الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ابن ماجه کل احادیث (4341)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن ابن ماجه
كتاب الفتن
کتاب: فتنوں سے متعلق احکام و مسائل
23. بَابُ: الصَّبْرِ عَلَى الْبَلاَءِ
23. باب: آفات و مصائب پر صبر کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 4023
حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ حَمَّادٍ الْمَعْنِيُّ , وَيَحْيَى بْنُ دُرُسْتَ , قَالَا: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ , عَنْ عَاصِمٍ , عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ , عَنْ أَبِيهِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ , قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , أَيُّ النَّاسِ أَشَدُّ بَلَاءً؟ قَالَ:" الْأَنْبِيَاءُ , ثُمَّ الْأَمْثَلُ فَالْأَمْثَلُ , يُبْتَلَى الْعَبْدُ عَلَى حَسَبِ دِينِهِ , فَإِنْ كَانَ فِي دِينِهِ صُلْبًا اشْتَدَّ بَلَاؤُهُ , وَإِنْ كَانَ فِي دِينِهِ رِقَّةٌ ابْتُلِيَ عَلَى حَسَبِ دِينِهِ , فَمَا يَبْرَحُ الْبَلَاءُ بِالْعَبْدِ حَتَّى يَتْرُكَهُ يَمْشِي عَلَى الْأَرْضِ وَمَا عَلَيْهِ مِنْ خَطِيئَةٍ".
سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! لوگوں میں سب سے زیادہ مصیبت اور آزمائش کا شکار کون ہوتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انبیاء، پھر جو ان کے بعد مرتبہ میں ہیں، پھر جو ان کے بعد ہیں، بندے کی آزمائش اس کے دین کے مطابق ہوتی ہے، اگر وہ دین میں سخت اور پختہ ہے تو آزمائش بھی سخت ہو گی، اور اگر دین میں نرم اور ڈھیلا ہے تو مصیبت بھی اسی انداز سے نرم ہو گی، مصیبتوں سے بندے کے گناہوں کا کفارہ ہوتا رہتا ہے یہاں تک کہ بندہ روے زمین پر اس حال میں چلتا ہے کہ اس پر کوئی گناہ نہیں ہوتا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 4023]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن الترمذی/الزہد 56 (2398)، (تحفة الأشراف: 3934)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/172، 173، 180، 185)، سنن الدارمی/الرقاق 67 (2825) (حسن صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن

حدیث نمبر: 4024
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ , حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ , حَدَّثَنِي هِشَامُ بْنُ سَعْدٍ , عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ , عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ , عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ , قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُوعَكُ , فَوَضَعْتُ يَدِي عَلَيْهِ , فَوَجَدْتُ حَرَّهُ بَيْنَ يَدَيَّ فَوْقَ اللِّحَافِ , فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , مَا أَشَدَّهَا عَلَيْكَ , قَالَ:" إِنَّا كَذَلِكَ يُضَعَّفُ لَنَا الْبَلَاءُ وَيُضَعَّفُ لَنَا الْأَجْرُ" , قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , أَيُّ النَّاسِ أَشَدُّ بَلَاءً؟ قَالَ:" الْأَنْبِيَاءُ" , قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ:" ثُمَّ الصَّالِحُونَ , إِنْ كَانَ أَحَدُهُمْ لَيُبْتَلَى بِالْفَقْرِ حَتَّى مَا يَجِدُ أَحَدُهُمْ إِلَّا الْعَبَاءَةَ يُحَوِّيهَا , وَإِنْ كَانَ أَحَدُهُمْ لَيَفْرَحُ بِالْبَلَاءِ كَمَا يَفْرَحُ أَحَدُكُمْ بِالرَّخَاءِ".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ کو بخار آ رہا تھا، میں نے اپنا ہاتھ آپ پر رکھا تو آپ کے بخار کی گرمی مجھے اپنے ہاتھوں میں لحاف کے اوپر سے محسوس ہوئی، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ کو بہت ہی سخت بخار ہے! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہمارا یہی حال ہے ہم لوگوں پر مصیبت بھی دگنی (سخت) آتی ہے، اور ثواب بھی دگنا ملتا ہے، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کن لوگوں پر زیادہ سخت مصیبت آتی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انبیاء پر، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! پھر کن پر؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر نیک لوگوں پر، بعض نیک لوگ ایسی تنگ دستی میں مبتلا کر دئیے جاتے ہیں کہ ان کے پاس ایک چوغہ کے سوا جسے وہ اپنے اوپر لپیٹتے رہتے ہیں کچھ نہیں ہوتا، اور بعض آزمائش سے اس قدر خوش ہوتے ہیں جتنا تم میں سے کوئی مال و دولت ملنے پر خوش ہوتا ہے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 4024]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 4189، ومصباح الزجاجة: 1417) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن

