-" لا تكونوا أعوانا للشيطان على أخيكم. إنه لا ينبغي للإمام إذا انتهى إليه حد إلا أن يقيمه، إن الله عفو يحب العفو، * (وليعفوا وليصفحوا ألا تحبون أن يغفر الله لكم، والله غفور رحيم) *".
ابوماجدہ کہتے ہیں: میں سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا، انہوں نے کہا: میں اس پہلے آدمی کو جانتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس کا ہاتھ کاٹا تھا۔ چور کو لایا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا، لیکن ایسے لگ رہا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رنجیدہ ہو گئے ہیں۔ صحابہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! ایسے لگتا ہے کہ آپ اس کا ہاتھ کاٹنے کو ناپسند کر رہے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” مجھے کیا رکاوٹ ہو سکتی ہے؟ اپنے اس بھائی کے بارے میں شیطان کے مددگار نہ بنو، ہر امام کو یہی زیب دیتا ہے کہ جونہی اس تک کوئی حد پہنچے وہ اسے نافذ کر دے، بیشک اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا ہے اور معاف کرنے کو پسند کرتا ہے، (ارشاد باری تعالیٰ ہے:)”اور وہ معاف کریں اور درگزر کریں، کیا تم یہ نہیں چاہتے کہ اللہ تعالیٰ تم کو (تمہاری خطاؤں کو بخشے) اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔“(سورہ نور: ۲۲)[سلسله احاديث صحيحه/الحدود والمعاملات والاحكام/حدیث: 1183]
814. مومن سے قتال کرنا کفر اور اس کو برا بھلا کہنا فسق ہے
حدیث نمبر: 1184
-" قتال المؤمن كفر وسبابه فسوق ولا يحل لمسلم أن يهجر أخاه فوق ثلاثة أيام".
سیدنا سعد بن ابووقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مومن سے لڑنا کفر ہے اور اسے گالی دینا فسق ہے اور کسی مسلمان کے لیے حلال نہیں کہ وہ (قطع رحمی کرتے ہوئے) اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ مدت کے لیے ترک تعلق رکھے۔“[سلسله احاديث صحيحه/الحدود والمعاملات والاحكام/حدیث: 1184]
815. مومن کے قاتل کی توبہ قبول ہے یا نہیں؟
حدیث نمبر: 1185
-" لما نزلت هذه الآية التي في * (الفرقان) *: * (والذين لا يدعون مع الله إلها آخر ولا يقتلون النفس التي حرم الله إلا بالحق) * عجبنا للينها، فلبثنا ستة أشهر، ثم نزلت التي في * (النساء) *: * (ومن يقتل مؤمنا متعمدا فجزاؤه جهنم خالدا فيها وغضب الله عليه ولعنه) * حتى فرغ".
سیدنا زید بن ثابت کہتے ہیں: جب یہ آیت نازل ہوئی: ”جو لوگ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پکارتے اور نہ وہ اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ جان کو قتل کرتے ہیں مگر حق کے ساتھ۔“(سورہ فرقان: ۶۸) تو ہمیں اس آیت میں دی گئی لچک اور نرمی پر بڑا تعجب ہوا، چھ مہینے گزر گئے، پھر یہ آیت نازل ہوئی: ”جس نے کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کیا اس کا بدلہ ہمیشہ کے لیے جہنم ہے، اس پر اللہ تعالیٰ غضبناک ہوا اور اس پر لعنت کی . . . . آخر تک۔“( سورۂ نساء: ۹۳)[سلسله احاديث صحيحه/الحدود والمعاملات والاحكام/حدیث: 1185]
حدیث نمبر: 1186
-" أبى الله أن يجعل لقاتل المؤمن توبة".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے مومن کے قاتل کی توبہ قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔“[سلسله احاديث صحيحه/الحدود والمعاملات والاحكام/حدیث: 1186]
816. ذمی کو قتل کرنے والا جنت سے محروم
حدیث نمبر: 1187
-" من قتل نفسا معاهدة بغير حقها لم يرح رائحة الجنة وإن ريح الجنة توجد من مسيرة مائة عام".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے ایسے حلیف کو ناحق قتل کر دیا جس سے معاہدہ کیا گیا تھا، وہ جنت کی خوشبو تک نہ پا سکے گا اور جنت کی خوشبو سو سال کی مسافت تک پائی جاتی ہے۔“[سلسله احاديث صحيحه/الحدود والمعاملات والاحكام/حدیث: 1187]
817. نبی کے قاتل و مقتول کو سخت سزا ہو گی؟
حدیث نمبر: 1188
-" أشد الناس عذابا يوم القيامة: رجل قتله نبي، أو قتل نبيا، وإمام ضلالة، وممثل من الممثلين".
سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت کے روز ان لوگوں کو شدید ترین عذاب ہو گا: وہ آدمی جسے نبی نے قتل کیا ہو یا جس نے کسی نبی کو قتل کیا ہو، گمراہ پیشوا اور خوب مثلہ کرنے والوں میں سے مثلہ کرنے والا۔“[سلسله احاديث صحيحه/الحدود والمعاملات والاحكام/حدیث: 1188]
818. ابلیس انسانی قتل پر اپنے چیلوں کو انعام دیتا ہے
حدیث نمبر: 1189
-" إذا أصبح إبليس بث جنوده، فيقول: من أضل اليوم مسلما ألبسته التاج، قال: فيخرج هذا فيقول: لم أزل به حتى طلق امرأته، فيقول: أوشك أن يتزوج. ويجيء هذا فيقول: لم أزل به حتى عق والديه، فيقول: يوشك أن يبرهما. ويجيء هذا فيقول: لم أزل به حتى أشرك، فيقول: أنت أنت! ويجيء هذا فيقول: لم أزل به حتى قتل، فيقول: أنت أنت ويلبسه التاج".
سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابلیس بوقت صبح اپنے لشکروں کو بھیجتا ہے اور کہتا ہے کہ جو کسی مسلمان کو گمراہ کرے گا میں اسے تاج پہناؤں گا۔ (جب لشکر واپس آتے ہیں تو) ان میں سے ایک کہتا ہے: میں اسے ورغلاتا رہا یہاں تک کہ اس نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی۔ ابلیس کہتا ہے: ممکن ہے کہ وہ دوبارہ شادی کر لے۔ ایک آ کر کہتا ہے: میں اسے پھسلاتا رہا یہاں تک کہ اس نے اپنے والدین کی نافرمانی کر دی۔ وہ کہتا ہے: (یہ تو کوئی بڑا کام نہیں کیونکہ) ممکن ہے کہ وہ بعد میں ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئے۔ ایک آ کر کہتا ہے: میں اس کے ساتھ چمٹا رہا یہاں تک کہ اس نے شرک کا ارتکاب کر لیا۔ ابلیس کہتا ہے: تو نے تو کمال کر دیا ہے۔ (اتنے میں) ایک اور آ کر کہتا ہے کہ میں نے فلاں کو نہ چھوڑا یہاں تک کہ اس نے قتل کر دیا۔ ابلیس کہتا ہے: (شاباش) تو نے تو اخیر کر دی ہے، پھر اسے تاج پہنا دیتا ہے۔“[سلسله احاديث صحيحه/الحدود والمعاملات والاحكام/حدیث: 1189]
819. صرف اللہ تعالیٰ کے لیے قتل کرنا درست ہے
حدیث نمبر: 1190
-" يجيء الرجل آخذا بيد الرجل فيقول: يا رب! هذا قتلني. فيقول الله له: لم قتلته؟ فيقول: لتكون العزة لك. فيقول: فإنها لي. ويجيء الرجل آخذا بيد الرجل فيقول: إن هذا قتلني. فيقول الله له: لم قتلته؟ فيقول: لتكون العزة لفلان! فيقول: إنها ليست لفلان، فيبوء بإثمه".
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(قیامت والے دن) ایک آدمی دوسرے آدمی کا ہاتھ پکڑ کر آ کر کہے گا: اے میرے رب اس نے مجھے قتل کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ پوچھے گا: تو نے اس کو کیوں قتل کیا ہے؟ وہ کہے گا: تیری بڑائی کی خاطر۔ اللہ تعالیٰ کہے گا: بلاشبہ بڑائی میرے لیے ہی ہے۔ ایک اور آدمی دوسرے آدمی کا ہاتھ پکڑ کر آ کر کہے گا: اس نے مجھے قتل کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ پوچھے گا: تو نے اسے قتل کیوں کیا؟ وہ کہے گا: فلاں کی بڑائی کی خاطر۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: یہ بڑائی فلاں کا حق نہیں ہے، سو وہ اس کے گناہ کا بوجھ بھی اٹھائے گا۔“[سلسله احاديث صحيحه/الحدود والمعاملات والاحكام/حدیث: 1190]
820. مقتول کے لواحقین کو دو اختیار حاصل ہیں
حدیث نمبر: 1191
- (إنّ الله حبس عن مكة القتل- أو الفيل، شك أبو عبد الله-، وسلط عليهم رسول الله - صلى الله عليه وسلم - والمؤمنين، ألا وإنها لم تحلّ لأحد قبلي، ولم تحل لأحد بعدي، ألا وإنها حلت لي ساعة من نهار، ألا وإنها ساعتي هذه حرامٌ؛ لا يختلى شوكها، ولا يعضدُ شجرها، ولا تلتقط ساقطتها إلا لمنشد، فمن قُُتلَ؛ فهو بخير النظرين: إما أن يعقل، وإما أن يُقاد أهل القتيل).
