الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


الادب المفرد کل احادیث (1322)
حدیث نمبر سے تلاش:

الادب المفرد
كِتَابُ السَّلامِ
كتاب السلام
438. بَابٌ
438. بلا عنوان
حدیث نمبر: 965
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ غِيَاثٍ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا أَبُو عُثْمَانَ، عَنْ أَبِي مُوسَى، أَنَّهُ كَانَ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَائِطٍ مِنْ حِيطَانِ الْمَدِينَةِ، وَفِي يَدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عُودٌ يَضْرِبُ بِهِ مِنَ الْمَاءِ وَالطِّينِ، فَجَاءَ رَجُلٌ يَسْتَفْتِحُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ‏: ”افْتَحْ لَهُ، وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ“، فَذَهَبَ، فَإِذَا أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَفَتَحْتُ لَهُ، وَبَشَّرْتُهُ بِالْجَنَّةِ‏.‏ ثُمَّ اسْتَفْتَحَ رَجُلٌ آخَرُ، فَقَالَ‏: ”افْتَحْ لَهُ، وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ“، فَإِذَا عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَفَتَحْتُ لَهُ، وَبَشَّرْتُهُ بِالْجَنَّةِ‏.‏ ثُمَّ اسْتَفْتَحَ رَجُلٌ آخَرُ، وَكَانَ مُتَّكِئًا فَجَلَسَ، وَقَالَ‏: ”افْتَحْ لَهُ، وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ عَلَى بَلْوَى تُصِيبُهُ، أَوْ تَكُونُ“، فَذَهَبْتُ، فَإِذَا عُثْمَانُ، فَفَتَحْتُ لَهُ، فَأَخْبَرْتُهُ بِالَّذِي قَالَ، قَالَ‏: اللَّهُ الْمُسْتَعَانُ‏.
سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ طیبہ کے باغوں میں سے ایک باغ میں تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں ایک لکڑی تھی جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم مٹی اور پانی پر مار رہے تھے۔ اس دوران ایک آدمی آیا اور (باغ کی حویلی کا) دروازہ کھولنے کو کہا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دروازه کھولو اور اسے جنت کی بشارت دے دو۔ میں گیا تو وہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے۔ میں نے دروازہ کھولا اور انہیں جنت کی بشارت دی۔ پھر ایک اور شخص نے دروازہ کھولنے کا مطالبہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کے لیے دروازہ کھول دو اور اسے جنت کی خوشخبری دے دو۔ میں نے دیکھا تو وہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ تھے۔ میں نے ان کے لیے دروازہ کھولا اور انہیں جنت کی خوشخبری دی۔ پھر ایک تیسرے آدمی نے دروازہ کھولنے کی درخواست کی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ٹیک لگائے ہوئے تھے تو اٹھ کر بیٹھ گئے اور فرمایا: اس کے لیے دروازہ کھول دو اور اسے مستقبل میں پہنچنے والی مصیبتوں پر جنت کی خوشخبری سنا دو۔ میں گیا تو وہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ تھے۔ میں نے دروازہ کھولا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد بھی بتایا۔ انہوں نے کہا: اللہ ہی مددگار ہے۔ [الادب المفرد/كِتَابُ السَّلامِ/حدیث: 965]
تخریج الحدیث: «صحيح: صحيح البخاري، المناقب، ح: 3693»

قال الشيخ الألباني: صحيح

439. بَابُ مُصَافَحَةِ الصِّبْيَانِ
439. بچوں سے مصافحہ کرنے کا بیان
حدیث نمبر: 966
حَدَّثَنَا ابْنُ شَيْبَةَ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا ابْنُ نُبَاتَةَ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ وَرْدَانَ قَالَ‏:‏ رَأَيْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ يُصَافِحُ النَّاسَ، فَسَأَلَنِي‏:‏ مَنْ أَنْتَ‏؟‏ فَقُلْتُ‏:‏ مَوْلًى لِبَنِي لَيْثٍ، فَمَسَحَ عَلَى رَأْسِي ثَلاَثًا وَقَالَ‏:‏ بَارَكَ اللَّهُ فِيكَ‏.
سلمہ بن وردان رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ میں نے سیدنا انس رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ لوگوں سے مصافحہ کر رہے ہیں تو انہوں نے مجھ سے پوچھا: تم کون ہو؟ میں نے عرض کیا: بنولیث کا مولیٰ۔ انہوں نے تین مرتبہ میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور فرمایا: اللہ تجھے برکت دے۔ [الادب المفرد/كِتَابُ السَّلامِ/حدیث: 966]
تخریج الحدیث: «حسن: تفرد به المصنف»

