الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ترمذي کل احادیث (3956)
حدیث نمبر سے تلاش:

سنن ترمذي
كتاب الأحكام عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے احکامات اور فیصلے
حدیث نمبر: 1380M
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ قَيْسٍ الْمَأْرِبِيُّ , بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَهُ الْمَأْرِبُ نَاحِيَةٌ مِنْ الْيَمَنِ. قَالَ: وَفِي الْبَاب , عَنْ وَائِلٍ , وَأَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبْيَضَ حَدِيثٌ غَرِيبٌ , وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ , فِي الْقَطَائِعِ يَرَوْنَ جَائِزًا أَنْ يُقْطِعَ الْإِمَامُ لِمَنْ رَأَى ذَلِكَ.
ہم سے محمد بن یحییٰ ابن ابی عمرو نے بیان کیا وہ کہتے ہیں کہ ہم سے محمد بن یحییٰ بن قیس ماربی نے اسی سند سے اسی جیسی حدیث بیان کی،
۴- مارب یمن کا ایک خطہٰ ہے اور اسی کی طرف محمد بن یحییٰ ماربی منسوب ہیں،
۵- اس باب میں وائل اور اسماء بنت ابوبکر سے بھی روایت ہے،
۶- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کا جاگیر کے سلسلے میں اسی حدیث پر عمل ہے، یہ لوگ امام کے لیے جائز سمجھتے ہیں کہ وہ جس کے لیے مناسب سمجھے اسے جاگیر دے۔ [سنن ترمذي/كتاب الأحكام عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1380M]
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (حسن) (شاہد کی بنا پر حسن لغیرہ ہے کما تقدم)»

قال الشيخ الألباني: حسن، ابن ماجة (2475)

حدیث نمبر: 1381
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ , حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ , عَنْ سِمَاكٍ , قَال: سَمِعْتُ عَلْقَمَةَ بْنَ وَائِلٍ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِيهِ , " أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَقْطَعَهُ أَرْضًا بِحَضْرَمَوْتَ ". قَالَ مَحْمُودٌ: أَخْبَرَنَا النَّضْرُ , عَنْ شُعْبَةَ , وَزَادَ فِيهِ: وَبَعَثَ لَهُ مُعَاوِيَةَ " لِيُقْطِعَهَا إِيَّاهُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
وائل بن حجر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حضر موت میں ایک زمین بطور جاگیر دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاویہ رضی الله عنہ کو بھیجا تاکہ وہ زمین انہیں بطور جاگیر دے دیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الأحكام عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1381]
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الخراج 36 (3058، 3059)، (تحفة الأشراف: 11773)، و مسند احمد (3996)، و سنن الدارمی/البیوع 66 (2651) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح التعليق على الروضة الندية (2 / 137)

40. باب مَا جَاءَ فِي فَضْلِ الْغَرْسِ
40. باب: درخت لگانے کی فضیلت۔
حدیث نمبر: 1382
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ , حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ قَتَادَةَ , عَنْ أَنَسٍ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَغْرِسُ غَرْسًا , أَوْ يَزْرَعُ زَرْعًا , فَيَأْكُلُ مِنْهُ إِنْسَانٌ , أَوْ طَيْرٌ , أَوْ بَهِيمَةٌ , إِلَّا كَانَتْ لَهُ صَدَقَةٌ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب , عَنْ أَبِي أَيُّوبَ , وَجَابِرٍ , وَأُمِّ مُبَشِّرٍ , وَزَيْدِ بْنِ خَالِدٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو بھی مسلمان کوئی درخت لگاتا ہے یا فصل بوتا ہے اور اس میں سے انسان یا پرند یا چرند کھاتا ہے تو وہ اس کے لیے صدقہ ہوتا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- انس رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ابوایوب، جابر، ام مبشر اور زید بن خالد رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الأحكام عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1382]
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الحرث المزارعة 1 (2320)، والأدب 27 (6012)، صحیح مسلم/المساقاة 2 (البیوع 23) (1553)، (تحفة الأشراف: 1431)، و مسند احمد (3/147، 192، 229، 243) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: **، الصحيحة (7)

