الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ابن ماجه کل احادیث (4341)
حدیث نمبر سے تلاش:

سنن ابن ماجه
كتاب الزهد
کتاب: زہد و ورع اور تقوی کے فضائل و مسائل
حدیث نمبر: 4150
حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ , حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ , عَنْ الْأَعْمَشِ , عَنْ أَبِي صَالِحٍ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , قَالَ: أُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا بِطَعَامٍ سُخْنٍ , فَأَكَلَ فَلَمَّا فَرَغَ , قَالَ:" الْحَمْدُ لِلَّهِ مَا دَخَلَ بَطْنِي طَعَامٌ سُخْنٌ مُنْذُ كَذَا وَكَذَا".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تازہ گرم کھانا لایا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کھایا، جب فارغ ہوئے تو فرمایا: الحمدللہ میرے پیٹ میں اتنے اور اتنے دن سے گرم تازہ کھانا نہیں گیا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4150]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 12445، ومصباح الزجاجة: 1474) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (سند میں سوید ضعیف راوی ہے، اور اعمش مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے)

قال الشيخ الألباني: ضعيف

11. بَابُ: ضِجَاعِ آلِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
11. باب: آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بچھونے کا بیان۔
حدیث نمبر: 4151
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ , حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ , وَأَبُو خَالِدٍ , عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ:" كَانَ ضِجَاعُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَدَمًا حَشْوُهُ لِيفٌ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بچھونا چمڑے کا تھا، اور اس کے اندر کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4151]
تخریج الحدیث: «حدیث أبي خالد أخرجہ: سنن ابی داود/اللباس 45 (4146)، (تحفة الأشراف: 16951)، وحدیث عبد اللہ بن نمیر أخرجہ: صحیح مسلم/اللباس 17 (2082)، (تحفة الأشراف: 16984)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الرقاق 16 (6456)، سنن الترمذی/اللباس 27 (1761)، صفة القیامة 32 (2469)، مسند احمد (6/48، 56، 73، 108، 207) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 4152
حَدَّثَنَا وَاصِلُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى , حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ , عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ عَلِيٍّ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَتَى عَلِيًّا , وَفَاطِمَةَ وَهُمَا فِي خَمِيلٍ لَهُمَا , وَالْخَمِيلُ: الْقَطِيفَةُ الْبَيْضَاءُ مِنَ الصُّوفِ , قَدْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَهَّزَهُمَا بِهَا , وَوِسَادَةٍ مَحْشُوَّةٍ إِذْخِرًا وَقِرْبَةٍ".
علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علی اور فاطمہ (رضی اللہ عنہما) کے پاس آئے، وہ دونوں اپنی «خمیل» (سفید اونی چادر کو کہتے ہیں) اوڑھے ہوئے تھے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کو یہ چادر تھی، اذخر کی گھاس بھرا ایک تکیہ اور پانی رکھنے کی ایک مشک شادی کے وقت دی تھی۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4152]
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/النکاح 81 (3386)، (تحفة الأشراف: 10104)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/84، 93، 108) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 4153
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ , حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ يُونُسَ , حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ , حَدَّثَنِي سِمَاكٌ الْحَنَفِيُّ أَبُو زُمَيْلٍ , حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْعَبَّاسِ , حَدَّثَنِي عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ , قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ عَلَى حَصِيرٍ , قَالَ: فَجَلَسْتُ , فَإِذَا عَلَيْهِ إِزَارٌ وَلَيْسَ عَلَيْهِ غَيْرُهُ , وَإِذَا الْحَصِيرُ قَدْ أَثَّرَ فِي جَنْبهِ , وَإِذَا أَنَا بِقَبْضَةٍ مِنْ شَعِيرٍ نَحْوِ الصَّاعِ , وَقَرَظٍ فِي نَاحِيَةٍ فِي الْغُرْفَةِ , وَإِذَا إِهَابٌ مُعَلَّقٌ فَابْتَدَرَتْ عَيْنَايَ , فَقَالَ:" مَا يُبْكِيكَ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ" , فَقُلْتُ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ , وَمَالِي لَا أَبْكِي وَهَذَا الْحَصِيرُ قَدْ أَثَّرَ فِي جَنْبِكَ , وَهَذِهِ خِزَانَتُكَ لَا أَرَى فِيهَا إِلَّا مَا أَرَى , وَذَلِكَ كِسْرَى وَقَيْصَرُ فِي الثِّمَارِ وَالْأَنْهَارِ , وَأَنْتَ نَبِيُّ اللَّهِ وَصَفْوَتُهُ وَهَذِهِ خِزَانَتُكَ , قَالَ:" يَا ابْنَ الْخَطَّابِ , أَلَا تَرْضَى أَنْ تَكُونَ لَنَا الْآخِرَةُ وَلَهُمُ الدُّنْيَا؟" , قُلْتُ: بَلَى.
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ ایک چٹائی پر لیٹے ہوئے تھے، میں آ کر بیٹھ گیا، تو کیا دیکھتا ہوں کہ آپ ایک تہہ بند پہنے ہوئے ہیں، اس کے علاوہ کوئی چیز آپ کے جسم پر نہیں ہے، چٹائی سے آپ کے پہلو پر نشان پڑ گئے تھے، اور میں نے دیکھا کہ ایک صاع کے بقدر تھوڑا سا جو تھا، کمرہ کے ایک کونے میں ببول کے پتے تھے، اور ایک مشک لٹک رہی تھی، میری آنکھیں بھر آئیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابن خطاب: تم کیوں رو رہے ہو؟ میں نے کہا: اے اللہ کے نبی! میں کیوں نہ روؤں، اس چٹائی سے آپ کے پہلو پر نشان پڑ گئے ہیں، یہ آپ کا اثاثہ (پونجی) ہے جس میں بس یہ یہ چیزیں نظر آ رہی ہیں، اور وہ قیصر و کسریٰ پھلوں اور نہروں میں آرام سے رہ رہے ہیں، آپ تو اللہ تعالیٰ کے نبی اور اس کے برگزیدہ ہیں، اور یہ آپ کی سارا اثاثہ (پونجی) ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابن خطاب! کیا تم اس پر راضی نہیں ہو کہ ہمارے لیے یہ سب کچھ آخرت میں ہو، اور ان کے لیے دنیا میں؟ میں نے عرض کیا: کیوں نہیں ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4153]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 10500) (حسن)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: حسن