قال الشيخ الألباني: حسن

440. بَابُ الْمُصَافَحَةِ
440. مصافحہ کرنے کا بیان
حدیث نمبر: 967
حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ‏:‏ لَمَّا جَاءَ أَهْلُ الْيَمَنِ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ‏:‏ ”قَدْ أَقْبَلَ أَهْلُ الْيَمَنِ وَهُمْ أَرَقُّ قُلُوبًا مِنْكُمْ“، فَهُمْ أَوَّلُ مَنْ جَاءَ بِالْمُصَافَحَةِ‏.‏
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ جب اہلِ یمن آئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اہلِ یمن آگئے ہیں، اور وہ تم میں سے زیادہ نرم دل ہیں۔ اور وہ پہلے لوگ ہیں جو مصافحہ لائے۔ [الادب المفرد/كِتَابُ السَّلامِ/حدیث: 967]
تخریج الحدیث: «صحيح: سنن أبى داؤد، الأدب: 5213»

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 968
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ زَكَرِيَّا، عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ الْفَرَّاءِ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ يَزِيدَ، عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ‏:‏ مِنْ تَمَامِ التَّحِيَّةِ أَنْ تُصَافِحَ أَخَاكَ‏.‏
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: سلام کا پورا ہونا یہ ہے کہ تو اپنے بھائی سے مصافحہ کرے۔ [الادب المفرد/كِتَابُ السَّلامِ/حدیث: 968]
تخریج الحدیث: «صحيح الإسناد موقوفًا: تفرد به المصنف»

قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد موقوفًا

441. بَابُ مَسْحِ الْمَرْأَةِ رَأْسَ الصَّبِيِّ
441. بچے کے سر پر عورت کا ہاتھ پھیرنا
حدیث نمبر: 969
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ أَبِي الأَسْوَدِ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مَرْزُوقٍ الثَّقَفِيُّ قَالَ‏:‏ حَدَّثَنِي أَبِي، وَكَانَ لِعَبْدِ اللهِ بْنِ الزُّبَيْرِ فَأَخَذَهُ الْحَجَّاجُ مِنْهُ، قَالَ‏:‏ كَانَ عَبْدُ اللهِ بْنُ الزُّبَيْرِ بَعَثَنِي إِلَى أُمِّهِ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ فَأُخْبِرُهَا بِمَا يُعَامِلُهُمْ حَجَّاجٌ، وَتَدْعُو لِي، وَتَمْسَحُ رَأْسِي، وَأَنَا يَوْمَئِذٍ وَصِيفٌ‏.
مرزوق ثقفی رحمہ اللہ سے روایت ہے (یہ سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے خادم تھے جنہیں حجاج نے پکڑ لیا تھا) وہ کہتے ہیں کہ مجھے سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے اپنی والدہ سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما کے پاس بھیجا تاکہ میں انہیں بتاؤں کہ حجاج ان کے ساتھ کیا معاملہ کرتا ہے۔ سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے میرے لیے دعا کی، اور میرے سر پر ہاتھ پھیرا، اور میں ان دنوں بلوغت کے قریب تھا۔ [الادب المفرد/كِتَابُ السَّلامِ/حدیث: 969]
تخریج الحدیث: «ضعيف الإسناد موقوف: تفرد به المصنف. اس كي سند ميں ابراهيم بن مرزوق اور اس كا باپ دونوں مجهول هيں.»

قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد موقوف

442. بَابُ الْمُعَانَقَةِ
442. معانقے کا بیان
حدیث نمبر: 970
حَدَّثَنَا مُوسَى، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ عَبْدِ الْوَاحِدِ، عَنِ ابْنِ عَقِيلٍ، أَنَّ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللهِ حَدَّثَهُ، أَنَّهُ بَلَغَهُ حَدِيثٌ عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَابْتَعْتُ بَعِيرًا فَشَدَدْتُ إِلَيْهِ رَحْلِي شَهْرًا، حَتَّى قَدِمْتُ الشَّامَ، فَإِذَا عَبْدُ اللهِ بْنُ أُنَيْسٍ، فَبَعَثْتُ إِلَيْهِ أَنَّ جَابِرًا بِالْبَابِ، فَرَجَعَ الرَّسُولُ فَقَالَ‏:‏ جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللهِ‏؟‏ فَقُلْتُ‏:‏ نَعَمْ، فَخَرَجَ فَاعْتَنَقَنِي، قُلْتُ‏:‏ حَدِيثٌ بَلَغَنِي لَمْ أَسْمَعْهُ، خَشِيتُ أَنْ أَمُوتَ أَوْ تَمُوتَ، قَالَ‏:‏ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ‏:‏ ”يَحْشُرُ اللَّهُ الْعِبَادَ، أَوِ النَّاسَ، عُرَاةً غُرْلاً بُهْمًا“، قُلْتُ‏:‏ مَا بُهْمًا‏؟‏ قَالَ‏:‏ ”لَيْسَ مَعَهُمْ شَيْءٌ، فَيُنَادِيهِمْ بِصَوْتٍ يَسْمَعُهُ مَنْ بَعُدَ، أَحْسَبُهُ قَالَ‏:‏ كَمَا يَسْمَعُهُ مَنْ قَرُبَ‏:‏ أَنَا الْمَلِكُ، لاَ يَنْبَغِي لأَحَدٍ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ وَأَحَدٌ مِنْ أَهْلِ النَّارِ يَطْلُبُهُ بِمَظْلَمَةٍ، وَلاَ يَنْبَغِي لأَحَدٍ مِنْ أَهْلِ النَّارِ يَدْخُلُ النَّارَ وَأَحَدٌ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ يَطْلُبُهُ بِمَظْلَمَةٍ“، قُلْتُ‏:‏ وَكَيْفَ‏؟‏ وَإِنَّمَا نَأْتِي اللَّهَ عُرَاةً بُهْمًا‏؟‏ قَالَ‏:‏ ”بِالْحَسَنَاتِ وَالسَّيِّئَاتِ‏.“
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث کے بارے میں پتہ چلا کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی صحابی کے پاس ہے، تو میں نے ایک اونٹ خریدا۔ اور اپنی سواری پر ایک مہینے کا سفر طے کر کے ان کے پاس شام پہنچا۔ پتہ چلا تو وہ صحابی سیدنا عبداللہ بن انیس رضی اللہ عنہ تھے۔ میں نے پیغام بھیجا کہ جابر تمہارے دروازے پر آیا ہے۔ قاصد واپس آیا تو اس نے کہا: جابر بن عبداللہ؟ میں نے کہا: ہاں۔ سیدنا عبداللہ بن انیس رضی اللہ عنہ باہر نکلے اور مجھے گلے لگا لیا۔ میں نے کہا: مجھے ایک حدیث کا پتہ چلا ہے جو میں نے نہیں سنی، مجھے خدشہ گزرا کہ آپ کو یا مجھے موت آجائے اور میں براہِ راست نہ سن سکوں۔ انہوں نے کہا: میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: الله تعالیٰٰ لوگوں کو اس طرح جمع فرمائے گا کہ وہ ننگے جسم ہوں گے، بغیر ختنوں کے ہوں گے اور بہم ہوں گے۔ میں نے عرض کیا: بہم کا کیا مطلب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان کے پاس کوئی چیز نہیں ہوگی، پھر اللہ تعالیٰٰ انہیں آواز دے گا جو ہر دور نزدیک والا اس کو برابر سنے گا: میں ہی بادشاہ ہوں۔ کوئی جنتی جنت میں داخل نہ ہوگا جب تک کہ اس پر کسی جہنمی کا کوئی حق باقی ہے، اور کوئی دوزخی اس وقت تک دوزخ میں داخل نہیں ہوگا جب تک اس پر کسی جنتی کا حق ہے۔ میں نے عرض کیا: حقوق کی ادائیگی کیسے ہوگی جبکہ ہم اللہ تعالیٰٰ کے پاس کپڑوں سے ننگے ہوں گے اور اس کے علاوہ بھی کوئی چیز نہ ہوگی؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نیکیوں اور برائیوں سے لین دین ہوگا۔ [الادب المفرد/كِتَابُ السَّلامِ/حدیث: 970]
تخریج الحدیث: «حسن: مسند أحمد: 495/3»

