الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


بلوغ المرام کل احادیث (1359)
حدیث نمبر سے تلاش:

بلوغ المرام
كتاب الصلاة
نماز کے احکام
حدیث نمبر: 209
وعن أبي قتادة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «‏‏‏‏إذا دخل أحدكم المسجد فلا يجلس حتى يصلي ركعتين» ‏‏‏‏ متفق عليه.
سیدنا قتادہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے کوئی جب (بھی) مسجد میں داخل ہو تو بیٹھنے سے پہلے دو رکعت (نفل) ادا کر لے۔ (بخاری ومسلم) [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 209]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الصلاة، باب إذا دخل المسجد فليركع ركعتين، حديث:444، ومسلم، صلاة المسافرين، باب استحباب تحية المسجد بركعتين، حديث:714.»

7. باب صفة الصلاة
7. نماز کی صفت کا بیان
حدیث نمبر: 210
عن أبي هريرة رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وآله وسلم قال: «‏‏‏‏إذا قمت إلى الصلاة فأسبغ الوضوء ثم استقبل القبلة فكبر ثم اقرأ ما تيسر معك من القرآن ثم اركع حتى تطمئن راكعا ثم ارفع حتى تعتدل قائما ثم اسجد حتى تطمئن ساجدا ثم ارفع حتى تطمئن جالسا ثم اسجد حتى تطمئن ساجدا ثم افعل ذلك في صلاتك كلها» .‏‏‏‏ أخرجه السبعة واللفظ للبخاري ولابن ماجه بإسناد مسلم: «‏‏‏‏حتى تطمئن قائما» .ومثله في حديث رفاعة بن رافع عند أحمد وابن حبان: «‏‏‏‏حتى تطمئن قائما» .‏‏‏‏ولأحمد: «‏‏‏‏فأقم صلبك حتى ترجع العظام» .‏‏‏‏ وللنسائي وأبي داود من حديث رفاعة بن رافع: «‏‏‏‏إنها لا تتم صلاة أحدكم حتى يسبغع الوضوء كما أمره الله تعالى ثم يكبر الله تعالى ويحمده ويثني عليه» .‏‏‏‏ وفيها: «فإن كان معك قرآن فاقرأ وإلا فاحمد الله وكبره وهلله» .‏‏‏‏ ولأبي داود: «‏‏‏‏ثم اقرأ بأم الكتاب وبما شاء الله» .‏‏‏‏ولابن حبان: «‏‏‏‏ثم بما شئت» .
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم نماز ادا کرنے کیلئے کھڑا ہونے کا ارادہ کرو تو پہلے وضو اچھی طرح کر لو پھر قبلہ رو ہو کر تکبیر «الله اكبر» کہو۔ پھر قرآن کا جتنا حصہ تمہیں یاد ہو اس میں سے جتنا آسانی سے پڑھ سکتے ہو، پڑھو۔ پھر رکوع کرو اور پوری طرح اطمینان سے رکوع کرو۔ پھر سیدھا کھڑے (ہو جاؤ) اور پورے اطمینان سے کھڑے رہو، پھر سجدہ کرو اور پورے اطمینان کے ساتھ سجدہ کرو پھر سجدہ سے اٹھ کر پورے اطمینان سے بیٹھ جاؤ پھر دوسرا سجدہ کرو اور پورے اطمینان سے کرو۔ پس پھر باقی ساری نماز میں اسی طرح (اطمینان سے ارکان نماز ادا کرو)۔ اسے بخاری، مسلم، ابوداؤد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ اور امام احمد نے روایت کیا ہے اور یہ الفاظ امام بخاری کے ہیں۔ ابن ماجہ نے مسلم کی سند سے رکوع سے کھڑے ہونے کے وقت یہ الفاظ نقل کئے ہیں کہ پورے اطمینان سے کھڑے ہو جاؤ۔ احمد اور ابن حبان میں رفاعہ بن رافع بن مالک کی روایت میں بھی اسی طرح ہے اور مسند احمد کی ایک روایت میں ہے کہ اپنی کمر (پشت) کو سیدھا کرو کہ ہڈیاں اپنے مقام میں واپس آ جائیں۔ نسائی اور ابوداؤد میں رفاعہ بن رافع سے ہے کہ جب تک وضو کامل نہ ہو جس طرح اللہ نے حکم دیا ہے اس وقت تک نماز مکمل نہیں ہو سکتی۔ پھر تکبیر کہے اور اللہ کی حمد و ثناء کرے اور اس روایت میں یہ بھی مذکور ہے اگر تجھے قرآن کا کچھ حصہ یاد ہو تو اسے پڑھ بصورت دیگر اللہ کی حمد و توصیف کر «الله اكبر» اور «لا إله إلا الله» ۔ ابوداؤد میں ہے کہ پھر سورۃ «فاتحه» پڑھ اور مزید جو اللہ نے چاہا۔ ابن حبان میں ہے پھر جو تم چاہو پڑھو۔ [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 210]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الأذان، باب أمر النبي صلي الله عليه وسلم الذي لا يتم ركوعه بالإعادة، حديث:793، ومسلم، الصلاة، باب وجوب قراءة الفاتحة في كل ركعة، حديث:397، وأبوداود، الصلاة، حديث:856، والترمذي، الصلاة، حديث:303، والنسائي، الافتتاح، حديث:885، وابن ماجه، إقامة الصلوات، حديث:1060، وأخرجه أحمد:2 /437، وحديث رفاعة أخرجه أحمد: 4 /340، وابن حبان (الإحسان):1784، والنسائي، التطبيق، حديث:1137، وأبوداود، الصلاة، حديث:858.»