حدیث نمبر: 4154
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ طَرِيفٍ , وَإِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ حَبِيبٍ , قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ , عَنْ مُجَالِدٍ , عَنْ عَامِرٍ , عَنْ الْحَارِثِ , عَنْ عَلِيٍّ , قَالَ:" أُهْدِيَتِ ابْنَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَيَّ , فَمَا كَانَ فِرَاشُنَا , لَيْلَةَ أُهْدِيَتْ , إِلَّا مَسْكَ كَبْشٍ".
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی (فاطمہ) میرے پاس رخصت کی گئیں تو رخصتی کی رات ہمارا بستر صرف بھیڑ کی ایک کھال تھی۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4154]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 10037، ومصباح الزجاجة: 1475) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (سند میں حارث اعور اور مجالد دونوں ضعیف ہیں)

قال الشيخ الألباني: ضعيف

12. بَابُ: مَعِيشَةِ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
12. باب: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی معیشت کا بیان۔
حدیث نمبر: 4155
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ , وَأَبُو كُرَيْبٍ , قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ , عَنْ زَائِدَةَ , عَنْ الْأَعْمَشِ , عَنْ شَقِيقٍ , عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ , قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَأْمُرُ بِالصَّدَقَةِ , فَيَنْطَلِقُ أَحَدُنَا يَتَحَامَلُ حَتَّى يَجِيءَ بِالْمُدِّ , وَإِنَّ لِأَحَدِهِمُ الْيَوْمَ مِائَةَ أَلْفٍ" , قَالَ شَقِيقٌ: كَأَنَّهُ يُعَرِّضُ بِنَفْسِهِ.
ابومسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صدقہ و خیرات کا حکم دیتے تو ہم میں سے ایک شخص حمالی کرنے جاتا، یہاں تک کہ ایک مد کما کر لاتا، (اور صدقہ کر دیتا) اور آج ان میں سے ایک کے پاس ایک لاکھ نقد موجود ہے، ابووائل شقیق کہتے ہیں: گویا کہ وہ اپنی ہی طرف اشارہ کر رہے تھے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4155]
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الزکاة 9 (1415، 1416)، الإجارة 13 (2273)، تفسیر التوبة 11 (4668، 4669)، صحیح مسلم/الزکاة 21 (1018)، سنن النسائی/الزکاة 49 (2530)، (تحفة الأشراف: 9991)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/273) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 4156
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ , حَدَّثَنَا وَكِيعٌ , عَنْ أَبِي نَعَامَةَ , سَمِعَهُ مِنْ خَالِدِ بْنِ عُمَيْرٍ , قَالَ: خَطَبَنَا عُتْبَةُ بْنُ غَزْوَانَ , عَلَى الْمِنْبَرِ , فَقَالَ:" لَقَدْ رَأَيْتُنِي سَابِعَ سَبْعَةٍ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , مَا لَنَا طَعَامٌ نَأْكُلُهُ إِلَّا وَرَقُ الشَّجَرِ , حَتَّى قَرِحَتْ أَشْدَاقُنَا".
خالد بن عمیر کہتے ہیں کہ عتبہ بن غزوان رضی اللہ عنہ نے ہمیں منبر پر خطبہ سنایا اور کہا: میں نے وہ وقت دیکھا ہے جب میں ان سات آدمیوں میں سے ایک تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، ہمارے پاس درخت کے پتوں کے سوا کھانے کو کچھ نہ ہوتا تھا، یہاں تک کہ (اس کے پتے کھانے سے) ہمارے مسوڑھے زخمی ہو جاتے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4156]
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الزہد 2967)، سنن الترمذی/صفة جہنم 2 (2575)، (تحفة الأشراف: 9757)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/174، 5/61) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 4157
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ , حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ , عَنْ شُعْبَةَ , عَنْ عَبَّاسٍ الْجُرَيْرِيِّ , قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا عُثْمَانَ يُحَدِّثُ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , أَنَّهُمْ أَصَابَهُمْ جُوعٌ وَهُمْ سَبْعَةٌ , قَالَ:" فَأَعْطَانِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَبْعَ تَمَرَاتٍ , لِكُلِّ إِنْسَانٍ تَمْرَةٌ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان کو بھوک لگی اور وہ سات آدمی تھے پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے سات کھجوریں دیں، ہر ایک کے لیے ایک ایک کھجور تھی ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4157]
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأطعمة 23 (5411)، سنن الترمذی/صفة جہنم 34 (2477)، (تحفة الأشراف: 2474)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/298، 353، 415) (صحیح)» ‏‏‏‏ (حدیث میں لكل «إنسان تمرة» کا لفظ شاذ ہے، اس لئے کہ صحیح حدیث میں «فأعطاني لكل إنسان سبع تمرات» آیا ہے کمافی صحیح البخاری)

