الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن دارمي کل احادیث (3535)
حدیث نمبر سے تلاش:

سنن دارمي
مقدمه
مقدمہ
12. باب في سَخَاءِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
12. نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سخاوت کا بیان
حدیث نمبر: 71
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ ابْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: "مَا سُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا قَطُّ، فَقَالَ: لَا"، قَالَ أَبُو مُحَمَّد: قَالَ ابْنُ عُيَيْنَةَ: إِذَا لَمْ يَكُنْ عِنْدَهُ وَعَدَ.
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کبھی ایسا نہیں ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی چیز مانگی گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے دینے سے انکار کیا ہو۔ امام دارمی ابومحمد نے کہا: ابن عیینہ نے بیان کیا اگر وہ چیز آپ کے پاس موجود نہ ہوتی تو دینے کا وعدہ فرما لیتے۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 71]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 71] »
یہ روایت صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [صحيح بخاري 6034] و [صحيح مسلم 2311] و [مصنف ابن ابي شيبة 11859] ، [ابويعلى 2001] ، [ابن حبان 6386]

حدیث نمبر: 72
أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عِمْرَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ، عَنْ زَمْعَةَ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: "كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَيِيًّا، لَا يُسْأَلُ شَيْئًا إِلَّا أَعْطَاهُ".
سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بڑے شرم والے تھے، کوئی بھی چیز آپ سے مانگی جاتی آپ اسے عنایت فرما دیتے۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 72]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف لضعف زمعه، [مكتبه الشامله نمبر: 72] »
یہ حدیث اس سند سے زمعۃ کی وجہ سے ضعیف ہے اور ابوالشیخ نے [اخلاق النبى ص: 40] میں اور طبرانی نے [كبير 5920 - 78/6] میں اسی سند سے ذکر کیا ہے لیکن اس حدیث کا معنی و مطلب درست وصحیح ہے جیسا کہ گزر چکا ہے۔

حدیث نمبر: 73
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ أَبِي خَلَفٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، قالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ الْعَرَبِ، قَالَ: زَحَمْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ حُنَيْنٍ وَفِي رِجْلِي نَعْلٌ كَثِيفَةٌ، فَوَطِئْتُ بِهَا عَلَى رِجْلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَنَفَحَنِي نَفْحَةً بِسَوْطٍ فِي يَدِهِ، وَقَالَ:"بِسْمِ اللَّهِ أَوْجَعْتَنِي"، قَالَ: فَبِتُّ لِنَفْسِي لَائِمًا، أَقُولُ: أَوْجَعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَبِتُّ بِلَيْلَةٍ كَمَا يَعْلَمُ اللَّهُ، فَلَمَّا أَصْبَحْنَا، إِذَا رَجُلٌ يَقُولُ: أَيْنَ فُلَانٌ؟، قَالَ: قُلْتُ: هَذَا وَاللَّهِ الَّذِي كَانَ مِنِّي بِالْأَمْسِ، قَالَ: فَانْطَلَقْتُ وَأَنَا مُتَخَوِّفٌ، فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنَّكَ وَطِئْتَ بِنَعْلِكَ عَلَى رِجْلِي بِالْأَمْسِ فَأَوْجَعْتَنِي، فَنَفَحْتُكَ نَفْحَةً بِالسَّوْطِ، فَهَذِهِ ثَمَانُونَ نَعْجَةً، فَخُذْهَا بِهَا".
عبداللہ بن ابی بکر نے عرب کے ایک آدمی سے روایت کیا (غزوہ) حنین کے دن میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پریشانی میں مبتلا کر دیا، میرے پیروں میں بھاری جوتے تھے جن سے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قدم مبارک دبا دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ میں موجود کوڑے سے سرزنش کی اور فرمایا: بسم اللہ، تم نے مجھے تکلیف دیدی۔‏‏‏‏ راوی نے کہا میں پوری رات اپنے آپ کو ملامت کرتا رہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھ پہنچایا، الله ہی بہتر جانتا ہے کیسے میری رات کٹی، جب صبح ہوئی تو ایک آدمی پکارتا ہے فلاں آدمی کہاں ہے؟ میں نے سوچا یہ کل کی گستاخی کی وجہ سے پکار ہو رہی ہے۔ میں ڈرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے کل اپنے جوتے سے میرا قدم کچل کر مجھے تکلیف دی تو میں نے کوڑے سے تمہیں سرزنش کی تھی اس لئے لو یہ اسّی بھیڑیں انہیں اس سرزنش کے بدلے لے جاؤ۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 73]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «في إسناده مدلسان: عبد الرحمن بن محمد المحاربي ومحمد بن إسحاق ولكن محمد بن إسحاق قد صرح بالتحديث فانتفت شهبة التدليس وأما المحاربي فقد عنعن وإبهام الصحابي لا يضر الحديث فكلهم عدول، [مكتبه الشامله نمبر: 73] »
اس حدیث کی سند میں تدلیس کے علاوہ قابل ردّ اور کوئی علت نہیں، صرف صحابی مجہول ہیں لیکن صحابی کی جہالت بھی ایسی علت نہیں جس سے حدیث کو ضعیف کہا جائے کیونکہ تمام صحابہ عدول ہیں، کہیں اور یہ روایت نہیں ملی۔

