الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


موطا امام مالك رواية ابن القاسم کل احادیث (657)
حدیث نمبر سے تلاش:

موطا امام مالك رواية ابن القاسم
جہاد سے متعلق مسائل
1. مجاہد کی فضیلت
حدیث نمبر: 552
345- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”مثل المجاهد فى سبيل الله كمثل الصائم القائم الدائم الذى لا يفتر من صلاة ولا من صيام حتى يرجع.“
اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والی کی مثال اس شخص کی سی ہے جو مسلسل بغیر کسی توقف کے روزے رکھتا رہے اور ہمیشہ نماز پڑھتا رہے حتیٰ کہ مجاہد (اپنے گھر) واپس آجائے۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 552]
تخریج الحدیث: «345- الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 443/2 ح 986، ك 21 ب 1 ح 1) التمهيد 302/18، الاستذكار: 925، وأخرجه أحمد (465/2 ح 1001) من حديث مالك به تفرد به دون السته.»

حدیث نمبر: 553
346- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”تكفل الله لمن جاهد فى سبيله، لا يخرجه من بيته إلا الجهاد فى سبيله وتصديق كلمته، بأن يدخله الجنة أو يرده إلى مسكنه الذى خرج منه مع ما نال من أجر أو غنيمة.“
اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اللہ کے راستے میں جہاد کے لئے اپنے گھر سے نکلتا ہے (اور اس کا مطمح نظر) جہاد فی سبیل اللہ، (اعلائے) کلمتہ اللہ (اور اس) کی تصدیق کے سوا کچھ نہیں تو اللہ اسے جنت کی ضمانت دیتا ہے کہ وہ اسے اس میں داخل کرے گا یا اجر یا غنیمت عطا کرنے کے بعد اسے گھر واپس بھیج دے گا۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 553]
تخریج الحدیث: «346- الموطأ (رواية يحيٰي بن يحيٰي 443/2، 444 ح 987، ك 21 ب1 ح 2) التمهيد 341/18، الاستذكار: 927، وأخرجه البخاري (7463) من حديث مالك به، ورواه مسلم (1876/104) من حديث ابي الزناد به .»

حدیث نمبر: 554
348- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”يضحك الله إلى رجلين يقتل أحدهما الآخر كلاهما يدخل الجنة، يقاتل هذا فى سبيل الله فيقتل، ثم يتوب الله على القاتل فيقاتل فيستشهد.“
اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ دو آدمیوں پر ہنستا ہے (جیسا کہ اس کی شان کے لائق ہے) جن میں سے ایک دوسرے کو قتل کرتا ہے (اور) دونوں جنت میں داخل ہو جاتے ہیں۔ یہ شخص فی سبیل اللہ قتال کرتا ہے تو قتل ہو جاتا ہے پھر اللہ تعالیٰ قاتل کو توبہ (اسلام قبول کرنے) کی توفیق دیتا ہے پھر وہ قتال کرتا ہے تو شہید ہو جاتا ہے۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 554]
تخریج الحدیث: «348- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 460/2 ح 1015، ك 21 ب 14 ح 28) التمهيد 344/18، الاستذكار: 952 وأخرجه البخاري (2826) من حديث مالك، ومسلم (1890) من حديث ابي الزناد به ورواه النسائي (38/6، 39 ح 3168) من حديث عبدالرحمٰن بن القاسم به.»

2. راہ جہاد میں زخمی ہونے والے کی فضیلت
حدیث نمبر: 555
349- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”والذي نفسي بيده، لا يكلم أحد فى سبيل الله -والله أعلم بمن يكلم فى سبيله- إلا جاء يوم القيامة وجرحه يثعب دما، اللون لون دم والريح ريح مسك.“
اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! تم میں سے جو آدمی بھی اللہ کے راستے میں زخمی ہوتا ہے اور اللہ جانتا ہے کہ کون اللہ کے راستے میں زخمی ہوتا ہے تو یہ شخص قیامت کے دن اس حالت میں آئے گا کہ اس کے زخم سے خون بہہ رہا ہو گا۔ اس کا رنگ خون جیسا ہو گا اور اس کو خوشبو کستوری جیسی ہو گی۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 555]
تخریج الحدیث: «349- الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 461/2 ح 1016، ك 21 ب 14 ح 29) التمهيد 13/19، الاستذكار: 953، وأخرجه البخاري (2803) من حديث مالك، ومسلم (1876/105) من حديث ابي الزناد به.»

