الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ابي داود کل احادیث (5274)
حدیث نمبر سے تلاش:

سنن ابي داود
كِتَاب السُّنَّةِ
کتاب: سنتوں کا بیان
حدیث نمبر: 4656
حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ أَبُو عُمَرَ الضَّرِيرُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، أَنَّ سَعِيدَ بْنَ إِيَاسٍ الْجُرَيْرِيَّ أَخْبَرَهُمْ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ الْعُقَيْلِيِّ،عَنِ الْأَقْرَعِ مُؤَذِّنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، قَالَ:" بَعَثَنِي عُمَرُ إِلَى الْأُسْقُفِّ فَدَعَوْتُهُ، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: وَهَلْ تَجِدُنِي فِي الْكِتَابِ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: كَيْفَ تَجِدُنِي؟ قَالَ: أَجِدُكَ قَرْنًا فَرَفَعَ عَلَيْهِ الدِّرَّةَ، فَقَالَ: قَرْنٌ مَهْ؟ فَقَالَ: قَرْنٌ حَدِيدٌ أَمِينٌ شَدِيدٌ، قَالَ: كَيْفَ تَجِدُ الَّذِي يَجِيءُ مِنْ بَعْدِي؟ فَقَالَ: أَجِدُهُ خَلِيفَةً صَالِحًا غَيْرَ أَنَّهُ يُؤْثِرُ قَرَابَتَهُ، قَالَ عُمَرُ: يَرْحَمُ اللَّهُ عُثْمَانَ ثَلَاثًا، فَقَالَ: كَيْفَ تَجِدُ الَّذِي بَعْدَهُ؟ قَالَ: أَجِدُهُ صَدَأَ حَدِيدٍ، فَوَضَعَ عُمَرُ يَدَهُ عَلَى رَأْسِهِ، فَقَالَ: يَا دَفْرَاهُ يَا دَفْرَاهُ، فَقَالَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ إِنَّهُ خَلِيفَةٌ صَالِحٌ، وَلَكِنَّهُ يُسْتَخْلَفُ حِينَ يُسْتَخْلَفُ وَالسَّيْفُ مَسْلُولٌ وَالدَّمُ مُهْرَاقٌ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: الدَّفْرُ النَّتْنُ.
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے مؤذن اقرع کہتے ہیں مجھے عمر نے ایک پادری کے پاس بلانے کے لیے بھیجا، میں اسے بلا لایا، تو عمر نے اس سے کہا: کیا تم کتاب میں مجھے (میرا حال) پاتے ہو؟ وہ بولا: ہاں، انہوں نے کہا: کیسا پاتے ہو؟ وہ بولا: میں آپ کو قرن پاتا ہوں، تو انہوں نے اس پر درہ اٹھایا اور کہا: قرن کیا ہے؟ وہ بولا: لوہے کی طرح مضبوط اور سخت امانت دار، انہوں نے کہا: جو میرے بعد آئے گا تم اسے کیسے پاتے ہو؟ وہ بولا: میں اسے نیک خلیفہ پاتا ہوں، سوائے اس کے کہ وہ اپنے رشتہ داروں کو ترجیح دے گا، عمر نے کہا: اللہ عثمان پر رحم کرے، (تین مرتبہ) پھر کہا: ان کے بعد والے کو تم کیسے پاتے ہو؟ وہ بولا: وہ تو لوہے کا میل ہے (یعنی برابر تلوار سے کام رہنے کی وجہ سے ان کا بدن اور ہاتھ گویا دونوں ہی زنگ آلود ہو جائیں گے) عمر نے اپنا ہاتھ اس کے سر پر رکھا، اور فرمایا: اے گندے! بدبودار (تو یہ کیا کہتا ہے) اس نے کہا: اے امیر المؤمنین! وہ ایک نیک خلیفہ ہو گا لیکن جب وہ خلیفہ بنایا جائے گا تو حال یہ ہو گا کہ تلوار بے نیام ہو گی، خون بہہ رہا ہو گا، (یعنی اس کی خلافت فتنہ کے وقت ہو گی)۔ ابوداؤد کہتے ہیں: «الدفر» کے معنی «نتن» یعنی بدبو کے ہیں۔ [سنن ابي داود/كِتَاب السُّنَّةِ/حدیث: 4656]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 10408) (ضعیف الإسناد)» ‏‏‏‏ (عیسائی پادری کے قول کا کیا اعتبار؟)

قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد

10. باب فِي فَضْلِ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم
10. باب: صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی فضیلت کا بیان۔
حدیث نمبر: 4657
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا. ح حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" خَيْرُ أُمَّتِي الْقَرْنُ الَّذِينَ بُعِثْتُ فِيهِمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، وَاللَّهُ أَعْلَمُ أَذَكَرَ الثَّالِثَ أَمْ لَا، ثُمَّ يَظْهَرُ قَوْمٌ يَشْهَدُونَ وَلَا يُسْتَشْهَدُونَ، وَيَنْذِرُونَ وَلَا يُوفُونَ، وَيَخُونُونَ وَلَا يُؤْتَمَنُونَ، وَيَفْشُو فِيهِمُ السِّمَنُ".
عمران بن حصین رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری امت کے سب سے بہتر لوگ وہ ہیں جن میں مجھے مبعوث کیا گیا، پھر وہ جو ان سے قریب ہیں، پھر وہ جو ان سے قریب ہیں اللہ ہی زیادہ جانتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسرے کا ذکر کیا یا نہیں، پھر کچھ لوگ رونما ہوں گے جو بلا گواہی طلب کئے گواہی دیتے پھریں گے، نذر مانیں گے لیکن پوری نہ کریں گے، خیانت کرنے لگیں گے جس سے ان پر سے بھروسہ اٹھ جائے گا، اور ان میں موٹاپا عام ہو گا ۱؎۔ [سنن ابي داود/كِتَاب السُّنَّةِ/حدیث: 4657]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/فضائل الصحابة 52 (2535)، سنن الترمذی/الفتن 45 (2222)، الشھادات 4، (2302)، (تحفة الأشراف: 10824)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الشہادات 9 (2651)، فضائل الصحابة 1 (3650)، الرقاق 7 (6428)، الأیمان 7 (6695)، سنن النسائی/الأیمان والنذور 28 (3840)، مسند احمد (4/426، 427، 436، 440) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

