الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن دارمي کل احادیث (3535)
حدیث نمبر سے تلاش:

سنن دارمي
من كتاب الطلاق
طلاق کے مسائل
8. باب في طَلاَقِ الْبَتَّةِ:
8. تین طلاق ایک ساتھ دینے کا بیان
حدیث نمبر: 2309
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ، عَنْ الزُّبَيْرِ بْنِ سَعِيدٍ رَجُلٍ مِنْ بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، قَالَ: بَلَغَنِي حَدِيثٌ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ يَزِيدَ بْنِ رُكَانَةَ، وَهُوَ فِي قَرْيَةٍ لَهُ، فَأَتَيْتُهُ، فَسَأَلْتُهُ، فَقَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ جَدِّي أَنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ الْبَتَّةَ، فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ: "مَا أَرَدْتَ؟"، فَقَالَ: وَاحِدَةً، قَالَ:"آللَّهِ؟"قَالَ: آللَّهِ، قَالَ:"هُوَ مَا نَوَيْتَ".
بنو عبدالمطلب کے ایک شخص سعید نے کہا: مجھے عبداللہ بن علی بن یزید بن رکانہ کی حدیث پہنچی اور وہ اپنے گاؤں میں تھے، لہٰذا میں ان کے پاس گیا اور ان سے سوال کیا تو انہوں نے کہا: مجھ سے میرے والد نے حدیث بیان کی، ان سے دادا نے روایت کیا کہ انہوں نے (یزید بن رکانہ نے) اپنی بیوی کو بتہ طلاق دی اور وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس قسم کا تذکرہ کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: تمہاری نیت کیا تھی؟ عرض کیا: ایک طلاق دینے کی نیت تھی، فرمایا: اللہ کی قسم ایک ہی کی نیت تھی؟ عرض کیا: الله کی قسم ایک ہی کی نیت تھی، فرمایا: جو تمہاری نیت تھی وہی طلاق ہوئی۔ یعنی ایک ہی طلاق واقع ہوئی۔ [سنن دارمي/من كتاب الطلاق/حدیث: 2309]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف، [مكتبه الشامله نمبر: 2318] »
اس روایت کی سند ضعیف ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 2206] ، [ترمذي 1177] ، [ابن ماجه 2051] ، [أبويعلی 1537] ، [ابن حبان 4274] ، [الموارد 1321]

