الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


الادب المفرد کل احادیث (1322)
حدیث نمبر سے تلاش:

الادب المفرد
كِتَابُ السَّلامِ
كتاب السلام
حدیث نمبر: 1004
حَدَّثَنَا خَلادٌ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا مِسْعَرٌ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ قَالَ‏:‏ كَانُوا يَكْرَهُونَ التَّسْلِيمَ بِالْيَدِ، أَوْ قَالَ‏:‏ كَانَ يَكْرَهُ التَّسْلِيمَ بِالْيَدِ‏.‏
عطا بن ابی رباح رحمہ اللہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ وہ ہاتھ کے اشارے سے سلام کرنا ناپسند کرتے تھے۔ یا فرمایا: ہاتھ کے اشارے سے سلام کرنا ناپسند کیا جاتا تھا۔ [الادب المفرد/كِتَابُ السَّلامِ/حدیث: 1004]
تخریج الحدیث: «صحيح: المصنف لابن أبى شيبة: 138/6 بألفاظ مختلفة»

قال الشيخ الألباني: صحيح

460. بَابُ يُسْمِعُ إِذَا سَلَّمَ
460. سلام بلند آواز سے کہنا چاہیے
حدیث نمبر: 1005
حَدَّثَنَا خَلاَّدُ بْنُ يَحْيَى، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا مِسْعَرٌ، عَنْ ثَابِتِ بْنِ عُبَيْدٍ قَالَ‏:‏ أَتَيْتُ مَجْلِسًا فِيهِ عَبْدُ اللهِ بْنُ عُمَرَ، فَقَالَ‏:‏ إِذَا سَلَّمْتَ فَأَسْمِعْ، فَإِنَّهَا تَحِيَّةٌ مِنْ عِنْدِ اللهِ مُبَارَكَةً طَيْبَةً‏.‏
ثابت بن عبید رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں ایک مجلس میں آیا جس میں سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بھی موجود تھے۔ انہوں نے فرمایا: جب سلام کرو تو دوسروں کو سناؤ، یعنی بآواز بلند سلام کرو کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مبارک اور پاکیزہ تحفہ ہے۔ [الادب المفرد/كِتَابُ السَّلامِ/حدیث: 1005]
تخریج الحدیث: «صحيح: المصنف لعبدالرزاق، حديث: 486 بألفاظ مختلفة»

