معمر، شعیب اور معقل بن عبیداللہ نے زہری سے یونس اور ابن ابی ذئب کی سند کے ساتھ ان دونوں کی حدیث کے مانند حدیث بیان کی، مگر شعیب اور معقل کی حدیث میں (مشرکین کی اولاد کی بجائے) "مشرکین کے چھوٹے بچوں" کے الفاظ ہیں۔
امام صاحب اپنے مختلف اساتذہ سے مذکورہ بالا روایت بیان کرتے ہیں، شعیب اور معقل کی روایت اولاد کی جگہ ذراری کا لفظ ہے۔(معنی ایک ہی ہے)
اعرج نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مشرکین کے بچوں کے بارے میں سوال کیا گیا، ان میں سے جو چھوٹی عمر میں فوت ہو جائیں (تو ان کا انجام کیا ہو گا؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ زیادہ جانتا ہے کہ وہ کیا عمل کرنے والے تھے۔"
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مشرکوں کےان بچوں کے بارے میں دریافت کیا گیا،جو بچپن فوت ہو جاتے ہیں، تو آپ نے فرمایا:"اللہ کو خوب علم ہے، انھوں نے کس قسم کے عمل کرنے تھے۔"
سعید بن جبیر نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مشرکین کے بچوں کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ نے جب ان کو پیدا کیا تو وہ زیادہ جاننے والا ہے کہ وہ کیا عمل کرنے والے تھے۔"
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مشرکوں کےبچوں کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا:"جب اللہ نے ان کوپیداکیاہے تو اسے یہ بھی خوب علم ہے،وہ کون سے عمل کرنے والےتھے۔"
سعید بن جبیر نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس لڑکے کو حضرت خضر علیہ السلام نے قتل کیا تھا وہ طبعا کافر بنایا گیا تھا، اگر وہ زندہ رہتا تو زبردستی اپنے ماں باپ کو سرکشی اور کفر کی طرف لے جاتا۔"
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"بچہ جسے حضرت خضر نے قتل کیا تھا، اس پر کفر کی مہر لگی ہوئی تھی اور وہ زندہ رہتا تو اپنے والدین کو کفر اور سر کشی پر پھنسا دیتا۔"
فضیل بن عمرو نے عائشہ بنت طلحہ سے اور انہوں نے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی کہ ایک بچہ فوت ہوا تو میں نے کہا: اس کے لیے خوش خبری ہو، وہ تو جنت کی چڑیوں میں سے ایک چڑیا ہے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا تم نہیں جانتی کہ اللہ تعالیٰ نے جنت کو پیدا کیا اور دوزخ کو پیدا کیا اور اس کے لیے بھی اس میں جانے والے بنائے اور اُس کے لیے بھی اس میں رہنے والے بنائے؟"
حضرت اُم المومنین عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں، ایک بچہ فوت ہو گیا تو میں نے کہا، اس کے لیے مسرت و شادمانی ہے، جنت کی چڑیوں میں سے ایک چڑیا ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"کیا تمھیں معلوم نہیں ہے، اللہ نے جنت اور دوزخ کو پیدا کیا ہے تو اس کے لیے بھی باشندے پیدا کیے ہیں اور اس کے لیے بھی اہل پیدا کیے ہیں۔"
وکیع نے طلحہ بن یحییٰ سے، انہوں نے اپنی پھوپھی عائشہ بنت طلحہ سے اور انہوں نے ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو انصار کے ایک بچے کے جنازے کے لیے بلایا گیا، میں نے کہا: اللہ کے رسول! اس کے لیے خوش خبری ہو یہ جنت کی چڑیوں میں سے ایک چڑیا ہے، اس نے کوئی گناہ کیا، نہ گناہ کرنے کی عمر پائی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یا اس کے علاوہ کچھ اور؟ عائشہ! اللہ تعالیٰ نے جنت میں رہنے والے لوگ پیدا فرمائے، انہیں اس وقت جنت کے لیے تخلیق کیا جب وہ اپنے باپوں کی پشتوں میں تھے اور دوزخ کے لیے بھی رہنے والے بنائے، انہیں اس وقت دوزخ کے لیے تخلیق کیا جب وہ اپنے باپوں کی پشتوں میں تھے۔"
