الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن نسائي کل احادیث (5761)
حدیث نمبر سے تلاش:

سنن نسائي
كتاب السهو
کتاب: نماز میں سہو کے احکام و مسائل
16. بَابُ: التَّسْبِيحِ فِي الصَّلاَةِ
16. باب: مردوں کے لیے سہو کو بتانے کے لیے نماز میں سبحان اللہ کہنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1210
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْفُضَيْلُ بْنُ عِيَاضٍ، عَنِ الْأَعْمَشِ. ح وَأَنْبَأَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ، عَنْ سُلَيْمَانَ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" التَّسْبِيحُ لِلرِّجَالِ وَالتَّصْفِيقُ لِلنِّسَاءِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سبحان اللہ (کہنا) مردوں کے لیے ہے، اور دستک دینا عورتوں کے لیے ہے۔ [سنن نسائي/كتاب السهو/حدیث: 1210]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 12418)، مسند احمد 2/261، 440، 479 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 1211
أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ , حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ عَوْفٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي مُحَمَّدٌ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" التَّسْبِيحُ لِلرِّجَالِ وَالتَّصْفِيقُ لِلنِّسَاءِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سبحان اللہ کہنا مردوں کے لیے ہے، اور تالی بجانا عورتوں کے لیے ہے۔ [سنن نسائي/كتاب السهو/حدیث: 1211]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 14488)، مسند احمد 2/290، 432، 473، 492، 507 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

17. بَابُ: التَّنَحْنُحِ فِي الصَّلاَةِ
17. باب: نماز میں کھکھارنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1212
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ قُدَامَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنِ الْمُغِيرَةِ، عَنِ الْحَارِثِ الْعُكْلِيِّ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ بْنِ عَمْرِو بْنِ جَرِيرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُجَيٍّ , عَنْ عَلِيٍّ , قَالَ:" كَانَ لِي مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَاعَةٌ آتِيهِ فِيهَا , فَإِذَا أَتَيْتُهُ اسْتَأْذَنْتُ إِنْ وَجَدْتُهُ يُصَلِّي فَتَنَحْنَحَ دَخَلْتُ , وَإِنْ وَجَدْتُهُ فَارِغًا أَذِنَ لِي".
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے میرے لیے ایک گھڑی ایسی مقرر تھی کہ میں اس میں آپ کے پاس آیا کرتا تھا، جب میں آپ کے پاس آتا تو اجازت مانگتا، اگر میں آپ کو نماز پڑھتے ہوئے پاتا تو آپ کھنکھارتے، تو میں اندر داخل ہو جاتا، اگر میں آپ کو خالی پاتا تو آپ مجھے اجازت دیتے۔ [سنن نسائي/كتاب السهو/حدیث: 1212]
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الأدب 17 (3708)، (تحفة الأشراف: 10202)، مسند احمد 1/77، 80، 107، 150 (ضعیف الإسناد) (عبداللہ بن نجی کا علی رضی اللہ عنہ سے سماع نہیں ہے، یعنی سند میں انقطاع ہے)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد

حدیث نمبر: 1213
أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ مُغِيرَةَ، عَنِ الْحَارِثِ الْعُكْلِيِّ، عَنِ ابْنِ نُجَيٍّ , قَالَ: قَالَ عَلِيٌّ:" كَانَ لِي مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَدْخَلَانِ: مَدْخَلٌ بِاللَّيْلِ , وَمَدْخَلٌ بِالنَّهَارِ , فَكُنْتُ إِذَا دَخَلْتُ بِاللَّيْلِ تَنَحْنَحَ لِي".
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس میرے آنے کے دو وقت تھے، ایک رات میں اور ایک دن میں، جب میں رات میں آپ کے پاس آتا (اور آپ نماز وغیرہ میں مشغول ہوتے) تو آپ میرے لیے کھنکھارتے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب السهو/حدیث: 1213]
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 1212 (ضعیف الإسناد) (سند میں انقطاع ہے)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد

