الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن دارمي کل احادیث (3535)
حدیث نمبر سے تلاش:

سنن دارمي
مقدمه
مقدمہ
حدیث نمبر: 81
أَخْبَرَنَا الْحَكَمُ بْنُ الْمُبَارَكِ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ ابْنِ إِسْحَاق، عَنْ يَعْقُوبَ بْنِ عُتْبَةَ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: رَجَعَ إِلَيَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ مِنْ جَنَازَةٍ مِنْ الْبَقِيعِ، فَوَجَدَنِي وَأَنَا أَجِدُ صُدَاعًا وَأَنَا أَقُولُ: وَا رَأْسَاهُ!، قَالَ: "بَلْ أَنَا يَا عَائِشَةُ وَا رَأْسَاهُ"، قَالَ:"وَمَا ضَرَّكِ لَوْ مِتِّ قَبْلِي فَغَسَّلْتُكِ وَكَفَّنْتُكِ وَصَلَّيْتُ عَلَيْكِ وَدَفَنْتُكِ؟"، فَقُلْتُ: لَكَأَنّنِي بِكَ وَاللَّهِ لَوْ فَعَلْتُ ذَلِكَ لَرَجَعْتَ إِلَى بَيْتِي فَأَعْرَسْتَ فِيهِ بِبَعْضِ نِسَائِكَ، قَالَتْ:"فَتَبَسَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ بُدِئَ فِي وَجَعِهِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ".
روایت کیا سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم بقیع کے ایک جنازے سے واپس تشریف لائے، مجھے دیکھا کہ سر درد میں مبتلا ہوں اور ہائے رے سر پکار رہی ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بلکہ میرا سر اے عائشہ! تمہیں کیا پریشانی ہے، اگر تم مجھ سے پہلے فوت ہوئیں تو میں تمہیں غسل دوں، کفن پہناؤں اورتمہاری نماز پڑھوں اور میں تمہیں دفن کروں، میں نے کہا: اگر میں مر جاؤں تو آپ کو کیا، آپ تو میرے گھر میں کسی دوسری بیوی کے ساتھ ہوں گے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ مرض شروع ہو گیا جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 81]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «رجاله ثقات غير أن ابن إسحاق مدلس وقد عنعن ولكنه صرح بالتحديث في رواية البيهقي فانتفت شبه التدليس، [مكتبه الشامله نمبر: 81] »
اس حدیث کے رواة ثقات ہیں، اور [امام بخاري 5666] و [أحمد 228/6] ، [دارقطني 12،11، 13] ، [ابن ماجه 1465] وامام بیہقی نے [سنن 396/3] میں اسے ذکر کیا ہے۔

