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِ مَا اتَّخَذُوهُمْ أَوْلِيَاءَ وَلَكِنَّ كَثِيرًا مِنْهُمْ فَاسِقُونَ سورة المائدة آية 78 ـ 81" , قَالَ: وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُتَّكِئًا فَجَلَسَ , وَقَالَ:" لَا , حَتَّى تَأْخُذُوا عَلَى يَدَيِ الظَّالِمِ , فَتَأْطِرُوهُ عَلَى الْحَقِّ أَطْرًا".
ابوعبیدہ (عامر) کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بنی اسرائیل میں جب خرابیاں پیدا ہوئیں، تو ان کا حال یہ تھا کہ آدمی اپنے بھائی کو گناہ کرتے دیکھتا تو اسے روکتا، لیکن دوسرے دن پھر اس کے ساتھ کھاتا پیتا اور مل جل کر رہتا، تو اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو مردہ کر دیا، اور آپس کی محبت ختم کر دی، اور ان ہی لوگوں کے بارے میں قرآن اترا، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے «لعن الذين كفروا من بني إسرائيل على لسان داود وعيسى ابن مريم» کی تلاوت کی یہاں تک کہ آپ «ولو كانوا يؤمنون بالله والنبي وما أنزل إليه ما اتخذوهم أولياء ولكن كثيرا منهم فاسقون» (سورۃ المائدہ: ۷۸ -۸۱) تک پہنچے۔ (جن لوگوں نے کفر کیا ان پر داود اور عیسیٰ بن مریم (علیہم السلام) کی زبانی لعنت کی گئی، کیونکہ وہ نافرمانی اور حد سے تجاوز کرتے تھے، وہ جس برائی کے خود مرتکب ہوتے اس سے لوگوں کو بھی نہیں روکتے تھے، بہت ہی برا کرتے تھے، تو ان میں سے اکثر کو دیکھ رہا ہے کہ وہ کافروں سے دوستی رکھتے ہیں یہ وطیرہ انہوں نے اپنے حق میں بہت ہی برا اختیار کیا ہے، نتیجہ یہ ہے کہ اللہ ان پر سخت ناراض ہے، اور آخرت میں یہ لوگ ہمیشہ ہمیش کے عذاب میں رہیں گے، اور اگر یہ اللہ پر اور نبی پر اور جو اس کی طرف اترا ہے اس پر ایمان لاتے تو ان کافروں کو دوست نہ بناتے، لیکن بہت سے ان میں فاسق (بدکار اور بے راہ) ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ٹیک لگائے ہوئے تھے، پھر آپ بیٹھ گئے اور فرمایا: تم اس وقت تک عذاب سے محفوظ نہیں رہ سکتے جب تک کہ تم ظالم کو ظلم کرتے دیکھ کر اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے انصاف کرنے پر مجبور نہ کر دو۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 4006]
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الملاحم 17 (4336، 4337)، سنن الترمذی/التفسیر 6 (3048)، (تحفة الأشراف: 9614)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/ 391) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (سند میں ابوعبیدہ کثیر الغلط راوی ہیں، اور حدیث کو مرسل روایت کیا ہے، یعنی اپنے اور رسول اکرم ﷺ کے مابین کا واسطہ نہیں ذکر کیا ہے، اس لئے ارسال کی وجہ سے بھی یہ حدیث ضعیف ہے)

قال الشيخ الألباني: ضعيف

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف¤ إسناده ضعيف¤ ترمذي (3047،3048 مرسلًا) سنن أبي داود (4336) بذكر عبد اللّٰه وسنده منقطع¤ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 519

حدیث نمبر: 4006M
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ , حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ أَمْلَاهُ عَلَيَّ , حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي الْوَضَّاحِ , عَنْ عَلِيِّ بْنِ بَذِيمَةَ , عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , بِمِثْلِهِ.
اس سند سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے اسی کے مثل مرفوعاً مروی ہے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 4006M]
تخریج الحدیث: «انطر ماقبلة، تحفة الأشراف: 9614) (ضعیف)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: ضعيف