قال الشيخ الألباني: صحيح دون قوله لكل إنسان تمرة

حدیث نمبر: 4158
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ أَبِي عُمَرَ الْعَدَنِيُّ , حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ , عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو , عَنْ يَحْيَى بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حَاطِبٍ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ بْنِ الْعَوَّامِ , عَنْ أَبِيهِ , قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ ثُمَّ لَتُسْأَلُنَّ يَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِيمِ سورة التكاثر آية 8 , قَالَ الزُّبَيْرُ:" وَأَيُّ نَعِيمٍ نُسْأَلُ عَنْهُ , وَإِنَّمَا هُوَ الْأَسْوَدَانِ التَّمْرُ وَالْمَاءُ" , قَالَ: أَمَا إِنَّهُ سَيَكُونُ.
زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب آیت: «ثم لتسألن يومئذ عن النعيم» پھر تم سے اس دن نعمتوں کے بارے میں پوچھا جائے گا (سورة اتكاثر: 8) نازل ہوئی، تو انہوں نے کہا: کن نعمتوں کے بارے میں ہم سے پوچھا جائے گا؟ یہاں تو صرف دو کالی چیزیں: پانی اور کھجور ہی میسر ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عنقریب نعمتیں حاصل ہوں گی۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4158]
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/تفسیر القرآن 88 (3356)، (تحفة الأشراف: 3625)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/163) (حسن)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: حسن

حدیث نمبر: 4159
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ , حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ , عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ , عَنْ وَهْبِ بْنِ كَيْسَانَ , عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ , قَالَ:" بَعَثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَنَحْنُ ثَلَاثُ مِائَةٍ , نَحْمِلُ أَزْوَادَنَا عَلَى رِقَابِنَا , فَفَنِيَ أَزْوَادُنَا حَتَّى كَانَ يَكُونُ لِلرَّجُلِ مِنَّا تَمْرَةٌ , فَقِيلَ: يَا أَبَا عَبْدِ اللَّهِ , وَأَيْنَ تَقَعُ التَّمْرَةُ مِنَ الرَّجُلِ؟ فَقَالَ: لَقَدْ وَجَدْنَا فَقْدَهَا حِينَ فَقَدْنَاهَا , وَأَتَيْنَا الْبَحْرَ , فَإِذَا نَحْنُ بِحُوتٍ قَدْ قَذَفَهُ الْبَحْرُ , فَأَكَلْنَا مِنْهُ ثَمَانِيَةَ عَشَرَ يَوْمًا".
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم تین سو آدمیوں کو روانہ کیا، ہم نے اپنے توشے اپنی گردنوں پر لاد رکھے تھے، ہمارا توشہ ختم ہو گیا، یہاں تک کہ ہم میں سے ہر شخص کو ایک کھجور ملتی، کسی نے پوچھا: ابوعبداللہ! ایک کھجور سے آدمی کا کیا ہوتا ہو گا؟ جواب دیا: جب وہ بھی ختم ہو گئی تو ہمیں اس کی قدر معلوم ہوئی، ہم سمندر تک آئے، آخر ہمیں ایک مچھلی ملی جسے سمندر نے باہر پھینک دیا تھا، ہم اس میں سے اٹھارہ دن تک کھاتے رہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4159]
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الشرکة 1 (2483)، الجہاد 124 (2983)، المغازي 65 (4360)، الصید 12 (19493)، صحیح مسلم/الصید 4 (1935)، سنن النسائی/الصید 35 (4356)، (تحفة الأشراف: 3125)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/القیامة 34 (2475)، موطا امام مالک/صفة النبي ﷺ10 (24)، سنن الدارمی/الصید 6 (2055) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح


Previous    2    3    4    5    6    7    8    9    10    Next