حدیث نمبر: 4025
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ , حَدَّثَنَا وَكِيعٌ , حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ , عَنْ شَقِيقٍ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ , قَالَ: كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَهُوَ" يَحْكِي نَبِيًّا مِنَ الْأَنْبِيَاءِ ضَرَبَهُ قَوْمُهُ , وَهُوَ يَمْسَحُ الدَّمَ عَنْ وَجْهِهِ , وَيَقُولُ: رَبِّ اغْفِرْ لِقَوْمِي فَإِنَّهُمْ لَا يَعْلَمُونَ".
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ گویا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ رہا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم انبیاء کرام (علیہم السلام) میں سے ایک نبی کی حکایت بیان کر رہے تھے جن کو ان کی قوم نے مارا پیٹا تھا، وہ اپنے چہرے سے خون پونچھتے جاتے تھے، اور یہ کہتے جاتے تھے: اے میرے رب! میری قوم کی مغفرت فرما، کیونکہ وہ لوگ نہیں جانتے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 4025]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/أحادیث الأنبیاء 54 (3477)، صحیح مسلم/الجہاد 36 (1792)، (تحفة الأشراف: 9260)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/456، 457، 380، 427، 432) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ احد میں جب کافروں کے ہاتھ سے پتھر کھائے، چہرہ مبارک زخمی ہوا، دانت شہید ہوا، خون بہہ رہا تھا، لوگوں نے عرض کیا کہ اب تو کافروں کے لئے بددعا فرمائیے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ میری قوم کو ہدایت دے، یہ دین کو نہیں جانتے ہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

حدیث نمبر: 4026
حَدَّثَنَا حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى , وَيُونُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى , قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ , أَخْبَرَنِي يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ , عَنْ ابْنِ شِهَابٍ , عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ , وَسَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" نَحْنُ أَحَقُّ بِالشَّكِّ مِنْ إِبْرَاهِيمَ إِذْ قَالَ: رَبِّ أَرِنِي كَيْفَ تُحْيِي الْمَوْتَى قَالَ أَوَلَمْ تُؤْمِنْ قَالَ بَلَى وَلَكِنْ لِيَطْمَئِنَّ قَلْبِي سورة البقرة آية 260 , وَيَرْحَمُ اللَّهُ لُوطًا , لَقَدْ كَانَ يَأْوِي إِلَى رُكْنٍ شَدِيدٍ , وَلَوْ لَبِثْتُ فِي السِّجْنِ طُولَ مَا لَبِثَ يُوسُفُ لَأَجَبْتُ الدَّاعِيَ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہم ابراہیم علیہ السلام سے زیادہ شک کرنے کے حقدار ہیں ۱؎ جب انہوں نے کہا: اے میرے رب تو مجھ کو دکھا کہ تو مردوں کو کیسے زندہ کرے گا؟ تو اللہ نے فرمایا: کیا تجھے یقین نہیں ہے؟ انہوں نے عرض کیا: کیوں نہیں (لیکن یہ سوال اس لیے ہے) کہ میرے دل کو اطمینان حاصل ہو جائے، اور اللہ تعالیٰ لوط علیہ السلام پر رحم کرے، وہ زور آور شخص کی پناہ ڈھونڈھتے تھے، اگر میں اتنے دنوں تک قید میں رہا ہوتا جتنے عرصہ یوسف علیہ السلام رہے، تو جس وقت بلانے والا آیا تھا میں اسی وقت اس کے ساتھ ہو لیتا ۲؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 4026]
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/أحادیث الأنبیاء 11 (3372)، صحیح مسلم/الإیمان 69 (151)، (تحفة الأشراف: 13325، 15313)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/326) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: مفہوم یہ ہے کہ اگر ہم کو شک نہیں ہوا تو بھلا ابراہیم علیہ السلام کو کیوں کر شک ہو سکتا ہے، انہوں نے تو عین الیقین کا مرتبہ حاصل کرنے کے لئے یہ سوال کیا تھا کہ مردے کو زندہ کرنا انہیں دکھا دیا جائے۔
۲؎: یہ تعریف ہے یوسف علیہ السلام کے صبر اور استقلال کی، اتنی لمبی قید پر بھی انہوں نے رہائی کے لئے جلدی نہیں کی۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

