الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ترمذي کل احادیث (3956)
حدیث نمبر سے تلاش:

سنن ترمذي
كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: تفسیر قرآن کریم
حدیث نمبر: 3004
حَدَّثَنَا أَبُو السَّائِبِ سَلْمُ بْنُ جُنَادَةَ بْنِ سَلْمٍ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ بَشِيرٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ حَمْزَةَ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ أُحُدٍ: " اللَّهُمَّ الْعَنْ أَبَا سُفْيَانَ، اللَّهُمَّ الْعَنْ الْحَارِثَ بْنَ هِشَامٍ، اللَّهُمَّ الْعَنْ صَفْوَانَ بْنَ أُمَيَّةَ، قَالَ: فَنَزَلَتْ: لَيْسَ لَكَ مِنَ الأَمْرِ شَيْءٌ أَوْ يَتُوبَ عَلَيْهِمْ أَوْ يُعَذِّبَهُمْ سورة آل عمران آية 128 فَتَابَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ فَأَسْلَمُوا فَحَسُنَ إِسْلَامُهُمْ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ يُسْتَغْرَبُ مِنْ حَدِيثِ عُمَرَ بْنِ حَمْزَةَ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، وَقَدْ رَوَاهُ الزُّهْرِيُّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، لَمْ يَعْرِفْهُ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل مِنْ حَدِيثِ عُمَرَ بْنِ حَمْزَةَ، وَعَرَفَهُ مِنْ حَدِيثِ الزُّهْرِيِّ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احد کے دن فرمایا: اے اللہ! لعنت نازل فرما ابوسفیان پر، اے اللہ! لعنت نازل فرما حارث بن ہشام پر، اے اللہ! لعنت نازل فرما صفوان بن امیہ پر، تو آپ پر یہ آیت «ليس لك من الأمر شيء أو يتوب عليهم أو يعذبهم» نازل ہوئی۔ تو اللہ نے انہیں توبہ کی توفیق دی، انہوں نے اسلام قبول کر لیا اور ان کا اسلام بہترین اسلام ثابت ہوا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،
۲- یہ روایت «عمر بن حمزة عن سالم عن أبيه» کے طریق سے غریب ہے،
۳- زہری نے بھی اسے سالم سے اور انہوں نے بھی اپنے باپ سے روایت کیا ہے،
۴- محمد بن اسماعیل بخاری نے اس حدیث کو عمر بن حمزہ کی روایت سے نہیں جانا بلکہ زہری کی روایت سے جانا ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3004]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف، وراجع: صحیح البخاری/المغازي 21 (4069) (تحفة الأشراف: 6780) (صحیح) (سند میں عمر بن حمزہ بن عبد اللہ بن عمر ضعیف راوی ہیں، لیکن بخاری کی مذکورہ حدیث سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح ہے)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 3005
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَبِيبِ بْنِ عَرَبِيٍّ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا خَالِدُ ابْنُ الْحَارِثِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلَانَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " كَانَ يَدْعُو عَلَى أَرْبَعَةِ نَفَرٍ فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى: لَيْسَ لَكَ مِنَ الأَمْرِ شَيْءٌ أَوْ يَتُوبَ عَلَيْهِمْ أَوْ يُعَذِّبَهُمْ فَإِنَّهُمْ ظَالِمُونَ سورة آل عمران آية 128 فَهَدَاهُمُ اللَّهُ لِلْإِسْلَامِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ يُسْتَغْرَبُ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، وَرَوَاهُ يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ، عَنِ ابْنِ عَجْلَانَ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چار افراد کے لیے بدعا فرماتے تھے، تو اللہ تعالیٰ نے آیت: «ليس لك من الأمر شيء أو يتوب عليهم أو يعذبهم فإنهم ظالمون» نازل فرمائی۔ پھر اللہ نے انہیں اسلام قبول کرنے کی ہدایت و توفیق بخش دی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے۔ یعنی: اس سند سے بطریق «نافع عن ابن عمر»
۲- اس حدیث کو یحییٰ بن ایوب نے بھی ابن عجلان سے روایت کیا ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3005]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف، وراجع: صحیح البخاری/المغازي 21 (4069، 4070) (تحفة الأشراف: 8436) (حسن صحیح)»