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان فرماتی ہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک انصاری بچے کے جنازہ کے لیے بلایا گیا تو میں نے کہا، اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اس کے لیے مسرت و شادمانی ہے، جنت کی چڑیوں میں سے ایک چڑیا ہے، اس نے کوئی براکام نہیں کیا اور نہ اس کا وقت پایا، آپ نے فرمایا:"یا اور کچھ ہے۔اے عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا! بے شک اللہ نے جنت کے اہل پیدا کیے ہیں انہیں اس کے لیے پیدا کیا ہے، جبکہ وہ ابھی اپنے باپوں کی پشتوں میں تھے اور دوزخ کے اہل پیدا کیے ہیں انہیں اس کے لیے پیدا کیا ہے جبکہ وہ ابھی اپنے باپوں کی پشتوں میں تھے۔"
وکیع نے ہمیں معمر سے حدیث بیان کی، انہوں نے علقمہ بن مرثد سے، انہوں نے مغیرہ بن عبداللہ یشکری سے، انہوں نے معرور بن سوید سے اور انہوں نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے یہ دعا کی: اے اللہ! مجھے اپنے خاوند رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے والد حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ اور اپنے بھائی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ (کی زندگیوں) سے مستفید فرما! (حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے) کہا: تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم نے عمروں کی ایسی مدتوں کا، جو مقرر کر دی گئی ہیں اور ان دنوں کا جو گنے جا چکے ہیں اور ایسے رزقوں کا جو بانٹے جا چکے ہیں، سوال کیا ہے۔ اگر تم اللہ سے یہ مانگتی کہ تمہیں آگ میں دیے جانے والے یا قبر میں دیے جانے والے عذاب سے پناہ عطا فرما دے تو یہ زیادہ اچھا اور زیادہ افضل ہوتا۔" (عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے) کہا: آپ کے سامنے بندروں کے بارے میں بات چیت ہوئی، مسعر نے کہا: میرا خیال ہے کہ انہوں (حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ) نے کہا: خنزیروں کا بھی (ذکر کیا گیا کہ وہ) مسخ ہو کر بنے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ نے مسخ ہونے والوں کی نہ نسل بنائی ہے نہ اولاد، بندر اور خنزیر اس (مسخ ہونے کے واقعے) سے پہلے بھی ہوتے تھے (جو موجودہ ہیں وہ انہی کی نسلیں ہیں۔)
حضرت عبد اللہ (بن مسعود) رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی حضرت اُم حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے دعا کی، اے اللہ! مجھے اپنے خاوند رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اپنے باپ ابو سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور اپنے بھائی معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فائدہ اٹھانے کا موقعہ عنایت فر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"تونے اللہ سے طے شدہ عمروں شمار شدہ دنوں اور تقسیم شدہ روزیوں کے بارے میں درخواست کی ہے اور وہ کسی چیز کو اس کے طے شدہ وقت سے پہلے کرے گا اور نہ وقت معینہ سے مؤخر کرے گا اور اگر تو اللہ تعالیٰ سے یہ درخواست کرتی کہ وہ تمھیں آگ کے عذاب سے یا قبر کے عذاب سے بچائے تو یہ بہتر اور افضل ہوتا۔"راوی کہتے ہیں کہ آپ کے سامنے مسخ کے سبب بندروں اور مسعر کہتے ہیں میرے خیال میں خنزیروں کا بھی ذکر آیا تو آپ نے فرمایا:"اللہ تعالیٰ نے مسخ شدہ قوم کی نسل یا اولاد جاری نہیں کی، یقیناً بندر اور خنزیر اس سے پہلے بھی موجود تھے۔"
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدیث نمبر: 6771
حَدَّثَنَاه أَبُو كُرَيْبٍ ، حَدَّثَنَا ابْنُ بِشْرٍ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ غَيْرَ أَنَّ فِي حَدِيثِهِ، عَنْ ابْنِ بِشْرٍ، وَوَكِيعٍ، جميعا من عذاب في النار وعذاب في القبر.