قال الشيخ الألباني: صحيح

461. بَابُ مَنْ خَرَجَ يُسَلِّمُ وَيُسَلَّمُ عَلَيْهِ
461. جو گھر سے اس لیے نکلے کہ وہ لوگوں کو سلام کہے اور لوگ اسے سلام کہیں
حدیث نمبر: 1006
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ قَالَ‏:‏ حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، أَنَّ الطُّفَيْلَ بْنَ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ كَانَ يَأْتِي عَبْدَ اللهِ بْنَ عُمَرَ فَيَغْدُو مَعَهُ إِلَى السُّوقِ، قَالَ‏:‏ فَإِذَا غَدَوْنَا إِلَى السُّوقِ لَمْ يَمُرَّ عَبْدُ اللهِ بْنُ عُمَرَ عَلَى سَقَّاطٍ، وَلَا صَاحِبِ بَيْعَةٍ، وَلَا مِسْكِينٍ، وَلَا أَحَدٍ إِلَّا يُسَلِّمُ عَلَيْهِ‏.‏ قَالَ الطُّفَيْلُ: فَجِئْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ يَوْمًا، فَاسْتَتْبَعَنِي إِلَى السُّوقِ، فَقُلْتُ: مَا تَصْنَعُ بِالسُّوقِ وَأَنْتَ لَا تَقِفُ عَلَى الْبَيْعِ، وَلَا تَسْأَلُ عَنِ السِّلَعِ، وَلَا تَسُومُ بِهَا، وَلَا تَجْلِسُ فِي مَجَالِسِ السُّوقِ؟ فَاجْلِسْ بِنَا هَاهُنَا نَتَحَدَّثُ، فَقَالَ لِي عَبْدُ اللَّهِ: يَا أَبَا بَطْنٍ، وَكَانَ الطُّفَيْلُ ذَا بَطْنٍ، إِنَّمَا نَغْدُو مِنْ أَجْلِ السَّلامِ، نُسَلِّمُ عَلَى مَنْ لَقِيَنَا.
طفیل بن ابی بن کعب رحمہ اللہ سے روایت ہے، انہوں نے بیان کیا کہ وہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس آتے تو وہ صبح صبح انہیں لے کر بازار جاتے۔ جب ہم بازار جاتے تو سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما جس کباڑیے، تاجر، مسکین یا کسی بھی فرد کے پاس سے گزرتے تو اسے سلام کہتے۔ طفیل کہتے ہیں کہ میں ایک روز سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس آیا تو مجھے بازار چلنے کے لیے کہا۔ میں نے عرض کیا: آپ بازار جا کر کیا کریں گے، جبکہ نہ آپ کسی خرید و فروخت کے لیے کھڑے ہوتے ہیں، نہ کسی سامان کا بھاؤ پوچھتے ہیں، نہ کوئی سودا طے کرتے ہیں اور نہ بازار کی مجلسوں میں بیٹھتے ہیں؟ یہیں ہمارے ساتھ تشریف رکھیں۔ ہم آپس میں باتیں کرتے ہیں۔ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے مجھ سے فرمایا: اے ابوبطن! (طفیل رحمہ اللہ کا پیٹ ذرا بڑا تھا) ہم بازار اس لیے جاتے ہیں تاکہ جو ہمیں ملے ہم اسے سلام کہیں۔ [الادب المفرد/كِتَابُ السَّلامِ/حدیث: 1006]
تخریج الحدیث: «صحيح: شعب الإيمان للبيهقي، حديث: 8790»

قال الشيخ الألباني: صحيح

462. بَابُ التَّسْلِيمِ إِذَا جَاءَ الْمَجْلِسَ
462. جب کوئی مجلس میں آئے تو سلام کہے
حدیث نمبر: 1007
حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنِ ابْنِ عَجْلاَنَ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ‏:‏ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ‏: ”إِذَا جَاءَ أَحَدُكُمُ الْمَجْلِسَ فَلْيُسَلِّمْ، فَإِنْ رَجَعَ فَلْيُسَلِّمْ، فَإِنَّ الأُخْرَى لَيْسَتْ بِأَحَقَّ مِنَ الأولَى‏“.
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَ: حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ عِيسَى، عَنِ ابْنِ عَجْلانَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مِثْلَهُ.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی مجلس میں آئے تو سلام کہے، اور جب اٹھ کر جائے تو بھی سلام کہے۔ بلا شبہ دوسرا پہلے سلام سے زیادہ اہم نہیں ہے۔
ایک دوسرے طریق سے بھی سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اسی طرح مرفوعاً مروی ہے۔ [الادب المفرد/كِتَابُ السَّلامِ/حدیث: 1007]
تخریج الحدیث: «صحيح: سنن أبى داؤد، الأدب، ح: 5208 و جامع الترمذي، ح: 2706»