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح

حدیث نمبر: 3006
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ الْمُغِيرَةِ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ رَبِيعَةَ، عَنْ أَسْمَاءَ بْنِ الْحَكَمِ الْفَزَارِيِّ، قَال: سَمِعْتُ عَلِيًّا، يَقُولُ: إِنِّي كُنْتُ رَجُلًا إِذَا سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدِيثًا نَفَعَنِي اللَّهُ مِنْهُ بِمَا شَاءَ أَنْ يَنْفَعَنِي، وَإِذَا حَدَّثَنِي رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِهِ اسْتَحْلَفْتُهُ، فَإِذَا حَلَفَ لِي صَدَّقْتُهُ، وَإِنَّهُ حَدَّثَنِي أَبُو بَكْرٍ وَصَدَقَ أَبُو بَكْرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " مَا مِنْ رَجُلٍ يُذْنِبُ ذَنْبًا ثُمَّ يَقُومُ فَيَتَطَهَّرُ، ثُمَّ يُصَلِّي ثُمَّ يَسْتَغْفِرُ اللَّهَ إِلَّا غَفَرَ لَهُ، ثُمَّ قَرَأَ هَذِهِ الْآيَةَ وَالَّذِينَ إِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً أَوْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللَّهَ فَاسْتَغْفَرُوا سورة آل عمران آية 135 إِلَى آخِرِ الْآيَةِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ قَدْ رَوَاهُ شُعْبَةُ وَغَيْرُ وَاحِدٍ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ الْمُغِيرَةِ، فَرَفَعُوهُ وَرَوَاهُ مِسْعَرٌ، وَسُفْيَانُ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ الْمُغِيرَةِ فَلَمْ يَرْفَعَاهُ، وَقَدْ رَوَاهُ بَعْضُهُمْ، عَنْ مِسْعَرٍ فَأَوْقَفَهُ وَرَفَعَهُ بَعْضُهُمْ، وَرَوَاهُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيّ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ الْمُغِيرَةِ فَأَوْقَفَهُ، وَلَا نَعْرِفُ لِأَسْمَاءَ بْنِ الْحَكَمِ حَدِيثًا إِلَّا هَذَا.
اسماء بن حکم فزاری کہتے ہیں کہ میں نے علی رضی الله عنہ کو کہتے ہوئے سنا: جب میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی حدیث سنی تو اللہ نے مجھے جتنا فائدہ پہنچانا چاہا پہنچایا، اور جب مجھ سے آپ کا کوئی صحابی حدیث بیان کرتا تو میں اسے قسم کھلاتا پھر جب وہ میرے کہنے سے قسم کھا لیتا تو میں اس کی تصدیق کرتا۔ اور بیشک مجھ سے ابوبکر رضی الله عنہ نے حدیث بیان کی اور بالکل سچ بیان کی، کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے ہوئے سنا جو کوئی بھی شخص کوئی گناہ کرتا ہے پھر وہ کھڑا ہوتا ہے پھر پاکی حاصل کرتا ہے پھر نماز پڑھتا ہے، اللہ سے مغفرت طلب کرتا ہے تو اللہ اسے بخش دیتا ہے، پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: «والذين إذا فعلوا فاحشة أو ظلموا أنفسهم ذكروا الله» ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- اس حدیث کو شعبہ اور دیگر کئی لوگوں نے عثمان بن مغیرہ سے روایت کیا ہے اور ان لوگوں نے اسے مرفوع روایت کیا ہے جب کہ مسعر اور سفیان نے عثمان بن مغیرہ سے روایت کیا ہے لیکن ان دونوں نے اسے مرفوع روایت نہیں کیا۔ اور بعض لوگوں نے اسے مسعر سے موقوفاً روایت کیا ہے۔ اور بعض لوگوں نے اسے مرفوعاً روایت کیا ہے۔ اور سفیان ثوری نے عثمان بن مغیرہ سے موقوفاً روایت کیا ہے،
۲- اسماء بن حکم سے اس روایت کے سوا کوئی دوسری روایت ہم نہیں جانتے۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3006]
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 406 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: حسن، ابن ماجة (1359)