حدیث نمبر: 74
أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ ابْنِ أَخِي الزُّهْرِيِّ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: إِنَّ جِبْرِيلَ، قَالَ: "مَا فِي الْأَرْضِ أَهْلُ عَشَرَةِ أَبْيَاتٍ إِلَّا قَلَّبْتُهُمْ، فَمَا وَجَدْتُ أَحَدًا أَشَدَّ إِنْفَاقًا لِهَذَا الْمَالِ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
امام زہری رحمہ اللہ نے کہا کہ جبریل علیہ السلام نے فرمایا: روئے زمین پر کوئی دس گھر ایسے نہیں جن کو میں نے دیکھا نہ ہو لیکن کسی کو بھی میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ اس مال کو خرچ کرنے والا نہیں پایا۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 74]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «رجاله ثقات غير أنه مرسل، [مكتبه الشامله نمبر: 74] »
یہ روایت کہیں اور نہ مل سکی اور اس کے تمام رواۃ ثقہ ہیں، اس کو امام زہری رحمہ اللہ نے مرسلاً روایت کیا ہے۔

13. باب في تَوَاضُعِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
13. نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تواضع کا بیان
حدیث نمبر: 75
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ وَاقِدٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عُقَيْلٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: "كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُكْثِرُ الذِّكْرَ، وَيُقِلُّ اللَّغْوَ، وَيُطِيلُ الصَّلَاةَ، وَيُقْصِرُ الْخُطْبَةَ، وَلَا يَأْنَفُ وَلَا يَسْتَنْكِفُ أَنْ يَمْشِيَ مَعَ الْأَرْمَلَةِ وَالْمِسْكِينِ فَيَقْضِيَ لَهُمَا حَاجَتَهُمَا".
سیدنا عبدالله بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ذکر (الٰہی) زیادہ کرتے اور بے مقصد باتیں کم کرتے تھے، نماز لمبی پڑھتے اور خطبہ مختصر دیتے، نہ برا کہتے اور نہ گھمنڈ کرتے، بیوہ اور مسکین کے ساتھ چلتے اور ان کی ضرورت و حاجت پوری فرماتے۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 75]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف لضعف محمد بن حميد، [مكتبه الشامله نمبر: 75] »
اس روایت کی سند ضعیف ہے لیکن اس کی متابعت موجود ہے اور اس کو امام نسائی نے [السنن الكبرى 1716] میں اور بیہقی نے [شعب الايمان 8114] میں ذکر کیا ہے اور [صحيح ابن حبان 6423] میں بھی یہ حدیث موجود ہے۔