حدیث نمبر: 82
أَخْبَرَنَا فَرْوَةُ بْنُ أَبِي الْمَغْرَاءِ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُخْتَارٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ كَعْبٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا، قَالَتْ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَرَضِهِ: "صُبُّوا عَلَيَّ سَبْعَ قِرَبٍ مِنْ سَبْعِ آبَارٍ شَتَّى حَتَّى أَخْرُجَ إِلَى النَّاسِ فَأَعْهَدَ إِلَيْهِمْ"، قَالَ: فَأَقْعَدْنَاهُ فِي مِخْضَبٍ لِحَفْصَةَ فَصَبَبْنَا عَلَيْهِ الْمَاءَ صَبًّا أَوْ شَنَنَّا عَلَيْهِ شَنًّا، الشَّكُّ مِنْ قِبَلِ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، فَوَجَدَ رَاحَةً، فَخَرَجَ فَصَعِدَ الْمِنْبَرَ، فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ وَاسْتَغْفَرَ لِلشُّهَدَاءِ مِنْ أَصْحَابِ أُحُدٍ، وَدَعَا لَهُمْ، ثُمَّ قَالَ:"أَمَّا بَعْدُ، فَإِنَّ الْأَنْصَارَ عَيْبَتِي الَّتِي أَوَيْتُ إِلَيْهَا، فَأَكْرِمُوا كَرِيمَهُمْ، وَتَجَاوَزُوا عَنْ مُسِيئِهِمْ إِلَّا فِي حَدٍّ، أَلَا إِنَّ عَبْدًا مِنْ عِبَادِ اللَّهِ قَدْ خُيِّرَ بَيْنَ الدُّنْيَا وَبَيْنَ مَا عِنْدَ اللَّهِ، فَاخْتَارَ مَا عِنْدَ اللَّهِ"، فَبَكَى أَبُو بَكْرٍ، وَظَنَّ أَنَّهُ يَعْنِي نَفْسَهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"عَلَى رِسْلِكَ يَا أَبَا بَكْرٍ، سُدُّوا هَذِهِ الْأَبْوَابَ الشَّوَارِعَ إِلَى الْمَسْجِدِ إِلَّا بَابَ أَبِي بَكْرٍ، فَإِنِّي لَا أَعْلَمُ امْرَءًا أَفْضَلَ عِنْدِي يَدًا فِي الصُّحْبَةِ مِنْ أَبِي بَكْرٍ".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مرض الموت میں فرمایا: میرے اوپر سات مختلف کنوؤں سے سات مشکیزے پانی ڈالو تاکہ باہر جا کر لوگوں سے عہد لوں، راوی نے کہا: ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کے نہانے کے ٹب میں بٹھایا اور آپ کے اوپر پانی ڈالا۔ محمد بن اسحاق کو شک ہے کہ راوی نے «صب» کہا یا «شن» کہا (دونوں کے معانی ایک ہیں)، آپ کو کچھ راحت ملی تو آپ باہر تشریف لائے، منبر پر چڑھے، الله تعالی کی حمد و ثنا کی، شہدائے احد کے لئے دعائے مغفرت کی، پھر فرمایا: أما بعد، انصار میرا وہ گھر ہیں جہاں میں نے پناہ لی، پس تم ان کے شریف کی عزت کرنا اور جو برے ہیں ان سے بھی جہاں تک ہو سکے درگزر کرنا، سنو لوگو! اللہ کے بندوں میں سے ایک بندے کو دنیا اور جو اللہ تعالی کے پاس ہے اس کے درمیان اختیار دیا گیا تو اس نے جو اللہ کے پاس ہے اسے چن لیا (یہ سن کر) سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ رو پڑے اور یقین کر لیا کہ اس سے مراد خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ٹھہرو ابوبکر جلدی نہ کرو۔ لوگو! سڑک کی طرف سے مسجد کے سارے دروازے بند کر دینا سوائے باب ابی بکر کے، مجھے یاد نہیں پڑتا کہ ابوبکر سے زیادہ کسی آدمی نے میری صحبت میں اتنا میرے ساتھ احسان کیا ہو۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 82]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «رجاله ثقات غير أن محمد بن إسحاق مدلس وقد عنعن، [مكتبه الشامله نمبر: 82] »
اس حدیث کی سند میں عنعنۃ ابن اسحاق ہے اور ایک راوی ابراہیم بن مختار متکلم فیہ ہے، باقی رواة ثقات ہیں، اس حدیث کو [ابويعلي 4478] و [ابن حبان 6600، 6601] نے بھی ذکر کیا ہے اور اس کی اصل [صحيح بخاري 3654 باب سدوا الأبواب إلا باب أبى بكر] ، كتاب المناقب میں ہے۔

