اعمش نے شقیق سےاور انہوں نے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نےکہا: میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا، آپ ایک خاندان کو کوڑا پھینکنے کی جگہ پر پہنچے اور کھڑے ہو کر پیشاب کیا تو میں دور ہٹ گیا۔ آپ نے فرمایا: ” قریب آ جاؤ۔“ میں قریب ہو کر (دوسری طرف رخ کر کے) آپ کےپیچھے کھڑا ہو گیا (فراغت کے بعد) آپ نےوضو کیا اورموزوں پر مسح کیا۔ (قریب کھڑا کرنے کامقصد اس کی
حضرت حذیفہ ؓ کی روایت ہے: کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا، آپ کچھ لوگوں کے کوڑا پھینکنے کی جگہ پر پہنچے اور کھڑے ہو کر پیشاب کیا، تو میں دور ہٹ گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:“قریب آجا!”تو میں قریب ہو کر آپ کے پیچھے کھڑا ہوگیا (فراغت کے بعد) آپ نے وضو کیا اور موزوں پر مسح کیا۔
منصور نے ابو وائل (شقیق) سے روایت کی، انہوں نےکہاکہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ پیشاب کے بارے میں سختی کرتے تھے اور بوتل میں پیشاب کرتے تھے اور کہتے تھے: بنی اسرائیل کے کسی آدمی کی جلد پر پیشاب لگ جاتا تو وہ کھال کے اتنےحصے کو قینچی سے کاٹ ڈالتا تھا۔ تو حذیفہ رضی اللہ عنہ نےکہا: میرا دل چاہتا ہے کہ تمہارا صاحب (استاد) اس قدر سختی نہ کرے، میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ساتھ ساتھ چل رہے تھے تو آپ دیوار کے پیچھے کوڑا پھینکنے کی جگہ پرآئے، آپ اس طرح کھڑےہو گئے جس طرح تم میں سے کوئی کھڑا ہوتا ہے، پھر آپ پیشاب کرنے لگے تو میں آپ سے دور ہو گیا، آپ نے مجھے اشارہ کیا تو میں آ گیا اور آپ کے پیچھے کھڑا ہو گیا حتی کہ آپ فارغ ہو گئے۔
ابو وائل بیان کرتے ہیں: حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ بول کے سلسلہ میں تشدد کرتے تھے اور بوتل میں بول کرتے تھے، اور بیان کرتے: ”کہ بنو اسرائیل کے کسی آدمی کے جسم پر پیشاب لگ جاتا، تو وہ کھال کے اتنے حصے کو قینچی سے کاٹ ڈالتا“ تو حذیفہ ؓ نے کہا: ”میں چاہتا ہوں تمہارا استاد اس قدر سختی اختیار نہ کرے، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جارہا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دیوار کے پیچھے کوڑے کے ڈھیر پر پہنچے، اور تمہاری طرح جاکر کھڑے ہوگئے اور پیشاب کرنا چاہا، میں آپ سے ہٹ گیا، آپ نے مجھے اشارہ فرمایا تو میں خدمت میں حاضر ہوا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عقب میں کھڑا ہوگیا، حتیٰ کہ آپ فارغ ہوگئے۔“
حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ سے مرفوع روایت ہے: ”کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قضائے حاجت کے لیے گئے، میں پانی کا برتن لے کر آپ کے پیچھے گیا، جب حاجت سے فارغ ہوئے، تو مغیرہؓ نے پانی ڈالا اور آپ نے وضو فرمایا اور اپنے موزوں پر مسح کیا۔“ ابن رمح کی روایت "حِينَ" کی جگہ "حَتّٰی فَرَغَ" ہے۔
یحییٰ بن سعید کےایک دوسرے شاگرد عبدالوہاب نے اسی سند کے ساتھ مذکورہ بالا روایت بیان کی اور کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا چہرہ اور دونوں ہاتھ دھوئے، اپنے سر کامسح کیا، پھر موزوں پر مسح کیا۔
امام صاحب ایک اور سند سے بیان کرتے ہیں: ”کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا چہرہ اور دونوں ہاتھ دھوئے اور اپنے سر کا مسح کیا، پھر موزوں پر مسح کیا۔“
اسود بن ھلال نے حضرت مغیرہ بن شعبہ سے روایت کی، انھو ں نے کہا ایک رات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم (سواری سے) اترے اورقضائے حاجت کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس آئے تو میں نے اس برتن سے جو میر ے پاس تھا ”پانی ڈالا“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور آپنے موزوں پر مسح کیا۔
حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ سے روایت ہے: ”کہ اسی اثنا میں ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا، آپ اترے اور قضائے حاجت کی، پھر آئے تو میں نے اس برتن سے جو میرے پاس تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعضاء پر پانی ڈالا، آپ نے وضو کیا اور اپنے موزوں پر مسح کیا۔“