14. باب في وَفَاةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
14. نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا بیان
حدیث نمبر: 76
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، قَالَ: قَالَ الْعَبَّاسُ رِضْوَانُ اللَّهُ عَلَيْهِ: لَأَعْلَمَنَّ مَا بَقَاءُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِينَا؟، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي أَرَاهُمْ قَدْ آذَوْكَ وَآذَاكَ غُبَارُهُمْ، فَلَوِ اتَّخَذْتَ عَرِيشًا تُكَلِّمُهُمْ مِنْهُ؟، فَقَالَ: "لَا أَزَالُ بَيْنَ أَظْهُرِهِمْ يَطَئُونَ عَقِبِي، وَيُنَازِعُونِي رِدَائِي حَتَّى يَكُونَ اللَّهُ هُوَ الَّذِي يُرِيحُنِي مِنْهُمْ"، قَالَ: فَعَلِمْتُ أَنَّ بَقَاءَهُ فِينَا قَلِيلٌ.
سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے کہا میں ضرور معلوم کروں گا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کب تک حیات رہیں گے؟ چنانچہ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں جانتا ہوں کہ نہ صرف لوگوں نے آپ کو اذیت پہنچائی، بلکہ ان کے غبار تک نے آپ کو اذیت دی، اگر آپ ایک تخت بنا لیں جس سے آپ ان سے گفتگو کر سکیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں اب تک موجود ہوں، وہ میری ایڑیاں کچلتے رہیں، مری چادر کھینچتے رہیں، بس اللہ ہی مجھے ان سے راحت دے گا۔ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: بس میں نے سمجھ لیا کہ اب آپ تھوڑے ہی دن ہمارے درمیان حیات رہیں گے۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 76]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف لانقطاعه عكرمة لم يدرك العباس، [مكتبه الشامله نمبر: 76] »
اس روایت کی یہ سند ضعیف ہے کیونکہ عکرمہ کا لقاء حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں، اس کو [ابن ابي شيبه 16273] اور بزار نے روایت کیا ہے۔ دیکھئے: [كشف الاستار 2466] لیکن مسند بزار ہی میں اس کا صحیح شاہد موجود ہے۔ دیکھئے: [مسند بزار 2467] اور [مصنف عبدالرزاق 434/5] میں بھی، لہٰذا حدیث صحیح ہے۔

حدیث نمبر: 77
أَخْبَرَنَا الْحَكَمُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ، عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ عَلِيٍّ، قَالَ: قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلَا نَحْجُبُكَ؟، فَقَالَ: "لَا، دَعُوهُمْ يَطَئُونَ عَقِبِي وَأَطَأُ أَعْقَابَهُمْ حَتَّى يُرِيحَنِيَ اللَّهُ مِنْهُمْ".
داود بن علی نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا ہم آپ کے لئے آڑ بنا دیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، انہیں چھوڑو اور میری ایڑیاں مسلنے دو، میں ان کے قدم روند ڈالوں گا یہاں تک کہ اللہ تعالی مجھے ان سے راحت اور نجات دے دے گا۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 77]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده معضل، [مكتبه الشامله نمبر: 77] »
اس روایت کی سند میں کئی راوی ساقط ہیں لہٰذا معصل ضعیف ہے لیکن اس کا شاہد پچھلی روایت میں ذکر کیا جا چکا ہے۔

حدیث نمبر: 78
أَخْبَرَنَا زَكَرِيَّا بْنُ عَدِيٍّ، حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيل، عَنْ أُنَيْسِ بْنِ أَبِي يَحْيَى، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَرَضِهِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ، وَنَحْنُ فِي الْمَسْجِدِ عَاصِبًا رَأْسَهُ بِخِرْقَةٍ حَتَّى أَهْوَى نَحْوَ الْمِنْبَرِ، فَاسْتَوَى عَلَيْهِ وَاتَّبَعْنَاهُ، قَالَ:"وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ إِنِّي لَأَنْظُرُ إِلَى الْحَوْضِ مِنْ مَقَامِي هَذَا"، ثُمَّ قَالَ:"إِنَّ عَبْدًا عُرِضَتْ عَلَيْهِ الدُّنْيَا وَزِينَتُهَا، فَاخْتَارَ الْآخِرَةَ"، قَالَ: فَلَمْ يَفْطِنْ لَهَا أَحَدٌ غَيْرُ أَبِي بَكْرٍ رِضْوَانُ اللَّهِ عَلَيْهِ فَذَرَفَتْ عَيْنَاهُ، فَبَكَى، ثُمَّ قَالَ: بَلْ نَفْدِيكَ بِآبَائِنَا وَأُمَّهَاتِنَا وَأَنْفُسِنَا وَأَمْوَالِنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: ثُمَّ هَبَطَ فَمَا قَامَ عَلَيْهِ حَتَّى السَّاعَةِ.
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مرض الموت میں ہمارے پاس باہر تشریف لائے، آپ کے سر پر پٹی بندھی ہوئی تھی، آپ منبر تک پہنچے اور اس پر بیٹھ گئے، ہم بھی آپ کے پیچھے ہو لئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، میں اس مقام سے حوض (کوثر) کا مشاہدہ کر رہا ہوں، پھر فرمایا: ایک بندے پر دنیا اور اس کی زینت پیش کی گئی تو اس نے آخرت کو اختیار کر لیا، راوی نے کہا: کہ اس بات کو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے علاوہ کوئی نہیں سمجھ سکا، چنانچہ ان کی آنکھیں اشکبار ہو گئیں، وہ رو پڑے اور کہا: اے اللہ کے رسول، ہم آپ پر اپنے ماں باپ جان و مال فدا کر دیں گے۔ راوی نے کہا: پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نیچے اترے اور پھر وفات تک اس پر کھڑے نہیں ہوئے۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 78]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 78] »
یہ روایت صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 466] ، [مسلم 2382] ، [ترمذي 3661] ، [مسند أحمد 91/3] ، [ابويعلى 1155] و [ابن حبان 6593]