حدیث نمبر: 83
أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا فُلَيْحُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: أُوذِنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالصَّلَاةِ فِي مَرَضِهِ، فَقَالَ: "مُرُوا أَبَا بَكْرٍ يُصَلِّي بِالنَّاسِ"، ثُمَّ أُغْمِيَ عَلَيْهِ، فَلَمَّا سُرِّيَ عَنْهُ، قَالَ:"هَلْ أَمَرْتُنَّ أَبَا بَكْرٍ يُصَلِّي بِالنَّاسِ؟"، فَقُلْتُ: إِنَّ أَبَا بَكْرٍ رَجُلٌ رَقِيقٌ، فَلَوْ أَمَرْتَ عُمَرَ، فَقَالَ:"أَنْتُنَّ صَوَاحِبُ يُوسُفَ مُرُوا أَبَا بَكْرٍ يُصَلِّي بِالنَّاسِ، فَرُبَّ قَائِلٍ مُتَمَنٍّ وَيَأْبَى اللَّهُ وَالْمُؤْمِنُونَ".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کے مرض الموت میں نماز کی اطلاع دی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابوبکر سے کہو نماز پڑھائیں، پھر آپ پر غشی طاری ہو گئی، پھر جب آپ کو افاقہ ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ازواج مطہرات سے) فرمایا: کیا تم نے ابوبکر سے نماز پڑھانے کے لئے کہا؟ (سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں) میں نے عرض کیا: ابوبکر نرم دل کے ہیں کاش آپ عمر کو (امامت کا) حکم دیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم صواحب یوسف کی طرح ہو، ابوبکر سے کہو لوگوں کی امامت کرائیں، ورنہ کئی لوگ اس کے خواہش مند ہوں گے اور باتیں کریں گے لیکن اللہ تعالی اور مومن (اس سے) انکار کرتے ہیں۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 83]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده حسن من أجل فليح بن سليمان، [مكتبه الشامله نمبر: 83] »
اس حدیث کی سند حسن ہے لیکن اصل صحیح ہے جو صحیح بخاری میں سوائے آخری کلے کے اسی سیاق و سباق کے ساتھ مروی ہے۔ دیکھئے: [بخاري 679، 683] ، [ترمذي 3672] ، ابویعلی نے بھی امام دارمی کے مثل روایت کیا ہے۔ دیکھئے: [مسند ابي يعلى 4478]

