الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


موطا امام مالك رواية ابن القاسم کل احادیث (657)
حدیث نمبر سے تلاش:

موطا امام مالك رواية ابن القاسم
جہاد سے متعلق مسائل
حدیث نمبر: 562
216- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم سابق بين الخيل التى قد أضمرت من الحفياء، وكان أمدها ثنية الوداع، سابق بين الخيل التى لم تضمر من الثنية إلى مسجد بني زريق، وأن عبد الله بن عمر كان ممن سابق بها.
اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ گھوڑے جنہیں دبلا کر کے جہاد کے لئے تیار کیا گیا تھا، حفیاء (ایک مقام) سے ثنیة الوداع (دوسرے مقام) تک دوڑائے اور جنہیں تیار نہیں کیا گیا تھا وہ ثنیہ سے لے کر بنو زریق کی مسجد تک دوڑائے اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے اس مقابلے میں حصہ لیا تھا۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 562]
تخریج الحدیث: «216- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 467/2، 468 ح 1032، ك 21 ب 19 ح 45) التمهيد 78/14، الاستذكار:969، و أخرجه البخاري (420) ومسلم (1870/95) من حديث مالك به.»

6. کسی قوم پر حملہ کرنے سے پہلے اتمام حجت ضروری ہے . . .
حدیث نمبر: 563
149- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم حين خرج إلى خيبر أتاها ليلا وكان إذا أتى قوما بليل لم يغر حتى يصبح. فأصبح، فخرجت يهود بمساحيهم ومكاتلهم، فلما رأوه قالوا: محمد والله محمد والخميس. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”الله أكبر، خربت خيبر، إنا إذا نزلنا بساحة قوم فساء صباح المنذرين.“
اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب خیبر (فتح کرنے) کے لئے (مدینے سے) نکلے تو وہاں رات کے وقت داخل ہوئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی (اسلام دشمن) قوم پر حملہ کرنا چاہتے تو صبح سے پہلے حملہ نہیں کرتے تھے، پھر جب صبح ہوئی تو یہودی اپنی کدالیں اور ٹوکریاں لے کر نکلے جب انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو کہا: محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہیں، اللہ کی قسم! محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اور (ان کا) لشکر ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ اکبر، خراب ہوا خیبر، جب ہم کسی قوم کے پاس پہنچتے ہیں تو ان لوگوں کی صبح بری ہوتی ہے جنہیں (جہنم اور عذاب سے) ڈرایا گیا ہے۔  [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 563]
تخریج الحدیث: «149- الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 468/2، 469 ح 1035، ك 21 ب 19 ح 48، وعنده: لم يفر) التمهيد 215/2، الاستذكار:972، و أخرجه البخاري (2945) من حديث مالك به وصرح حميد الطويل بالسماع عند البخاري (2943)»

7. فتح کے بعد حربی کافر کا قتل جائز ہے
حدیث نمبر: 564
2- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم دخل مكة عام الفتح وعلى رأسه المغفر فلما نزعه جاءه رجل فقال: يا رسول الله، ابن خطل متعلق بأستار الكعبة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”اقتلوه.“ قال ابن شهاب: ولم يكن رسول الله صلى الله عليه وسلم يومئذ محرما.
اور اسی سند (کے ساتھ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فتح کے سال مکہ میں داخل ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر پر خود تھا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اتارا تو ایک آدمی نے آ کر کہا: اے اللہ کے رسول! ابن خطل (ایک کافر) کعبہ کے پردوں سے لٹکا (چمٹا) ہوا ہے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے قتل کر دو۔ ابن شہاب (زہری) کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس دن احرام میں نہیں تھے۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 564]
تخریج الحدیث: «2- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 423/1 ح 975، ك 20 ب 81 ح 247وعنده: قال مالك: ”ولم يكن رسول الله صلى الله عليه وسلم يومذ محرما) التمهيد 157/6، الاستذكار: 916، أخرجه البخاري (1846، 3044، 4248، 5808) ومسلم (1357) من حديث مالك به.»