حدیث نمبر: 211
وَعَنْ أَبِي حُمَيْدٍ اَلسَّاعِدِيِّ ‏رَضِيَ اللَّهُ عَنْه قَالَ: {رَأَيْتُ اَلنَّبِيَّ ‏صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا كَبَّرَ جَعَلَ يَدَيْهِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ , وَإِذَا رَكَعَ أَمْكَنَ يَدَيْهِ مِنْ رُكْبَتَيْهِ , ثُمَّ هَصَرَ ظَهْرِهِ , فَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ اِسْتَوَى حَتَّى يَعُودَ كُلُّ فَقَارٍ مَكَانَهُ , فَإِذَا سَجَدَ وَضَعَ يَدَيْهِ غَيْرَ مُفْتَرِشٍ وَلَا قَابِضِهِمَا , وَاسْتَقْبَلَ بِأَطْرَافِ أَصَابِعِ رِجْلَيْهِ اَلْقِبْلَةَ , وَإِذَا جَلَسَ فِي اَلرَّكْعَتَيْنِ جَلَسَ عَلَى رِجْلِهِ اَلْيُسْرَى وَنَصَبَ اَلْيُمْنَى , وَإِذَا جَلَسَ فِي اَلرَّكْعَةِ اَلْأَخِيرَةِ قَدَّمَ رِجْلَهُ اَلْيُسْرَى وَنَصَبَ اَلْأُخْرَى , وَقَعَدَ عَلَى مَقْعَدَتِهِ} أَخْرَجَهُ اَلْبُخَارِيُّ
سیدنا ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تکبیر (اولیٰ) کے وقت اپنے دونوں ہاتھ کندھوں کے برابر تک اٹھاتے دیکھا ہے اور جب رکوع کرتے تو اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنے گھٹنوں کو مضبوطی سے پکڑ لیتے تھے اور اپنی پشت مبارک جھکا لیتے پھر جب اپنا سر رکوع سے اوپر اٹھاتے تو اس طرح سیدھے کھڑے ہوتے کہ ہر جوڑ اپنی اپنی جگہ پر پہنچ جاتا (اس کے بعد) پھر جب سجدہ فرماتے تو اپنے دونوں ہاتھ (زمین) پر اس طرح رکھتے کہ نہ زیادہ سمٹے ہوتے اور نہ زمین پر بچھے ہوئے ہوتے۔ حالت سجدہ میں دونوں پاؤں کی انگلیاں قبلہ رخ ہوتیں۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو رکعت پڑھ کر قعدہ کرتے تو بایاں پاؤں زمین پر بچھا لیتے اور دایاں پاؤں کھڑا رکھتے اور جب آخری قعدہ کرتے تو بایاں پاؤں (دائیں ران کے نیچے سے) آگے بڑھا دیتے اور دایاں کھڑا رکھتے اور سرین پر بیٹھ جاتے۔ (بخاری) [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 211]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الأذان، باب سنة الجلوس في التشهد، حديث:828.»