حدیث نمبر: 3007
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، عَنْ أَبِي طَلْحَةَ، قَالَ: " رَفَعْتُ رَأْسِي يَوْمَ أُحُدٍ فَجَعَلْتُ أَنْظُرُ، وَمَا مِنْهُمْ يَوْمَئِذٍ أَحَدٌ إِلَّا يَمِيدُ تَحْتَ حَجَفَتِهِ مِنَ النُّعَاسِ، فَذَلِكَ قَوْلُهُ عَزَّ وَجَلَّ: ثُمَّ أَنْزَلَ عَلَيْكُمْ مِنْ بَعْدِ الْغَمِّ أَمَنَةً نُعَاسًا سورة آل عمران آية 154 "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ.
ابوطلحہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ احد کی لڑائی کے دن میں اپنا سر بلند کر کے (ادھر ادھر) دیکھنے لگا، اس دن کوئی ایسا نہ تھا جس کا سر نیند سے (بوجھل) اپنے سینے کے نیچے جھکا نہ جا رہا ہو، اللہ تعالیٰ کے قول «ثم أنزل عليكم من بعد الغم أمنة نعاسا» ۱؎ کا مفہوم و مراد یہی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3007]
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/المغازي 21 (4068)، وتفسیر آل عمران 11 (4562) (تحفة الأشراف: 3771) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 3007M
حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عَبَادَةَ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ الزُّبَيْرِ، مِثْلَهُ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبد بن حمید نے زبیر رضی الله عنہ سے اسی طرح روایت کی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3007M]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 3641) (صحیح الإسناد)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 3008
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ حَمَّادٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ أَبَا طَلْحَةَ، قَالَ: " غُشِينَا وَنَحْنُ فِي مَصَافِّنَا يَوْمَ أُحُدٍ، حَدَّثَ أَنَّهُ كَانَ فِيمَنْ غَشِيَهُ النُّعَاسُ يَوْمَئِذٍ، قَالَ: فَجَعَلَ سَيْفِي يَسْقُطُ مِنْ يَدِي وَآخُذُهُ، وَيَسْقُطُ مِنْ يَدِي وَآخُذُهُ، وَالطَّائِفَةُ الْأُخْرَى الْمُنَاقِدُونَ لَيْسَ لَهُمْ هَمٌّ إِلَّا أَنْفُسُهُمْ، أَجْبَنُ قَوْمٍ وَأَرْعَبُهُ وَأَخْذَلُهُ لِلْحَقِّ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ابوطلحہ رضی الله عنہ نے بیان کیا کہ ہم جنگ احد میں اپنی صف (پوزیشن) میں تھے اور ہم پر غنودگی طاری ہو گئی۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ وہ ان لوگوں میں سے تھے جنہیں اس دن غنودگی (نیند) نے آ گھیرا تھا، حالت یہ ہو گئی تھی کہ تلوار میرے ہاتھ سے چھوٹی جا رہی تھی، میں اسے پکڑ رہا تھا اور میرے ہاتھ سے گری جا رہی تھی، میں اسے سنبھال رہا تھا۔ دوسرا گروہ منافقوں کا تھا جنہیں صرف اپنی جانوں کی حفاظت کی فکر تھی، وہ لوگوں میں سب سے زیادہ بزدل، سب سے زیادہ مرعوب ہو جانے والے (ڈرپوک) اور حق کا سب سے زیادہ ساتھ چھوڑنے والے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3008]
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 3007 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 3009
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ، عَنْ خُصَيْفٍ، حَدَّثَنَا مِقْسَمٌ، قَالَ: قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: " نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةَ وَمَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَنْ يَغُلَّ سورة آل عمران آية 161 فِي قَطِيفَةٍ حَمْرَاءَ افْتُقِدَتْ يَوْمَ بَدْرٍ، فَقَالَ بَعْضُ النَّاسِ: لَعَلَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخَذَهَا، فَأَنْزَلَ اللَّهُ وَمَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَنْ يَغُلَّ سورة آل عمران آية 161 إِلَى آخِرِ الْآيَةِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَقَدْ رَوَى عَبْدُ السَّلَامِ بْنُ حَرْبٍ، عَنْ خُصَيْفٍ نَحْوَ هَذَا، وَرَوَى بَعْضُهُمْ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ خُصَيْفٍ، عَنْ مِقْسَمٍ، وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ.
‏‏‏‏ عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما ارشاد باری «ما كان لنبي أن يغل» کے بارے میں کہتے ہیں: جنگ بدر کے دن (مال غنیمت میں آئی ہوئی) ایک سرخ رنگ کی چادر کھو گئی، بعض لوگوں نے کہا: شاید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لے لی ہو تو آیت: «ما كان لنبي أن يغل» ۱؎ نازل ہوئی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،
۲- عبدالسلام بن حرب نے خصیف سے اسی جیسی روایت کی ہے،
۳- اور بعض لوگوں نے یہ حدیث بطریق: «خصيف عن مقسم» روایت کی ہے، لیکن ان لوگوں نے اس روایت میں ابن عباس رضی الله عنہما کا ذکر نہیں کیا ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3009]
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الحروف 3 (3971) (تحفة الأشراف: 6487) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، الصحيحة (2788)

