مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم موزوں پر مسح کرتے تھے۔ اور محمد بن صباح کے علاوہ دوسرے لوگوں سے «على ظهر الخفين.»(موزوں کی پشت پر) مروی ہے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ/حدیث: 161]
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں”اگر دین (کا معاملہ) رائے اور قیاس پر ہوتا، تو موزے کے نچلے حصے پر مسح کرنا اوپری حصے پر مسح کرنے سے بہتر ہوتا، حالانکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے دونوں موزوں کے اوپری حصے پر مسح کرتے ہوئے دیکھا ہے“۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ/حدیث: 162]
اعمش سے یہی حدیث اس سند سے مروی ہے، اس میں ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نے کہا: میں دونوں پیروں کے تلوؤں کو دھونا ہی زیادہ مناسب سمجھتا رہا، یہاں تک کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے دونوں موزوں کے اوپری حصہ پر مسح کرتے ہوئے دیکھا۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ/حدیث: 163]
اس سند سے بھی اعمش سے یہی حدیث مروی ہے، اس میں ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نے کہا: اگر دین (کا معاملہ) قیاس پر ہوتا تو دونوں قدموں کے نچلے حصے کا مسح ان کے اوپری حصے کے مسح سے زیادہ بہتر ہوتا، حالانکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں موزوں کے اوپری حصہ پر مسح کیا ہے۔ اور اسے وکیع نے بھی اعمش سے اسی سند سے روایت کیا ہے، اس میں ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نے کہا: میں دونوں پیروں کے نچلے حصے کا مسح ان کے اوپری حصے کے مسح سے بہتر جانتا تھا، یہاں تک کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے اوپری حصے پر مسح کرتے دیکھا۔ وکیع کا بیان ہے کہ لفظ «قدمين» سے مراد «خفين» ہے، وکیع ہی کی طرح اسے عیسیٰ بن یونس نے بھی اعمش سے روایت کیا ہے، نیز اسے ابوالسوداء نے ابن عبد خیر سے، انہوں نے اپنے والد سے روایت کیا ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے علی کو دیکھا کہ انہوں نے وضو کیا تو اپنے دونوں پاؤں کے اوپری حصہ پر مسح کیا ۱؎ اور کہا: اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا کرتے نہ دیکھا ہوتا، پھر ابوالسوداء نے پوری روایت آخر تک بیان کی۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ/حدیث: 164]
مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو غزوہ تبوک میں وضو کرایا، تو آپ نے دونوں موزوں کے اوپر اور ان کے نیچے مسح کیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ ثور نے یہ حدیث رجاء بن حیوۃ سے نہیں سنی ہے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ/حدیث: 165]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن الترمذی/الطھارة 72 (97)، سنن ابن ماجہ/الطھارة 85 (550)، موطا امام مالک/الطھارة 8 (41)، (تحفة الأشراف: 11537)، وقد أخرجہ: سنن الدارمی/الطھارة 41 (740) (ضعیف)» (سند میں انقطاع ہے جس کو مؤلف نے واضح کر دیا ہے، اور دارمی کی روایت میں عموم ہے، «اعلی واسفل» کا ذکر نہیں ہے)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
64. باب فِي الاِنْتِضَاحِ
64. باب: وضو کے بعد شرمگاہ (ستر) پر پانی چھڑکنے کا بیان۔
سفیان بن حکم ثقفی یا حکم بن سفیان ثقفی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب پیشاب کرتے تو وضو کرتے، اور (وضو کے بعد) شرمگاہ پر (تھوڑا) پانی چھڑک لیتے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ/حدیث: 166]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن النسائی/الطھارة 102 (134)، سنن ابن ماجہ/الطھارة 58 (461)، (تحفة الأشراف: 3420)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/179) (صحیح)»
ثقیف کے ایک شخص اپنے والد سے روایت کرتے ہیں، ان کے والد کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نے پیشاب کیا، پھر اپنی شرمگاہ پر پانی چھڑکا۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ/حدیث: 167]
حکم یا ابن حکم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشاب کیا، پھر وضو کیا، اور اپنی شرمگاہ پر پانی چھڑکا ۱؎۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ/حدیث: 168]
عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنا کام خود کرتے تھے، باری باری اپنے اونٹوں کو چراتے تھے، ایک دن اونٹ چرانے کی میری باری آئی، میں انہیں شام کے وقت لے کر چلا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس حال میں پایا کہ آپ لوگوں سے خطاب فرما رہے تھے، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”تم میں سے جو شخص بھی وضو کرے اور اچھی طرح وضو کرے، پھر کھڑے ہو کر دو رکعت نماز پوری توجہ اور حضور قلب (دل جمعی) کے ساتھ ادا کرے تو اس نے (اپنے اوپر جنت) واجب کر لی“، میں نے کہا: واہ واہ یہ کیا ہی اچھی (بشارت) ہے، اس پر میرے سامنے موجود شخص نے عرض کیا: عقبہ! جو بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پہلے فرمائی، وہ اس سے بھی زیادہ عمدہ تھی، میں نے دیکھا تو وہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ تھے، عرض کیا: ابوحفص! وہ کیا تھی؟ آپ نے کہا: تمہارے آنے سے پہلے ابھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”تم میں سے جو شخص بھی اچھی طرح وضو کرے، پھر وضو سے فارغ ہونے کے بعد یہ دعا پڑھے: «أشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له وأن محمدا عبده ورسوله»”میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں“ تو اس کے لیے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دیے جائیں گے، وہ جس دروازے سے چاہے داخل ہو“۔ معاویہ کہتے ہیں: مجھ سے ربیعہ بن یزید نے بیان کیا ہے، انہوں نے ابوادریس سے اور ابوادریس نے عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ/حدیث: 169]
اس سند سے بھی عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح روایت کی ہے ابوعقیل یا ان سے اوپر یا نیچے کے راوی نے اونٹوں کے چرانے کا ذکر نہیں کیا ہے، نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول: «فأحسن الوضوء» کے بعد یہ جملہ کہا ہے: ”پھر اس نے (یعنی وضو کرنے والے نے) اپنی نگاہ آسمان کی طرف اٹھائی اور یہ دعا پڑھی“۱؎۔ پھر ابوعقیل راوی نے معاویہ بن صالح کی حدیث کے ہم معنی حدیث ذکر کی۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ/حدیث: 170]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 9974)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/150) (ضعیف)» (سند کے ایک راوی ”ابن عم ابوعقیل“ مبہم ہے)