حدیث نمبر: 4027
حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ , وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى , قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ , حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ , عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ , قَالَ: لَمَّا كَانَ يَوْمُ أُحُدٍ كُسِرَتْ رَبَاعِيَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَشُجَّ , فَجَعَلَ الدَّمُ يَسِيلُ عَلَى وَجْهِهِ , وَجَعَلَ يَمْسَحُ الدَّمَ عَنْ وَجْهِهِ , وَيَقُولُ:" كَيْفَ يُفْلِحُ قَوْمٌ خَضَبُوا وَجْهَ نَبِيِّهِمْ بِالدَّمِ , وَهُوَ يَدْعُوهُمْ إِلَى اللَّهِ , فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: لَيْسَ لَكَ مِنَ الأَمْرِ شَيْءٌ سورة آل عمران آية 128".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جنگ احد کے دن جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کے چار دانتوں میں سے ایک دانت ٹوٹ گیا، اور سر زخمی ہو گیا، تو خون آپ کے چہرہ مبارک پر بہنے لگا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم خون کو اپنے چہرہ سے پونچھتے جاتے تھے اور فرماتے جاتے تھے: وہ قوم کیسے کامیاب ہو سکتی ہے جس نے اپنے نبی کے چہرے کو خون سے رنگ دیا ہو، حالانکہ وہ انہیں اللہ کی طرف دعوت دے رہا تھا، تو اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: «ليس لك من الأمر شيء» اے نبی! آپ کو اس معاملے میں کچھ اختیار نہیں ہے (سورة آل عمران: 128)۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 4027]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ: (تحفة الأشراف: 725)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الجہاد 36 (1791)، سنن الترمذی/التفسیر 4 (3003)، مسند احمد (3/113) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح

حدیث نمبر: 4028
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ طَرِيفٍ , حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ , عَنْ الْأَعْمَشِ , عَنْ أَبِي سُفْيَانَ , عَنْ أَنَسٍ , قَالَ: جَاءَ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام , ذَاتَ يَوْمٍ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَهُوَ جَالِسٌ حَزِينٌ؟ قَدْ خُضِّبَ بِالدِّمَاءِ قَدْ ضَرَبَهُ بَعْضُ أَهْلِ مَكَّةَ , فَقَالَ: مَا لَكَ؟ قَالَ:" فَعَلَ بِي هَؤُلَاءِ وَفَعَلُوا" , قَالَ: أَتُحِبُّ أَنْ أُرِيَكَ آيَةً؟ قَالَ:" نَعَمْ أَرِنِي" , فَنَظَرَ إِلَى شَجَرَةٍ مِنْ وَرَاءِ الْوَادِي , قَالَ: ادْعُ تِلْكَ الشَّجَرَةَ فَدَعَاهَا , فَجَاءَتْ تَمْشِي حَتَّى قَامَتْ بَيْنَ يَدَيْهِ , قَالَ: قُلْ لَهَا فَلْتَرْجِعْ , فَقَالَ لَهَا: فَرَجَعَتْ حَتَّى عَادَتْ إِلَى مَكَانِهَا , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" حَسْبِي".
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن جبرائیل علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، اس وقت آپ غمگین بیٹھے ہوئے تھے، اور لہولہان تھے، اہل مکہ میں سے کچھ لوگوں نے آپ کو خشت زنی کر کے لہولہان کر دیا تھا، انہوں نے کہا: آپ کو کیا ہو گیا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان لوگوں نے میرے ساتھ یہ سلوک کیا ہے، جبرائیل علیہ السلام نے عرض کیا: آپ چاہتے ہیں کہ میں آپ کو کوئی نشانی دکھاؤں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں دکھائیے، پھر جبرائیل علیہ السلام نے وادی کے پیچھے ایک درخت کی طرف دیکھا، اور کہا: آپ اس درخت کو بلائیے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے آواز دی، وہ آ کر آپ کے سامنے کھڑا ہو گیا، پھر انہوں نے کہا: آپ اس سے کہیے کہ وہ واپس جائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے واپس جانے کو کہا، تو وہ اپنی جگہ چلا گیا، (یہ دیکھ کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے لیے یہ نشانی (معجزہ) ہی کافی ہے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 4028]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف (925، ومصباح الزجاجة: 1419)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/113)، سنن الدارمی/المقدمة 4 (23) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف¤ إسناده ضعيف¤ الأعمش عنعن¤ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 520