حدیث نمبر: 84
أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، قَالَ: "تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الِاثْنَيْنِ، فَحُبِسَ بَقِيَّةَ يَوْمِهِ وَلَيْلَتَهُ وَالْغَدَ حَتَّى دُفِنَ لَيْلَةَ الْأَرْبِعَاءِ، وَقَالُوا: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَمُتْ، وَلَكِنْ عُرِجَ بِرُوحِهِ كَمَا عُرِجَ بِرُوحِ مُوسَى، فَقَامَ عُمَرُ، فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَمُتْ، وَلَكِنْ عُرِجَ بِرُوحِهِ كَمَا عُرِجَ بِرُوحِ مُوسَى، وَاللَّهِ لَا يَمُوتُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى يَقْطَعَ أَيْدِيَ أَقْوَامٍ وَأَلْسِنَتَهُمْ، فَلَمْ يَزَلْ عُمَرُ يَتَكَلَّمُ حَتَّى أَزْبَدَ شِدْقَاهُ مِمَّا يُوعِدُ وَيَقُولُ، فَقَامَ الْعَبَّاسُ، فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ مَاتَ، وَإِنَّهُ لَبَشَرٌ وَإِنَّهُ يَأْسَنُ كَمَا يَأْسَنُ الْبَشَرُ، أَيْ قَوْمِ فَادْفِنُوا صَاحِبَكُمْ، فَإِنَّهُ أَكْرَمُ عَلَى اللَّهِ مِنْ أَنْ يُمِيتَهُ إِمَاتَتَيْنِ، أَيُمِيتُ أَحَدَكُمْ إِمَاتَةً وَيُمِيتُهُ إِمَاتَتَيْنِ وَهُوَ أَكْرَمُ عَلَى اللَّهِ مِنْ ذَلِكَ؟، أَيْ قَوْمِ، فَادْفِنُوا صَاحِبَكُمْ، فَإِنْ يَكُ كَمَا تَقُولُونَ فَلَيْسَ بِعَزِيزٍ عَلَى اللَّهِ أَنْ يَبْحَثَ عَنْهُ التُّرَابَ، إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاللَّهِ مَا مَاتَ حَتَّى تَرَكَ السَّبِيلَ نَهْجًا وَاضِحًا، فَأَحَلَّ الْحَلَالَ، وَحَرَّمَ الْحَرَامَ، وَنَكَحَ وَطَلَّقَ، وَحَارَبَ وَسَالَمَ، مَا كَانَ رَاعِي غَنَمٍ يَتَّبِعُ بِهَا صَاحِبُهَا رُءُوسَ الْجِبَالِ يَخْبِطُ عَلَيْهَا الْعِضَاهَ بِمِخْبَطِهِ وَيَمْدُرُ حَوْضَهَا بِيَدِهِ بِأَنْصَبَ وَلَا أَدْأَبَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَانَ فِيكُمْ، أَيْ قَوْمِ فَادْفِنُوا صَاحِبَكُمْ، قَالَ: وَجَعَلَتْ أُمُّ أَيْمَنَ تَبْكِي، فَقِيلَ لَهَا: يَا أُمَّ أَيْمَنَ تَبْكِينَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟، قَالَتْ: إِنِّي وَاللَّهِ مَا أَبْكِي عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ لا أَكُونَ أَعْلَمُ أَنَّهُ قَدْ ذَهَبَ إِلَى مَا هُوَ خَيْرٌ لَهُ مِنْ الدُّنْيَا، وَلَكِنِّي أَبْكِي عَلَى خَبَرِ السَّمَاءِ انْقَطَعَ، قَالَ حَمَّادٌ: خَنَقَتِ الْعَبْرَةُ أَيُّوبَ حِينَ بَلَغَ هَا هُنَا".
سیدنا عکرمہ رضی اللہ عنہ نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیر کے روز وفات پائی اور آپ (کا جسد خاکی) پیر کے دن اور رات، منگل کے دن تک رکھا رہا، بدھ کی رات کو آپ کو دفن کیا گیا، (کچھ) لوگوں نے کہا آپ مرے نہیں ہیں آپ کی روح کو (آسمان پر) لے جایا گیا ہے جس طرح موسیٰ علیہ السلام کو لے جایا گیا، چنانچہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مرے نہیں بلکہ آپ کی روح کو ویسے ہی اوپر لے جایا گیا ہے جیسے موسٰی کی روح کو آسمان پر لے جایا گیا، والله رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان تمام قوموں کے جب تک ہاتھ اور زبانیں کاٹ نہ دیں آپ مر ہی نہیں سکتے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ گفتگو کرتے رہے یہاں تک کہ شدت ولولہ سے آپ کے منہ سے جھاگ نکلنے لگے، پھر سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو چکے ہیں، بیشک آپ بشر ہیں اور بوڑھے ہوئے، جس طرح انسان بشر بوڑھا ہوتا ہے، اے لوگو! اپنے صاحب کو دفن کر دو، آپ اللہ تعالی کے نزدیک بڑے مکرم ہیں، آپ کو اللہ تعالی دو بار موت نہیں دے گا، تم سب تو ایک بار مارے جاؤ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دو دو بار موت آئے؟ (یہ نہیں ہو سکتا) آپ تو اللہ کے نزدیک بڑے معزز و مکرم ہیں۔ لوگو! اپنے صاحب کو دفن کر دو، اور جیسا کہ تم کہتے ہو (کہ آپ کو موت نہیں آئی) اگر ویسا ہی ہے تو الله تعالی کے لئے کوئی مشکل و دشوار نہیں ہے کہ مٹی خود آپ کو تلاش کر لے۔ قسم اللہ کی! رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت انتقال فرمایا ہے جب کہ آپ سارا راستہ واضح کر چکے، حلال کو حلال اور حرام کو حرام کر دیا، نکاح کیا، طلاق دی، جنگ کی، اور مصالحت بھی کی۔ کوئی بھی (چرواہا) بکریوں کی دیکھ بھال کرنے والا، جو اپنے ریوڑ کو لے کر پہاڑوں کی چوٹیوں پر جا کر ان کے لئے اپنی چھڑی سے درخت سے پتے گرائے، انہیں پانی کے لئے حوض (تالاب) پر لے جائے، تم میں سے ایسا کوئی بھی شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ جفاکش اور محنتی تھکنے والا نہ ہو گا، اٹھو لوگو! اپنے صاحب کو دفن کر دو۔ راوی نے کہا: سیدہ ام ایمن رضی اللہ عنہا رو پڑی تھیں، پوچھا گیا کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر روتی ہو؟کہا: اللہ کی قسم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نہیں رو رہی، کیا مجھے معلوم نہیں کہ آپ ایسی جگہ تشریف لے گئے ہیں جو آپ کے لئے دنیا سے بدرجہا بہتر ہے، مجھے تو رونا اس بات پر آ رہا ہے کہ آسمان سے وحی کا نزول منقطع ہو گیا۔ راوی حدیث حماد کا کہنا ہے کہ ایوب جب اس مقام تک پہنچے تو آنسوؤں سے ان کی آواز رُندھ گئی۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 84]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «رجاله ثقات غير أنه مرسل، [مكتبه الشامله نمبر: 84] »
یہ روایت مرسل ہے لیکن اس کے رواة ثقات ہیں اور اسے ابن سعد نے ذکر کیا ہے اور سیدہ ام ایمن رضی اللہ عنہا کا رونا [مسلم شريف 2454] میں موجود ہے۔