8. مال غنیمت کا بیان
حدیث نمبر: 565
508- مالك عن يحيى بن سعيد عن عمر بن كثير بن أفلح عن أبى محمد مولى أبى قتادة عن أبى قتادة بن ربعي أنه قال: خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم عام حنين، فلما التقينا كانت للمسلمين جولة، قال: فرأيت رجلا من المشركين قد علا رجلا من المسلمين، قال: فاستدرت له حتى أتيته من ورائه، فضربته بالسيف على حبل عاتقه حتى قطعت الدرع، قال: فأقبل على فضمني ضمة وجدت منها ريح الموت، ثم أدركه الموت فأرسلني. قال: فلقيت عمر بن الخطاب فقلت: ما بال الناس؟ فقال: أمر الله، ثم إن الناس تراجعوا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”من قتل قتيلا له عليه بينة، فله سلبه“ قال: فقمت فقلت: من يشهد لي؟ ثم جلست، ثم قال الثانية ”من قتل قتيلا له عليه بينة، فله سلبه“ قال: فقمت، ثم قلت: من يشهد لي؟ ثم جلست، ثم قال ذلك الثالثة، فقمت، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ”ما لك يا أبا قتادة؟“ فاقتصصت عليه القصة، فقال رجل من القوم: صدق يا رسول الله، وسلب ذلك القتيل عندي، فأرضه منه يا رسول الله، فقال أبو بكر: لاها الله، إذا لا يعمد إلى أسد من أسد الله يقاتل عن الله وعن رسوله فيعطيك سلبه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”صدق، فأعطه إياه“ قال أبو قتادة: فأعطانيه، فبعث الدرع، فابتعت به مخرفا فى بني سلمة، فإنه لأول مال تأثلته فى الإسلام.
سیدنا ابوقتادہ بن ربعی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم حنین والے سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گئے پھر جب ہمارا (کافروں سے) سامنا ہوا تو مسلمانوں میں بھگدڑ مچ گئی، میں نے مشرکوں میں سے ایک آدمی دیکھا جس نے ایک مسلمان کو نیچے گرایا ہوا تھا تو میں پیچھے سے آیا اور اس کے کندھے پر تلوار کا وار کیا حتی کہ میں نے اس کی زرہ کاٹ دی، پس وہ میری طرف آیا، تو مجھے بھینچ کر دبا لیا حتی کہ میں نے موت کی خوشبو سونگھی یعنی مجھے مرنے کا خوف ہوا۔ پھر وہ مر گیا تو مجھے چھوڑ دیا۔ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے میری ملاقات ہوئی تو میں نے کہا: لوگوں کو کیا ہو گیا ہے؟ انہوں نے کہا: اللہ کا حکم ہے۔ پھر لوگ واپس آ گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے کسی (کافر) کو قتل کیا ہے (اور) اس کے پاس دلیل ہے تو مقتول کا سامان اسے ہی ملے گا۔ لہٰذا میں نے کھڑے ہو کر کہا: میری گواہی کون دے گا؟ پھر میں بیٹھ گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری دفعہ فرمایا کہ جس نے کسی کو قتل کیا ہے (اور) اس کے پاس دلیل ہے تو اس کا سامان اسے ہی ملے گا۔ لہٰذا میں نے کھڑے ہو کر کہا: میری گواہی کون دے گا؟ پھر میں بیٹھ گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسری دفعہ کہا: تو میں کھڑا ہو گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابوقتادہ! کیا بات ہے؟ تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سارا قصہ سنایا۔ لوگوں میں سے ایک آدمی نے کہا: یا رسول اللہ! انہوں نے سچ کہا ہے اور اس مقتول کا سامان میرے پاس ہے۔ یا رسول اللہ! آپ انہیں راضی کریں کہ یہ سامان مجھے دے دیں تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: ہرگز نہیں، اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا فیصلہ نہیں کریں گے کہ اللہ کے شیروں میں سے ایک شیر اللہ اور رسول کی طرف سے لڑے اور مقتول کا سامان تجھے دے دیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انہوں (ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ) نے سچ کہا ہے، تم اس مقتول کا سامان (ابوقتادہ کو) دے دو۔ ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اس نے سامان مجھے دے دیا تو میں نے زرہ بیچ کر بنوسلمہ میں ایک باغ خریدا۔ یہ اسلام میں پہلا مال غنیمت تھا جو میری جائیداد بنا۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 565]
تخریج الحدیث: «508- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 454/2، 455 ح 1005، ك 21 ب 10 ح 18) التمهيد 242/23، الاستذكار: 942، و أخرجه البخاري (3142) ومسلم (1751) من حديث مالك به.»

حدیث نمبر: 566
213- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم بعث سرية فيها عبد الله بن عمر قبل نجد، فغنموا إبلا كثيرة، فكانت سهمانهم اثني عشر بعيرا أو أحد عشر بعيرا ونفلوا بعيرا بعيرا.
اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجد کی طرف (مجاہدین کا) ایک دستہ روانہ کیا جس میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بھی تھے۔ پھر انہیں مال غنیمت میں بہت سے اونٹ ملے تو ہر آدمی کے حصے میں بارہ بارہ یا گیارہ گیارہ اونٹ آئے پھر ہر ایک کو ایک ایک اونٹ زائد دیا گیا۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 566]
تخریج الحدیث: «213- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 450/2 ح 1000، ك 21 ب 6 ح 15) التمهيد 35/14، الاستذكار:939، و أخرجه البخاري (3134) ومسلم (1749/35) من حديث مالك به .» ‏‏‏‏


Previous    1    2