حدیث نمبر: 4029
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ , وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ , قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ , عَنْ الْأَعْمَشِ , عَنْ شَقِيقٍ , عَنْ حُذَيْفَةَ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَحْصُوا لِي كُلَّ مَنْ تَلَفَّظَ بِالْإِسْلَامِ" , قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ , أَتَخَافُ عَلَيْنَا , وَنَحْنُ مَا بَيْنَ السِّتِّ مِائَةِ إِلَى السَّبْعِ مِائَةِ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّكُمْ لَا تَدْرُونَ لَعَلَّكُمْ أَنْ تُبْتَلُوا" , قَالَ: فَابْتُلِينَا حَتَّى جَعَلَ الرَّجُلُ مِنَّا مَا يُصَلِّي إِلَّا سِرًّا.
حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمام مسلمانوں کی تعداد شمار کر کے مجھے بتاؤ، ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا آپ ہم پر (اب بھی دشمن کی طرف سے) خطرہ محسوس کرتے ہیں، جب کہ اب ہماری تعداد چھ اور سات سو کے درمیان ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم لوگ نہیں جانتے شاید کہ تم آزمائے جاؤ۔ حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: تو واقعی ہم آزمائے گئے، یہاں تک کہ ہم میں سے اگر کوئی نماز بھی پڑھتا تو چھپ کر پڑھتا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 4029]
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الجہاد 181 (3060، 3061)، صحیح مسلم/الإیمان 67 (149)، (تحفة الأشراف: 3338)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/384) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

