الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


مختصر صحيح بخاري کل احادیث (2230)
حدیث نمبر سے تلاش:

مختصر صحيح بخاري
نماز کا بیان
58. مسجد میں چت لیٹنا درست ہے۔
حدیث نمبر: 298
سیدنا عبداللہ بن زید انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد میں چت لیٹے ہوئے دیکھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا ایک پاؤں دوسرے پاؤں پر رکھے ہوئے تھے۔ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 298]
59. بازار کی مسجد میں نماز پڑھنا (درست ہے)۔
حدیث نمبر: 299
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جماعت کی نماز، اپنے گھر کی نماز اور اپنے بازار کی نماز سے پچیس (25) درجے (ثواب میں) فوقیت رکھتی ہے، اس لیے کہ جب تم میں سے کوئی وضو کرے اور اچھا وضو کرے اور مسجد میں محض نماز ہی کا ارادہ کر کے آئے تو وہ جو قدم رکھتا ہے، اس پر اللہ اس کا ایک درجہ بلند کرتا ہے اور ایک گناہ معاف کر دیتا ہے یہاں تک کہ وہ مسجد میں داخل ہو جاتا ہے تو نماز میں (سمجھا جاتا) ہے، جب تک کہ نماز اسے روکے اور فرشتے اس کے لیے دعا کرتے رہتے ہیں، جب تک کہ وہ اس مقام میں رہے جہاں نماز پڑھتا ہے۔ فرشتے یوں دعا کرتے ہیں کہ اے اللہ! اس کے گناہ معاف فرما دے، اے اللہ! اس پر رحم کر (یہ دعا اس وقت تک جاری رہتی ہے) جب تک وہ بےوضو نہ ہو۔ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 299]
60. مسجد وغیرہ میں تشبیک کرنا (ہاتھوں کی انگلیاں ایک دوسری میں ڈالنا)۔
حدیث نمبر: 300
سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مومن، مومن کے لیے مثل عمارت کے ہے کہ اس کا ایک حصہ دوسرے حصے کو تقویت دیتا ہے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلیوں میں تشبیک فرمائی۔ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 300]
حدیث نمبر: 301
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں زوال کے بعد کی دو نمازوں میں سے کوئی نماز پڑھائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دو رکعت پڑھا کر سلام پھیر دیا، پھر آپ ایک لکڑی کے پاس کھڑے ہو گئے جو مسجد میں گاڑی ہوئی تھی اور اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ٹیک لگائی جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم غضبناک ہوں اور آپ نے اپنا داہنا ہاتھ بائیں پر رکھ لیا اور اپنی انگلیوں کے درمیان تشبیک فرمائی (یعنی ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں داخل کیں) اور اپنا داہنا رخسار اپنی بائیں ہتھیلی کی پشت پر رکھ لیا اور جلد باز لوگ مسجد کے دروازوں سے نکل گئے تو صحابہ نے عرض کی نماز کم کر دی گئی؟ اور لوگوں میں سیدنا ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہم تھے، مگر وہ دونوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہتے ہوئے ڈرے اور ان لوگوں میں سے ایک شخص تھا، جس کے ہاتھ کچھ لمبے تھے، اس کو ذوالیدین کہتے تھے، تو اس نے کہا کہ یا رسول اللہ! آپ بھول گئے یا نماز کم کر دی گئی؟ آپ نے فرمایا: میں (اپنے خیال میں) نہ بھولا ہوں اور نہ نماز کم کی گئی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (لوگوں سے) فرمایا: کیا ایسا ہی ہے جیسا ذوالیدین کہتے ہیں؟ تو لوگوں نے کہا ہاں۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑے اور جس قدر نماز چھوڑی تھی، پڑھ لی۔ اس کے بعد سلام پھیر کر تکبیر کہی اور مثل اپنے سجدوں کے سجدہ کیا یا (وہ سجدہ) کچھ زیادہ طویل (تھا) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر اٹھایا اور تکبیر کہی، اس کے بعد پھر تکبیر کہی اور مثل اپنے سجدوں کے یا اس سے کچھ زیادہ طویل سجدہ کیا۔ پھر سر اٹھایا اور تکیبر کہی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا۔ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 301]
61. وہ مسجدیں جو مدینہ کے راستوں پر ہیں اور وہ مقامات جن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی (کون سے ہیں)۔
حدیث نمبر: 302
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما راستہ میں کچھ مقامات پر نماز پڑھا کرتے تھے اور کہتے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان مقامات میں نماز پڑھتے دیکھا تھا۔ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 302]