حدیث نمبر: 212
وَعَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ ‏رَضِيَ اللَّهُ عَنْه عَنْ رَسُولِ اَللَّهِ ‏صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ {أَنَّهُ كَانَ إِذَا قَامَ إِلَى اَلصَّلَاةِ قَالَ:"وَجَّهْتُ وَجْهِي لِلَّذِي فَطَّرَ اَلسَّمَوَاتِ".‏.‏.‏ إِلَى قَوْلِهِ:"مِنْ اَلْمُسْلِمِينَ , اَللَّهُمَّ أَنْتَ اَلْمَلِكُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ , أَنْتَ رَبِّي وَأَنَا عَبْدُكَ.‏.‏.‏} إِلَى آخِرِهِ.‏ رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَفِي رِوَايَةٍ لَهُ: أَنَّ ذَلِكَ فِي صَلَاةِ اَللَّيْلِ.
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کیلئے کھڑے ہوتے تو پہلے یہ دعا پڑھتے کہ «وجهت وجهي للذي فطر السموات والأرض ...... من المسلمين، ‏‏‏‏ ‏‏‏‏ اللهم أنت الملك لا إله إلا أنت أنت ربي وأنا عبدك .... إلى آخره» میں نے اپنے چہرے کو آسمانوں اور زمینوں کے خالق کی طرف متوجہ کیا اور میں مشرکوں سے نہیں۔ میری نماز و قربانی، میرا جینا و مرنا اللہ رب العزت ہی کے لئے ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کا مجھے حکم ہے اور میں مسلمانوں میں سے ہوں۔ اے اللہ! تو ہی مالک، تو ہی معبود ہے، تو میرا رب اور میں تیرا بندہ ہوں۔ (آخر تک) اور مسلم ہی کی ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ رات کہ نماز (تہجد) میں پڑھا کرتے تھے۔ [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 212]
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم، صلاة المسافرين، باب الدعاء في صلاة الليل وقيامه، حديث:771.»

حدیث نمبر: 213
وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ‏رَضِيَ اللَّهُ عَنْه قَالَ: {كَانَ رَسُولُ اَللَّهِ ‏‏صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا كَبَّرَ لِلصَّلَاةِ سَكَتَ هُنَيَّةً , قَبْلِ أَنْ يَقْرَأَ , فَسَأَلْتُهُ , فَقَالَ:"أَقُولُ: اَللَّهُمَّ بَاعِدْ بَيْنِي وَبَيْنَ خَطَايَايَ كَمَا بَاعَدْتَ بَيْنَ اَلْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ , اَللَّهُمَّ نقِّنِي مِنْ خَطَايَايَ كَمَا يُنَقَّى اَلثَّوْبُ اَلْأَبْيَضُ مِنْ اَلدَّنَسِ , اَللَّهُمَّ اِغْسِلْنِي مِنْ خَطَايَايَ بِالْمَاءِ وَالثَّلْجِ وَالْبَرَدِ} مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ تکبیر تحریمہ کے بعد تھوڑا سا وقفہ فرماتے پھر قرآت شروع کرتے (ایک روز) میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! وقفہ کے دوران آپ کیا پڑھتے ہیں؟ فرمایا! «اللهم باعد بيني وبين خطاياي كما باعدت بين المشرق والمغرب اللهم نقني من خطاياي كما ينقى الثوب الأبيض من الدنس اللهم اغسلني من خطاياي بالماء والثلج والبرد» اے اللہ! میرے اور میرے گناہوں کے مابین اتنا فاصلہ اور دوری فرما دے کہ جتنا مشرق و مغرب کے درمیان فاصلہ ہے۔ اے اللہ! مجھے گناہوں اور خطاؤں سے اس طرح صاف فرما دے کہ جس طرح سفید کپڑا میل کچیل سے صاف کیا جاتا ہے۔ اے اللہ! میرے گناہوں کو پانی، برف اور اولوں سے دھو ڈال۔ (بخاری و مسلم) [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 213]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الأذان، باب ما يقول بعد التكبير، حديث:744، ومسلم، المساجد، باب ما يقال بين تكبيرة الإحرام والقراءة، حديث:598.»

