الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن دارمي کل احادیث (3535)
حدیث نمبر سے تلاش:

سنن دارمي
مقدمه
مقدمہ
حدیث نمبر: 61
أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ الْحِزَامِيُّ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ، قَالَ: قُلْتُ: لِلرُّبَيِّعِ بِنْتِ مُعَوِّذِ ابْنِ عَفْرَاءَ: صِفِي لَنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا بُنَيَّ "لَوْ رَأَيْتَهُ، رَأَيْتَ الشَّمْسَ طَالِعَةً".
ابوعبیدہ سے روایت ہے کہ میں نے سیدہ ربیع بنت معوذ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات سے آگاہ کیجئے، انہوں نے کہا: بیٹے! اگر تم انہیں صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتے تو سمجھتے کہ سورج طلوع ہو گیا ہے۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 61]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف لضعف عبد الله بن موسى الطلحي التيمي، [مكتبه الشامله نمبر: 61] »
اس روایت کی سند ضعیف ہے اور اسی سند سے طبرانی نے اسے [معجم كبير 696] و [اوسط 4455] اور بیہقی نے [الدلائل 551] میں ذکر کیا ہے۔ [مجمع البحرين 187/6، 188 (3563)] میں بھی یہ روایت موجود ہے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خوبصورت شمس و قمر کے مانند روشن چہرہ مُسلّم ہے جیسا کہ آگے آ رہا ہے۔

حدیث نمبر: 62
أَخْبَرَنَا حَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، أَخْبَرَنَا ثَابِتٌ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "أَزْهَرَ اللَّوْنِ كَأَنَّ عَرَقَهُ اللُّؤْلُؤُ، إِذَا مَشَى تَكَفَّأَ، وَمَا مَسِسْتُ حَرِيرَةً وَلَا دِيبَاجَةً أَلْيَنَ مِنْ كَفِّهِ، وَلَا شَمِمْتُ رَائِحَةً قَطُّ أَطْيَبُ مِنْ رَائِحَتِهِ: مِسْكَةً وَلَا غَيْرَهَا".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چمکیلے صاف رنگ کے تھے، آپ کا پسینہ موتی کی طرح تھا، چلتے تو آگے کی طرف جھکے ہوئے اور میں نے ریشم سے زیادہ آپ کی ہتھیلیوں کو نرم و ملائم پایا اور میں نے مشک و عنبر میں بھی وہ خوشبو نہ پائی جو آپ کے جسد مبارک میں تھی۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 62]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 62] »
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [صحيح بخاري 3561] ، [صحيح مسلم 2330] ، [مسند أحمد 107/3] و [مسند ابي يعلى 2784]

حدیث نمبر: 63
أَخْبَرَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: "خَدَمْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَمَا قَالَ لِي: أُفٍّ قَطُّ، وَلَا قَالَ لِي لِشَيْءٍ صَنَعْتُهُ: لِمَ صَنَعْتَ كَذَا وَكَذَا أَوْ هَلَّا صَنَعْتَ كَذَا وَكَذَا، وَقَالَ: لَا وَاللَّهِ مَا مَسِسْتُ بِيَدِي دِيبَاجًا، وَلَا حَرِيرًا أَلْيَنَ مِنْ يَدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَا وَجَدْتُ رِيحًا قَطُّ أَوْ عَرْفًا كَانَ أَطْيَبَ مِنْ عَرْفِ أَوْ رِيحِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دس سال تک خدمت کی، کبھی آپ نے مجھ سے اُف تک نہ کہا۔ نہ کسی چیز کے کر گزرنے پر یہ کہا کہ تم نے ایسا کیوں کیا، ایسا کیوں نہیں کیا۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اللہ کی قسم میں نے دیباج و حریر سے زیادہ نرم ملائم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک کو پایا اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پسینے کی خوشبو کو ہر قسم کی خوشبو سے اچھا پایا۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 63]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 63] »
یہ متفق علیہ روایت ہے، تخریج پچھلی حدیث میں گزر چکی ہے۔ نیز دیکھئے: [مسند ابي يعلی 2992] و [صحيح ابن حبان 2893]