11. باب فِي النَّهْىِ عَنْ سَبِّ، أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم
11. باب: صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو برا بھلا کہنا منع ہے۔
حدیث نمبر: 4658
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا تَسُبُّوا أَصْحَابِي فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوْ أَنْفَقَ أَحَدُكُمْ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا مَا بَلَغَ مُدَّ أَحَدِهِمْ وَلَا نَصِيفَهُ".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے صحابہ کو برا بھلا نہ کہو، اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اگر تم میں سے کوئی احد (پہاڑ) کے برابر سونا خرچ کر دے تو وہ ان کے ایک مد یا نصف مد کے برابر بھی نہ ہو گا ۱؎۔ [سنن ابي داود/كِتَاب السُّنَّةِ/حدیث: 4658]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/فضائل الصحابة 5 (3673)، صحیح مسلم/فضائل الصحابة 54 (2541)، سنن الترمذی/المناقب 59 (3861)، سنن ابن ماجہ/المقدمة 20 (161)، (تحفة الأشراف: 4001، 12536)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/11، 54، 55، 63) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 4659
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا زَائِدَةُ بْنُ قُدَامَةَ الثَّقَفِيُّ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ قَيْسٍ الْمَاصِرُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي قُرَّةَ، قَالَ:" كَانَ حُذَيْفَةُ بِالْمَدَائِنِ، فَكَانَ يَذْكُرُ أَشْيَاءَ قَالَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأُنَاسٍ مِنْ أَصْحَابِهِ فِي الْغَضَبِ، فَيَنْطَلِقُ نَاسٌ مِمَّنْ سَمِعَ ذَلِكَ مِنْ حُذَيْفَةَ، فَيَأْتُونَ سَلْمَانَ فَيَذْكُرُونَ لَهُ قَوْلَ حُذَيْفَةَ، فَيَقُولُ سَلْمَانُ: حُذَيْفَةُ أَعْلَمُ بِمَا يَقُولُ، فَيَرْجِعُونَ إِلَى حُذَيْفَةَ، فَيَقُولُونَ لَهُ: قَدْ ذَكَرْنَا قَوْلَكَ لِسَلْمَانَ فَمَا صَدَّقَكَ وَلَا كَذَّبَكَ، فَأَتَى حُذَيْفَةُ سَلْمَانَ وَهُوَ فِي مَبْقَلَةٍ، فَقَالَ: يَا سَلْمَانُ مَا يَمْنَعُكَ أَنْ تُصَدِّقَنِي بِمَا سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَ سَلْمَانُ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَغْضَبُ، فَيَقُولُ فِي الْغَضَبِ لِنَاسٍ مِنْ أَصْحَابِهِ، وَيَرْضَى فَيَقُولُ فِي الرِّضَا لِنَاسٍ مِنْ أَصْحَابِهِ: أَمَا تَنْتَهِي حَتَّى تُوَرِّثَ رِجَالًا حُبَّ رِجَالٍ، وَرِجَالًا بُغْضَ رِجَالٍ، وَحَتَّى تُوقِعَ اخْتِلَافًا وَفُرْقَةً، وَلَقَدْ عَلِمْتَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَطَبَ فَقَالَ: أَيُّمَا رَجُلٍ مِنْ أُمَّتِي سَبَبْتُهُ سَبَّةً أَوْ لَعَنْتُهُ لَعْنَةً فِي غَضَبِي، فَإِنَّمَا أَنَا مِنْ وَلَدِ آدَمَ أَغْضَبُ كَمَا يَغْضَبُونَ، وَإِنَّمَا بَعَثَنِي رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ، فَاجْعَلْهَا عَلَيْهِمْ صَلَاةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَاللَّهِ لَتَنْتَهِيَنَّ أَوْ لَأَكْتُبَنَّ إِلَى عُمَرَ".
عمرو بن ابی قرہ کہتے ہیں کہ حذیفہ رضی اللہ عنہ مدائن میں تھے اور وہ ان باتوں کا ذکر کیا کرتے تھے، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب میں سے بعض لوگوں سے غصہ کی حالت میں فرمائی تھیں، پھر ان میں سے کچھ لوگ جو حذیفہ سے باتیں سنتے چل کر سلمان رضی اللہ عنہ کے پاس آتے اور ان سے حذیفہ رضی اللہ عنہ کی باتوں کا تذکرہ کرتے تو سلمان رضی اللہ عنہ کہتے: حذیفہ ہی اپنی کہی باتوں کو بہتر جانتے ہیں، تو وہ لوگ حذیفہ کے پاس لوٹ کر آتے اور ان سے کہتے: ہم نے آپ کی باتوں کا تذکرہ سلمان سے کیا تو انہوں نے نہ آپ کی تصدیق کی اور نہ تکذیب، یہ سن کر حذیفہ سلمان کے پاس آئے، وہ اپنی ترکاری کے کھیت میں تھے کہنے لگے: اے سلمان! ان باتوں میں میری تصدیق کرنے سے آپ کو کون سی چیز روک رہی ہے جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہیں؟ تو سلمان نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بلاشبہ کبھی غصے میں اپنے بعض اصحاب سے کچھ باتیں کہہ دیتے اور کبھی خوش ہوتے تو خوشی میں اپنے بعض اصحاب سے کچھ باتیں کہہ دیتے، تو کیا آپ اس وقت تک باز نہ آئیں گے جب تک کہ بعض لوگوں کے دلوں میں بعض لوگوں کی محبت اور بعض دوسروں کے دلوں میں بعض کی دشمنی نہ ڈال دیں اور ان کو اختلاف میں مبتلا نہ کر دیں، حالانکہ آپ جانتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک خطبہ میں فرمایا: میں نے اپنی امت کے کسی فرد کو غصے کی حالت میں اگر برا بھلا کہا یا اسے لعن طعن کی تو میں بھی تو آدم کی اولاد میں سے ہوں، مجھے بھی غصہ آتا ہے جیسے انہیں آتا ہے، لیکن اللہ نے مجھے رحمۃ للعالمین بنا کر بھیجا ہے تو (اے اللہ) میرے برا بھلا کہنے اور لعن طعن کو ان لوگوں کے لیے قیامت کے روز رحمت بنا دے اللہ کی قسم یا تو آپ اپنی اس حرکت سے باز آ جائیں ورنہ میں عمر بن الخطاب (امیر المؤمنین) کو لکھ بھیجوں گا۔ [سنن ابي داود/كِتَاب السُّنَّةِ/حدیث: 4659]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 4507)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/437، 439) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