قال الشيخ الألباني: صحيح

463. بَابُ التَّسْلِيمِ إِذَا قَامَ مِنَ الْمَجْلِسِ
463. مجلس سے اٹھ کر جائے تو سلام کہے
حدیث نمبر: 1008
حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلاَلٍ قَالَ‏:‏ حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلاَنَ قَالَ‏:‏ أَخْبَرَنِي سَعِيدٌ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ‏:‏ ”إِذَا جَاءَ الرَّجُلُ الْمَجْلِسَ فَلْيُسَلِّمْ، فَإِنْ جَلَسَ ثُمَّ بَدَا لَهُ أَنْ يَقُومَ قَبْلَ أَنْ يَتَفَرَّقَ الْمَجْلِسُ فَلْيُسَلِّمْ، فَإِنَّ الأُولَى لَيْسَتْ بِأَحَقَّ مِنَ الأخْرَى‏.“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے جب کوئی مجلس میں آئے تو اسے چاہیے کہ سلام کہے، اگر وہ بیٹھ جائے اور پھر مجلس برخاست ہونے سے پہلے اسے اٹھ کر جانا پڑے تو سلام کہے، کیونکہ پہلا سلام دوسرے سے زیادہ اہم نہیں ہے۔ [الادب المفرد/كِتَابُ السَّلامِ/حدیث: 1008]
تخریج الحدیث: «صحيح: سنن أبى داؤد، الأدب، ح: 5208 و جامع الترمذي، ح: 2706»

قال الشيخ الألباني: صحيح

464. بَابُ حَقِّ مَنْ سَلَّمَ إِذَا قَامَ
464. مجلس سے اٹھتے وقت سلام کہنے کا ثواب
حدیث نمبر: 1009
حَدَّثَنَا مَطَرُ بْنُ الْفَضْلِ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا بِسْطَامٌ قَالَ‏:‏ سَمِعْتُ مُعَاوِيَةَ بْنَ قُرَّةَ قَالَ‏:‏ قَالَ لِي أَبِي‏:‏ يَا بُنَيَّ، إِنْ كُنْتَ فِي مَجْلِسٍ تَرْجُو خَيْرَهُ، فَعَجِلَتْ بِكَ حَاجَةٌ فَقُلْ‏:‏ سَلاَمٌ عَلَيْكُمْ، فَإِنَّكَ تَشْرَكُهُمْ فِيمَا أَصَابُوا فِي ذَلِكَ الْمَجْلِسِ، وَمَا مِنْ قَوْمٍ يَجْلِسُونَ مَجْلِسًا فَيَتَفَرَّقُونَ عَنْهُ لَمْ يُذْكَرِ اللَّهُ، إِلاَّ كَأَنَّمَا تَفَرَّقُوا عَنْ جِيفَةِ حِمَارٍ‏.‏
سیدنا معاویہ بن قرہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ مجھ سے میرے والد محترم نے کہا: میرے بیٹے! اگر تم کسی ایسی مجلس میں ہو جس کی خیر کی تمہیں امید ہو اور پھر تمہیں کسی ضرورت کے پیشِ نظر جلدی جانا پڑے تو السلام علیکم کہہ کر جاؤ۔ اس طرح تم اس خیر میں شریک ہو جاؤ گے جو اہلِ مجلس کو پہنچے گی۔ اور جو قوم کسی مجلس میں بیٹھے اور بغیر اللہ کا ذکر کیے آپس میں جدا جدا ہو جائیں تو وہ ایسے ہیں جیسے مردہ گدھے سے اٹھ کر گئے ہیں۔ [الادب المفرد/كِتَابُ السَّلامِ/حدیث: 1009]
تخریج الحدیث: «صحيح موقوف: سنن أبى داؤد، الأدب، ح: 4855 و جامع الترمذي، الدعوات، ح: 3380»

قال الشيخ الألباني: صحيح موقوف

حدیث نمبر: 1010
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ صَالِحٍ قَالَ‏:‏ حَدَّثَنِي مُعَاوِيَةُ، عَنْ أَبِي مَرْيَمَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّهُ سَمِعَهُ يَقُولُ‏:‏ مَنْ لَقِيَ أَخَاهُ فَلْيُسَلِّمْ عَلَيْهِ، فَإِنْ حَالَتْ بَيْنَهُمَا شَجَرَةٌ أَوْ حَائِطٌ، ثُمَّ لَقِيَهُ فَلْيُسَلِّمْ عَلَيْهِ‏.‏
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جو اپنے مسلمان بھائی کو ملے، اسے چاہیے کہ اسے سلام کہے۔ اگر ان دونوں کے درمیان کوئی درخت یا دیوار حائل ہو جائے اور پھر دوبارہ ملے تو بھی اسے سلام کہے۔ [الادب المفرد/كِتَابُ السَّلامِ/حدیث: 1010]
تخریج الحدیث: «صحيح موقوفًا و صح مرفوعًا: سنن أبى داؤد، الأدب، حديث: 5200»