حدیث نمبر: 4007
حَدَّثَنَا عِمْرَانُ بْنُ مُوسَى , أَنْبَأَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ , حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ زَيْدِ بْنِ جَدْعَانَ , عَنْ أَبِي نَضْرَةَ , عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَامَ خَطِيبًا , فَكَانَ فِيمَا قَالَ:" أَلَا لَا يَمْنَعَنَّ رَجُلًا هَيْبَةُ النَّاسِ أَنْ يَقُولَ بِحَقٍّ إِذَا عَلِمَهُ" , قَالَ: فَبَكَى أَبُو سَعِيدٍ , وَقَالَ: قَدْ وَاللَّهِ رَأَيْنَا أَشْيَاءَ فَهِبْنَا.
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے تو جو باتیں کہیں، ان میں یہ بات بھی تھی: آگاہ رہو! کسی شخص کو لوگوں کا خوف حق بات کہنے سے نہ روکے، جب وہ حق کو جانتا ہو، یہ حدیث بیان کر کے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ رونے لگے اور فرمایا: اللہ کی قسم! ہم نے بہت سی باتیں (خلاف شرع) دیکھیں، لیکن ہم ڈر اور ہیبت کا شکار ہو گئے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 4007]
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الفتن 26 (2191)، (تحفة الأشراف: 4366)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/7، 19، 61، 70) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح

حدیث نمبر: 4008
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ , حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ , وَأَبُو مُعَاوِيَةَ , عَنْ الْأَعْمَشِ , عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ , عَنْ أَبِي الْبَخْتَرِيِّ , عَنْ أَبِي سَعِيدٍ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا يَحْقِرْ أَحَدُكُمْ نَفْسَهُ" , قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ , كَيْفَ يَحْقِرُ أَحَدُنَا نَفْسَهُ؟ قَالَ:" يَرَى أَمْرًا لِلَّهِ عَلَيْهِ فِيهِ مَقَالٌ , ثُمَّ لَا يَقُولُ فِيهِ , فَيَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ: مَا مَنَعَكَ أَنْ تَقُولَ فِي كَذَا كذا وَكَذَا , فَيَقُولُ: خَشْيَةُ النَّاسِ , فَيَقُولُ: فَإِيَّايَ كُنْتَ أَحَقَّ أَنْ تَخْشَى".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی شخص اپنے آپ کو حقیر نہ جانے، لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم میں سے کوئی اپنے آپ کو کیسے حقیر جانتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص کوئی بات ہوتے دیکھے اور اس کے بارے میں اسے اللہ کا حکم معلوم ہو لیکن نہ کہے، تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس سے فرمائے گا: تجھے فلاں بات کہنے سے کس نے منع کیا تھا؟ وہ جواب دے گا: لوگوں کے خوف نے، اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تیرے لیے زیادہ درست بات یہ تھی کہ تو مجھ سے ڈرتا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 4008]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 4043، ومصباح الزجاجة: 1409)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/30، 47، 73) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (سند میں اعمش مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے)

قال الشيخ الألباني: ضعيف

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف¤ إسناده ضعيف¤ السند منقطع¤ أبو البختري لم يسمعه أبي سعيد،صرح به أحمد (84/3،91)¤ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 519

حدیث نمبر: 4009
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ , حَدَّثَنَا وَكِيعٌ , عَنْ إِسْرَائِيلَ , عَنْ أَبِي إِسْحَاق , عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ جَرِيرٍ , عَنْ أَبِيهِ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا مِنْ قَوْمٍ يُعْمَلُ فِيهِمْ بِالْمَعَاصِي , هُمْ أَعَزُّ مِنْهُمْ وَأَمْنَعُ , لَا يُغَيِّرُونَ , إِلَّا عَمَّهُمُ اللَّهُ بِعِقَابٍ".
جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس قوم میں گناہوں کا ارتکاب ہوتا ہے، اور ان میں ایسے زور آور لوگ ہوں جو انہیں روک سکتے ہوں لیکن وہ نہ روکیں، تو اللہ تعالیٰ سب کو اپنے عذاب میں گرفتار کر لیتا ہے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 4009]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 3221)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/361، 363، 364، 366) (حسن)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: حسن

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف¤ إسناده ضعيف¤ سنن أبي داود (4339)¤ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 519