12. باب فِي اسْتِخْلاَفِ أَبِي بَكْرٍ رضى الله عنه
12. باب: ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت کا بیان۔
حدیث نمبر: 4660
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، قَالَ: حَدَّثَنِي الزُّهْرِيُّ، حَدَّثَنِي عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَمْعَةَ، قَالَ:" لَمَّا اسْتُعِزَّ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا عِنْدَهُ فِي نَفَرٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ، دَعَاهُ بِلَالٌ إِلَى الصَّلَاةِ، فَقَالَ: مُرُوا مَنْ يُصَلِّي لِلنَّاسِ، فَخَرَجَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ زَمْعَةَ فَإِذَا عُمَرُ فِي النَّاسِ وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ غَائِبًا، فَقُلْتُ: يَا عُمَرُ قُمْ فَصَلِّ بِالنَّاسِ فَتَقَدَّمَ فَكَبَّرَ، فَلَمَّا سَمِعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَوْتَهُ وَكَانَ عُمَرُ رَجُلًا مُجْهِرًا، قَالَ: فَأَيْنَ أَبُو بَكْرٍ؟ يَأْبَى اللَّهُ ذَلِكَ وَالْمُسْلِمُونَ يَأْبَى اللَّهُ ذَلِكَ وَالْمُسْلِمُونَ، فَبَعَثَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ فَجَاءَ بَعْدَ أَنْ صَلَّى عُمَرُ تِلْكَ الصَّلَاةَ، فَصَلَّى بِالنَّاسِ".
حارث بن ہشام عبداللہ بن زمعہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری سخت ہوئی اور میں آپ ہی کے پاس مسلمانوں کی ایک جماعت کے ساتھ تھا تو بلال رضی اللہ عنہ نے آپ کو نماز کے لیے بلایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی سے کہو جو لوگوں کو نماز پڑھائے عبداللہ بن زمعہ نکلے تو دیکھا کہ لوگوں میں عمر رضی اللہ عنہ موجود ہیں، ابوبکر رضی اللہ عنہ موقع پر موجود نہ تھے، میں نے کہا: اے عمر! اٹھیے نماز پڑھائیے، تو وہ بڑھے اور انہوں نے اللہ اکبر کہا، وہ بلند آواز شخص تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ان کی آواز سنی تو فرمایا: ابوبکر کہاں ہیں؟ اللہ کو یہ پسند نہیں اور مسلمانوں کو بھی، اللہ کو یہ پسند نہیں اور مسلمانوں کو بھی تو ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بلا بھیجا، وہ عمر کے نماز پڑھا چکنے کے بعد آئے تو انہوں نے لوگوں کو (پھر سے) نماز پڑھائی ۱؎۔ [سنن ابي داود/كِتَاب السُّنَّةِ/حدیث: 4660]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 5295)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/322) (حسن صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح

حدیث نمبر: 4661
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي مُوسَى بْنُ يَعْقُوبَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَاق، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ زَمْعَةَ أَخْبَرَهُ بِهَذَا الْخَبَرِ، قَالَ: لَمَّا سَمِعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَوْتَ عُمَرَ، قَالَ ابْنُ زَمْعَةَ:" خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَطْلَعَ رَأْسَهُ مِنْ حُجْرَتِهِ، ثُمَّ قَالَ: لَا لَا لَا لِيُصَلِّ لِلنَّاسِ ابْنُ أَبِي قُحَافَةَ، يَقُولُ ذَلِكَ مُغْضَبًا".
عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ سے روایت ہے کہ عبداللہ بن زمعہ رضی اللہ عنہ نے انہیں یہی بات بتائی اور کہا: جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر رضی اللہ عنہ کی آواز سنی تو آپ نکلے یہاں تک کہ حجرے سے اپنا سر نکالا، پھر فرمایا: نہیں، نہیں، نہیں، ابن ابی قحافہ (یعنی ابوبکر) کو چاہیئے کہ لوگوں کو نماز پڑھائیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ غصے میں فرما رہے تھے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب السُّنَّةِ/حدیث: 4661]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏انظر ماقبلہ، (تحفة الأشراف: 5295) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