قال الشيخ الألباني: صحيح موقوفًا و صح مرفوعًا

حدیث نمبر: 1011
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا الضَّحَّاكُ بْنُ نِبْرَاسٍ أَبُو الْحَسَنِ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ أَصْحَابَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانُوا يَكُونُونَ مُجْتَمِعِينَ فَتَسْتَقْبِلُهُمُ الشَّجَرَةُ، فَتَنْطَلِقُ طَائِفَةٌ مِنْهُمْ عَنْ يَمِينِهَا وَطَائِفَةٌ عَنْ شِمَالِهَا، فَإِذَا الْتَقَوْا سَلَّمَ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ‏.‏
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ اکٹھے ہوتے، پھر ان کے سامنے درخت آجاتا اور کچھ لوگ اس سے دائیں ہو جاتے اور کچھ بائیں ہو جاتے، پھر جب دوبارہ ملتے تو ایک دوسرے کو سلام کہتے۔ [الادب المفرد/كِتَابُ السَّلامِ/حدیث: 1011]
تخریج الحدیث: «صحيح: المعجم الأوسط للطبراني، حديث: 7987»

قال الشيخ الألباني: صحيح

465. بَابُ مَنْ دَهَنَ يَدَهُ لِلْمُصَافَحَةِ
465. مصافحے کے لیے ہاتھ کو خوشبو لگانا
حدیث نمبر: 1012
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللهِ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ خِدَاشٍ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ وَهْبٍ الْمِصْرِيُّ، عَنْ قُرَيْشٍ الْبَصْرِيِّ هُوَ ابْنُ حَيَّانَ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، أَنَّ أَنَسًا كَانَ إِذَا أَصْبَحَ ادَّهَنَ يَدَهُ بِدُهْنٍ طَيِّبٍ لِمُصَافَحَةِ إِخْوَانِهِ‏.
حضرت ثابت بنانی رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ اپنے بھائیوں سے مصافحہ کرنے کے لیے روزانہ صبح اپنے ہاتھوں کو خوشبودار تیل لگاتے تھے۔ [الادب المفرد/كِتَابُ السَّلامِ/حدیث: 1012]
تخریج الحدیث: «صحيح: الجامع فى الحديث لأبي محمد المصري، ح: 166»

قال الشيخ الألباني: صحيح

466. بَابُ التَّسْلِيمِ بِالْمَعْرِفَةِ وَغَيْرِهَا
466. جاننے اور نہ جاننے والے کو سلام کہنا
حدیث نمبر: 1013
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ أَبِي الْخَيْرِ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو، أَنَّ رَجُلاً قَالَ‏:‏ يَا رَسُولَ اللهِ، أَيُّ الإِسْلاَمِ خَيْرٌ‏؟‏ قَالَ‏:‏ ”تُطْعِمُ الطَّعَامَ، وَتُقْرِئُ السَّلاَمَ عَلَى مَنْ عَرَفْتَ وَمَنْ لَمْ تَعْرِفْ‏.‏“
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کون سا اسلام بہتر ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کھانا کھلاؤ، اور جان پہچان والے اور اجنبی ہر ایک کو سلام کہو۔ [الادب المفرد/كِتَابُ السَّلامِ/حدیث: 1013]
تخریج الحدیث: «صحيح: صحيح البخاري، الإيمان، ح: 12»

قال الشيخ الألباني: صحيح


Previous    1    2    3    4    5    6    7    8    9    Next