حدیث نمبر: 85
أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ سَعِيدٍ الدِّمَشْقِيُّ، حَدَّثَنَا شُعَيْبٌ هُوَ ابْنُ إِسْحَاق، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، حَدَّثَنِي يَعِيشُ بْنُ الْوَلِيدِ، حَدَّثَنِي مَكْحُولٌ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "إِذَا أَصَابَ أَحَدَكُمْ مُصِيبَةٌ فَلْيَذْكُرْ مُصِيبَتَهُ بِي فَإِنَّهَا مِنْ أَعْظَمِ الْمَصَائِبِ".
مکحول رحمہ اللہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی پریشانی میں مبتلا ہو تو میری مصیبت یاد کر لے جو سارے مصائب سے بڑھ کر تھی۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 85]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح وهو مرسل، [مكتبه الشامله نمبر: 85] »
اس روایت کی یہ سند صحیح لیکن مرسل ہے، اور شاہد بھی موجود ہے۔ دیکھئے: [مجمع الزوائد 4005] و [كشف الخفاء 202]

حدیث نمبر: 86
أَخْبَرَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا فِطْرٌ، عَنْ عَطَاءٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِذَا أَصَابَ أَحَدَكُمْ مُصِيبَةٌ، فَلْيَذْكُرْ مُصَابَهُ بِي، فَإِنَّهَا مِنْ أَعْظَمِ الْمَصَائِبِ".
عطاء رحمہ اللہ نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کسی پر مصیبت آئے تو وہ میری مصیبت یاد کر لے جو سارے مصائب سے زیادہ شدید تھی۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 86]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح وهو مرسل، [مكتبه الشامله نمبر: 86] »
اس روایت کی سند بھی صحیح لیکن مرسل ہے اور ابن السنی نے [عمل اليوم والليلة 583] میں اسے ذکر کیا ہے۔

حدیث نمبر: 87
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ أَبِي خَلَفٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عُمَرَ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: "مَا سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ يَذْكُرُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَطُّ إِلَّا بَكَى".
عمر بن محمد نے اپنے والد سے روایت کیا کہ میں نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کو جب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کرتے سنا (دیکھا) وہ رو پڑتے تھے۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 87]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 87] »
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [طبقات ابن سعد 84/2/2] و [المعرفة والتاريخ للفسوي 493/1]