حدیث نمبر: 3010
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَبِيبِ بْنِ عَرَبِيٍّ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ كَثِيرٍ الْأَنْصَارِيُّ، قَال: سَمِعْتُ طَلْحَةَ بْنَ خِرَاشٍ، قَال: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، يَقُولُ: لَقِيَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لِي: " يَا جَابِرُ، مَا لِي أَرَاكَ مُنْكَسِرًا؟ قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، اسْتُشْهِدَ أَبِي، قُتِلَ يَوْمَ أُحُدٍ وَتَرَكَ عِيَالًا وَدَيْنًا، قَالَ: أَفَلَا أُبَشِّرُكَ بِمَا لَقِيَ اللَّهُ بِهِ أَبَاكَ؟ قَالَ: قُلْتُ: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: مَا كَلَّمَ اللَّهُ أَحَدًا قَطُّ إِلَّا مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ، وَأَحْيَا أَبَاكَ فَكَلَّمَهُ كِفَاحًا، فَقَالَ: يَا عَبْدِي، تَمَنَّ عَلَيَّ أُعْطِكَ، قَالَ: يَا رَبِّ، تُحْيِينِي فَأُقْتَلَ فِيكَ ثَانِيَةً، قَالَ الرَّبُّ عَزَّ وَجَلَّ: إِنَّهُ قَدْ سَبَقَ مِنِّي أَنَّهُمْ إِلَيْهَا لَا يُرْجَعُونَ، قَالَ: وَأُنْزِلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا سورة آل عمران آية 169 "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَلَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ مُوسَى بْنِ إِبْرَاهِيمَ، وَرَوَاهُ عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمَدِينِيِّ وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ كِبَارِ أَهْلِ الْحَدِيثِ، هَكَذَا عَنْ مُوسَى بْنِ إِبْرَاهِيمَ، وَقَدْ رَوَى عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ، عَنْ جَابِرٍ شَيْئًا مِنْ هَذَا.
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے ملے اور فرمایا: جابر! کیا بات ہے میں تجھے شکستہ دل دیکھ رہا ہوں؟ میں نے کہا: اللہ کے رسول! میرے والد شہید کر دیئے گئے، جنگ احد میں ان کے قتل کا سانحہ پیش آیا، اور وہ بال بچے اور قرض چھوڑ گئے ہیں، آپ نے فرمایا: کیا میں تمہیں اس چیز کی بشارت نہ دوں جسے اللہ تعالیٰ نے تمہارے باپ سے ملاقات کے وقت کہا؟ انہوں نے کہا: کیوں نہیں؟ اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے کبھی بھی کسی سے بغیر پردہ کے کلام نہیں کیا (لیکن) اس نے تمہارے باپ کو زندہ کیا، پھر ان سے (بغیر پردہ کے) آمنے سامنے بات کی، کہا: اے میرے بندے! مجھ سے کسی چیز کے حاصل کرنے کی تمنا و آرزو کر، میں تجھے دوں گا، انہوں نے کہا: رب! مجھے دوبارہ زندہ فرما، تاکہ میں تیری راہ میں دوبارہ شہید کیا جاؤں، رب عزوجل نے فرمایا: میری طرف سے یہ فیصلہ پہلے ہو چکا ہے «أنهم إليها لا يرجعون» کہ لوگ دنیا میں دوبارہ نہ بھیجے جائیں گے، راوی کہتے ہیں: آیت «ولا تحسبن الذين قتلوا في سبيل الله أمواتا» ۱؎ اسی سلسلہ میں نازل ہوئی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے،
۲- عبداللہ بن محمد بن عقیل نے اس حدیث کا کچھ حصہ جابر سے روایت کیا ہے،
۳- اور اس حدیث کو ہم صرف موسیٰ بن ابراہیم کی روایت سے جانتے ہیں،
۴- اسے علی بن عبداللہ بن مدینی اور کئی بڑے محدثین نے موسیٰ بن ابراہیم کے واسطہ سے ایسے ہی روایت کیا ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3010]
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/المقدمة 13 (190)، والجھاد 16 (2800) (تحفة الأشراف: 2287) (حسن)»

قال الشيخ الألباني: حسن، ابن ماجة (190 - 2800)