حدیث نمبر: 214
وعن عمر رضي الله عنه أنه كان يقول: سبحانك اللهم وبحمدك وتبارك اسمك وتعالى جدك ولا إله غيرك رواه مسلم بسند منقطع. ورواه الدارقطني موصولا وموقوفا. ونحوه عن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه مرفوعا،‏‏‏‏ عند الخمسة. وفيه: وكان يقول بعد التكبير: «أعوذ بالله السميع العليم من الشيطان الرجيم من همزه ونفخه ونفثه» .‏‏‏‏
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ (وقفہ کے دوران میں) «سبحانك اللهم وبحمدك وتبارك اسمك وتعالى جدك ولا إله غيرك» پڑھتے تھے اے اللہ تو پاک ہے (ہر عیب اور ہر نقص سے) سب تعریفیں تیرے ہی لئے ہیں۔ بابرکت ہے تیرا نام اور بلند ہے، تیری شان اور تیرے سوا کوئی معبود نہیں
اسے مسلم نے منقطع اور دارقطنی نے موصول روایت کیا ہے اور یہ موقوف ہے۔ احمد، ابوداؤد، نسائی اور ابن ماجہ پانچوں نے سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کے حوالہ سے اسی طرح روایت کیا ہے اور اس میں یہ بھی ذکر ہے کہ تکبیر تحریمہ کر بعد تعوذ یعنی «أعوذ بالله السميع العليم من الشيطان الرجيم من همزه ونفخه ونفثه» پڑھتے تھے۔ میں اللہ سمیع و علیم کی شیطان مردود سے پناہ لیتا ہوں اس کے وسوسوں سے، اس کے پھونکنے سے یعنی (کبر و نخوت) سے اور اس کے اشعار اور جادو سے۔ [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 214]
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم، الصلاة، باب حجة من قال لا يجهر بالبسملة، حديث: 399، والدارقطني:1 /299، وحديث أبي سعيد أخرجه أبوداود، الصلاة، حديث: 775، والترمذي، الصلاة، حديث:242، وابن ماجه، إقامة الصلوات، حديث:807، والنسائي، الافتتاح، حديث:900، 901، وأحمد:1 /403، 404 و3 /50 و4 /80 و6 /156.»

حدیث نمبر: 215
وعن عائشة رضي الله عنها قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يستفتح الصلاة بالتكبير والقراءة بالحمد لله رب العالمين،‏‏‏‏ وكان إذا ركع لم يشخص رأسه ولم يصوبه ولكن بين ذلك،‏‏‏‏ وكان إذا رفع من الركوع لم يسجد حتى يستوي قائما،‏‏‏‏ وكان إذا رفع رأسه من السجود لم يسجد حتى يستوي جالسا،‏‏‏‏ وكان يقول في كل ركعتين التحية،‏‏‏‏ وكان يفرش رجله اليسرى وينصب اليمنى،‏‏‏‏ وكان ينهى عن عقبة الشيطان وينهى أن يفترش الرجل ذراعيه افتراش السبع،‏‏‏‏ وكان يختم الصلاة بالتسليم.أخرجه مسلم وله علة.
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کا آغاز «الله اكبر» سے کیا کرتے تھے اور قرآت «الحمد لله رب العالمين» (سورۃ «فاتحه») سے شروع کرتے اور جب رکوع کرتے تو اپنا سر مبارک نہ اونچا کرتے اور نہ نیچا کرتے بلکہ اس کے درمیان کی حالت میں رکھتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو اس وقت تک سجدہ میں نہ جاتے جب تک کہ بالکل سیدھے کھڑے نہ ہو جاتے اور جب سجدہ سے سر اٹھاتے تو دوسرا سجدہ اس وقت تک نہ کرتے جب تک کہ ٹھیک آرام سے بیٹھ نہ جاتے اور ہر دو رکعت کے بعد تشہد پڑھتے اور اپنے بائیں پاؤں کو زمین پر بچھا لیتے اور دائیں کو قائم رکھتے (کھڑا رکھتے) شیطان کی چوکڑی سے منع فرماتے تھے اور درندوں کی طرح بازو آگے نکال کر بیٹھنے سے بھی منع فرماتے تھے اور نماز کو سلام کے ساتھ ختم کرتے تھے۔ (مسلم) اس کی سند معلول ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 215]
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم، الصلاة، باب ما يجمع صفة الصلاة وما يفتح به، حديث:498، والعلة مردودة هاهنا.»