حدیث نمبر: 88
أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ فَاطِمَةَ، قَالَتْ: يَا أَنَسُ "كَيْفَ طَابَتْ أَنْفُسُكُمْ أَنْ تَحْثُوا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ التُّرَابَ؟، وَقَالَتْ: يَا أَبَتَاهْ، مِنْ رَبِّهِ مَا أَدْنَاهْ، وَا أَبَتَاهْ جَنَّةُ الْفِرْدَوْسِ مَأْوَاهْ، وَا أَبَتَاهْ إِلَى جِبْرِيلَ نَنْعَاهْ، وَا أَبَتَاهْ أَجَابَ رَبًّا دَعَاهْ، قَالَ حَمَّادٌ: حِينَ حَدَّثَ ثَابِتٌ بَكَى، وقَالَ ثَابِتٌ: حِينَ حَدَّثَ أَنَسٌ بَكَى".
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اے انس! تمہارے دلوں نے کیسے گوارہ کر لیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر مٹی ڈالو، کہنے لگیں: اے ابا جان! آپ اپنے رب سے کتنے قریب ہیں، ابا جان! جنت الفردوس آپ کا ٹھکانا ہے، اے ابا جان! جبریل کو ہم آپ کی موت کی خبر دیتے ہیں، اے ابا جان! آپ نے اپنے رب کی دعوت قبول فرما لی۔ حماد نے کہا: جب ثابت نے یہ الفاظ بیان کئے، رو پڑے اور ثابت نے کہا: جب سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے یہ بیان کیا تو رو پڑے تھے۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 88]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 88] »
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسند ابي يعلی 2769] ، [صحيح ابن حبان 6613] و [سنن الكبرى للنسائي 1971]

حدیث نمبر: 89
حَدَّثَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، وَذَكَرَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "شَهِدْتُهُ يَوْمَ دَخَلَ الْمَدِينَةَ فَمَا رَأَيْتُ يَوْمًا قَطُّ، كَانَ أَحْسَنَ وَلَا أَضْوَأَ مِنْ يَوْمٍ دَخَلَ عَلَيْنَا فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَشَهِدْتُهُ يَوْمَ مَوْتِهِ، فَمَا رَأَيْتُ يَوْمًا كَانَ أَقْبَحَ، وَلَا أَظْلَمَ مِنْ يَوْمٍ مَاتَ فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ جس وقت آپ مدینہ تشریف لائے میں حاضر تھا، کوئی دن اتنا روشن اس دن سے اچھا نہیں تھا جس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے۔ اور میں آپ کی وفات کے دن بھی حاضر تھا، اس دن سے زیادہ برا اور تاریک دن کوئی نہیں دیکھا جس دن میں آپ کی موت واقع ہوئی۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 89]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 89] »
اس روایت کی اسناد صحیح ہے اور اسے [ابويعلى 3296] اور [ابن حبان 6634] نے روایت کیا ہے۔

حدیث نمبر: 90
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُطِيعٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الْجَلِيلِ، عَنْ أَبِي حَرِيزٍ الْأَزْدِيِّ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلَامٍ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا نَجِدُكَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ قَائِمًا عِنْدَ رَبِّكَ وَأَنْتَ مُحْمَارَّةٌ وَجْنَتَاكَ مُسْتَحْيٍ مِنْ رَبِّكَ مِمَّا أَحْدَثَتْ أُمَّتُكَ مِنْ بَعْدِكَ".
سیدنا عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اے اللہ کے پیغمبر! ہم قیامت کے دن آپ کو آپ کے رب کے نزدیک بوجھل سرخ پلکوں کے ساتھ رب سے شرمسار کھڑا پائیں گے ان افعال کی وجہ سے جو آپ کے بعد آپ کی امت ایجاد کر لے گی۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 90]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف لضعف عبد الله بن ميسرة أبي عبد الجليل وهو موقوف على عبد الله بن سلام وباقي رجاله ثقات، [مكتبه الشامله نمبر: 90] »
اس روایت کی سند ضعیف ہے لیکن اس کا شاہد [مسند الموصلي 6502] میں موجود ہے۔


Previous    5    6    7    8    9    10    11    12    13    Next