قال الشيخ الألباني: حسن

443. بَابُ الرَّجُلِ يُقَبِّلُ ابْنَتَهُ
443. آدمی کا اپنی بیٹی کا بوسہ لینا
حدیث نمبر: 971
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ مَيْسَرَةَ بْنِ حَبِيبٍ، عَنِ الْمِنْهَالِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ عَائِشَةَ بِنْتِ طَلْحَةَ، عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ قَالَتْ‏:‏ مَا رَأَيْتُ أَحَدًا كَانَ أَشْبَهَ حَدِيثًا وَكَلاَمًا بِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ فَاطِمَةَ، وَكَانَتْ إِذَا دَخَلَتْ عَلَيْهِ قَامَ إِلَيْهَا، فَرَحَّبَ بِهَا وَقَبَّلَهَا، وَأَجْلَسَهَا فِي مَجْلِسِهِ، وَكَانَ إِذَا دَخَلَ عَلَيْهَا قَامَتْ إِلَيْهِ فَأَخَذَتْ بِيَدِهِ، فَرَحَّبَتْ بِهِ وَقَبَّلَتْهُ، وَأَجْلَسَتْهُ فِي مَجْلِسِهَا، فَدَخَلَتْ عَلَيْهِ فِي مَرَضِهِ الَّذِي تُوُفِّيَ، فَرَحَّبَ بِهَا وَقَبَّلَهَا‏.‏
ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے کسی کو بات چیت میں اور گفتگو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشابہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے بڑھ کر نہیں دیکھا۔ جب وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھ کر ان کا استقبال کرتے، انہیں بوسہ دیتے اور اپنی جگہ پر انہیں بٹھاتے۔ اور جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس جاتے تو وہ بھی اٹھ کر استقبال کرتیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ پکڑ لیتیں، خوش آمدید کہتیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بوسہ دیتیں، نیز اپنی جگہ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بٹھاتیں، چنانچہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بیماری میں تشریف لائیں جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے، تو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خوش آمدید کہا اور انہیں بوسہ دیا۔ [الادب المفرد/كِتَابُ السَّلامِ/حدیث: 971]
تخریج الحدیث: «صحيح: جامع الترمذي، الأدب، ح: 3872»