حدیث نمبر: 79
أَخْبَرَنَا خَلِيفَةُ بْنُ خَيَّاطٍ، حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنَا ابْنُ إِسْحَاق، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ بْنِ عَلِيِّ بْنِ عَدِيٍّ، عَنْ عُبَيْدٍ مَوْلَى الْحَكَمِ بْنِ أَبِي الْعَاصِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي مُوَيْهِبَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، مَوْلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنِّي قَدْ أُمِرْتُ أَنْ أَسْتَغْفِرَ لِأَهْلِ الْبَقِيعِ، فَانْطَلِقْ مَعِي"فَانْطَلَقْتُ مَعَهُ فِي جَوْفِ اللَّيْلِ فَلَمَّا وَقَفَ عَلَيْهِمْ، قَالَ:"السَّلَامُ عَلَيْكُمْ يَا أَهْلَ الْمَقَابِرِ، لِيُهْنِكُمْ مَا أَصْبَحْتُمْ فِيهِ مِمَّا أَصْبَحَ فِيهِ النَّاسُ، أَقْبَلَتْ الْفِتَنُ كَقِطْعِ اللَّيْلِ الْمُظْلِمِ يَتْبَعُ آخِرُهَا أَوَّلَهَا: الْآخِرَةُ أَشَرُّ مِنْ الْأُولَى"، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيَّ، فَقَالَ:"يَا أَبَا مُوَيْهِبَةَ إِنِّي قَدْ أُوتِيتُ بِمَفَاتِيحِ خَزَائِنِ الدُّنْيَا وَالْخُلْدَ فِيهَا، ثُمَّ الْجَنَّةُ، فَخُيِّرْتُ بَيْنَ ذَلِكَ وَبَيْنَ لِقَاءِ رَبِّي"، قُلْتُ: بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي، خُذْ مَفَاتِيحَ خَزَائِنِ الدُّنْيَا وَالْخُلْدَ فِيهَا، ثُمَّ الْجَنَّةَ، قَالَ:"لَا وَاللَّهِ يَا أَبَا مُوَيْهِبَةَ لَقَدْ اخْتَرْتُ لِقَاءَ رَبِّي"، ثُمَّ اسْتَغْفَرَ لِأَهْلِ الْبَقِيعِ، ثُمَّ انْصَرَفَ، فَبُدِئَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِوَجَعِهِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ.
سیدنا ابومویہبہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ مجھے حکم دیا گیا ہے بقیع میں مدفون لوگوں کے لئے استغفار کروں، لہٰذا تم میرے ساتھ چلو، آدھی رات میں میں آپ کے ساتھ نکلا، اور جب آپ ان کی قبروں کے پاس کھڑے ہوئے تو فرمایا: اے قبر والو! تمہارے اوپر سلامتی ہو، تم جس حال میں ہو وہ تمہیں مبارک ہو اس کے مقابلے میں جس میں لوگ اب مبتلا ہو گئے ہیں (کاش تمہیں معلوم ہو جائے کہ تمہیں الله تعالی نے کس چیز سے نجات دے دی ہے)۔ فتنے اندھیری رات کے گوشوں کی طرح یکے بعد دیگرے ابل پڑے ہیں، آخری فتنہ پہلے سے زیادہ برا ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم میری طرف متوجہ ہوئے، فرمایا: ابومویہبہ! مجھے دنیا کے خزانوں کی چابیاں اور دنیا میں ہمیشہ رہنا یا جنت دی گئی اور مجھے دنیا یا اپنے رب سے ملاقات کا اختیار دیا گیا ہے، میں نے عرض کیا: میرے ماں باپ آپ پر قربان دنیا کے خزانے اور اس میں ہمیشگی کو لے لیجئے پھر جنت اختیار فرما لیجئے گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، اللہ کی قسم اے ابومویہبہ! نہیں، میں نے اپنے رب کی ملا قات کو اختیار کر لیا ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل بقیع کے لئے مغفرت کی دعا کی اور لوٹ آئے، تب ہی سے وہ درد شروع ہو گیا جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انتقال فرمایا۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 79]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 79] »
اس حدیث کی سند جید ہے۔ دیکھئے: [مسند أحمد 489/3] ، [المعجم الكبير 871] ، [المستدرك 56/2] ، [الدلائل للبيهقي 163/6 بهذا الإسناد]