13. باب مَا يَدُلُّ عَلَى تَرْكِ الْكَلاَمِ فِي الْفِتْنَةِ
13. باب: فتنہ و فساد کے وقت خاموش رہنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 4662
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، وَمُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ أَبِي بَكْرَةَ. ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيِّ، قَالَ: حَدَّثَنِي الْأَشْعَثُ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ أَبِي بَكْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ:" إِنَّ ابْنِي هَذَا سَيِّدٌ، وَإِنِّي أَرْجُو أَنْ يُصْلِحَ اللَّهُ بِهِ بَيْنَ فِئَتَيْنِ مِنْ أُمَّتِي، وَقَالَ فِي حَدِيثِ حَمَّادٍ: وَلَعَلَّ اللَّهَ أَنْ يُصْلِحَ بِهِ بَيْنَ فِئَتَيْنِ مِنَ الْمُسْلِمِينَ عَظِيمَتَيْنِ".
ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسن بن علی رضی اللہ عنہما کو فرمایا: میرا یہ بیٹا سردار ہے اور مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے میری امت کے دو گروہوں میں صلح کرائے گا۔ حماد کی روایت میں ہے: شاید اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے مسلمانوں کے دو بڑے گروہوں میں صلح کرائے گا ۱؎۔ [سنن ابي داود/كِتَاب السُّنَّةِ/حدیث: 4662]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الصلح 9 (27004)، المناقب 25 (3629)، فضائل الصحابة 22 (3746)، الفتن 20 (7109)، سنن الترمذی/المناقب 31 (3773)، سنن النسائی/الجمعة 27 (1411)، (تحفة الأشراف: 11658)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5 /37، 44، 49، 51) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 4663
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ، أَخْبَرَنَا هِشَامٌ، عَنْ مُحَمَّدٍ، قَالَ: قَالَ حُذَيْفَةُ" مَا أَحَدٌ مِنَ النَّاسِ تُدْرِكُهُ الْفِتْنَةُ، إِلَّا أَنَا أَخَافُهَا عَلَيْهِ إِلَّا مُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَةَ، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: لَا تَضُرُّكَ الْفِتْنَةُ".
محمد بن سیرین کہتے ہیں کہ حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا: لوگوں میں کوئی ایسا نہیں جس کو فتنہ پہنچے اور مجھے اس کے فتنے میں پڑنے کا خوف نہ ہو، سوائے محمد بن مسلمہ کے کیونکہ ان کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہیں کوئی فتنہ ضرر نہ پہنچائے گا۔ [سنن ابي داود/كِتَاب السُّنَّةِ/حدیث: 4663]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 3381) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 4664
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مَرْزُوقٍ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنِ الْأَشْعَثِ بْنِ سُلَيْمٍ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ ثَعْلَبَةَ بْنِ ضُبَيْعَةَ، قَالَ:" دَخَلْنَا عَلَى حُذَيْفَةَ، فَقَالَ: إِنِّي لَأَعْرِفُ رَجُلًا لَا تَضُرُّهُ الْفِتَنُ شَيْئًا، قَالَ: فَخَرَجْنَا فَإِذَا فُسْطَاطٌ مَضْرُوبٌ، فَدَخَلْنَا فَإِذَا فِيهِ مُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَةَ فَسَأَلْنَاهُ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ: مَا أُرِيدُ أَنْ يَشْتَمِلَ عَلَيَّ شَيْءٌ مِنْ أَمْصَارِكُمْ حَتَّى تَنْجَلِيَ عَمَّا انْجَلَتْ".
ثعلبہ بن ضبیعہ کہتے ہیں کہ ہم حذیفہ رضی اللہ عنہ کے پاس گئے تو آپ نے کہا: میں ایک ایسے شخص کو جانتا ہوں جسے فتنے کچھ بھی ضرر نہ پہنچا سکیں گے، ہم نکلے تو دیکھا کہ ایک خیمہ نصب ہے، ہم اندر گئے تو اس میں محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ ملے، ہم نے ان سے پوچھا (کہ آبادی چھوڑ کر خیمہ میں کیوں ہیں؟) تو فرمایا: میں نہیں چاہتا کہ تمہارے شہروں کی کوئی برائی مجھ سے چمٹے، اس لیے جب تک فتنہ فرو نہ ہو جائے اور معاملہ واضح اور صاف نہ ہو جائے شہر کو نہیں جاؤں گا۔ [سنن ابي داود/كِتَاب السُّنَّةِ/حدیث: 4664]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 3381) (صحیح)» ‏‏‏‏ (اس کے راوی ثعلبہ یا ضبیعہ مجہول ہیں لیکن سابقہ حدیث کی تقویت سے صحیح ہے)

قال الشيخ الألباني: صحيح لغيره

حدیث نمبر: 4665
ضبیعہ بن حصین ثعلبی سے بھی اسی مفہوم کی حدیث مروی ہے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب السُّنَّةِ/حدیث: 4665]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 3381) (صحیح)» ‏‏‏‏ (ثعلبہ بن ضبیعہ اور ضبیعہ بن حصین ایک ہی ہیں جو مجہول ہیں اور سابقہ حدیث سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح ہے)


Previous    3    4    5    6    7    8    9    10    11    Next