حدیث نمبر: 64
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ الرِّفَاعِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ خُدْرَةَ، حَدَّثَنِي رَجُلٌ مِنْ بَنِي حُرَيْشٍ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ أَبِي حِينَ رَجَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَاعِزَ بْنَ مَالِكٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، فَلَمَّا أَخَذَتْهُ الْحِجَارَةُ أُرْعِبْتُ، "فَضَمَّنِي إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَالَ عَلَيَّ مِنْ عَرَقِ إِبْطِهِ مِثْلُ رِيحِ الْمِسْكِ".
حبیب بن خدرہ سے مروی ہے کہ بنوحریش کے ایک آدمی نے مجھ سے بیان کیا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ماعز بن مالک رضی اللہ عنہ کو رجم کیا تو میں اپنے والد کے ساتھ تھا جب ماعز رضی اللہ عنہ کے پتھر لگا میرے اوپر خوف طاری ہو گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے چمٹا لیا، آپ کی بغل سے میرے اوپر آپ کا پسینہ آ گیا جس کی خوشبو مشک کی خوشبو کے مثل تھی۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 64]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «رجاله ثقات غير حبيب بن خدرة، [مكتبه الشامله نمبر: 64] »
حبیب بن خدره تابعی کے علاوہ تمام راوی اس روایت کے ثقہ ہیں۔

حدیث نمبر: 65
حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ الْبَرَاءِ، قَالَ: سَأَلَهُ رَجُلٌ: أَرَأَيْتَ كَانَ وَجْهُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَ السَّيْفِ؟، قَالَ: "لَا، مِثْلَ الْقَمَرِ".
سیدنا براء رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ایک شخص نے ان سے پوچھا: کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کو تلوار کی طرح دیکھا (یعنی کیا آپ کا چہرہ تلوار کی طرح لمبا اور پتلا تھا؟) انہوں نے کہا: نہیں، آپ کا چہرہ مبارک تو چودہویں کے چاند کی طرح (گول اور خوبصورت) تھا۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 65]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 65] »
یہ روایت صحیح ہے۔ دیکھئے: [صحيح بخاري 3552] و [صحيح ابن حبان 6287]

حدیث نمبر: 66
أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا شَرِيكٌ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "يُعْرَفُ بِاللَّيْلِ بِطيبِ الرِّيحِ".
ابراہیم رحمہ اللہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات میں بھی اپنی خوشبو کی وجہ سے پہچان لئے جاتے تھے۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 66]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده حسن إلى إبراهيم وهو موقوف عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 66] »
یہ روایت موقوف ہے اور اس کو [ابن ابي شيبة 25/9] نے ذکر کیا ہے، لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشبو صحيح احادیث سے ثابت ہے۔

حدیث نمبر: 67
أَخْبَرَنَا مَالِكُ بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ الْفَضْلِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْهَاشِمِيُّ، أَخْبَرَنَا الْمُغِيرَةُ بْنُ عَطِيَّةَ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَمْ يَسْلُكْ طَرِيقًا أَوْ لَا يَسْلُكُ طَرِيقًا، فَيَتْبَعُهُ أَحَدٌ إِلَّا عَرَفَ أَنَّهُ قَدْ سَلَكَهُ مِنْ طِيبِ عَرْفِهِ"، أَوْ قَالَ: مِنْ رِيحِ عَرَقِهِ.
روایت ہے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی راستے سے گزر جاتے تو آپ کے پیچھے جو بھی اس راستے سے گزرتا وہ آپ کی خوشبو یا آپ کے پسینے کی خوشبو کی وجہ سے پہچان لیتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس راستے سے گزرے ہیں۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 67]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «لم يحكم عليه المحقق، [مكتبه الشامله نمبر: 67] »
اس روایت کی سند میں دو راوی ایسے نئے ہیں جن کے بارے میں کوئی جرح و تعدیل نہیں، اور وہ ہیں اسحاق الہاشمی اور مغیره بن عطيہ اور اسے امام بخاری نے [التاريخ الكبير 399/1] میں ذکر کیا ہے۔

