ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ ظالم کو ڈھیل دیتا رہتا ہے، لیکن اسے پکڑتا ہے تو پھر نہیں چھوڑتا، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت: «وكذلك أخذ ربك إذا أخذ القرى وهي ظالمة»”تمہارے رب کی پکڑ ایسی ہی ہے جب وہ کسی ظالم بستی کو پکڑتا ہے“(سورة الهود: 102)، کی تلاوت کی۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 4018]
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری طرف متوجہ ہو کر فرمایا: ”مہاجرین کی جماعت! پانچ باتیں ہیں جب تم ان میں مبتلا ہو جاؤ گے، اور میں اللہ کی پناہ چاہتا ہوں اس بات سے کہ تم اس میں مبتلا ہو، (وہ پانچ باتیں یہ ہیں) پہلی یہ کہ جب کسی قوم میں علانیہ فحش (فسق و فجور اور زناکاری) ہونے لگ جائے، تو ان میں طاعون اور ایسی بیماریاں پھوٹ پڑتی ہیں جو ان سے پہلے کے لوگوں میں نہ تھیں، دوسری یہ کہ جب لوگ ناپ تول میں کمی کرنے لگ جاتے ہیں تو وہ قحط، معاشی تنگی اور اپنے حکمرانوں کی زیادتی کا شکار ہو جاتے ہیں، تیسری یہ کہ جب لوگ اپنے مالوں کی زکاۃ ادا نہیں کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ آسمان سے بارش کو روک دیتا ہے، اور اگر زمین پر چوپائے نہ ہوتے تو آسمان سے پانی کا ایک قطرہ بھی نہ گرتا، چوتھی یہ کہ جب لوگ اللہ اور اس کے رسول کے عہد و پیمان کو توڑ دیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان پر ان کے علاوہ لوگوں میں سے کسی دشمن کو مسلط کر دیتا ہے، وہ جو کچھ ان کے پاس ہوتا ہے چھین لیتا ہے، پانچویں یہ کہ جب ان کے حکمراں اللہ تعالیٰ کی کتاب کے مطابق فیصلے نہیں کرتے، اور اللہ نے جو نازل کیا ہے اس کو اختیار نہیں کرتے، تو اللہ تعالیٰ ان میں پھوٹ اور اختلاف ڈال دیتا ہے“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 4019]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 7332، ومصباح الزجاجة: 1414) (حسن)» (سند میں خالد بن یزید ابن أبی مالک الفقیہ ضعیف راوی ہیں، لیکن دوسرے طریق سے یہ حسن ہے، حاکم نے اسے صحیح الاسناد کہا ہے، اور یہ کہ یہ قابل عمل ہے)
ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری امت میں سے کچھ لوگ شراب پئیں گے، اور اس کا نام کچھ اور رکھیں گے، ان کے سروں پر باجے بجائے جائیں گے، اور گانے والی عورتیں گائیں گی، تو اللہ تعالیٰ انہیں زمین میں دھنسا دے گا، اور ان میں سے بعض کو بندر اور سور بنا دے گا“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 4020]
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الأشربة 6 (3688)، (تحفة الأشراف: 12162)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/342) (صحیح)»
براء بن عازب رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کریمہ: «يلعنهم الله ويلعنهم اللاعنون»”یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ لعنت کرتا ہے اور لعنت کرنے والے لعنت کرتے ہیں“(سورة البقرة: 159)، کی تفسیر میں فرمایا: «اللاعنون» سے زمین کے چوپائے مراد ہیں“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 4021]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 1760، ومصباح الزجاجة: 1415) (ضعیف)» (سند میں لیث بن أبی سلیم ضعیف راوی ہیں)
قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف¤ إسناده ضعيف¤ ليث بن أبي سليم ضعيف¤ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 519
ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نیکی ہی عمر کو بڑھاتی ہے، اور تقدیر کو دعا کے علاوہ کوئی چیز نہیں ٹال سکتی، اور کبھی آدمی اپنے گناہ کی وجہ سے ملنے والے رزق سے محروم ہو جاتا ہے“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 4022]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 2093، ومصباح الزجاجة: 1416) (حسن) (یہ حدیث حسن ہے، آخری فقرہ: «وإن الرجل ليحرم الرزق بالذنب يصيبه» ضعیف ہے، ضعف کا سبب عبداللہ بن أبی الجعد کا تفرد ہے، وہ مقبول عند المتابعہ ہیں، اور متابعت نہ ہونے کی وجہ سے یہ فقرہ ضعیف ہے)»
وضاحت: ۱؎: چاہے جتنا کوشش اور محنت کرے،لیکن اس کو فراغت اور مالداری حاصل نہیں ہوتی، کبھی اس کے گناہوں کی وجہ سے اس کی اولاد پر بھی کئی پشت تک اثر رہتا ہے، اللہ بچائے، بعضوں نے کہا: عمر بڑھنے سے یہی مراد ہے کہ اچھی شہرت ہو جاتی ہے گویا وہ مرنے کے بعد بھی زندہ ہے، یا روزی بڑھنا کیونکہ عمر پیدا ہوتے ہی معین ہو جاتی ہے، گھٹ بڑھ نہیں سکتی۔
قال الشيخ الألباني: حسن دون قوله وإن الرجل
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف¤ ضعيف¤ انظر الحديث السابق (90)¤ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 519