ابو معاویہ نے اعمش سے، انہوں نے مسلم (بن صبیح ہمدانی) سے، انہوں نے مسروق سے اور انہوں نے حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سےروایت کی، انہوں نےکہا: میں ایک سفر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا، آپ نے فرمایا: ”اے مغیرہ!پانی کا برتن لے لو۔“ میں نے برتن لے لیا، پھر آپ کےساتھ نکلا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چل پڑے یہاں تک کہ مجھ سے اوجھل ہو گئے، قضائے حاجت کی، پھر آپ واپس آئے، آپ نے تنگ آستینوں والا شامی جبہ پہنا ہوا تھا، آپ اس کی آستین سے اپنا ہاتھ نکالنے کی کوشش کرنے لگے (مگر) وہ (جبہ) تنگ (ثابت) ہوا۔ آپ نے اپنا ہاتھ نیچے سے نکالا، پھر میں نے پانی ڈالا تو آپ نے نماز جیسا وضو فرمایا، پھر آپ نے اپنے موزوں پر مسح کیا، پھر ہمیں نماز پڑھی۔
حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ سے روایت ہے: ”کہ ایک سفر میں، میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا، تو آپ نے فرمایا: ”اے مغیرہ! پانی کا برتن لو۔”میں نے برتن لے لیا اور آپ کے ساتھ نکلا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چلے، یہاں تک کہ مجھ سے چھپ گئے۔ اپنی ضرورت پوری کی، پھر آپ واپس آئے اور آپ تنگ آستینوں والا شامی جبہ پہنے ہوئے تھے، تو آپ اس آستین سے اپنا ہاتھ نکالنے لگے، وہ اس سے تنگ نکلا (ہاتھ نہ نکل سکا) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ کو نیچے سے نکال لیا، میں نے آپ کے اعضاء پر پانی ڈالا، تو آپ نے نماز والا وضو فرمایا، پھر آپ نے اپنے موزوں پر مسح کیا، پھر نماز پڑھی۔“
اعمش سے (ابو معاویہ کےبجائے) عیسیٰ بن یونس) نےباقی ماندہ سابقہ سند کے ساتھ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قضائے حاجت کے لیے نکلے، جب واپس آئے تو میں پانی کا برتن لے کر آپ کو ملا، میں نے پانی ڈالا، آپ نے اپنے دونوں ہاتھ دھوئے، پھر چہرہ دھویا، پھر ہاتھ دھونے لگے تو جبہ تنگ نکلا، آپ نے ہاتھ جبے کے نیچے سے نکال لیے، ان کو دھویا، سر کا مسح کیا اور اپنے موزوں پرمسح کیا، پھر ہمیں نماز پڑھائی۔
حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ سے روایت ہے: ”کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قضائے حاجت کے لیے نکلے تو جب واپس آئے، میں پانی کا برتن لے کر آپ کو ملا، اور آپ کے اعضاء پر پانی ڈالا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھ دھوئے، پھر چہرہ دھویا، پھر ہاتھ دھونے لگے، تو جبہ تنگ نکلا، تو آپ نے ہاتھ جبہ کے نیچے سے نکال لیے اور ان کو دھویا، سر کا مسح کیا اور اپنے موزوں پر مسح کیا، پھر ہمیں نماز پڑھائی۔“
زکریا نےعامر (شعبی) سے روایت کی، کہا: مجھے عروہ بن مغیرہ نے اپنے والد حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ سےحدیث بیان کی، کہا: ایک رات میں سفر کےدوران میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا، آپ نے پوچھا: ”کیا تمہارے پاس پانی ہے؟“ میں نےکہا: جی ہاں۔ تو آپ اپنی سواری سے اترے، پھر پیدل چل دیےیہاں تک کہ رات کی سیاہی میں اوجھل ہو گئے، پھر (واپس) آئے تو میں نے برتن سے آپ (کے ہاتھوں) پر پانی ڈالا، آپ نے اپنا چہرہ دھویا (اس وقت) آپ اون کا جبہ پہنے ہوئے تھے، آپ اس میں سے اپنے ہاتھ نہ نکال سکے حتی کہ دونوں ہاتھوں کو جبے کے نیچے سے نکالا اور کہنیوں تک اپنے ہاتھ دھوئے اور اپنے سر کا مسح کیا، پھر میں نے آپ کے موزے اتارنے چاہے تو آپ نے فرمایا: ”ان کو چھوڑو، میں نے باوضو ہو کر دونوں پاؤں ان میں ڈالے تھے“ اور ان پر مسح فرمایا۔