حدیث نمبر: 1214
أَخْبَرَنَا الْقَاسِمُ بْنُ زَكَرِيَّا بْنِ دِينَارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي شُرَحْبِيلُ يَعْنِي ابْنَ مُدْرِكٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُجَيٍّ، عَنْ أَبِيهِ , قَالَ: قَالَ لِي عَلِيٌّ:" كَانَتْ لِي مَنْزِلَةٌ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ تَكُنْ لِأَحَدٍ مِنَ الْخَلَائِقِ , فَكُنْتُ آتِيهِ كُلَّ سَحَرٍ , فَأَقُولُ: السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا نَبِيَّ اللَّهِ , فَإِنْ تَنَحْنَحَ انْصَرَفْتُ إِلَى أَهْلِي , وَإِلَّا دَخَلْتُ عَلَيْهِ".
نجی کہتے ہیں کہ مجھ سے علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں میرا ایسا مقام و مرتبہ تھا جو مخلوق میں سے کسی اور کو میسر نہیں تھا، چنانچہ میں آپ کے پاس ہر صبح تڑکے آتا اور کہتا «السلام عليك يا نبي اللہ» اللہ کے نبی! آپ پر سلامتی ہو اگر آپ کھنکھارتے تو میں اپنے گھر واپس لوٹ جاتا، اور نہیں تو میں اندر داخل ہو جاتا۔ [سنن نسائي/كتاب السهو/حدیث: 1214]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 10292)، مسند احمد 1/85 (ضعیف الإسناد) (اس کے راوی ”نجی“ لین الحدیث ہیں)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد

18. بَابُ: الْبُكَاءِ فِي الصَّلاَةِ
18. باب: نماز میں رونے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1215
أَخْبَرَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، عَنْ مُطَرِّفٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ:" أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُصَلِّي وَلِجَوْفِهِ أَزِيزٌ كَأَزِيزِ الْمِرْجَلِ يَعْنِي: يَبْكِي".
عبداللہ بن الشخیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اس وقت آپ نماز پڑھ رہے تھے، اور آپ کے پیٹ سے ایسی آواز آ رہی تھی جیسے ہانڈی ابل رہی ہو یعنی آپ رو رہے تھے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب السهو/حدیث: 1215]
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الصلاة 161 (904)، سنن الترمذی/الشمائل 44 (305)، (تحفة الأشراف: 5347)، مسند احمد 4/25، 26 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

19. بَابُ: لَعْنِ إِبْلِيسَ وَالتَّعَوُّذِ بِاللَّهِ مِنْهُ فِي الصَّلاَةِ
19. باب: نماز میں ابلیس پر لعنت کرنے اور اس کے شر سے اللہ کی پناہ چاہنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1216
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنِ ابْنِ وَهْبٍ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي رَبِيعَةُ بْنُ يَزِيدَ، عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيِّ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، قَالَ: قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي فَسَمِعْنَاهُ , يَقُولُ:" أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْكَ، ثُمَّ قَالَ: أَلْعَنُكَ بِلَعْنَةِ اللَّهِ ثَلَاثًا وَبَسَطَ يَدَهُ كَأَنَّهُ يَتَنَاوَلُ شَيْئًا" , فَلَمَّا فَرَغَ مِنَ الصَّلَاةِ , قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ , قَدْ سَمِعْنَاكَ تَقُولُ فِي الصَّلَاةِ شَيْئًا لَمْ نَسْمَعْكَ تَقُولُهُ قَبْلَ ذَلِكَ , وَرَأَيْنَاكَ بَسَطْتَ يَدَكَ , قَالَ:" إِنَّ عَدُوَّ اللَّهِ إِبْلِيسَ جَاءَ بِشِهَابٍ مِنْ نَارٍ لِيَجْعَلَهُ فِي وَجْهِي , فَقُلْتُ: أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْكَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، ثُمَّ قُلْتُ: أَلْعَنُكَ بِلَعْنَةِ اللَّهِ فَلَمْ يَسْتَأْخِرْ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، ثُمَّ أَرَدْتُ أَنْ آخُذَهُ , وَاللَّهِ لَوْلَا دَعْوَةُ أَخِينَا سُلَيْمَانَ لَأَصْبَحَ مُوثَقًا بِهَا يَلْعَبُ بِهِ وِلْدَانُ أَهْلِ الْمَدِينَةِ".
ابو الدرداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھنے کھڑے ہوئے تو ہم نے آپ کو کہتے سنا: «أعوذ باللہ منك» میں اللہ کی پناہ چاہتا ہوں تجھ سے پھر آپ نے فرمایا: «‏ألعنك بلعنة اللہ» میں تجھ پر اللہ کی لعنت کرتا ہوں تین بار آپ نے ایسا کہا، اور اپنا ہاتھ پھیلایا گویا آپ کوئی چیز پکڑنی چاہ رہے ہیں، جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم نے آپ کو نماز میں ایک ایسی بات کہتے ہوئے سنا جسے ہم نے اس سے پہلے آپ کو کبھی کہتے ہوئے نہیں سنا، نیز ہم نے آپ کو دیکھا کہ آپ اپنا ہاتھ پھیلائے ہوئے ہیں؟ تو آپ نے فرمایا: اللہ کا دشمن ابلیس آگ کا ایک شعلہ لے کر آیا تاکہ اسے میرے چہرے پر ڈال دے، تو میں نے تین بار کہا: میں اللہ کی پناہ چاہتا ہوں تجھ سے، پھر میں نے تین بار کہا: میں تجھ پر اللہ کی لعنت بھیجتا ہوں، پھر بھی وہ پیچھے نہیں ہٹا، تو میں نے ارادہ کیا کہ اس کو پکڑ لوں، اللہ کی قسم! اگر ہمارے بھائی سلیمان (علیہ السلام) کی دعا نہ ہوتی، تو وہ صبح کو اس (کھمبے) سے بندھا ہوا ہوتا، اور اس سے اہل مدینہ کے بچے کھیل کرتے۔ [سنن نسائي/كتاب السهو/حدیث: 1216]
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المساجد 8 (542)، (تحفة الأشراف: 10940) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