حدیث نمبر: 80
أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ الْعَوَّامِ، عَنْ هِلَالِ بْنِ خَبَّابٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ (إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ) دَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاطِمَةَ، فَقَالَ: "قَدْ نُعِيَتْ إِلَيَّ نَفْسِي"، فَبَكَتْ، فَقَالَ:"لَا تَبْكِي، فَإِنَّكِ أَوَّلُ أَهْلِي لِحَاقًا بِي"، فَضَحِكَتْ، فَرَآهَا بَعْضُ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْنَ: يَا فَاطِمَةُ، رَأَيْنَاكِ بَكَيْتِ ثُمَّ ضَحِكْتِ؟، قَالَتْ: إِنَّهُ أَخْبَرَنِي أَنَّهُ قَدْ نُعِيَتْ إِلَيْهِ نَفْسُهُ فَبَكَيْتُ، فَقَالَ لِي:"لَا تَبْكِي فَإِنَّكِ أَوَّلُ أَهْلِي لَاحِقٌ بِي", فَضَحِكْتُ، وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ، وَجَاءَ أَهْلُ الْيَمَنِ: هُمْ أَرَقُّ أَفْئِدَةً، وَالْإِيمَانُ يَمَانٍ، وَالْحِكْمَةُ يَمَانِيَةٌ".
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جب «﴿إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ﴾» (سورة النصر: 1/110) نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو بلایا اور فرمایا: مجھے موت کی خبر دی گئی ہے، وہ رونے لگیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: روؤو نہیں، میرے اہل و عیال میں سب سے پہلے تم ہی مجھ سے ملو گی، تو وہ خوش ہو گئیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کچھ بیویوں نے انہیں دیکھا اور پوچھا: اے فاطمہ! ہم نے تمہیں روتے دیکھا، پھر تم ہنس پڑیں؟ جواب دیا کہ آپ نے مجھے بتایا کہ آپ کو موت کی خبر دی گئی ہے لہٰذا میں رو پڑی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ روؤو نہیں میرے اہل میں تم ہی سب سے پہلے مجھ سے ملو گی یہ سن کر میں خوش ہو گئی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کی مدد اور فتح آ گئی، اہل یمن بھی آ گئے، ایک شخص نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! اہل یمن کون ہیں؟ فرمایا: وہ نرم دل کے لوگ ہیں اور ایمان تو یمن والوں کا ہے اور حکمت بھی یمانی ہے۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 80]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 80] »
اس حدیث کی سند صحیح ہے اور اسے طبرانی نے [المعجم الكبير 11903] اور [الاوسط 887] میں ذکر کیا ہے۔ نیز دیکھئے: [مجمع البحرين 1221] ، [دلائل النبوة للبيهقي 167/7]


Previous    4    5    6    7    8    9    10    11    12    Next