حضرت عروہ بن مغیرہ اپنے والدؓ سے بیان کرتے ہیں: ”کہ ایک رات، ایک سفر میں، میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا، تو آپ نے پوچھا: ”کیا تیرے پاس پانی ہے؟“ میں نے کہا: جی ہاں! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری سے اترے، پھر چل دیئے، یہاں تک کہ رات کی سیاہی میں مجھ سے چھپ گئے، پھر واپس آئے، تو میں نے برتن سے آپ پر پانی ڈالا۔ آپ نے اپنا چہرہ دھویا، اور آپ اون کا جبہ پہنے ہوئے تھے، آپ اس سے (تنگ ہونے کی وجہ سے) اپنے ہاتھ نہ نکال سکے، حتیٰ کہ دونوں ہاتھوں کو جبے کے نیچے سے نکالا، اور اپنے (کہنیوں سمیت) ہاتھ دھوئے اور اپنے سر کا مسح کیا، پھر میں جھکا تاکہ آپ کے موزے اتاروں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان کو چھوڑیئے! میں نے دونوں پاؤں دھونے کے بعد پہنے تھے۔“ اور ان پر مسح فرمایا۔“
عامر شعبی کے ایک دوسرے شاگرد عمر بن ابی زائدہ نےعروہ بن مغیرہ کے حوالے سے ان کے والد سے روایت کی کہ انہوں (مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ) نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو وضو کرایا، آپ نے وضو کیا اور اپنے موزوں پر مسح کیا۔ مغیرہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے (اس بارے میں) بات کی تو آپ نے فرمایا: ”میں نے انہیں باوضو حالت میں (موزوں میں) داخل کیا تھا۔“
”حضرت مغیرہ ؓ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو وضو کروایا، آپ نے وضو کیا اور اپنے موزوں پر مسح کیا، مغیرہ ؓنے موزے اتارنے کا اشارہ کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے ان کو پاؤں دھو کر پہنا تھا۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
23. باب الْمَسْحِ عَلَى النَّاصِيَةِ وَالْعِمَامَةِ:
حمید الطویل نے کہا: ہمیں بکر بن عبد اللہ مزنی نے حدیث بیان کی، انہوں نے عروہ بن مغیرہ بن شعبہ سے، انہوں نے اپنے والد سے روایت کی، انہوں نےکہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (قافلے سے) پیچھے رہ گئے اور میں بھی آپ کے ساتھ پیچھے رہ گیا، جب آپ نے قضائے حاجت کر لی تو فرمایا: ”کیاتمہارے ساتھ پانی ہے؟“ میں آپ کے پاس وضو کرنے کا برتن لایا، آپ نے اپنے دونوں ہاتھ اور چہرہ دھویا، پھر دونوں بازو کھولنے لگے تو جبے کی آستین تنگ پڑ گئی، آپ نے اپنا ہاتھ جبے کے نیچے سے نکالا اور جبہ کندھوں پر ڈال لیا، اپنے دونوں بازودھوئے اور اپنے سر کے اگلے حصے، پگڑی اور موزوں پر مسح کیا، پھر آپ سوار ہوئے اور میں (بھی) سوار ہوا، ہم لوگوں کے پاس پہنچے تووہ نماز کے لیے کھڑے تھے، عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ ان کو نماز پڑھا رہے تھے اور ایک رکعت پڑھا چکے تھے۔ جب انہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم (کی تشریف آوری) کا احساس ہوا تو پیچھے ہٹنے لگے۔ آپ نے انہیں اشارہ کیا (کہ نماز پوری کرو) تو انہوں نے نماز پڑھا دی، جب انہوں نے سلام پھیرا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو گئے، میں بھی کھڑا ہو گیا اور ہم نے وہ رکعت پڑھی جوہم سے پہلے ہو چکی تھی۔
حضرت مغیرہ ؓ بیان کرتے ہیں: کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیچھے رہ گئے اور میں بھی آپ کے ساتھ پیچھے رہ گیا، تو جب قضائے حاجت سے فارغ ہوئے، پوچھا: ”کیا تیرے پاس پانی ہے؟“ تو میں آپ کے پاس وضو کرنے کا برتن لایا، آپ نے اپنے دونوں ہاتھ اور چہرہ دھویا، پھر دونوں باہیں (کلائیاں) کھولنے لگے، تو جبے کی آستین تنگ پڑ گئیں، آپ نے اپنا ہاتھ جبہ کے نیچے سے نکالا اور جبہ کندھوں پر ڈال لیا، اور اپنی دونوں باہیں (کلائیاں) دھوئیں اور اپنی پیشانی اور پگڑی اور موزوں پر مسح کیا، پھر آپ سوار ہوئے اور میں بھی سوار ہوا اور ہم لوگوں کے پاس اس حال میں پہنچے کہ وہ عبد الرحمٰن بن عوفؓ کی اقتدا میں نماز کے لیے کھڑے ہوچکے تھے، اور عبد الرحمٰنؓ نے ایک رکعت پڑھادی تھی۔ جب انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کو محسوس کیا، تو پیچھے ہٹنے لگے، آپ نے اشارہ کیا (نماز پوری کرو)، تو انہوں نے نماز پڑھادی، جب سلام پھیرا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو گئے اور میں بھی کھڑا ہوگیا، اور ہم نے وہ رکعت پڑھی جو ہم سے پہلے ہوچکی تھی۔“