20. بَابُ: الْكَلاَمِ فِي الصَّلاَةِ
20. باب: نماز میں بات کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1217
أَخْبَرَنَا كَثِيرُ بْنُ عُبَيْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَرْبٍ، عَنِ الزُّبَيْدِيِّ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ , أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ , قَالَ: قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الصَّلَاةِ وَقُمْنَا مَعَهُ , فَقَالَ أَعْرَابِيٌّ وَهُوَ فِي الصَّلَاةِ: اللَّهُمَّ ارْحَمْنِي وَمُحَمَّدًا وَلَا تَرْحَمْ مَعَنَا أَحَدًا , فَلَمَّا سَلَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ لِلْأَعْرَابِيِّ:" لَقَدْ تَحَجَّرْتَ وَاسِعًا يُرِيدُ رَحْمَةَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے کھڑے ہوئے، آپ کے ساتھ ہم (بھی) کھڑے ہوئے، تو ایک اعرابی نے کہا (اور وہ نماز میں مشغول تھا): «اللہم ارحمني ومحمدا ولا ترحم معنا أحدا» اے اللہ! میرے اوپر اور محمد پر رحم فرما، اور ہمارے ساتھ کسی اور پر رحم نہ فرما ۱؎ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا تو آپ نے اعرابی سے فرمایا: تو نے ایک کشادہ چیز کو تنگ کر دیا، آپ اس سے اللہ کی رحمت مراد لے رہے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب السهو/حدیث: 1217]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 15267) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 1218
أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الزُّهْرِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ , قَالَ: أَحْفَظُهُ مِنَ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سَعِيدٌ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ أَعْرَابِيًّا دَخَلَ الْمَسْجِدَ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ، ثُمّ قَالَ: اللَّهُمَّ ارْحَمْنِي وَمُحَمَّدًا وَلَا تَرْحَمْ مَعَنَا أَحَدًا , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَقَدْ تَحَجَّرْتَ وَاسِعًا".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک اعرابی مسجد میں داخل ہوا، اور اس نے دو رکعت نماز پڑھی، پھر اس نے (نماز ہی میں) کہا: «اللہم ارحمني ومحمدا ولا ترحم معنا أحدا» اے اللہ! مجھ پر اور محمد پر رحم فرما، اور ہمارے ساتھ کسی اور پر رحم نہ فرما تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو نے ایک کشادہ چیز کو تنگ کر دیا۔ [سنن نسائي/كتاب السهو/حدیث: 1218]
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الطہارة 138 (380)، سنن الترمذی/الطہارة 112 (147)، مسند احمد 2/239، (تحفة الأشراف: 13139) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 1219
أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ هِلَالِ بْنِ أَبِي مَيْمُونَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَطَاءُ بْنُ يَسَارٍ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ الْحَكَمِ السَّلَمِيِّ , قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِنَّا حَدِيثُ عَهْدٍ بِجَاهِلِيَّةٍ فَجَاءَ اللَّهُ بِالْإِسْلَامِ , وَإِنَّ رِجَالًا مِنَّا يَتَطَيَّرُونَ , قَالَ:" ذَاكَ شَيْءٌ يَجِدُونَهُ فِي صُدُورِهِمْ , فَلَا يَصُدَّنَّهُمْ" , وَرِجَالٌ مِنَّا يَأْتُونَ الْكُهَّانَ , قَالَ:" فَلَا تَأْتُوهُمْ" , قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , وَرِجَالٌ مِنَّا يَخُطُّونَ , قَالَ:" كَانَ نَبِيٌّ مِنَ الْأَنْبِيَاءِ يَخُطُّ فَمَنْ وَافَقَ خَطُّهُ فَذَاكَ".