3. شہادت کی آرزو سنت رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) ہے
حدیث نمبر: 556
347- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”والذي نفسي بيده، لوددت أني أقاتل فى سبيل الله فأقتل، ثم أحيا فأقتل، ثم أحيا فأقتل، فكان أبو هريرة يقول ثلاثا: أشهد بالله.
اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میں چاہتا ہوں کہ اللہ کے راستے میں قتال کروں پھر مارا جاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں (تو قتال کروں) پھر قتل کیا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں پھر قتل کیا جاؤں پھر سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ تین دفعہ فرماتے: میں اللہ (کی قسم) کے ساتھ گواہی دیتا ہوں۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 556]
تخریج الحدیث: «347- الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 460/2 ح 1014، ك 21 ب 14 ح 27) التمهيد 340/18، الاستذكار: 951، وأخرجه البخاري (7227) من حديث مالك به، ومسلم (1867/106) من حديث ابي الزناد به.»

حدیث نمبر: 557
506- مالك عن يحيى بن سعيد عن أبى صالح السمان عن أبى هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”لولا أن أشق على أمتي، لأحببت أن لا أتخلف عن سرية تخرج فى سبيل الله، ولكن لا أجد ما أحملهم عليه، ولا يجدون ما يتحملون عليه فيخرجون، ويشق عليهم أن يتخلفوا بعدي، فوددت أني أقاتل فى سبيل الله فأقتل، ثم أحيا فأقتل، ثم أحيا فأقتل.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر مجھے اپنی امت کی مشقت کا خیال نہ ہوتا تو مجھے یہ پسند تھا کہ میں کسی جہادی دستے سے پیچھے نہ رہوں جو اللہ کے راستے میں نکلتا ہے لیکن میرے پاس تمہاری سواری کے لئے کوئی چیز نہیں ہے اور نہ لوگوں کے پاس سواریاں ہیں تاکہ وہ (اللہ کے راستے میں) نکلیں اور لوگوں کو اس میں تکلیف ہو گی کہ وہ مجھ سے پیچھے رہ جائیں۔ پس میں چاہتا ہوں کہ اللہ کے راستے میں قتال کروں تو قتل کیا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں تو قتل کیا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں تو قتل کیا جاؤں۔  [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 557]
تخریج الحدیث: «506- الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 465/2 ح 1027، ك 21 ب 18 ح 40) التمهيد 227/23، الاستذكار: 964، و أخرجه النسائي فى الكبريٰ (259/5 ح 8835) من حديث مالك به ورواه البخاري (2972) ومسلم (1876/6) من حديث يحيي بن سعيد الانصاري به، وفي رواية يحيي بن يحيي: ”ولٰكني“ .»