11. باب مَا أَكْرَمَ اللَّهُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ كَلاَمِ الْمَوْتَى:
11. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مُردوں سے بات کرنے کا بیان
حدیث نمبر: 68
أَخْبَرَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو اللَّيْثِيُّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَأْكُلُ الْهَدِيَّةَ، وَلَا يَقْبَلُ الصَّدَقَةَ، فَأَهْدَتْ لَهُ امْرَأَةٌ مِنْ يَهُودِ خَيْبَرَ شَاةً مَصْلِيَّةً، فَتَنَاوَلَ مِنْهَا، وَتَنَاوَلَ مِنْهَا بِشْرُ بْنُ الْبَرَاءِ، ثُمَّ رَفَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ، ثُمَّ قَالَ: "إِنَّ هَذِهِ تُخْبِرُنِي أَنَّهَا مَسْمُومَةٌ"، فَمَاتَ بِشْرُ بْنُ الْبَرَاءِ فَأَرْسَلَ إِلَيْهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"مَا حَمَلَكِ عَلَى مَا صَنَعْتِ؟"، فَقَالَتْ: إِنْ كُنْتَ نَبِيًّا لَمْ يَضُرَّكَ شَيْءٌ، وَإِنْ كُنْتَ مَلِكًا، أَرَحْتُ النَّاسَ مِنْكَ، فَقَالَ: فِي مَرَضِهِ:"مَا زِلْتُ مِنْ الْأَكْلَةِ الَّتِي أَكَلْتُ بِخَيْبَرَ، فَهَذَا أَوَانُ انْقِطَاعِ أَبْهَرِي".
سیدنا ابوسلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہدیہ (کی چیز) کھا لیتے تھے لیکن صدقہ قبول نہیں فرماتے تھے، خیبر کی ایک یہودی عورت نے بھنی ہوئی زہریلی بکری کا ہدیہ پہنچایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا بشر بن البراء رضی اللہ عنہ نے اس میں سے کچھ تناول فرما لیا، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ اٹھا لیا اور فرمایا: اس بکری نے مجھے خبر دی ہے کہ اس میں زہر ملایا گیا ہے۔‏‏‏‏ چنانچہ اس کے اثر سے سیدنا بشر بن براء رضی اللہ عنہ تو فوت ہو گئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کو بلایا اور دریافت کیا کہ تم نے ایسا کیوں کیا؟ اس عورت نے جواب دیا: اگر آپ (سچے) نبی ہیں تو یہ آپ کو کوئی تکلیف نہیں دے گی اور اگر بادشاہ ہیں تو ہمیں آپ سے (چھٹکارہ) راحت مل جائے گی۔ آپ اپنے مرض الموت میں فرمایا کرتے تھے: خیبر میں میں نے جو گوشت کھایا تھا اس کا اثر اور الم اب محسوس کرتا ہوں اور اب میری شریان پھٹنے کا وقت آگیا ہے۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 68]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده حسن وهو مرسل، [مكتبه الشامله نمبر: 68] »
یہ روایت مرسل ہے لیکن حسن ہے۔ اسے [أبوداؤد 4511] ، [ابن سعد 112/1] اور بیہقی نے [دلائل النبوة 262/4] میں ذکر کیا ہے۔

