الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


صحيح البخاري کل احادیث (7563)
حدیث نمبر سے تلاش:

صحيح البخاري
كِتَاب الْهِبَةِ وَفَضْلِهَا وَالتَّحْرِيضِ عَلَيْهَا
کتاب: ہبہ کےمسائل فضیلت اور ترغیب کا بیان
حدیث نمبر: 2598
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُنْكَدِرِ، سَمِعْتُ جَابِرًا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ لِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَوْ جَاءَ مَالُ الْبَحْرَيْنِ أَعْطَيْتُكَ هَكَذَا ثَلَاثًا، فَلَمْ يَقْدَمْ حَتَّى تُوُفِّيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَمَرَ أَبُو بَكْرٍ مُنَادِيًا، فَنَادَى: مَنْ كَانَ لَهُ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِدَةٌ أَوْ دَيْنٌ فَلْيَأْتِنَا، فَأَتَيْتُهُ، فَقُلْتُ: إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَدَنِي فَحَثَى لِي ثَلَاثًا".
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن المنکدر نے بیان کیا، انہوں نے جابر رضی اللہ عنہ سے سنا۔ آپ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے وعدہ فرمایا، اگر بحرین کا مال (جزیہ کا) آیا تو میں تمہیں اتنا اتنا تین لپ مال دوں گا۔ لیکن بحرین سے مال آنے سے پہلے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم وفات فرما گئے اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ایک منادی سے یہ اعلان کرنے کے لیے کہا کہ جس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی وعدہ ہو یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اس کا کوئی قرض ہو تو وہ ہمارے پاس آئے۔ چنانچہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں گیا اور کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے وعدہ کیا تھا۔ تو انہوں نے تین لپ بھر کر مجھے دئیے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْهِبَةِ وَفَضْلِهَا وَالتَّحْرِيضِ عَلَيْهَا/حدیث: 2598]
19. بَابُ كَيْفَ يُقْبَضُ الْعَبْدُ وَالْمَتَاعُ:
19. باب: غلام لونڈی اور سامان پر کیوں کر قبضہ ہوتا ہے۔
حدیث نمبر: Q2599
وَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: كُنْتُ عَلَى بَكْرٍ صَعْبٍ، فَاشْتَرَاهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ: هُوَ لَكَ يَا عَبْدَ اللَّهِ.
اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ میں ایک سرکش اونٹ پر سوار تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے تو اسے خریدا پھر فرمایا عبداللہ یہ اونٹ تو لے لے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْهِبَةِ وَفَضْلِهَا وَالتَّحْرِيضِ عَلَيْهَا/حدیث: Q2599]
حدیث نمبر: 2599
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:" قَسَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَقْبِيَةً وَلَمْ يُعْطِ مَخْرَمَةَ مِنْهَا شَيْئًا، فَقَالَ مَخْرَمَةُ: يَا بُنَيَّ، انْطَلِقْ بِنَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَانْطَلَقْتُ مَعَهُ، فَقَالَ: ادْخُلْ فَادْعُهُ لِي، قَالَ: فَدَعَوْتُهُ لَهُ، فَخَرَجَ إِلَيْهِ وَعَلَيْهِ قَبَاءٌ مِنْهَا، فَقَالَ: خَبَأْنَا هَذَا لَكَ، قَالَ: فَنَظَرَ إِلَيْهِ، فَقَالَ: رَضِيَ مَخْرَمَةُ".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا ابن ابی ملیکہ سے اور وہ مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند قبائیں تقسیم کیں اور مخرمہ رضی اللہ عنہ کو اس میں سے ایک بھی نہیں دی۔ انہوں نے (مجھ سے) کہا، بیٹے چلو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں چلیں۔ میں ان کے ساتھ چلا۔ پھر انہوں نے کہا کہ اندر جاؤ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کرو کہ میں آپ کا منتظر کھڑا ہوا ہوں، چنانچہ میں اندر گیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بلا لایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت انہیں قباؤں میں سے ایک قباء پہنے ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے یہ تمہارے لیے چھپا رکھی تھی، لو اب یہ تمہاری ہے۔ مسور نے بیان کیا کہ (میرے والد) مخرمہ رضی اللہ عنہ نے قباء کی طرف دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مخرمہ! خوش ہو یا نہیں؟ [صحيح البخاري/كِتَاب الْهِبَةِ وَفَضْلِهَا وَالتَّحْرِيضِ عَلَيْهَا/حدیث: 2599]
20. بَابُ إِذَا وَهَبَ هِبَةً فَقَبَضَهَا الآخَرُ، وَلَمْ يَقُلْ قَبِلْتُ:
20. باب: اگر کوئی ہبہ کرے اور موہوب لہ اس پر قبضہ کر لے لیکن زبان سے قبول نہ کرے۔
حدیث نمبر: 2600
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَحْبُوبٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: هَلَكْتُ، فَقَالَ: وَمَا ذَاكَ؟ قَالَ: وَقَعْتُ بِأَهْلِي فِي رَمَضَانَ، قَالَ: تَجِدُ رَقَبَةً؟ قَالَ: لَا، قَالَ: فَهَلْ تَسْتَطِيعُ أَنْ تَصُومَ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ؟ قَالَ: لَا، قَالَ: فَتَسْتَطِيعُ أَنْ تُطْعِمَ سِتِّينَ مِسْكِينًا؟ قَالَ: لَا، قَالَ: فَجَاءَ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ بِعَرَقٍ، وَالْعَرَقُ الْمِكْتَلُ فِيهِ تَمْرٌ، فَقَالَ: اذْهَبْ بِهَذَا فَتَصَدَّقْ بِهِ، قَالَ: عَلَى أَحْوَجَ مِنَّا يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ مَا بَيْنَ لَابَتَيْهَا أَهْلُ بَيْتٍ أَحْوَجُ مِنَّا، قَالَ: اذْهَبْ فَأَطْعِمْهُ أَهْلَكَ".
ہم سے محمد بن محبوب نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالواحد بن زیادہ نے بیان کیا، کہا ہم سے معمر نے بیان کیا زہری سے، وہ حمید بن عبدالرحمٰن سے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک دیہاتی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور کہنے لگا کہ میں تو ہلاک ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کیا بات ہوئی؟ عرض کیا کہ رمضان میں میں نے اپنی بیوی سے ہمبستری کر لی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا تمہارے پاس کوئی غلام ہے؟ کہا کہ نہیں۔ پھر دریافت فرمایا کیا دو مہینے پے در پے روزے رکھ سکتے ہو؟ کہا کہ نہیں۔ پھر دریافت فرمایا کیا ساٹھ مسکینوں کو کھانا دے سکتے ہو؟ اس پر بھی جواب تھا کہ نہیں۔ بیان کیا کہ اتنے میں ایک انصاری عرق لائے۔ (عرق کھجور کے پتوں کا بنا ہوا ایک ٹوکرا ہوتا تھا جس میں کھجور رکھی جاتی تھی) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا اسے لے جا اور صدقہ کر دے انہوں نے عرض کیا، یا رسول اللہ! کیا اپنے سے زیادہ ضرورت مند پر صدقہ کر دوں؟ اور اس ذات کی قسم! جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے کہ سارے مدینے میں ہم سے زیادہ محتاج اور کوئی گھرانہ نہیں ہو گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر جا، اپنے ہی گھر والوں کو کھلا دے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْهِبَةِ وَفَضْلِهَا وَالتَّحْرِيضِ عَلَيْهَا/حدیث: 2600]
21. بَابُ إِذَا وَهَبَ دَيْنًا عَلَى رَجُلٍ:
21. باب: اگر کوئی اپنا قرض کسی کو ہبہ کر دے۔
حدیث نمبر: Q2601
قَالَ شُعْبَةُ: عَنِ الْحَكَمِ هُوَ جَائِزٌ، وَوَهَبَ الحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ عَلَيْهِمَا السَّلَام لِرَجُلٍ دَيْنَهُ، وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ كَانَ لَهُ عَلَيْهِ حَقٌّ فَلْيُعْطِهِ أَوْ لِيَتَحَلَّلْهُ مِنْهُ، فَقَالَ جَابِرٌ: قُتِلَ أَبِي وَعَلَيْهِ دَيْنٌ، فَسَأَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غُرَمَاءَهُ أَنْ يَقْبَلُوا ثَمَرَ حَائِطِي وَيُحَلِّلُوا أَبِي.