4. شہادت کے درجات
حدیث نمبر: 558
301- وعن عبد الله بن عبد الله بن عتيك بن الحارث ابن عتيك وهو جد عبد الله أبو أمه أخبره أن جابر بن عتيك أخبره أن رسول الله صلى الله عليه وسلم جاء يعود عبد الله بن ثابت فوجده قد غلب عليه، فصاح به فلم يجبه فاسترجع رسول الله صلى الله عليه وسلم وقال: ”غلبنا عليك يا أبا الربيع“، فصاح النسوة وبكين فجعل ابن عتيك يسكتهن، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”دعهن فإذا وجب فلا تبكين باكية.“ فقالوا: يا رسول الله وما الوجوب؟ قال: ”إذا مات“ فقالت ابنته، والله، إن كنت لأرجو أن تكون شهيدا، فإنك قد كنت قضيت جهازك، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”إن الله قد أوقع أجره على قدر نيته وما تعدون الشهادة؟ قالوا: القتل فى سبيل الله، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: الشهادة سبع سوى القتل فى سبيل الله: المطعون شهيد، والغريق شهيد، وصاحب ذات الجنب شهيد، والمبطون شهيد، وصاحب الحريق شهيد، والذي يموت تحت الهدم شهيد، والمرأة تموت بجمع شهيدة.
سیدنا جابر بن عتیک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا عبداللہ بن ثابت رضی اللہ عنہ کی بیمار پرسی کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو دیکھا کہ وہ تکلیف کی وجہ سے مغلوب (بے ہوش) ہو گئے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں آواز دی تو انہوں (عبداللہ بن ثابت رضی اللہ عنہ) نے کوئی جواب نہ دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے «انا لله وانااليه راجعون» پڑھا اور فرمایا: اے ابوالربیع! ہم تمہارے بارے میں بے بس ہیں۔ تو عورتوں نے تیز باتیں کرنا اور رونا شروع کر دیا۔ (جابر) ابن عتیک رضی اللہ عنہ انہیں چپ کرانے لگے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انہیں چھوڑ دو۔ جب وہ فوت ہو جائیں تو پھر کوئی بھی رونے والی (اونچی آواز سے) نہ روئے۔ لوگوں نے کہا: یا رسول اللہ! «وجوب» کا کیا مطلب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب فوت ہو جائیں۔ پھر ان کی بیٹی نے (اپنے باپ کو پکارتے ہوئے) کہا: اللہ کی قسم! میں یہ سمجھتی ہوں کہ آپ تو شہید ہونا چاہتے تھے اور آپ نے جہاد پر جانے کے لئے تیاری بھی کر رکھی تھی! تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ نے ان کی نیت کے مطابق ان کا اجر بلند فرمایا ہے اور تم شہادت کسے سمجھتے ہو؟ لوگوں نے کہا: اللہ کے راستے میں قتل ہو جانا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کے راستے میں قتل ہو جانے کے سوا بھی اور سات شہادتیں ہیں: طاعون میں مرنے والا شہید ہے، ڈوب کر مرنے والا شہید ہے، ذات الجنب (پسلی کی ایک بیماری) میں مرنے والا شہید ہے، پیٹ کی بیماری سے مرنے والا شہید ہے، جل کر مر جانے والا شہید ہے، چھت اور دیوار کے نیچے دب کر مر جانے والا شہید ہے اور بچہ جننے کی حالت میں مر جانے والی عورت شہید ہے۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 558]
تخریج الحدیث: «301- الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 233/1، 234 ح 555، ك 16 ب 12 ح 36 نحو المعنيٰ) التمهيد 202/19، الاستذكار: 509، و أخرجه أبوداود (3111) و النسائي (13/4 ح 1874) من حديث مالك به وصححه ابن حبان (الموارد: 1616، الاحسان: 3179، 3180/3189، 3190) والحاكم (352/1، 353) ووافقه الذهبي.»

حدیث نمبر: 559
433- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”بينما رجل يمشي بطريق إذ وجد غصن شوك على الطريق فأخره، فشكر الله له فغفر له. وقال: الشهداء خمسة: المطعون والمبطون والغرق وصاحب الهدم والشهيد فى سبيل الله. وقال: لو يعلم الناس ما فى النداء والصف الأول ثم لم يجدوا إلا أن يستهموا، عليه لاستهموا ولو يعلمون ما فى التهجير لاستبقوا إليه ولو يعلمون ما فى العتمة والصبح لآتوهما ولو حبوا.“
اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک آدمی ایک راستے پر چل رہا تھا کہ اس نے راستے پر کانٹوں والی ٹہنی دیکھی تو اسے راستے سے ہٹا دیا۔ اللہ نے اس کی قدر دانی کی اور اسے بخش دیا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پانچ قسم کے لوگ شہید ہیں: طاعون سے مرنے والا، پیٹ کی بیماری سے مرنے والا، ڈوب کر مرنے والا، مکان گرنے سے مرنے والا اور اللہ کے راستے میں شہید ہونے والا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر لوگوں کو علم ہوتا کہ اذان اور پہلی صف میں کیا (ثواب) ہے، پھر وہ قرعہ اندازی کے سوا کوئی چارہ نہ پاتے تو قرعہ اندازی کرتے۔ اور اگر وہ جانتے کہ ظہر کی نماز کے لئے جلدی آنے میں کتنا (ثواب) ہے تو ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتے اور اگر وہ جانتے کہ عشاء اور صبح کی نماز میں کیا (ثواب) ہے تو ضرور آتے اگرچہ انہیں گھٹنوں کے بل گھسٹ کر آنا پڑتا۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 559]
تخریج الحدیث: «433- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 131/1 ح 291، ك 8 ب 2 ح 6) التمهيد 11/22، الاستذكار: 260، 261، و أخرجه البخاري (652-654) ومسلم (1914، 437) من حديث مالك به ببعض الاختلاف.»