حدیث نمبر: 216
وعن ابن عمر رضي الله عنهما أن النبي صلى الله عليه وآله وسلم كان يرفع يديه حذو منكبيه إذا افتتح الصلاة وإذ كبر للركوع وإذا رفع رأسه من الركوع. متفق عليه.وفي حديث أبي حميد عند أبي داود: يرفع يديه حتى يحاذي بهما منكبيه،‏‏‏‏ ثم يكبر.ولمسلم: عن مالك بن الحويرث نحو حديث ابن عمر لكن قال: حتى يحاذي بهما فروع أذنيه.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کا آغاز فرماتے تو اپنے دونوں ہاتھ کندھوں کے مقابل تک اٹھاتے اور جب رکوع کے لئے «الله اكبر» کہتے تو بھی اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تب بھی اپنے دونوں ہاتھ کندھوں کے مقابل تک اٹھاتے۔ (رفع یدین کرتے) (بخاری ومسلم)۔ اور ابوداؤد میں ابوحمید سے مروی حدیث میں ہے کہ اپنے دونوں ہاتھوں کو کندھوں کے برابر اٹھاتے پھر «الله اكبر» (تکبیر) کہتے۔ اور مسلم میں مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں بھی اسی طرح منقول ہے، جس طرح ابن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت میں ہے لیکن اس میں کندھوں کے مقابل کی جگہ اپنے کانوں کے مقابل تک اٹھاتے مذکور ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 216]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الأذان، باب رفع اليدين في التكبيرة الأولي مع الافتتاح سواء، حديث:735، ومسلم، الصلاة، باب استحباب رفع اليدين حذو المنكبين مع تكبيرة الإحرام والركوع، حديث:390، وحديث أبي حميد أخرجه أبوداود، الصلاة، حديث:730.»

حدیث نمبر: 217
وعن وائل بن حجر قال: صليت مع النبي صلى الله عليه وآله وسلم فوضع يده اليمنى على يده اليسرى على صدره. أخرجه ابن خزيمة.
سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز ادا کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دایاں ہاتھ اپنے بائیں ہاتھ پر رکھ کر سینے پر باندھ لئے۔ (ابن خزیمہ) [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 217]
تخریج الحدیث: «أخرجه ابن خزيمة:1 /243، حديث:479، وسنده ضعيف من أجل عنعنة الثوري، وللحديث شواهد كثيرة عند أحمد:5 /226 وغيره.»

حدیث نمبر: 218
وعن عبادة بن الصامت قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «لا صلاة لمن لم يقرأ بأم القرآن» .‏‏‏‏ متفق عليه. وفي رواية لابن حبان والدارقطني: «‏‏‏‏لا تجزىء صلاة لا يقرأ فيها بفاتحة الكتاب» .‏‏‏‏ وفي أخرى لأحمد وأبي داود والترمذي وابن حبان:«‏‏‏‏لعلكم تقرءون خلف إمامكم؟» قلنا: نعم. قال: «‏‏‏‏لا تفعلوا إلا بفاتحة الكتاب فإنه لا صلاة لمن لم يقرأ بها» .
سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس نے (نماز میں) «أم القرآن» ( «فاتحه») نہ پڑھی اس کی کوئی نماز نہیں۔ (بخاری و مسلم) ابن حبان اور دارقطنی میں روایت ہے کہ جس نماز میں سورۃ «فاتحه» نہ پڑھی گئی ہو وہ نماز کافی نہیں ہوتی۔ احمد، ابوداؤد، ترمذی، ابن حبان کی ایک دوسری روایت میں ہے کہ شاید تم لوگ امام کے پیچھے کچھ پڑھتے ہو ہم نے عرض کیا جی ہاں (پڑھتے ہیں) فرمایا ایسا نہ کیا کرو بجز سورۃ «فاتحه» کے۔ اس لئے کہ جس نے اسے نہ پڑھا اس کی (تو) نماز ہی نہیں ۔ [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 218]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الأذان، باب وجوب القراءة للإمام والمأموم، حديث:756، ومسلم، الصلاة، باب وجوب قراءة الفاتحة في كل ركعة، حديث:394، وابن حبان (الإحسان): 3 /139، حديث:1786، والدارقطني: 1 /322، وهو حديث صحيح، وحديث "لعلكم تقرؤون خلف إمامكم" أخرجه أحمد:5 /60، وأبوداود، الصلاة، حديث:823، والترمذي، الصلاة، حديث:247، وهوحديث صحيح.»


Previous    5    6    7    8    9    10    11    12    13    Next