حدیث نمبر: 303
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب (بھی) عمرہ یا حج ادا فرماتے تو (مقام) ذوالحلیفہ میں بھی اترتے تھے اور جب کسی غزوہ سے لوٹتے اور اس راہ میں (سے) ہو (کر آتے) یا حج یا عمرہ میں ہوتے تو وادی کے اندر اتر جاتے، پھر جب وادی کے گہراؤ سے اوپر آ جاتے تو اونٹ کو اس بطحاء میں بٹھلا دیتے جو وادی کے کنارے پر بجانب مشرق ہے، پس آخر شب میں وہیں آرام فرماتے یہاں تک کہ صبح ہو جاتی (یہ مقام جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم استراحت فرماتے) اس مسجد کے پاس نہیں ہے جو پتھروں سے بنی ہے اور نہ اس ٹیلہ پر ہے جس کے اوپر مسجد ہے بلکہ اس جگہ ایک چشمہ تھا کہ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ اس کے پاس نماز پڑھا کرتے تھے اور اس کے اندر کچھ تودے (ریت کے) تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہیں نماز پڑھتے تھے، پھر اس میں بطحاء سے سیل بہہ کر آیا یہاں تک کہ وہ مقام جہاں سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نماز پڑھتے تھے پر ہو گیا۔ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 303]
حدیث نمبر: 304
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مقام پر نماز پڑھی ہے جہاں چھوٹی مسجد ہے، جو اس مسجد کے قریب ہے جو روحاء کی بلندی پر ہے اور سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ اس مقام کو جانتے تھے جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی ہے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ وہ تمہارے داہنی طرف ہے جب تم مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے کھڑے ہوتے ہو اور یہ مسجد راستے کے داہنے کنارے پر ہے جب کہ تم مکہ کی طرف جا رہے ہو، اس کے اور بڑی مسجد کے درمیان کم و بیش ایک پتھر پھینکنے کی دوری ہے۔ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 304]
حدیث نمبر: 305
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اس پہاڑی کے پاس (بھی) نماز پڑھتے تھے جو روحاء کے آخری کنارے کے پاس ہے اور (مکہ کو جاتے ہوئے) اس پہاڑی کا کنارہ مسجد کے قریب روحاء کے آخری کنارے کے درمیان ہے اور اس جگہ ایک دوسری مسجد بنا دی گئی ہے، مگر عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اس مسجد میں نماز نہ پڑھتے تھے بلکہ اس کو اپنے پیچھے بائیں جانب چھوڑ دیتے تھے اور اس کے آگے (بڑھ کر) خاص پہاڑی کے پاس نماز پڑھا کرتے تھے۔ اور سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ روحاء سے صبح کے وقت چلتے تھے، پھر ظہر کی نماز نہ پڑھتے تھے یہاں تک کہ اس مقام پر پہنچ جاتے، پس وہیں ظہر کی نماز پڑھتے اور جب مکہ سے آتے تو اگر صبح سے کچھ پہلے یا آخر شب میں اس مقام پر پہنچتے تو وہیں ٹھہر جاتے یہاں تک کہ صبح کی نماز وہیں پڑھتے۔ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 305]
حدیث نمبر: 306
سیدنا عبداللہ (بن عمر) رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (مقام) رویثہ کے قریب راستہ کے داہنی جانب اور راستہ کے سامنے کسی گھنے درخت کے نیچے کسی وسیع اور نرم مقام میں اترتے تھے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس ٹیلے سے جو برید رویثہ سے قریب دو میل کے ہے، باہر آتے اور اس درخت کے اوپر کا حصہ ٹوٹ گیا ہے اور وہ درمیان سے دہرا ہو کر جڑ پر کھڑا ہے اور اس کی جڑ میں (ریت کے) بہت سے ٹیلے ہیں۔ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 306]
حدیث نمبر: 307
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ٹیلے کے کنارے پر (بھی) نماز پڑھی ہے جو (مقام) عرج کے پیچھے ہے، جب کہ تم (قریہ) ہضبہ کی طرف جا رہے ہو، اس مسجد کے پاس دو یا تین قبریں ہیں، قبروں پر پتھر (رکھے) ہیں (وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے راستہ کی داہنی جانب راستہ کے پتھروں کے پاس نماز پڑھی ہے) انھیں پتھروں کے درمیان میں۔ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ بعد اس کے کہ دوپہر کو سورج ڈھل جاتا، مقام عرج سے چلتے اور ظہر کی نماز اسی مسجد میں پڑھتے (مطلب یہ ہے کہ ان پتھروں کے درمیان مسجد بن چکی تھی)۔ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 307]

Previous    4    5    6    7    8    9    10    Next