شعبہ نے کہا اور ان سے حکم نے کہ یہ جائز ہے اور حسن بن علی رضی اللہ عنہما نے ایک شخص کو اپنا قرض معاف کر دیا تھا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر کسی کا دوسرے شخص پر کوئی حق ہے تو اسے ادا کرنا چاہئے یا معاف کرا لے۔ جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میرے باپ شہید ہوئے تو ان پر قرض تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے قرض خواہوں سے کہا کہ وہ میرے باغ کی (صرف موجودہ) کھجور (اپنے قرض کے بدلے میں) قبول کر لیں اور میرے والد پر (جو قرض باقی رہ جائے اسے) معاف کر دیں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْهِبَةِ وَفَضْلِهَا وَالتَّحْرِيضِ عَلَيْهَا/حدیث: Q2601]
حدیث نمبر: 2601
حَدَّثَنَا عَبْدَانُ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا يُونُسُ، وَقَالَ اللَّيْثُ: حَدَّثَنِي يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَخْبَرَهُ، أَنَّ أَبَاهُ قُتِلَ يَوْمَ أُحُدٍ شَهِيدًا، فَاشْتَدَّ الْغُرَمَاءُ فِي حُقُوقِهِمْ، فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَكَلَّمْتُهُ، فَسَأَلَهُمْ أَنْ يَقْبَلُوا ثَمَرَ حَائِطِي وَيُحَلِّلُوا أَبِي، فَأَبَوْا، فَلَمْ يُعْطِهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَائِطِي وَلَمْ يَكْسِرْهُ لَهُمْ، وَلَكِنْ قَالَ: سَأَغْدُو عَلَيْكَ إِنْ شَاءَ اللَّهُ، فَغَدَا عَلَيْنَا حِينَ أَصْبَحَ، فَطَافَ فِي النَّخْلِ، وَدَعَا فِي ثَمَرِهِ بِالْبَرَكَةِ، فَجَدَدْتُهَا فَقَضَيْتُهُمْ حُقُوقَهُمْ وَبَقِيَ لَنَا مِنْ ثَمَرِهَا بَقِيَّةٌ، ثُمَّ جِئْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ جَالِسٌ فَأَخْبَرْتُهُ بِذَلِكَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِعُمَرَ: اسْمَعْ وَهُوَ جَالِسٌ يَا عُمَرُ، فَقَالَ: أَلَّا يَكُونُ قَدْ عَلِمْنَا أَنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ، وَاللَّهِ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللَّهِ".
ہم سے عبدان نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو عبداللہ نے خبر دی، انہیں یونس نے خبر دی اور لیث نے بیان کیا کہ مجھ سے یونس نے بیان کیا ابن شہاب سے، وہ ابن کعب بن مالک سے اور انہیں جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ احد کی لڑائی میں ان کے باپ شہید ہو گئے (اور قرض چھوڑ گئے) قرض خواہوں نے تقاضے میں بڑی شدت کی، تو میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سلسلے میں گفتگو کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ وہ میرے باغ کی کھجور لے لیں (جو بھی ہوں) اور میرے والد کو (جو باقی رہ جائے وہ قرض) معاف کر دیں۔ لیکن انہوں نے انکار کیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا باغ انہیں نہیں دیا اور نہ ان کے لیے پھل تڑوائے۔ بلکہ فرمایا کہ کل صبح میں تمہارے یہاں آؤں گا۔ صبح کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور کھجور کے درختوں میں ٹہلتے رہے اور برکت کی دعا فرماتے رہے پھر میں نے پھل توڑ کر قرض خواہوں کے سارے قرض ادا کر دئیے اور میرے پاس کھجور بچ بھی گئی۔ اس کے بعد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے ہوئے تھے۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو واقعہ کی اطلاع دی۔ عمر رضی اللہ عنہ بھی وہیں بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا، عمر! سن رہے ہو؟ عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا، ہمیں تو پہلے سے معلوم ہے کہ آپ اللہ کے سچے رسول ہیں۔ قسم اللہ کی! اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش ہی نہیں کہ آپ اللہ کے سچے رسول ہیں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْهِبَةِ وَفَضْلِهَا وَالتَّحْرِيضِ عَلَيْهَا/حدیث: 2601]
22. بَابُ هِبَةِ الْوَاحِدِ لِلْجَمَاعَةِ:
22. باب: ایک چیز کئی آدمیوں کو ہبہ کرے تو کیسا ہے؟
حدیث نمبر: Q2602
وَقَالَتْ أَسْمَاءُ لِلْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، وَابْنِ أَبِي عَتِيقٍ: وَرِثْتُ عَنْ أُخْتِي عَائِشَةَ مَالًا بِالْغَابَةِ، وَقَدْ أَعْطَانِي بِهِ مُعَاوِيَةُ مِائَةَ أَلْفٍ فَهُوَ لَكُمَا.