معاویہ بن حکم سلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہمارا جاہلیت کا زمانہ ابھی ابھی گزرا ہے، پھر اللہ تعالیٰ اسلام کو لے آیا، ہم میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جو برا شگون لیتے ہیں! آپ نے فرمایا: یہ محض ایک خیال ہے جسے لوگ اپنے دلوں میں پاتے ہیں، تو یہ ان کے آڑے نہ آئے ۱؎ معاویہ بن حکم نے کہا: اور ہم میں بعض لوگ ایسے ہیں جو کاہنوں کے پاس جاتے ہیں! تو آپ نے فرمایا: تم لوگ ان کے پاس نہ جایا کرو، پھر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! اور ہم میں سے کچھ لوگ (زمین پر یا کاغذ پر آئندہ کی بات بتانے کے لیے) لکیریں کھینچتے ہیں! آپ نے فرمایا: نبیوں میں سے ایک نبی بھی لکیریں کھینچتے تھے، تو جس شخص کی لکیر ان کے موافق ہو تو وہ صحیح ہے۔ معاویہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھ ہی رہا تھا کہ اسی دوران اچانک قوم میں سے ایک آدمی کو چھینک آ گئی، تو میں نے (زور سے) «يرحمك اللہ» اللہ تجھ پر رحم کرے کہا، تو لوگ مجھے گھور کر دیکھنے لگے، میں نے کہا: «واثكل أمياه» میری ماں مجھ پر روئے، تم لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ تم مجھے گھور رہے ہو؟ لوگوں نے (مجھے خاموش کرنے کے لیے) اپنے ہاتھوں سے اپنی رانوں کو تھپتھپایا، جب میں نے انہیں دیکھا کہ وہ مجھے خاموش کر رہے ہیں تو میں خاموش ہو گیا، پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو آپ نے مجھے بلایا، میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں، نہ تو آپ نے مجھے مارا، نہ ہی مجھے ڈانٹا، اور نہ ہی برا بھلا کہا، میں نے اس سے پہلے اور اس کے بعد آپ سے اچھا اور بہتر معلم کسی کو نہیں دیکھا، آپ نے فرمایا: ہماری اس نماز میں لوگوں کی گفتگو میں سے کوئی چیز درست نہیں، نماز تو صرف تسبیح، تکبیر اور قرأت قرآن کا نام ہے، پھر میں اپنی بکریوں کی طرف آیا جنہیں میری باندی احد پہاڑ اور جوانیہ ۲؎ میں چرا رہی تھی، میں (وہاں) آیا تو میں نے پایا کہ بھیڑیا ان میں سے ایک بکری اٹھا لے گیا ہے، میں (بھی) بنو آدم ہی میں سے ایک فرد ہوں، مجھے (بھی) غصہ آتا ہے جیسے انہیں آتا ہے، چنانچہ میں نے اسے ایک چانٹا مارا، پھر میں لوٹ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، میں نے آپ کو اس واقعہ کی خبر دی، تو آپ نے مجھ پر اس کی سنگینی واضح کی، تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا میں اس کو آزاد نہ کر دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے بلاؤ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا: اللہ کہاں ہے؟ اس نے جواب دیا: آسمان کے اوپر، آپ نے پوچھا: میں کون ہوں؟ اس نے کہا: آپ اللہ کے رسول ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ مومنہ ہے، تو تم اسے آزاد کر دو۔ [سنن نسائي/كتاب السهو/حدیث: 1219]
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المساجد 7 (537)، سنن ابی داود/الصلاة 171 (930)، مسند احمد 5/447، (تحفة الأشراف: 11378)، وھو مختصراً والحدیث عند: صحیح مسلم/السلام 35 (537)، سنن ابی داود/الأیمان والنذور 19 (3282)، الطب 23 (3909)، موطا امام مالک/العتق 6 (8)، مسند احمد 5/448، 449، سنن الدارمی/الصلاة 177 (1543، 1544) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح


Previous    1    2    3    4    5    6    7    8    Next