حدیث نمبر: 4010
حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ , حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمٍ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُثْمَانَ بْنِ خُثَيْمٍ , عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ , عَنْ جَابِرٍ , قَالَ: لَمَّا رَجَعَتْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُهَاجِرَةُ الْبَحْرِ , قَالَ:" أَلَا تُحَدِّثُونِي بِأَعَاجِيبِ مَا رَأَيْتُمْ بِأَرْضِ الْحَبَشَةِ" , قَالَ فِتْيَةٌ مِنْهُمْ: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ , بَيْنَا نَحْنُ جُلُوسٌ مَرَّتْ بِنَا عَجُوزٌ مِنْ عَجَائِزِ رَهَابِينِهِمْ , تَحْمِلُ عَلَى رَأْسِهَا قُلَّةً مِنْ مَاءٍ , فَمَرَّتْ بِفَتًى مِنْهُمْ , فَجَعَلَ إِحْدَى يَدَيْهِ بَيْنَ كَتِفَيْهَا , ثُمَّ دَفَعَهَا , فَخَرَّتْ عَلَى رُكْبَتَيْهَا , فَانْكَسَرَتْ قُلَّتُهَا , فَلَمَّا ارْتَفَعَتْ , الْتَفَتَتْ إِلَيْهِ , فَقَالَتْ: سَوْفَ تَعْلَمُ , يَا غُدَرُ إِذَا وَضَعَ اللَّهُ الْكُرْسِيَّ , وَجَمَعَ الْأَوَّلِينَ وَالْآخِرِينَ , وَتَكَلَّمَتِ الْأَيْدِي وَالْأَرْجُلُ بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ , فَسَوْفَ تَعْلَمُ كَيْفَ أَمْرِي وَأَمْرُكَ , عِنْدَهُ غَدًا , قَالَ: يَقُولُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" صَدَقَتْ صَدَقَتْ , كَيْفَ يُقَدِّسُ اللَّهُ أُمَّةً لَا يُؤْخَذُ لِضَعِيفِهِمْ مِنْ شَدِيدِهِمْ".
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب سمندر کے مہاجرین (یعنی مہاجرین حبشہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں واپس آئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم لوگ مجھ سے وہ عجیب باتیں کیوں نہیں بیان کرتے جو تم نے ملک حبشہ میں دیکھی ہیں؟، ان میں سے ایک نوجوان نے عرض کیا: کیوں نہیں، اللہ کے رسول! اسی دوران کہ ہم بیٹھے ہوئے تھے، ان راہباؤں میں سے ایک بوڑھی راہبہ ہمارے سامنے سر پر پانی کا مٹکا لیے ہوئے ایک حبشی نوجوان کے قریب سے ہو کر گزری، تو اس حبشی نوجوان نے اپنا ایک ہاتھ اس بڑھیا کے دونوں کندھوں کے درمیان رکھ کر اس کو دھکا دیا جس کے باعث وہ گھٹنوں کے بل زمین پر گر پڑی، اور اس کا مٹکا ٹوٹ گیا، جب وہ اٹھی تو اس حبشی نوجوان کی طرف متوجہ ہو کر کہنے لگی: غدار! (دھوکا باز) عنقریب تجھے پتہ چل جائے گا جب اللہ تعالیٰ کرسی رکھے ہو گا، اور اگلے پچھلے سارے لوگوں کو جمع کرے گا، اور ہاتھ پاؤں ہر اس کام کی گواہی دیں گے جو انہوں نے کیے ہیں، تو کل اس کے پاس تجھے اپنا اور میرا فیصلہ معلوم ہو جائے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ واقعہ سنتے جاتے اور فرماتے جاتے: اس بڑھیا نے سچ کہا، اس بڑھیا نے سچ کہا، اللہ تعالیٰ اس امت کو گناہوں سے کیسے پاک فرمائے گا، جس میں کمزور کا بدلہ طاقتور سے نہ لیا جا سکے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 4010]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 2779، ومصباح الزجاجة: 1410) (حسن)» ‏‏‏‏ (سند کو بوصیری نے حسن کہا ہے)

قال الشيخ الألباني: حسن

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف¤ إسناده ضعيف¤ أبو الزبير عنعن¤ و للحديث شاھد ضعيف عند البيھقي (6/ 95) فيه عطاء بن السائب اختلط و في السندين إليه نظر أيضًا¤ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 519

حدیث نمبر: 4011
حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ زَكَرِيَّا بْنِ دِينَارٍ , حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُصْعَبٍ . ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَادَةَ الْوَاسِطِيُّ , حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ , قَالَا: حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ , أَنْبَأَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جُحَادَةَ , عَنْ عَطِيَّةَ الْعَوْفِيِّ , عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَفْضَلُ الْجِهَادِ , كَلِمَةُ عَدْلٍ عِنْدَ سُلْطَانٍ جَائِرٍ".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سب سے بہتر جہاد، ظالم حکمران کے سامنے حق و انصاف کی بات کہنی ہے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 4011]
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الملاحم 17 (4344)، سنن الترمذی/الفتن 13 (2174)، (تحفة الأشراف: 4234) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: حسن