قال الشيخ الألباني: صحيح

444. بَابُ تَقْبِيلِ الْيَدِ
444. ہاتھ چومنے کا بیان
حدیث نمبر: 972
حَدَّثَنَا مُوسَى، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ‏:‏ كُنَّا فِي غَزْوَةٍ، فَحَاصَ النَّاسُ حَيْصَةً، قُلْنَا‏:‏ كَيْفَ نَلْقَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ فَرَرْنَا‏؟‏ فَنَزَلَتْ‏: ﴿‏إِلاَّ مُتَحَرِّفًا لِقِتَالٍ‏﴾ [الأنفال: 16]، فَقُلْنَا‏:‏ لاَ نَقْدِمُ الْمَدِينَةَ، فَلاَ يَرَانَا أَحَدٌ، فَقُلْنَا‏:‏ لَوْ قَدِمْنَا، فَخَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ صَلاَةِ الْفَجْرِ، قُلْنَا‏:‏ نَحْنُ الْفَرَّارُونَ، قَالَ‏:‏ ”أَنْتُمُ الْعَكَّارُونَ“، فَقَبَّلْنَا يَدَهُ، قَالَ‏:‏ ”أَنَا فِئَتُكُمْ‏.“
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ہم ایک غزوے (موتہ) میں تھے کہ لوگ یک بار بھاگ کھڑے ہوئے۔ ہم نے کہا کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا منہ دکھائیں گے کہ ہم میدانِ جنگ سے بھاگ آئے ہیں؟ اس پر یہ آیت نازل ہوئی: سوائے اس کے جو جنگ کے لیے رخ بدل لے۔ ہم نے کہا کہ ہم مدینہ نہیں جائیں گے تاکہ کوئی ہمیں نہ دیکھے، پھر ہم نے کہا: اگر چلے جائیں (تو یہی بہتر ہے)۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نمازِ فجر سے فارغ ہوئے تو ہم نے کہا: ہم بھگوڑے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم دوبارہ حملہ کرنے والے ہو، نہ کہ بھاگنے والے۔ تب ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ مبارک کا بوسہ لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تمہارے لیے مرکزی شخصیت ہوں، میری طرف ہی آنا چاہیے۔ [الادب المفرد/كِتَابُ السَّلامِ/حدیث: 972]
تخریج الحدیث: «ضعيف: سنن أبى داؤد، الجهاد، ح: 2647 و جامع الترمذي، الجهاد، ح: 1716»

قال الشيخ الألباني: ضعيف

حدیث نمبر: 973
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا عَطَّافُ بْنُ خَالِدٍ قَالَ‏:‏ حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ رَزِينٍ قَالَ‏:‏ مَرَرْنَا بِالرَّبَذَةِ فَقِيلَ لَنَا‏:‏ هَا هُنَا سَلَمَةُ بْنُ الأَكْوَعِ، فَأَتَيْنَاهُ فَسَلَّمْنَا عَلَيْهِ، فَأَخْرَجَ يَدَيْهِ فَقَالَ‏:‏ بَايَعْتُ بِهَاتَيْنِ نَبِيَّ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْرَجَ كَفًّا لَهُ ضَخْمَةً كَأَنَّهَا كَفُّ بَعِيرٍ، فَقُمْنَا إِلَيْهَا فَقَبَّلْنَاهَا‏.‏
حضرت عبدالرحمٰن بن رزین رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ ہم ربذه مقام سے گزرے تو ہمیں بتایا گیا کہ یہاں سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ تشریف رکھتے ہیں۔ ہم ان کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سلام کہا۔ پھر انہوں نے اپنے دونوں ہاتھ نکالے اور فرمایا: میں نے ان دونوں ہاتھوں کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کی ہے۔ انہوں نے اپنی بھاری بھرکم ہتھیلی نکالی تو وہ اونٹ کی ہتھیلی کی طرح بڑی تھی۔ ہم اس کی طرف اٹھے اور اس کا بوسہ لیا۔ [الادب المفرد/كِتَابُ السَّلامِ/حدیث: 973]
تخریج الحدیث: «حسن: المعجم الأوسط للطبراني: 205/1»

قال الشيخ الألباني: حسن

حدیث نمبر: 974
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ ابْنِ جُدْعَانَ، قَالَ ثَابِتٌ لأَنَسٍ‏:‏ أَمَسَسْتَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِكَ‏؟‏ قَالَ‏:‏ نَعَمْ، فَقَبَّلَهَا‏.‏
حضرت ثابت رحمہ اللہ سے روایت ہے، انہوں نے سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے عرض کیا: کیا آپ نے کبھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ چھوا ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں، پھر اس نے ان کا ہاتھ چوم لیا۔ [الادب المفرد/كِتَابُ السَّلامِ/حدیث: 974]
تخریج الحدیث: «ضعيف الإسناد موقوف: تفرد به المصنف»

قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد موقوف


1    2    3    4    5    Next