41. باب مَا ذُكِرَ فِي الْمُزَارَعَةِ
41. باب: مزارعت کا بیان۔
حدیث نمبر: 1383
حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ , أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ , عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ , عَنْ نَافِعٍ , عَنْ ابْنِ عُمَرَ , " أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَلَ أَهْلَ خَيْبَرَ بِشَطْرِ مَا يَخْرُجُ مِنْهَا مِنْ ثَمَرٍ أَوْ زَرْعٍ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب , عَنْ أَنَسٍ , وَابْنِ عَبَّاسٍ , وَزَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ , وَجَابِرٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ , وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ , لَمْ يَرَوْا بِالْمُزَارَعَةِ بَأْسًا عَلَى النِّصْفِ وَالثُّلُثِ وَالرُّبُعِ , وَاخْتَارَ بَعْضُهُمْ أَنْ يَكُونَ الْبَذْرُ مِنْ رَبِّ الْأَرْضِ , وَهُوَ قَوْلُ: أَحْمَدَ , وَإِسْحَاق , وَكَرِهَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ الْمُزَارَعَةَ بِالثُّلُثِ وَالرُّبُعِ , وَلَمْ يَرَوْا بِمُسَاقَاةِ النَّخِيلِ بِالثُّلُثِ وَالرُّبُعِ بَأْسًا , وَهُوَ قَوْلُ: مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ , وَالشَّافِعِيِّ , وَلَمْ يَرَ بَعْضُهُمْ أَنْ يَصِحَّ شَيْءٌ مِنَ الْمُزَارَعَةِ , إِلَّا أَنْ يَسْتَأْجِرَ الْأَرْضَ بِالذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر والوں کے ساتھ خیبر کی زمین سے جو بھی پھل یا غلہ حاصل ہو گا اس کے آدھے پر معاملہ کیا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں انس، ابن عباس، زید بن ثابت اور جابر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ یہ لوگ آدھے، تہائی یا چوتھائی کی شرط پر مزارعت کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے،
۴- اور بعض اہل علم نے یہ اختیار کیا ہے کہ بیج زمین والا دے گا، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی یہی قول ہے،
۵- بعض اہل علم نے تہائی یا چوتھائی کی شرط پر مزارعت کو مکروہ سمجھا ہے، لیکن وہ تہائی یا چوتھائی کی شرط پر کھجور کے درختوں کی سینچائی کرانے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے ہیں۔ مالک بن انس اور شافعی کا یہی قول ہے،
۶- بعض لوگ مطلقًا مزارعت کو درست نہیں سمجھتے البتہ سونے یا چاندی (نقدی) کے عوض کرایہ پر زمین لینے کو درست سمجھتے ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الأحكام عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1383]
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الحرث 8 (2328)، 9 (2329)، صحیح مسلم/المساقاة 1 (البیوع 22)، (1551)، سنن ابی داود/ البیوع 35 (3408)، سنن النسائی/الأیمان والمزارعة 46 (3961، 3962)، سنن ابن ماجہ/الرہون 14 (3467)، (تحفة الأشراف: 8138)، و مسند احمد (2/17، 22، 37) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2467)

42. باب مِنَ الْمُزَارَعَةِ
42. باب: مزارعت ہی سے متعلق ایک اور باب۔
حدیث نمبر: 1384
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ , حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ أَبِي حُصَيْنٍ , عَنْ مُجَاهِدٍ , عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ , قَالَ: نَهَانَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَمْرٍ كَانَ لَنَا نَافِعًا , إِذَا كَانَتْ لِأَحَدِنَا أَرْضٌ , أَنْ يُعْطِيَهَا بِبَعْضِ خَرَاجِهَا , أَوْ بِدَرَاهِمَ , وَقَالَ: " إِذَا كَانَتْ لِأَحَدِكُمْ أَرْضٌ , فَلْيَمْنَحْهَا أَخَاهُ , أَوْ لِيَزْرَعْهَا ".
رافع بن خدیج رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک ایسے کام سے منع فرما دیا جو ہمارے لیے مفید تھا، وہ یہ کہ جب ہم میں سے کسی کے پاس زمین ہوتی تو وہ اس کو (زراعت کے لیے) کچھ پیداوار یا روپیوں کے عوض دے دیتا۔ آپ نے فرمایا: جب تم میں سے کسی کے پاس زمین ہو تو وہ اپنے بھائی کو (مفت) دیدے۔ یا خود زراعت کرے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الأحكام عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1384]
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/المزارعة 2 (3899)، (تحفة الأشراف: 3578)، (وانظر أیضا: أحادیث النسائي من الأرقام: 3893- إلی -3903) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح - لكن ذكر الدراهم شاذ -، الإرواء (5 / 298 - 300) ، غاية المرام (355)

حدیث نمبر: 1385
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بنُ غَيْلَانَ , أَخْبَرنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى السِّينَانيُّ , أَخْبَرنَا شَرِيك , عَنْ شُعْبَةَ , عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ , عَنْ طَاوُسٍ , عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ , " أن رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يُحَرِّمْ الْمُزَارَعَةَ , وَلَكِنْ أَمَرَ أَنْ يَرفْقَ بَعْضُهُمْ بِبَعْضٍ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ , وحَدِيثٌ رَافِعٍ فِيِه اضْطِرابٌ , يُروى هَذَا الْحَدِيثٌ , عَنْ رَافِعِ بْنِ خَديِجٍ , عَنْ عُمُومَتِه , ويُروى عَنْهُ , عَنْ ظُهَيْرِ بْنِ رَافِعِ , وَهُوَ أَحَدُ عُمُومَتِه , وَقَدْ رَوَى هَذَا الْحَدِيثٌ عَنْه عَلَى رِوَايَاتٍ مُخْتَلِفَةٍ , وَفيِ الْبَاب: عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ , وَجَابِرٍ رَضِى اللهُ عَنْهُمَا.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزارعت کو حرام نہیں کیا، لیکن آپ نے ایک دوسرے کے ساتھ نرمی کرنے کا حکم دیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- رافع کی حدیث میں (جو اوپر مذکور ہوئی) اضطراب ہے۔ کبھی یہ حدیث بواسطہ رافع بن خدیج ان کے چچاؤں سے روایت کی جاتی ہے اور کبھی بواسطہ رافع بن خدیج ظہیر بن رافع سے روایت کی جاتی ہے، یہ بھی ان کے ایک چچا ہیں،
۳- اور ان سے یہ حدیث مختلف طریقے پر روایت کی گئی ہے،
۴- اس باب میں زید بن ثابت اور جابر رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الأحكام عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1385]
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الحرث 10 (2330)، و18 (2342)، والہبة 35 (2634)، صحیح مسلم/البیوع 21 (1547)، سنن ابی داود/ البیوع 3 (3389)، سنن النسائی/المزارعة 45 (3940)، سنن ابن ماجہ/الرہون 11 (2453)، (تحفة الأشراف: 5735) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح


Previous    3    4    5    6    7