حدیث نمبر: 69
أَخْبَرَنَا الْحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبُ بْنُ أَبِي حَمْزَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: كَانَ جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ يُحَدِّثُ، أَنَّ يَهُودِيَّةً مِنْ أَهْلِ خَيْبَرَ سَمَّتْ شَاةً مَصْلِيَّةً، ثُمَّ أَهْدَتْهَا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخَذَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهَا الذِّرَاعَ فَأَكَلَ مِنْهَا، وَأَكَلَ الرَّهْطُ مِنْ أَصْحَابِهِ مَعَهُ، ثُمَّ قَالَ لَهُمْ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "ارْفَعُوا أَيْدِيَكُمْ"، وَأَرْسَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْيَهُودِيَّةِ فَدَعَاهَا، فَقَالَ لَهَا:"أَسَمَمْتِ هَذِهِ الشَّاةَ؟"، فَقَالَتْ: نَعَمْ، وَمَنْ أَخْبَرَكَ؟، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"أَخْبَرَتْنِي هَذِهِ فِي يَدِيَ: لِلذِّرَاعِ"، قَالَتْ: نَعَمْ، قَالَ:"فَمَاذَا أَرَدْتِ إِلَى ذَلِكَ؟"، قَالَتْ: قُلْتُ: إِنْ كَانَ نَبِيًّا لَمْ يَضُرَّهُ، وَإِنْ لَمْ يَكُنْ نَبِيًّا، اسْتَرَحْنَا مِنْهُ،"فَعَفَا عَنْهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَمْ يُعَاقِبْهَا"، وَتُوُفِّيَ بَعْضُ أَصْحَابِهِ الَّذِينَ أَكَلُوا مِنْ الشَّاةِ،"وَاحْتَجَمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى كَاهِلِهِ مِنْ أَجْلِ الَّذِي أَكَلَ مِنْ الشَّاةِ"، حَجَمَهُ أَبُو هِنْدٍ مَوْلَى بَنِي بَيَاضَةَ، بِالْقَرْنِ وَالشَّفْرَةِ، وَهُوَ مِنْ بَنِي ثُمَامَةَ، وَهُمْ حَيٌّ مِنْ الْأَنْصَارِ.
امام زہری رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ سیدنا جابر بن عبدالله رضی اللہ عنہما بیان کرتے تھے کہ خیبر کی ایک یہودی عورت نے بھنی ہوئی بکری زہر آلود کر کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدیہ کی، آپ نے اس کا دستانہ لے کر کچھ گوشت تناول فرمایا اور آپ کے ساتھ چند صحابہ نے بھی کھایا، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: (بس) اپنے ہاتھ روک لو، اور آپ نے اس عورت کو بلایا اور دریافت کیا: کیا تم نے اس بکری میں زہر ملایا تھا؟ اس نے جواب دیا ہاں، لیکن آپ کو کس نے بتایا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھ سے خود اس دستانے (دست کا گوشت) نے کہا جو میرے ہاتھ میں ہے، اس نے کہا: بیشک میں نے زہر ملایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر تیرا ارادہ کیا تھا؟، وہ بولی میں نے سوچا اگر آپ نبی ہیں تو زہر آپ کو نقصان نہ دے گا اور اگر نبی نہیں ہیں تو ہم کو آپ کی طرف سے راحت مل جائے گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا قصور معاف فرما دیا اور اس کو کچھ سزا نہ دی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے بعض وہ لوگ جنہوں نے وہ گوشت کھا لیا تھا، وفات پا گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی زہر کی وجہ سے اپنے پچھنے لگوائے۔ ابوہند نے گائے کی سینگ اور چھری سے پچھنے لگائے (ابوہند انصار کے ایک قبیلہ بنو بیاضہ کے آزاد کردہ غلام تھے)۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 69]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف لانقطاعه الزهري لم يسمع من جابر فيما نعلم، [مكتبه الشامله نمبر: 69] »
یہ حدیث منقطع اور ضعیف ہے۔ [أبوداؤد 4510] اور [دلائل النبوة للبيهقي 262/4] میں اسی سند سے مذکور ہے۔ لیکن آنے والی حدیث اس کی شاہد ہو سکتی ہے جسے امام احمد و بخاری وغیرہ نے ذکر کیا ہے۔