حدیث نمبر: 3011
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُرَّةَ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، أَنَّهُ سُئِلَ عَنْ قَوْلِهِ: " وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ سورة آل عمران آية 169، فَقَالَ: أَمَا إِنَّا قَدْ سَأَلْنَا عَنْ ذَلِكَ فَأُخْبِرْنَا، أَنَّ أَرْوَاحَهُمْ فِي طَيْرٍ خُضْرٍ تَسْرَحُ فِي الْجَنَّةِ حَيْثُ شَاءَتْ وَتَأْوِي إِلَى قَنَادِيلَ مُعَلَّقَةٍ بِالْعَرْشِ، فَاطَّلَعَ إِلَيْهِمْ رَبُّكَ اطِّلَاعَةً، فَقَالَ: هَلْ تَسْتَزِيدُونَ شَيْئًا فَأَزِيدُكُمْ؟ قَالُوا: رَبَّنَا وَمَا نَسْتَزِيدُ وَنَحْنُ فِي الْجَنَّةِ نَسْرَحُ حَيْثُ شِئْنَا، ثُمَّ اطَّلَعَ إِلَيْهِمُ الثَّانِيَةَ فَقَالَ: هَلْ تَسْتَزِيدُونَ شَيْئًا فَأَزِيدُكُمْ؟ فَلَمَّا رَأَوْا أَنَّهُمْ لَمْ يُتْرَكُوا قَالُوا: تُعِيدُ أَرْوَاحَنَا فِي أَجْسَادِنَا حَتَّى نَرْجِعَ إِلَى الدُّنْيَا فَنُقْتَلَ فِي سَبِيلِكَ مَرَّةً أُخْرَى "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ان سے آیت «ولا تحسبن الذين قتلوا في سبيل الله أمواتا بل أحياء عند ربهم يرزقون» کی تفسیر پوچھی گئی تو انہوں نے کہا: لوگو! سن لو، ہم نے (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے) اس کی تفسیر پوچھی تھی تو ہمیں بتایا گیا کہ شہداء کی روحیں سبز چڑیوں کی شکل میں ہیں، جنت میں جہاں چاہتی گھومتی پھرتی ہیں اور شام میں عرش سے لٹکی ہوئی قندیلوں میں بسیرا کرتی ہیں۔ ایک بار تمہارے رب نے انہیں جھانک کر ایک نظر دیکھا اور پوچھا: تمہیں کوئی چیز مزید چاہیئے تو میں عطا کروں؟ انہوں نے کہا: رب! ہمیں مزید کچھ نہیں چاہیئے۔ ہم جنت میں جہاں چاہتی ہیں گھومتی ہیں۔ پھر (ایک دن) دوبارہ اللہ نے ان کی طرف جھانکا اور فرمایا: کیا تمہیں مزید کچھ چاہیئے تو میں عطا کر دوں؟ جب انہوں نے دیکھا کہ (اللہ دینے پر ہی تلا ہوا ہے، بغیر مانگے اور لیے) چھٹکارا نہیں ہے تو انہوں نے کہا: ہماری روحوں کو ہمارے جسموں میں دوبارہ لوٹا دے، تاکہ ہم دنیا میں واپس چلے جائیں۔ پھر تیری راہ میں دوبارہ قتل کئے جائیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3011]
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الإمارة (1887)، سنن ابن ماجہ/الجھاد 16 (2801) (تحفة الأشراف: 9570)، وسنن الدارمی/الجھاد 19 (2454) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: (حديث مسروق عن عبد الله بن مسعود) صحيح، (حديث أبي عبيدة عن عبد الله بن مسعود الذي فيه زيادة) ضعيف الإسناد، ابن ماجة (2801)

حدیث نمبر: 3011M
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ مِثْلَهُ، وَزَادَ فِيهِ " وَتُقْرِئُ نَبِيَّنَا السَّلَامَ وَتُخْبِرُهُ عَنَّا أَنَّا قَدْ رَضِينَا وَرُضِيَ عَنَّا "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
اس سند سے ابن ابی عمر نے ابن مسعود سے اسی طرح روایت کی، مگر اس میں اتنا اضافہ کیا کہ ہمارا سلام ہمارے نبی سے کہہ دیں اور یہ بھی بتا دیں کہ ہم (اپنے رب سے) راضی و خوش ہیں اور وہ ہم سے راضی و خوش ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن ہے۔ (یعنی: اوپر والی سند سے، کیونکہ دوسری سند میں انقطاع ہے)۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 3011M]
تخریج الحدیث: «(ضعیف الإسناد) (عطاء بن السائب صدوق لیکن مختلط راوی ہیں، اور ابو عبیدہ کا لقاء اپنے والد عبداللہ بن مسعود سے نہیں ہے)»

قال الشيخ الألباني: (حديث مسروق عن عبد الله بن مسعود) صحيح، (حديث أبي عبيدة عن عبد الله بن مسعود الذي فيه زيادة) ضعيف الإسناد، ابن ماجة (2801)


Previous    4    5    6    7    8    9    10    11    12    Next