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بنو خزاعہ نے فتح مکہ والے سال اپنے ایک مقتول کے بدلے بنو لیث کا ایک آدمی قتل کیا، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پتہ چلا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری پر سوار ہوئے اور خطبہ دیا، جس میں یہ بھی فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے مکہ میں قتل کرنے سے منع کر دیا ہے اور رسول اللہ اور مومنوں کو ان پر مسلط کر دیا ہے۔ خبردار! یہ (حرم مکی) نہ مجھ سے پہلے کسی کے لیے حلال تھا اور نہ (کسی کے لیے) بعد میں ہو گا۔ آگاہ رہو! اسے میرے لیے دن کی کچھ گھڑی کے لیے حلال کیا گیا۔ خبردار! اب اس وقت میں یہ حرام ہے، اس کے کانٹوں کو نہ اکھاڑا جائے، اس کے درختوں کو نہ کاٹا جائے اور اس کی گری پڑی چیز کو نہ اٹھایا جائے، مگر تشہیر کے لیے۔ اگر کوئی قتل ہو جائے تو (اس کے ورثا کو) دو اختیارات میں سے ایک کا حق حاصل ہے، یا تو وہ دیت لے لیں یا پھر قصاص۔“ ایک یمنی آدمی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: اے اللہ کے رسول! (یہ خطبہ) میرے لیے لکھوا دیجئیے۔ آپ نے فرمایا: ”ابوفلاں کے لیے لکھ دو۔“( آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خطبہ کے دوران) ایک آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول! اذخر نامی گھاس (کو کاٹنے کی اجازت دے دیں) کیونکہ ہم اس گھاس کو گھروں اور قبروں میں استعمال کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”( ٹھیک ہے) اذخر گھاس ( کاٹ سکتے ہو)۔“ امام مسلم نے ( اس روایت کے الفاظ میں) یہ زیادتی کی ہے: ولید نے کہا: میں نے اوزاعی سے کہا: ”( یمنی نے جو یہ کہا: کہ) اے اللہ کے رسول! میرے لیے لکھوا دیں۔ سے کیا مراد ہے؟ انہوں نے کہا: وہ خطبہ جو اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا۔ [سلسله احاديث صحيحه/الحدود والمعاملات والاحكام/حدیث: 1191]
حدیث نمبر: 1192
- (إنّ مكة حرّمها الله ولم يحرّمها الناس، فلا يحلّ لامرئ يؤمن بالله واليوم الآخر أن يسفك بها دماً، ولا يعضد بها شجرة؛ فإن أحدٌ ترخّص لقتال رسول الله - صلى الله عليه وسلم - فيها؛ فقولوا: إنّ الله قد أذن لرسوله ولم يأذن لكم، وإنما أذن لي فيها ساعةً من نهار، ثم عادت حرمتها اليوم كحرمتها بالأمس، وليبلغ الشاهدُ الغائب).
سیدنا ابوشریح رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دوسرے دن ایک بات ارشاد فرمائی، میرے کانوں نے اسے سنا، میرے دل نے اسے یاد رکھا اور میری آنکھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات ارشاد فرماتے ہوئے دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی اور پھر فرمایا: ” بیشک مکہ کو لوگوں نے نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ نے حرمت والا قرار دیا، اب کسی ایسے شخص کے لیے حلال نہیں، جو اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو، کہ وہ یہاں خون بہائے یا درخت کاٹے۔ اگر کوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتال (کو دلیل بنا کر اپنے لیے) رخصت نکالنا چاہے تو اسے کہہ دینا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو مکہ میں (قتال کی) اجازت دی اور تمہیں نہیں دی اور مجھے بھی دن کے کچھ وقت کے لیے (لڑائی کرنے کی) اجازت ملی ہے، اس کے بعد اس کی حرمت اسی طرح ہو گئی جس طرح کل تھی۔ موجودہ لوگ (یہ احکام) غائب لوگوں تک پہنچا دیں۔“[سلسله احاديث صحيحه/الحدود والمعاملات والاحكام/حدیث: 1192]