حدیث نمبر: 70
أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنِي اللَّيْثُ، حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيُّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: لَمَّا فُتِحَتْ خَيْبَرَ، أُهْدِيَتْ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَاةٌ فِيهَا سُمٌّ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "اجْمَعُوا لِي مَنْ كَانَ هَا هُنَا مِنْ الْيَهُودِ"، فَجُمِعُوا لَهُ، فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"إِنِّي سَائِلُكُمْ عَنْ شَيْءٍ فَهَلْ أَنْتُمْ صَادِقِيَّ عَنْهُ؟"، قَالُوا: نَعَمْ، يَا أَبَا الْقَاسِمِ، فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"مَنْ أَبُوكُمْ؟"، قَالُوا: أَبُونَا فُلَانٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"كَذَبْتُمْ، بَلْ أَبُوكُمْ فُلَانٌ"، قَالُوا: صَدَقْتَ وَبَرَرْتَ، فَقَالَ لَهُمْ:"هَلْ أَنْتُمْ صَادِقِيَّ عَنْ شَيْءٍ إِنْ سَأَلْتُكُمْ عَنْهُ؟"، فَقَالُوا: نَعَمْ، وَإِنْ كَذَبْنَاكَ، عَرَفْتَ كَذِبَنَا كَمَا عَرَفْتَهُ فِي آبَائِنَا، فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"فَمَنْ أَهْلُ النَّارِ؟"، فَقَالُوا: نَكُونُ فِيهَا يَسِيرًا ثُمَّ تَخْلِفُونَنا فِيهَا، قَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"اخْسَئُوا فِيهَا، وَاللَّهِ لَا نَخْلِفُكُمْ فِيهَا أَبَدًا"، ثُمَّ قَالَ لَهُمْ:"هَلْ أَنْتُمْ صَادِقِيَّ عَنْ شَيْءٍ إِنْ سَأَلْتُكُمْ عَنْهُ؟"، قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ:"هَلْ جَعَلْتُمْ فِي هَذِهِ الشَّاةِ سُمًّا؟"، قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ:"مَا حَمَلَكُمْ عَلَى ذَلِكَ؟"، قَالُوا: أَرَدْنَا إِنْ كُنْتَ كَاذِبًا أَنْ نَسْتَرِيحَ مِنْكَ، وَإِنْ كُنْتَ نَبِيًّا لَمْ يَضُرَّكَ.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جب خیبر فتح ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک زہر آلود بکری ہدیہ کی گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہاں جتنے یہودی ہیں سب کو میرے پاس جمع کرو، چنانچہ سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جمع کئے گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تم سے ایک بات پوچھنے والا ہوں، کیا تم مجھے صحیح صحیح جواب دو گے؟ انہوں نے کہا ہاں اے ابوالقاسم! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: تمہارا پردادا کون ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ فلاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے جھوٹ کہا، تمہارا پردادا تو فلاں ہے، اس پر وہ بولے آپ نے سچ اور درست فرمایا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا: اگر میں تم سے کوئی اور سوال کروں تو کیا تم سچ سچ بتاؤ گے؟ انہوں نے کہا ہاں اور اگر ہم جھوٹ بولیں بھی تو آپ ہمارا جھوٹ پکڑ لیں گے، جیسا کہ ابھی پردادا کے بارے میں آپ نے ہمارا جھوٹ پکڑ لیا، آپ نے ان سے پوچھا: دوزخ میں رہنے والے کون لوگ ہیں؟ انہوں نے کہا: کچھ دن کے لئے تو ہم اس میں رہیں گے پھر آپ لوگ ہماری جگہ لے لیں گے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اس میں ذلت کے ساتھ پڑے رہو گے، واللہ ہم اس میں تمہاری جگہ کبھی نہ لیں گے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا: اگر میں تم سے ایک اور بات پوچھوں تو کیا تم مجھے صحیح بات بتا دو گے؟ انہوں نے کہا: ہاں (ضرور) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: تم نے اس بکری میں زہر ملایا تھا؟ انہوں نے کہا: ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہیں اس کام پر کس (جذبے) نے ابھارا؟ انہوں نے کہا: ہمارا مقصد یہ تھا کہ اگر آپ جھوٹے ہوں گے تو ہمیں آپ سے نجات مل جائے گی اور اگر آپ سچے نبی ہوں گے تو آپ کو کوئی تکلیف نہ ہو گی۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 70]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف لضعف عبد الله بن صالح ولكن الحديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 70] »
اس حدیث کی یہ سند ضعیف ہے لیکن ہو بہو یہی حدیث [مسند أحمد 451/2] و [صحيح بخاري 5777] میں دوسری سند سے موجود ہے اور اسے بغوی نے [شرح السنة 3807] اور بیہقی نے [دلائل النبوة 256/4] میں ذکر کیا ہے اس لئے حدیث صحیح ہے۔


Previous    3    4    5    6    7    8    9    10    11    Next