الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


مشكوة المصابيح کل احادیث (6294)
حدیث نمبر سے تلاش:

مشكوة المصابيح
كتاب الزكاة
كتاب الزكاة
--. اوپر والا ہاتھ نیچے والے سے بہتر ہے
حدیث نمبر: 1842
وَعَنْ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ قَالَ: سَأَلَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَعْطَانِي ثُمَّ سَأَلْتُهُ فَأَعْطَانِي ثُمَّ قَالَ لِي: «يَا حَكِيمُ إِنَّ هَذَا الْمَالَ خَضِرٌ حُلْوٌ فَمَنْ أَخَذَهُ بِسَخَاوَةِ نَفْسٍ بُورِكَ لَهُ فِيهِ وَمَنْ أَخَذَهُ بِإِشْرَافِ نَفْسٍ لَمْ يُبَارَكْ لَهُ فِيهِ. وَكَانَ كَالَّذِي يَأْكُلُ وَلَا يَشْبَعُ وَالْيَدُ الْعُلْيَا خَيْرٌ مِنَ الْيَدِ السُّفْلَى» . قَالَ حَكِيمٌ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ لَا أَرْزَأُ أَحَدًا بَعْدَكَ شَيْئًا حَتَّى أُفَارِقَ الدُّنْيَا
حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سوال کیا تو آپ نے مجھے عطا کر دیا، پھر میں نے آپ سے سوال کیا تو آپ نے مجھے عطا کر دیا، پھر آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے فرمایا: حکیم! یہ مال سرسبزو شیریں ہے، جس نے سخاوت نفس کے ساتھ اسے حاصل کیا تو اس کے لیے اس میں برکت دی جاتی ہے، اور جس نے حرص و طمع کے ساتھ اسے حاصل کیا تو اس کے لیے اس میں برکت نہیں دی جاتی، اور وہ اس شخص کی مانند ہے جو کھاتا ہے لیکن سیر نہیں ہوتا، اور اوپر والا ہاتھ نچلے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔ حکیم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے عرض کیا، اللہ کے رسول! اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا! میں آپ کے بعد زندگی بھر کسی سے کوئی چیز نہیں مانگوں گا۔ متفق علیہ۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الزكاة/حدیث: 1842]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «متفق عليه، رواه البخاري (1472) و مسلم (1035/96)»


قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

--. اوپر کا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے
حدیث نمبر: 1843
وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ وَهُوَ عَلَى الْمِنْبَرِ وَهُوَ يَذْكُرُ الصَّدَقَةَ وَالتَّعَفُّفَ عَنِ الْمَسْأَلَةِ: «الْيَدُ الْعُلْيَا خَيْرٌ مِنَ الْيَدِ السُّفْلَى وَالْيَد الْعليا هِيَ المنفقة وَالْيَد السُّفْلى هِيَ السائلة»
ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم منبر پر تشریف فرما تھے، اور آپ نے صدقہ کرنے اور سوال کرنے سے بچنے کے لیے فضائل بیان کرتے ہوئے فرمایا: اوپر والا ہاتھ نچلے ہاتھ سے بہتر ہے، اور اوپر والا ہاتھ خرچ کرنے والا ہے جبکہ نچلا ہاتھ سوال کرنے والا ہے۔ متفق علیہ۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الزكاة/حدیث: 1843]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «متفق عليه، رواه البخاري (1429) و مسلم (1033/94)»


قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

--. جو شخص مانگنے سے بچتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی مدد کرتا ہے
حدیث نمبر: 1844
وَعَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ: إِنَّ أُنَاسًا مِنَ الْأَنْصَارِ سَأَلُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَعْطَاهُمْ ثُمَّ سَأَلُوهُ فَأَعْطَاهُمْ حَتَّى نَفِدَ مَا عِنْدَهُ. فَقَالَ: «مَا يَكُونُ عِنْدِي مِنْ خَيْرٍ فَلَنْ أَدَّخِرَهُ عَنْكُمْ وَمَنْ يَسْتَعِفَّ يُعِفَّهُ اللَّهُ وَمَنْ يَسْتَغْنِ يُغْنِهِ اللَّهُ وَمَنْ يَتَصَبَّرْ يُصَبِّرْهُ اللَّهُ وَمَا أُعْطِيَ أَحَدٌ عَطَاءً هُوَ خَيْرٌ وَأَوْسَعُ مِنَ الصَّبْرِ»
ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، انصار کے کچھ لوگوں نے رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سوال کیا تو آپ نے انہیں عطا کر دیا حتیٰ کہ آپ کے پاس جو کچھ تھا وہ ختم ہو گیا، تو آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میرے پاس جو مال ہوتا ہے میں اسے تم سے بچا کر نہیں رکھتا، اور جو شخص سوال کرنے سے بچتا ہے تو اللہ اسے بچا لیتا ہے، اور جو شخص بے نیاز رہنا چاہے تو اللہ اسے بے نیاز کر دیتا ہے، جو شخص صبر کرتا ہے تو اللہ اسے صابر بنا دیتا ہے، اور کسی شخص کو صبر سے بہتر اور وسیع تر کوئی چیز عطا نہیں کی گئی۔ متفق علیہ۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الزكاة/حدیث: 1844]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «متفق عليه، رواه البخاري (1469) ومسلم (1053/124)»


قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

--. اگر بغیر مانگے کوئی چیز دے تو لے لینا چاہئے
حدیث نمبر: 1845
وَعَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعْطِينِي الْعَطَاءَ فَأَقُولُ: أَعْطِهِ أَفْقَرَ إِلَيْهِ مِنِّي. فَقَالَ: «خُذْهُ فَتَمَوَّلْهُ وَتَصَدَّقْ بِهِ فَمَا جَاءَكَ مِنْ هَذَا الْمَالِ وَأَنْتَ غَيْرُ مُشْرِفٍ وَلَا سَائِلٍ فَخذه. ومالا فَلَا تتبعه نَفسك»
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مجھے کوئی مال عطا کرتے تو میں عرض کرتا، آپ اسے مجھ سے زیادہ ضرورت مند کو عطا کر دیں، تو آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فرماتے: اسے لے لو، اور اسے اپنے مال میں شامل کر لو اور اسے صدقہ کرو، اور اگر بن مانگے اور بغیر انتظار کیے تمہارے پاس مال آ جائے تو اسے لے لیا کرو اور جو ایسا نہ ہو اس کے پیچھے نہ پڑو۔ متفق علیہ۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الزكاة/حدیث: 1845]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «متفق عليه، رواه البخاري (1473) و مسلم (1045/110)»


قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

--. بلا وجہ مانگنے کی مذمت
حدیث نمبر: 1846
عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الْمَسَائِلُ كُدُوحٌ يَكْدَحُ بِهَا الرَّجُلُ وَجْهَهُ فَمَنْ شَاءَ أَبْقَى عَلَى وَجْهِهِ وَمَنْ شَاءَ تَرَكَهُ إِلَّا أَنْ يَسْأَلَ الرَّجُلُ ذَا سُلْطَانٍ أَوْ فِي أَمْرٍ لَا يَجِدُ مِنْهُ بُدًّا» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ وَالتِّرْمِذِيّ وَالنَّسَائِيّ
سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: سوال کرنا خراش ہے، آدمی ان کی وجہ سے اپنے چہرے پر خراشیں ڈالتا ہے�� جو چاہے انہیں اپنے چہرے پر باقی رکھے اور جو چاہے انہیں ترک کر دے، البتہ آدمی بادشاہ سے سوال کرے یا کسی ایسی چیز کے بارے میں سوال کرے جس کے بغیر کوئی چارہ نہ ہو تو پھر سوال کرنا جائز ہے۔ صحیح، رواہ ابوداؤد و الترمذی و النسائی۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الزكاة/حدیث: 1846]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده صحيح، رواه أبو داود (1639) والترمذي (681 و قال: حسن صحيح.) والنسائي (100/5 ح 2600)»


قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح

--. بغیر ضرورت کے مانگنے والوں کا حشر
حدیث نمبر: 1847
وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم: «من سَأَلَ النَّاسَ وَلَهُ مَا يُغْنِيهِ جَاءَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَمَسْأَلَتُهُ فِي وَجْهِهِ خُمُوشٌ أَوْ خُدُوشٌ أَوْ كُدُوحٌ» . قِيلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَا يُغْنِيهِ؟ قَالَ: «خَمْسُونَ دِرْهَمًا أَوْ قِيمَتُهَا مِنَ الذَّهَبِ» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ وَالتِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ مَاجَهْ والدارمي
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو شخص اس قدر ملکیت رکھنے کے باوجود لوگوں سے سوال کرے جو اسے سوال کرنے سے بے نیاز کر دے تو وہ روز قیامت آئے گا تو وہ سوال اس کے چہرے پر خراش کی طرح ہو گا۔ صحابہ نے عرض کیا، اللہ کے رسول! وہ کتنی مقدار ہے جو اسے سوال کرنے سے بے نیاز کر سکتی ہے؟ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: پچاس درہم یا اس کے مساوی سونا۔ ضعیف۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الزكاة/حدیث: 1847]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده ضعيف، رواه أبو داود (1626) و الترمذي (650 وقال: حسن.) والنسائي (97/5 ح 2593) و ابن ماجه (1820) والدارمي (386/1 ح 1647)
٭ حکيم بن جبير: ضعيف، و للثوري تدليس عجيب لأنه حدث به عن زبيد عن محمد بن عبد الرحمٰن بن يزيد: ولم يجاوزه، أي مقطوعًا أو مرسلاً!.»


قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف

--. مالدار کون کہلا سکتا ہے
حدیث نمبر: 1848
وَعَنْ سَهْلِ بْنِ الْحَنْظَلِيَّةِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ سَأَلَ وَعِنْدَهُ مَا يُغْنِيهِ فَإِنَّمَا يَسْتَكْثِرُ مِنَ النَّارِ» . قَالَ النُّفَيْلِيُّ. وَهُوَ أَحَدُ رُوَاتِهِ فِي مَوْضِعٍ آخر: وَمَا الْغنى الَّذِي لَا يَنْبَغِي مَعَهُ الْمَسْأَلَةُ؟ قَالَ: «قَدْرُ مَا يُغَدِّيهِ وَيُعَشِّيهِ» . وَقَالَ فِي مَوْضِعٍ آخَرَ: «أَنْ يَكُونَ لَهُ شِبَعُ يَوْمٍ أَوْ لَيْلَةٍ وَيَوْمٍ» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
سہیل بن خظلیہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو شخص اس قدر ملکیت رکھنے کے باوجود سوال کرے جو اسے سوال کرنے سے بے نیاز کر سکتی ہو تو پھر وہ آگ میں اضافہ کر رہا ہے۔ اور نفیلی جو اس روایت کے راوی ہیں، انہوں نے دوسرے مقام پر فرمایا: وہ مال کی کتنی مقدار ہے جس کے ہوتے ہوئے سوال کرنا مناسب نہیں؟ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو صبح و شام کھانے کی مقدار۔ اور ایک دوسرے مقام پر فرمایا: جس کے پاس اتنا مال ہو جو اس کی صبح شام کی شکم سیری کے لیے کافی ہو۔ صحیح، رواہ ابوداؤد۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الزكاة/حدیث: 1848]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده صحيح، رواه أبو داود (1629)»


قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح

--. لپٹ چمٹ کر مانگنا منع ہے
حدیث نمبر: 1849
وَعَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ عَنْ رَجُلٍ مِنْ بَنِي أَسَدٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ سَأَلَ مِنْكُمْ وَلَهُ أُوقِيَّةٌ أَوْ عَدْلُهَا فَقَدْ سَأَلَ إِلْحَافًا» . رَوَاهُ مَالك وَأَبُو دَاوُد وَالنَّسَائِيّ
عطاء بن یسار ؒ بنو اسد قبیلے کے ایک آدمی سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے کہا، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم میں سے جو شخص اوقیہ یا اس کے مساوی چاندی کی ملکیت رکھنے کے باوجود سوال کرتا ہے تو وہ چمٹ کر سوال کرنے والوں کے زمرے میں آتا ہے۔ صحیح، رواہ مالک و ابوداؤد و النسائی۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الزكاة/حدیث: 1849]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده صحيح، رواه مالک (999/2 ح 1949) و أبو داود (1627) والنسائي (98/5. 99 ح 2597)»


قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح

--. مانگنا جب ہی چاہئے جب مجبوری ہو
حدیث نمبر: 1850
وَعَنْ حُبْشِيِّ بْنِ جُنَادَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ الْمَسْأَلَةَ لَا تَحِلُّ لِغَنِيٍّ وَلَا لِذِي مِرَّةٍ سَوِيٍّ إِلَّا لِذِي فَقْرٍ مُدْقِعٍ أَوْ غُرْمٍ مُفْظِعٍ وَمَنْ سَأَلَ النَّاسَ لِيُثْرِيَ بِهِ مَالَهُ: كَانَ خُمُوشًا فِي وَجْهِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَرَضْفًا يَأْكُلُهُ مِنْ جَهَنَّمَ فَمَنْ شَاءَ فَلْيَقُلْ وَمَنْ شَاءَ فليكثر. رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
حبشی بن جنادہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مال دار شخص کے لیے سوال کرنا جائز ہے نہ کام کرنے کی طاقت رکھنے والے صحیح الخلقت شخص کے لیے، البتہ اس شخص کے لیے سوال کرنا جائز ہے جو انتہائی محتاج ہو یا تاوان تلے دب گیا ہو، اور جو شخص اپنا مال بڑھانے کی خاطر لوگوں سے سوال کرتا ہے تو روز قیامت اس کے چہرے پر خراش ہو گی، اور وہ جہنم میں گرم پتھر کھائے گا، جو چاہے کم کرے جو چاہے زیادہ کرے۔ اسنادہ ضعیف۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الزكاة/حدیث: 1850]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده ضعيف، رواه الترمذي (653)
٭ مجالد بن سعيد: ضعيف من جھة سوء حفظه.»


قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف

--. تین طرح کے لوگوں کو مانگنے کی اجازت کا بیان
حدیث نمبر: 1851
وَعَن أنس بن مَالك: أَنَّ رَجُلًا مِنَ الْأَنْصَارِ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْأَلُهُ فَقَالَ: «أَمَا فِي بَيْتك شَيْء؟» قَالَ بَلَى حِلْسٌ نَلْبَسُ بَعْضَهُ وَنَبْسُطُ بَعْضَهُ وَقَعْبٌ نَشْرَبُ فِيهِ مِنَ الْمَاءِ. قَالَ: «ائْتِنِي بِهِمَا» قَالَ فَأَتَاهُ بِهِمَا فَأَخَذَهُمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ وَقَالَ: «مَنْ يَشْتَرِي هَذَيْنِ؟» قَالَ رَجُلٌ أَنَا آخُذُهُمَا بِدِرْهَمٍ قَالَ: «مَنْ يَزِيدُ عَلَى دِرْهَمٍ؟» مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا قَالَ رجل أَنا آخذهما بِدِرْهَمَيْنِ فَأَعْطَاهُمَا إِيَّاه وَأخذ الدِّرْهَمَيْنِ فَأَعْطَاهُمَا الْأَنْصَارِيُّ وَقَالَ: «اشْتَرِ بِأَحَدِهِمَا طَعَامًا فانبذه إِلَى أهلك واشتر بِالْآخرِ قدومًا فأتني بِهِ» . فَأَتَاهُ بِهِ فَشَدَّ فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عُودًا بِيَدِهِ ثُمَّ قَالَ لَهُ اذْهَبْ فَاحْتَطِبْ وَبِعْ وَلَا أَرَيَنَّكَ خَمْسَةَ عَشَرَ يَوْمًا. فَذهب الرجل يحتطب وَيبِيع فجَاء وَقَدْ أَصَابَ عَشَرَةَ دَرَاهِمَ فَاشْتَرَى بِبَعْضِهَا ثَوْبًا وَبِبَعْضِهَا طَعَامًا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «هَذَا خَيْرٌ لَكَ مِنْ أَنْ تَجِيءَ الْمَسْأَلَةُ نُكْتَةً فِي وَجْهِكَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّ الْمَسْأَلَةَ لَا تَصْلُحُ إِلَّا لِثَلَاثَةٍ لِذِي فَقْرٍ مُدْقِعٍ أَوْ لِذِي غُرْمٍ مُفْظِعٍ أَوْ لِذِي دَمٍ مُوجِعٍ» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ وَرَوَى ابْن مَاجَه إِلَى قَوْله: «يَوْم الْقِيَامَة»
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انصار میں سے ایک آدمی سوال کرنے کی غرض سے نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تمہارے گھر میں کوئی چیز نہیں؟ اس نے عرض کیا، کیوں نہیں، ایک ٹاٹ ہے جو ہمارا اوڑھنا بچھونا ہے اور ایک پیالہ ہے جس میں ہم پانی پیتے ہیں، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: انہیں میرے پاس لاؤ۔ وہ انہیں آپ کے پاس لایا تو رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے انہیں اپنے ہاتھ میں لے کر فرمایا: انہیں کون خریدتا ہے؟ ایک آدمی نے عرض کیا، میں انہیں ایک درہم میں خریدتا ہوں، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دو یا تین مرتبہ فرمایا: درہم سے زیادہ کون بڑھتا ہے؟ پھر کسی اور آدمی نے کہا: میں انہیں دو درہم میں خریدتا ہوں، آپ نے وہ دونوں چیزیں اسے دے دیں اور دو درہم لے کر اس انصاری کو دیے اور فرمایا: ان میں سے ایک کا کھانا لے کر اپنے گھر والوں کے سپرد کرو اور دوسرے سے ایک کلہاڑا لے کر میرے پاس آؤ۔ پس وہ اسے لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے دست مبارک سے اس میں دستہ لگایا، پھر فرمایا: جا اور لکڑیاں اکٹھی کر اور فروخت کر اور میں پندرہ روز تک تمہیں نہ دیکھوں۔ وہ آدمی گیا اور لکڑیاں اکٹھی کر کے فروخت کرتا رہا، وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس کے پاس دس درہم ہو چکے تھے، اس نے کچھ رقم کے کپڑے خریدے اور کچھ سے غلہ خریدا تو رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ تمہارے لیے اس سے بہتر ہے کہ تم سوال کرو اور روز قیامت تمہارے چہرے پر نکتہ ہو، کیونکہ صرف تین اشخاص، انتہائی محتاج شخص، تاوان تلے دبے ہوئے شخص اور دیت کی تکلیف سے دوچار شخص کے لیے سوال کرنا جائز ہے۔ ابوداؤد، اور ابن ماجہ نے روز قیامتکے الفاظ تک بیان کیا ہے۔ اسنادہ حسن، رواہ ابوداؤد و ابن ماجہ۔ [مشكوة المصابيح/كتاب الزكاة/حدیث: 1851]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده حسن، رواه أبو داود (1641) و ابن ماجه (2198)»


قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن


Previous    4    5    6    7    8    9    10    11    12    Next