5. جہاد کے لئے گھوڑا تیار کرنے کی فضیلت
حدیث نمبر: 560
178- مالك عن زيد بن أسلم عن أبى صالح السمان عن أبى هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”الخيل لرجل أجر ولرجل ستر وعلى رجل وزر. فأما الذى هي له أجر فرجل ربطها فى سبيل الله فأطال لها فى مرج أو روضة، فما أصابت فى طيلها ذلك من المرج أو الروضة كان له حسنات، ولو أنها قطعت طيلها فاستنت شرفا أو شرفين كانت آثارها وأرواثها حسنات له، ولو أنها مرت بنهر فشربت منه ولم يرد أن يسقي به كان ذلك له حسنات فهي له أجر. ورجل ربطها تغنيا وتعففا ولم ينس حق الله فى رقابها ولا ظهورها فهي لذلك ستر. ورجل ربطها فخرا ورياء ونواء لأهل الإسلام فهي على ذلك وزر“، وسئل النبى صلى الله عليه وسلم عن الحمر فقال: ”لم ينزل على فيها شيء إلا هذه الآية الجامعة الفاذة“: {فمن يعمل مثقال ذرة خيرا يره. ومن يعمل مثقال ذرة شرا يره}.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (بعض) گھوڑے آدمی کے لئے اجر (کا باعث) ہوتے ہیں اور بعض اس کا پردہ ہیں اور بعض آدمی پر بوجھ (گناہ) ہوتے ہیں۔ باعث اجر وہ گھوڑے ہیں جنہیں آدمی اللہ کے راستے میں (جہاد کے لئے) تیار کرتا ہے، پھر وہ ان کی رسی کسی جگہ یا باغ میں لمبی کرتا ہے تو وہ جتنی دور تک اس جگہ یا باغ میں چرتے ہیں تو اس کے لئے نیکی لکھی جاتی ہے اور اگر وہ رسی توڑ کر ایک چڑھائی یا دو چڑھائیوں پر چڑھیں تو اس آدمی کے لئے ان کے قدموں اور لیدوں کے بدلے میں نیکیاں لکھی جاتی ہیں اور اگر وہ کسی نہر کے پاس سے گزرتے ہوئے پانی پئیں اور وہ مالک انہیں پانی پلانے کے لئے نہ لایا ہو تو بھی اس کے لئے نیکیاں لکھی جاتی ہیں اور یہ اس کے لئے اجر ہے۔ دوسرا آدمی جو اپنی ضرورتوں کے لئے دوسرے لوگوں سے بے نیاز ہونے کے لئے اور دوسروں سے مانگنے سے بچنے کے لئے انہیں پالے اور ان کی گردنوں اور پیٹھوں میں اللہ کے حق کو نہ بھلائے تو یہ اس آدمی کے لئے پردہ ہیں اور (تیسرا) آدمی جو فخر، ریا اور مسلمانوں کی دشمنی کے لئے گھوڑے پالتا ہے تو یہ اس کے لئے گناہ ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے گدھوں کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان کے بارے میں مجھ پر کوئی چیز نازل نہیں ہوئی سوائے اس جامع منفرد آیت: «فَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ وَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ» پس جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہو گی تو وہ اسے دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ برابر برائی کی ہو گی تو وہ اسے دیکھ لے گا۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 560]
تخریج الحدیث: «178- الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 444/2، 445 ح 988، ك 21 ب 1 ح 3) التمهيد 201/4، الاستذكار:927، و أخرجه البخاري (2860) من حديث مالك به.»

حدیث نمبر: 561
215- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”الخيل فى نواصيها الخير إلى يوم القيامة.“
اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:گھوڑوں کی پیشانی پر قیامت تک خیر لکھی گئی ہے۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 561]
تخریج الحدیث: «215- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 467/2 ح 1031، ك 21 ب 19 ح 44) التمهيد 96/14، الاستذكار:968، و أخرجه البخاري (2849) ومسلم (1871/96) من حديث مالك به.»


1    2    Next