ابن بشر نے مسعر سے اسی سند کے ساتھ خبر دی، مگر ابن بشر اور وکیع دونوں سے ان کی (روایت کردہ) حدیث میں یہ الفاظ منقول ہیں: "آگ میں دیے جانے والے اور قبر میں دیے جانے والے عذاب سے (پناہ مانگتی تو بہتر تھا۔) " ("یا" کی بجائے "اور" ہے۔)
امام صاحب یہی روایت ابو کریب سے بیان کرتے ہیں، اس میں او(یا) کی جگہ واؤ ہےکہ"آگ کے عذاب سے اور قبر کے عذاب سے۔"
عبدالرزاق نے کہا: ہمیں ثوری نے علقمہ بن مرثد سے خبر دی، انہوں نے مغیرہ بن عبداللہ یشکری سے، انہوں نے معرور بن سوید سے اور انہوں نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے (دعا کرتے ہوئے) کہا: اے اللہ! مجھے میرے خاوند رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، میرے والد ابوسفیان اور میرے بھائی (کی درازی عمر) سے مستفید فرما! تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: "تم نے اللہ تعالیٰ سے ان مدتوں کا سوال کیا ہے جو مقرر کی جا چکیں اور قدموں کے ان نشانوں کا جن پر قدم رکھے جا چکے اور ایسے رزقوں کو جو تقسیم کیے جا چکے۔ نہ ان میں سے کوئی چیز اپنا وقت آنے سے پہلے آ سکتی ہے اور نہ آنے کے بعد مؤخر ہو سکتی ہے۔ اگر تم اللہ تعالیٰ سے یہ مانگتی کہ وہ تمہیں جہنم میں دیے جانے والے عذاب اور قبر میں دیے جانے والے عذاب سے بچا لے تو تمہارے لیے بہتر ہوتا۔" (عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے) کہا: ایک آدمی نے پوچھا: اللہ کے رسول! یہ بندر اور خنزیر کیا انہی میں سے ہیں جو مسخ ہو کر بنے تھے؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ نے کسی قوم کو ہلاک نہیں کیا یا (فرمایا:) کسی قوم کو عذاب نہیں دیا کہ پھر ان (لوگوں) کی نسل بنائے (ان کے بچے پیدا کر کے انہیں آگے چلائے۔) اور بلاشبہ بندر اور خنزیر پہلے بھی موجود تھے۔" (آگے انہی کی نسلیں چلی ہیں۔)
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، حضرت اُم حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے دعا کی، اے اللہ! مجھے اپنے خاوند رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اپنے باپ ابو سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور اپنے بھائی معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فائدہ اٹھانے کا موقعہ دےتو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسےفرمایا:"تونے اللہ سے طے شدہ عمروں کا سوال کیا جو مقرر ہیں اور ان قدموں کا جو روندے ہوئے یا پامال شدہ ہیں(معین ہیں)اور ان رزقوں کا جو تقسیم شدہ ہیں، اللہ تعالیٰ کسی چیز کو اس کے وقت مقررہ سے پہلے نہیں کرتا اور نہ کسی چیز کو اس کے وقت مقرر سے مؤخر کرتا ہے،اگر تم یہ سوال کرتیں کہ اللہ تعالیٰ تمھیں آگ کے عذاب سے اور قبر کے عذاب سے بچائے تو تمھارے لیے بہتر اور ہوتا۔"اور ایک آدمی نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! بندراور خنزیر،مسخ شدہ لوگوں کی نسل ہیں؟ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"اللہ عزوجل نے کوئی قوم ہلاک نہیں کی،یا کسی قوم کو عذاب نہیں دیا کہ پھر ان کی نسل چلائی ہو،بندر اور خنزیر اس سے پہلے بھی موجود تھے۔"