حدیث نمبر: 4012
حَدَّثَنَا رَاشِدُ بْنُ سَعِيدٍ الرَّمْلِيُّ , حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ , حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ , عَنْ أَبِي غَالِبٍ , عَنْ أَبِي أُمَامَةَ , قَالَ: عَرَضَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ عِنْدَ الْجَمْرَةِ الْأُولَى فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , أَيُّ الْجِهَادِ أَفْضَلُ؟ فَسَكَتَ عَنْهُ , فَلَمَّا رَأَى الْجَمْرَةَ الثَّانِيَةَ سَأَلَهُ فَسَكَتَ عَنْهُ , فَلَمَّا رَمَى جَمْرَةَ الْعَقَبَةِ وَضَعَ رِجْلَهُ فِي الْغَرْزِ لِيَرْكَبَ , قَالَ:" أَيْنَ السَّائِلُ؟" , قَالَ: أَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ , قَالَ:" كَلِمَةُ حَقٍّ عِنْدَ ذِي سُلْطَانٍ جَائِرٍ".
ابوامامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جمرہ اولیٰ کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک شخص نے آ کر عرض کیا: اللہ کے رسول! کون سا جہاد سب سے بہتر ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرے جمرہ کی رمی کی تو اس نے پھر آپ سے یہی سوال کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے، پھر جب آپ نے جمرہ عقبہ کی رمی کی، تو سوار ہونے کے لیے آپ نے اپنا پاؤں رکاب میں رکھا اور فرمایا: سوال کرنے والا کہاں ہے؟، اس نے عرض کیا: میں حاضر ہوں، اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (سب سے بہتر جہاد) ظالم حکمران کے سامنے حق و انصاف کی بات کہنی ہے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 4012]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 4938، ومصباح الزجاجة: 1411)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/251، 256) (حسن صحیح)» ‏‏‏‏ (یہ اسناد حسن ہے، لیکن شواہد کی وجہ سے یہ صحیح ہے)

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: حسن

حدیث نمبر: 4013
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ , حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ , عَنْ الْأَعْمَشِ , عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ رَجَاءٍ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ , وعَنْ قَيْسِ بْنِ مُسْلِمٍ . عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ , عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ , قَالَ: أَخْرَجَ مَرْوَانُ الْمِنْبَرَ فِي يَوْمِ عِيدٍ , فَبَدَأَ بِالْخُطْبَةِ قَبْلَ الصَّلَاةِ , فَقَالَ رَجُلٌ: يَا مَرْوَانُ , خَالَفْتَ السُّنَّةَ , أَخْرَجْتَ الْمِنْبَرَ فِي هَذَا الْيَوْمِ وَلَمْ يَكُنْ يُخْرَجُ , وَبَدَأْتَ بِالْخُطْبَةِ قَبْلَ الصَّلَاةِ وَلَمْ يَكُنْ يُبْدَأُ بِهَا , فَقَالَ أَبُو سَعِيدٍ: أَمَّا هَذَا فَقَدْ قَضَى مَا عَلَيْهِ , سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ:" مَنْ رَأَى مِنْكُمْ مُنْكَرًا , فَاسْتَطَاعَ أَنْ يُغَيِّرَهُ بِيَدِهِ , فَلْيُغَيِّرْهُ بِيَدِهِ , فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِهِ , فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِهِ , وَذَلِكَ أَضْعَفُ الْإِيمَانِ".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مروان نے عید کے دن منبر نکلوایا اور نماز عید سے پہلے خطبہ شروع کر دیا، تو ایک شخص نے کہا: مروان! آپ نے سنت کے خلاف کیا، ایک تو آپ نے اس دن منبر نکالا حالانکہ اس دن منبر نہیں نکالا جاتا، پھر آپ نے نماز سے پہلے خطبہ شروع کیا، حالانکہ نماز سے پہلے خطبہ نہیں ہوتا، ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا: اس شخص نے تو اپنا وہ حق جو اس پر تھا ادا کر دیا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: تم میں سے جو شخص کوئی بات خلاف شرع دیکھے، تو اگر اسے ہاتھ سے روکنے کی طاقت رکھتا ہو تو اسے ہاتھ سے روک دے، اگر اس کی طاقت نہ ہو تو اپنی زبان سے روکے، اور اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو اس کو دل سے برا جانے، اور یہ ایمان کا سب سے معمولی درجہ ہے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 4013]
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الإیمان 20 (49)، سنن ابی داود/الصلاة 248 (1140)، الملاحم 17 (4340)، سنن الترمذی/الفتن 11 (2172)، سنن النسائی/الإیمان وشرائعہ 17 (5011، 5012)، (تحفة الأشراف: 12142)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/9، 10، 49، 52، 54، 92) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: حسن