حدیث نمبر: 4030
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ , حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ , حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ بَشِيرٍ , عَنْ قَتَادَةَ , عَنْ مُجَاهِدٍ , عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ , عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ , عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَنَّهُ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِهِ وَجَدَ رِيحًا طَيِّبَةً , فَقَالَ:" يَا جِبْرِيلُ , مَا هَذِهِ الرِّيحُ الطَّيِّبَةُ" , قَالَ: هَذِهِ رِيحُ قَبْرِ الْمَاشِطَةِ وَابْنَيْهَا وَزَوْجِهَا , قَالَ: وَكَانَ بَدْءُ ذَلِكَ , أَنَّ الْخَضِرَ كَانَ مِنْ أَشْرَافِ بَنِي إِسْرَائِيلَ , وَكَانَ مَمَرُّهُ بِرَاهِبٍ فِي صَوْمَعَتِهِ فَيَطَّلِعُ عَلَيْهِ الرَّاهِبُ فَيُعَلِّمُهُ الْإِسْلَامَ , فَلَمَّا بَلَغَ الْخَضِرُ زَوَّجَهُ أَبُوهُ امْرَأَةً , فَعَلَّمَهَا الْخَضِرُ وَأَخَذَ عَلَيْهَا أَنْ لَا تُعْلِمَهُ أَحَدًا , وَكَانَ لَا يَقْرَبُ النِّسَاءَ فَطَلَّقَهَا ثُمَّ زَوَّجَهُ أَبُوهُ أُخْرَى , فَعَلَّمَهَا وَأَخَذَ عَلَيْهَا أَنْ لَا تُعْلِمَهُ أَحَدًا , فَكَتَمَتْ إِحْدَاهُمَا , وَأَفْشَتْ عَلَيْهِ الْأُخْرَى , فَانْطَلَقَ هَارِبًا حَتَّى أَتَى جَزِيرَةً فِي الْبَحْرِ , فَأَقْبَلَ رَجُلَانِ يَحْتَطِبَانِ فَرَأَيَاهُ , فَكَتَمَ أَحَدُهُمَا وَأَفْشَى الْآخَرُ , وَقَالَ: قَدْ رَأَيْتُ الْخَضِرَ , فَقِيلَ: وَمَنْ رَآهُ مَعَكَ؟ قَالَ: فُلَانٌ: فَسُئِلَ فَكَتَمَ , وَكَانَ فِي دِينِهِمْ أَنَّ مَنْ كَذَبَ قُتِلَ , قَالَ: فَتَزَوَّجَ الْمَرْأَةَ الْكَاتِمَةَ , فَبَيْنَمَا هِيَ تَمْشُطُ ابْنَةَ فِرْعَوْنَ إِذْ سَقَطَ الْمُشْطُ , فَقَالَتْ: تَعِسَ فِرْعَوْنُ , فَأَخْبَرَتْ أَبَاهَا , وَكَانَ لِلْمَرْأَةِ ابْنَانِ وَزَوْجٌ , فَأَرْسَلَ إِلَيْهِمْ فَرَاوَدَ الْمَرْأَةَ وَزَوْجَهَا أَنْ يَرْجِعَا عَنْ دِينِهِمَا فَأَبَيَا , فَقَالَ: إِنِّي قَاتِلُكُمَا , فَقَالَا: إِحْسَانًا مِنْكَ إِلَيْنَا إِنْ قَتَلْتَنَا أَنْ تَجْعَلَنَا فِي بَيْتٍ , فَفَعَلَ , فَلَمَّا أُسْرِيَ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَدَ رِيحًا طَيِّبَةً فَسَأَلَ جِبْرِيلَ فَأَخْبَرَهُ.
ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کی رات ایک خوشبو محسوس کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جبرائیل! یہ کیسی خوشبو ہے؟، انہوں نے کہا: یہ اس عورت کی قبر کی خوشبو ہے جو فرعون کی بیٹی کو کنگھی کرتی تھی، اور اس کے دونوں بیٹوں اور شوہر کے قبر کی خوشبو ہے، (جنہیں ایمان لانے کی وجہ سے فرعون نے قتل کر دیا تھا) اور ان کے قصے کی ابتداء اس طرح ہے کہ خضر بنی اسرائیل کے شریف لوگوں میں تھے، ان کا گزر ایک (راہب) درویش کے عبادت خانے سے ہوتا تو وہ عابد راہب اوپر سے ان کو جھانکتا، اور ان کو اسلام کی تعلیم دیتا، آخر کار جب خضر جوان ہوئے تو ان کے والد نے ایک عورت سے ان کا نکاح کر دیا، خضر نے اس عورت کو اسلام کی تعلیم دی، اور اس سے عہد لے لیا کہ اس بات سے کسی کو باخبر مت کرنا، خضر عورتوں کے قریب نہیں جاتے تھے، آخر انہوں نے اس عورت کو طلاق دے دی، اس کے بعد ان کے والد نے ان کا نکاح دوسری عورت سے کر دیا، خضر نے اس سے بھی نہ بتانے کا عہد لے کر اسے دین کی تعلیم دی، لیکن ان میں سے ایک عورت نے اس راز کو چھپا لیا، اور دوسری نے ظاہر کر دیا (کہ یہ دین کی تعلیم اسے خضر نے سکھائی ہے، فرعون نے ان کی گرفتاری کا حکم دیا یہ سنتے ہی) وہ فرار ہو کر سمندر کے ایک جزیرہ میں چھپ گئے، وہاں دو شخص لکڑیاں چننے کے لیے آئے، اور ان دونوں نے خضر کو دیکھا، ان میں سے بھی ایک نے تو ان کا حال پوشیدہ رکھا، اور دوسرے نے ظاہر کر دیا اور کہا: میں نے خضر کو فلاں جزیرے میں دیکھا ہے، لوگوں نے اس سے پوچھا کہ کیا تمہارے ساتھ اور کسی شخص نے دیکھا ہے؟ اس نے کہا: فلاں شخص نے بھی دیکھا ہے، جب اس شخص سے سوال کیا گیا تو اس نے چھپایا، اور ان کا طریقہ یہ تھا کہ جو جھوٹ بولے، اسے قتل کر دیا جائے، الغرض اس شخص نے اس عورت سے نکاح کر لیا، جس نے اپنا دین چھپایا تھا، (اور خضر کا نام نہیں بتایا تھا)، اسی دوران کہ یہ عورت فرعون کی بیٹی کے سر میں کنگھی کر رہی تھی، اتنے میں اس کے ہاتھ سے کنگھی گر پڑی اور اس کی زبان سے بے اختیار نکل گیا کہ فرعون تباہ و برباد ہو (اپنی بے دینی کی وجہ سے) بیٹی نے یہ کلمہ اس کی زبان سے سن کر اسے اپنے باپ کو بتا دیا، اور اس عورت کے دو بیٹے تھے، اور ایک شوہر تھا، فرعون نے ان سبھوں کو بلا بھیجا، اور عورت اور اس کے شوہر کو دین اسلام چھوڑ کر اپنے دین میں آنے کے لیے پھسلایا، ان دونوں نے انکار کیا، تو اس نے کہا: میں تم دونوں کو قتل کر دوں گا، ان دونوں نے جواب دیا: اگر تم ہمیں قتل کرنا چاہتے ہو تو ہم پر اتنا احسان کرنا کہ ہمیں ایک ہی قبر میں دفن کر دینا، چنانچہ فرعون نے ایسا ہی کیا، جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسراء کی رات میں خوشبو محسوس کی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرائیل سے پوچھا تو انہوں نے آپ کو بتلایا کہ یہ انہیں لوگوں کی قبر ہے (جس سے یہ خوشبو آ رہی ہے)۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 4030]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 50، ومصباح الزجاجة: 1420) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (یہ سند ضعیف ہے، اس لئے کہ اس میں سعید بن بشیر ضعیف راوی ہیں)

قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف¤ إسناده ضعيف¤ سعيد بن بشير: ضعيف¤ وقتادة عنعن¤ ولبعض الحديث شاهد عند أحمد (309/1،310) وسنده حسن¤ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 520¤ هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ قَالَ:

حدیث نمبر: 4031
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ , أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ , عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ , عَنْ سَعْدِ بْنِ سِنَانٍ , عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ , عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , أَنَّهُ قَالَ:" عِظَمُ الْجَزَاءِ مَعَ عِظَمِ الْبَلَاءِ , وَإِنَّ اللَّهَ إِذَا أَحَبَّ قَوْمًا ابْتَلَاهُمْ , فَمَنْ رَضِيَ فَلَهُ الرِّضَا , وَمَنْ سَخِطَ فَلَهُ السُّخْطُ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جتنی بڑی مصیبت ہوتی ہے اتنا ہی بڑا ثواب ہوتا ہے، اور بیشک اللہ تعالیٰ جب کسی قوم سے محبت کرتا ہے تو اسے آزماتا ہے، پھر جو کوئی اس سے راضی و خوش رہے تو وہ اس سے راضی رہتا ہے، اور جو کوئی اس سے خفا ہو تو وہ بھی اس سے خفا ہو جاتا ہے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 4031]
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الزہد 56 (2396)، (تحفة الأشراف: 849) (حسن)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: حسن

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف¤ إسناده ضعيف¤ ترمذي (2396)¤ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 520

حدیث نمبر: 4032
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مَيْمُونٍ الرَّقِّيُّ , حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ صَالِحٍ a> , حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ يُوسُفَ , عَنْ الْأَعْمَشِ , عَنْ يَحْيَى بْنِ وَثَّابٍ , عَنْ ابْنِ عُمَرَ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الْمُؤْمِنُ الَّذِي يُخَالِطُ النَّاسَ وَيَصْبِرُ عَلَى أَذَاهُمْ , أَعْظَمُ أَجْرًا مِنَ الْمُؤْمِنِ الَّذِي لَا يُخَالِطُ النَّاسَ وَلَا يَصْبِرُ عَلَى أَذَاهُمْ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ مومن جو لوگوں سے مل جل کر رہتا ہے، اور ان کی ایذاء پر صبر کرتا ہے، تو اس کا ثواب اس مومن سے زیادہ ہے جو لوگوں سے الگ تھلگ رہتا ہے، اور ان کی ایذاء رسانی پر صبر نہیں کرتا ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 4032]
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/صفة القیامة 55 (2507)، (تحفة الأشراف: 8565)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/43) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: بلکہ عزلت اور تنہائی میں بسر کرتا ہے، یہ حدیث دلیل ہے ان لوگوں کی جو میل جول کو تنہائی اور گوشہ نشینی سے بہتر جانتے ہیں، بشرطیکہ میل جول کے آداب اور تقاضے کے مطابق زندگی گزارتا ہو، یعنی جمعہ، جماعت، عیدین اور جنازے میں حاضر ہو اور بیمار کی عیادت کرے اور لوگوں کو ایذا نہ دے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح

حدیث نمبر: 4033
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى , وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ , قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ , حَدَّثَنَا شُعْبَةُ , قَالَ: سَمِعْتُ قَتَادَةَ يُحَدِّثُ , عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ , قَالَ: قَال رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" ثَلَاثٌ مَنْ كُنَّ فِيهِ وَجَدَ طَعْمَ الْإِيمَانِ" , وَقَالَ بُنْدَارٌ:" حَلَاوَةَ الْإِيمَانِ , مَنْ كَانَ يُحِبُّ الْمَرْءَ لَا يُحِبُّهُ إِلَّا لِلَّهِ , وَمَنْ كَانَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِمَّا سِوَاهُمَا , وَمَنْ كَانَ أَنْ يُلْقَى فِي النَّارِ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ أَنْ يَرْجِعَ فِي الْكُفْرِ , بَعْدَ إِذْ أَنْقَذَهُ اللَّهُ مِنْهُ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس میں تین باتیں ہوں گی وہ ایمان کا ذائقہ پائے گا، (بندار کی روایت میں ہے کہ وہ ایمان کی حلاوت (مٹھاس) پائے گا) ایک وہ شخص جو کسی سے صرف اللہ کے لیے محبت کرتا ہو، دوسرے وہ جسے اللہ اور اس کا رسول دنیا کی تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہوں، تیسرے وہ شخص جسے اللہ تعالیٰ نے کفر سے نجات دی، اس کے بعد اسے آگ میں ڈالا جانا تو پسند ہو، لیکن کفر کی طرف پلٹ جانا پسند نہ ہو۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 4033]
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الإیمان 9 (16)، 14 (21)، الأدب 42 (6041)، الإکراہ 1 (6941)، صحیح مسلم/الایمان 15 (43)، سنن النسائی/الایمان 3 (4991)، (تحفة الأشراف: 1255)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الإیمان 10 (2624)، مسند احمد (3/103، 114، 172، 174، 230، 248، 275، 288) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

حدیث نمبر: 4034
حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ الْحَسَنِ الْمَرْوَزِيُّ , حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ . ح وحَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعِيدٍ الْجَوْهَرِيُّ , حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ عَطَاءٍ , قَالَا: حَدَّثَنَا رَاشِدٌ أَبُو مُحَمَّدٍ الْحِمَّانِيُّ , عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ , عَنْ أُمِّ الدَّرْدَاءِ , عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ , قَالَ: أَوْصَانِي خَلِيلِي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ" لَا تُشْرِكْ بِاللَّهِ شَيْئًا , وَإِنْ قُطِّعْتَ وَحُرِّقْتَ , وَلَا تَتْرُكْ صَلَاةً مَكْتُوبَةً مُتَعَمِّدًا , فَمَنْ تَرَكَهَا مُتَعَمِّدًا فَقَدْ بَرِئَتْ مِنْهُ الذِّمَّةُ , وَلَا تَشْرَبْ الْخَمْرَ , فَإِنَّهَا مِفْتَاحُ كُلِّ شَرٍّ".
ابو الدرداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میرے خلیل صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو وصیت کی ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک مت کرنا اگرچہ تم ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے جاؤ، اور جلا دئیے جاؤ، اور فرض نماز کو جان بوجھ کر مت چھوڑنا، کیونکہ جس نے جان بوجھ کر اسے چھوڑا تو اس پر سے اللہ کی پناہ اٹھ گئی، اور تم شراب مت پینا، کیونکہ شراب تمام برائیوں کی کنجی ہے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 4034]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 10986، ومصباح الزجاجة: 1421) (حسن)» ‏‏‏‏ (آخری جملہ اس سند سے کتاب الأشربہ میں گزرا ہے)

قال الشيخ الألباني: حسن

قال الشيخ زبير على زئي: حسن