اور اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا نے قاسم بن محمد اور ابن ابی عتیق سے کہا کہ میری بہن عائشہ رضی اللہ عنہا سے وراثت میں مجھے غابہ (کی زمین) ملی تھی۔ معاویہ رضی اللہ عنہ نے مجھے اس کا ایک لاکھ (درہم) دیا لیکن میں نے اسے نہیں بیچا، یہی تم دونوں کو ہدیہ ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْهِبَةِ وَفَضْلِهَا وَالتَّحْرِيضِ عَلَيْهَا/حدیث: Q2602]
حدیث نمبر: 2602
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ قَزَعَةَ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ،" أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُتِيَ بِشَرَابٍ فَشَرِبَ، وَعَنْ يَمِينِهِ غُلَامٌ، وَعَنْ يَسَارِهِ الْأَشْيَاخُ، فَقَالَ لِلْغُلَامِ: إِنْ أَذِنْتَ لِي أَعْطَيْتُ هَؤُلَاءِ، فَقَالَ: مَا كُنْتُ لِأُوثِرَ بِنَصِيبِي مِنْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَحَدًا فَتَلَّهُ فِي يَدِهِ".
ہم سے یحییٰ بن قزعہ نے بیان کیا، کہا ہم سے امام مالک نے، وہ ابوحازم سے، وہ سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پینے کو کچھ لایا، (دودھ یا پانی) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نوش فرمایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دائیں طرف ایک بچہ بیٹھا تھا اور بڑے بوڑھے لوگ بائیں طرف بیٹھے ہوئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بچے سے فرمایا کہ اگر تو اجازت دے (تو بچا ہوا پانی) میں ان بڑے لوگوں کو دے دوں؟ لیکن اس نے کہا۔ یا رسول اللہ! آپ کے جوٹھے میں سے ملنے والے کسی حصہ کا میں ایثار نہیں کر سکتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیالہ جھٹکے کے ساتھ اسی کی طرف بڑھا دیا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْهِبَةِ وَفَضْلِهَا وَالتَّحْرِيضِ عَلَيْهَا/حدیث: 2602]
23. بَابُ الْهِبَةِ الْمَقْبُوضَةِ وَغَيْرِ الْمَقْبُوضَةِ، وَالْمَقْسُومَةِ وَغَيْرِ الْمَقْسُومَةِ:
23. باب: جو چیز قبضہ میں ہو یا نہ ہو اور جو چیز بٹ گئی ہو اور جو نہ بٹی ہو، اس کا ہبہ کا بیان۔
حدیث نمبر: Q2603
وَقَدْ وَهَبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ لِهَوَازِنَ مَا غَنِمُوا مِنْهُمْ، وَهُوَ غَيْرُ مَقْسُومٍ.
‏‏‏‏ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب نے قبیلہ ہوازن کو ان کی تمام غنیمت ہبہ کر دی، حالانکہ اس کی تقسیم نہیں ہوئی تھی۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْهِبَةِ وَفَضْلِهَا وَالتَّحْرِيضِ عَلَيْهَا/حدیث: Q2603]
حدیث نمبر: 2603
حَدَّثَنَا ثَابِتٌ، حَدَّثَنَا مِسْعَرٌ، عَنْ مُحَارِبٍ، عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ،" أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَسْجِدِ، فَقَضَانِي وَزَادَنِي".
اور ثابت بن محمد نے بیان کیا کہ ہم سے مسعر نے بیان کیا، ان سے محارب نے اور ان سے جابر رضی اللہ عنہ نے کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں (سفر سے لوٹ کر) مسجد میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (میرے اونٹ کی قیمت) ادا کی اور کچھ زیادہ بھی دیا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْهِبَةِ وَفَضْلِهَا وَالتَّحْرِيضِ عَلَيْهَا/حدیث: 2603]

Previous    1    2    3    4    5    6    7    8    9    Next