9. باب في الظِّهَارِ:
9. ظہار کا بیان
حدیث نمبر: 2310
حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا بْنُ عَدِيٍّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ صَخْرٍ الْبَيَاضِيِّ، قَالَ: كُنْتُ امْرَأً أُصِيبُ مِنَ النِّسَاءِ مَا لَا يُصِيبُ غَيْرِي، فَلَمَّا دَخَلَ شَهْرُ رَمَضَانَ، خِفْتُ أَنْ أُصِيبَ فِي لَيْلِي شَيْئًا، فَيَتَتَابَعَ بِي ذَلِكَ إِلَى أَنْ أُصْبِحَ، قَالَ: فَتَظَاهَرْتُ إِلَى أَنْ يَنْسَلِخَ، فَبَيْنَا هِيَ لَيْلَةً تَخْدُمُنِي، إِذْ تَكَشَّفَ لِي مِنْهَا شَيْءٌ، فَمَا لَبِثْتُ أَنْ نَزَوْتُ عَلَيْهَا فَلَمَّا أَصْبَحْتُ، خَرَجْتُ إِلَى قَوْمِي فَأَخْبَرْتُهُمْ، وَقُلْتُ: امْشُوا مَعِي إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: لَا وَاللَّهِ، لَا نَمْشِي مَعَكَ، مَا نَأْمَنُ أَنْ يَنْزِلَ فِيكَ الْقُرْآنُ، أَوْ أَنْ يَكُونَ فِيكَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَقَالَةٌ يَلْزَمُنَا عَارُهَا، وَلَنُسْلِمَنَّكَ بِجَرِيرَتِكَ. فَانْطَلَقْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَصَصْتُ عَلَيْهِ خَبَرِي، فَقَالَ:"يَا سَلَمَةُ، أَنْتَ بِذَاكَ؟"قُلْتُ: أَنَا بِذَاكَ، قَالَ:"يَا سَلَمَةُ، أَنْتَ بِذَاكَ؟"قُلْتُ: أَنَا بِذَاكَ، قَالَ:"يَا سَلَمَةُ، أَنْتَ بِذَاكَ؟"قُلْتُ: أَنَا بِذَاكَ، وَهَأَنَا صَابِرٌ نَفْسِي، فَاحْكُمْ فِيَّ مَا أَرَاكَ اللَّهُ، قَالَ:"فَأَعْتِقْ رَقَبَةً"، قَالَ: فَضَرَبْتُ صَفْحَةَ رَقَبَتِي، فَقُلْتُ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ مَا أَصْبَحْتُ أَمْلِكُ رَقَبَةً غَيْرَهَا، قَالَ:"فَصُمْ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ"، قُلْتُ: وَهَلْ أَصَابَنِي الَّذِي أَصَابَنِي إِلَّا فِي الصِّيَامِ؟ قَالَ:"فَأَطْعِمْ وَسْقًا مِنْ تَمْرٍ سِتِّينَ مِسْكِينًا"، فَقُلْتُ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ، لَقَدْ بِتْنَا لَيْلَتَنَا وَحْشَى، مَالَنَا مِنَ الطَّعَام، قَالَ:"فَانْطَلِقْ إِلَى صَاحِبِ صَدَقَةِ بَنِي زُرَيْقٍ فَلْيَدْفَعْهَا إِلَيْكَ، وَأَطْعِمْ سِتِّينَ مِسْكِينًا وَسْقًا مِنْ تَمْرٍ، وَكُلْ بَقِيَّتَهُ أَنْتَ وَعِيَالُكَ"، قَالَ: فَأَتَيْتُ قَوْمِي، فَقُلْتُ: وَجَدْتُ عِنْدَكُمُ الضِّيقَ وَسُوءَ الرَّأْيِ، وَوَجَدْتُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ السَّعَةَ وَحُسْنَ الرَّأْيِ، وَقَدْ أَمَرَ لِي بِصَدَقَتِكُمْ.
سیدنا سلمہ بن صخر بیاضی رضی اللہ عنہ نے کہا: میں اپنی بیویوں سے اتنا جماع کرتا تھا کہ اس کے علاوہ کوئی اور نہ کرتا ہوگا، پس جب رمضان المبارک کا مہینہ آیا تو مجھے خطرہ ہوا کہ ایسا نہ ہو کہ اپنی عورت سے کچھ کر بیٹھوں جس کی برائی صبح تک نہ چھوڑے، لہٰذا میں نے رمضان کے اخیر تک کے لئے ظہار کر لیا (یعنی دور رہنے کے لئے کہہ دیا کہ تم میری ماں کی طرح ہو)، اس دوران ایک رات وہ میری خدمت میں لگی تھی کہ اس کا بدن کھل گیا، مجھ سے صبر نہ ہو سکا اور میں اس پر چڑھ بیٹھا، جب صبح ہوئی تو میں اپنے قبیلہ میں گیا اور یہ ماجرا بیان کیا اور کہا کہ میرے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلو، انہوں نے کہا: اللہ کی قسم ہم تمہارے ساتھ نہیں جائیں گے، کیا پتہ تمہارے بارے میں قرآن پاک میں کچھ نازل کیا جائے، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے بارے میں ایسی بات کہہ دیں جو ہمارے لئے باعثِ عار ہو، اس لئے ہم تم کو ہی تمہارے قصور کے بدلے حوالے کئے دیتے ہیں، چنانچہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا اور اپنا ماجرا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہہ سنایا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے ایسا کیا ہے؟ عرض کیا: مجھ سے ایسا کام سرزد ہو گیا ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے ایسا کیا ہے؟ عرض کیا: ہاں میں اس کا قصور وار ہوں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے سلمہ! تم سے یہ فعل سرزد ہوا ہے؟ عرض کیا: جی ہاں، مجھ سے ایسی حرکت سرزد ہوئی ہے، اور اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوں اور اللہ کے حکم پر صابر بھی ہوں، اس لئے جو الله کا حکم ہو وہ میرے بارے میں فیصلہ کیجئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو پھر ایک گردن آزاد کر دو، سیدنا سلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے اپنی گردن پر ہاتھ مارا اور عرض کیا: قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو سچائی کے ساتھ بھیجا ہے، میں اس گردن کے علاوہ کسی گردن کا مالک نہیں، فرمایا: پھر ساٹھ مسکینوں کو ایک وسق کھجور کھلا دو، میں نے عرض کیا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو سچائی کے ساتھ بھیجا ہے، ہم نے پچھلی رات بھر کچھ کھائے بنا گذاری ہے (یعنی اتنے محتاج ہیں تو فقیر مسکین کو کیسے کھلائیں)، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بنی زریق کا جو صدقہ وصول کیا کرتا ہے اس کے پاس جاؤ، وہ تم کو کچھ دے دیگا، اس سے ساٹھ مسکین کو کھانا کھلا دینا اور جو باقی بچے اس کو تم کھا لینا اور اپنے اہل و عیال کو کھلا دینا۔ سیدنا سلمہ بن صخر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں اپنے قبیلہ والوں کے پاس آیا اور ان سے کہا کہ میں نے تمہارے پاس تنگی اور بری رائے محسوس کی، اس کے برعکس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کشادگی اور اچھی رائے ملاحظہ کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے تم پر صدقے کا حکم دیا ہے۔ [سنن دارمي/من كتاب الطلاق/حدیث: 2310]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «رجاله ثقات غير أن ابن إسحاق قد عنعن وهو مدلس. والإسناد منقطع أيضا، [مكتبه الشامله نمبر: 2319] »
اس روایت کی سند میں انقطاع اور ابن اسحاق کا عنعنہ ہے، لیکن دوسری اسانید بھی موجود ہیں۔ دیکھئے: [أبوداؤد 2213، 2217] ، [ترمذي 1198، 2000] ، اور فرمایا کہ یہ حدیث حسن ہے، [ابن ماجه 2064] ، [أحمد 436/5] ، [ابن الجارود 745] ، [الطبراني 43/7، 6334] ، [الحاكم 203/2، وقال صحيح على شرط الشيخين] ، [البيهقي 390/7] و [انظر تلخيص الحبير 221/3]

10. باب في الْمُطَلَّقَةِ ثَلاَثاً أَلَهَا السُّكْنَى وَالنَّفَقَةُ أَمْ لاَ:
10. مطلقہ ثلاثہ کے لئے سکن اور خرچہ ہے یا نہیں؟
حدیث نمبر: 2311
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ: "أَنَّ زَوْجَهَا طَلَّقَهَا ثَلَاثًا فَلَمْ يَجْعَلْ لَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَفَقَةً وَلَا سُكْنَى". قَالَ سَلَمَةُ: فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِإِبْرَاهِيمَ، فَقَالَ: قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: لَا نَدَعُ كِتَابَ رَبِّنَا وَسُنَّةَ نَبِيِّهِ بِقَوْلِ امْرَأَةٍ، فَجَعَلَ لَهَا السُّكْنَى وَالنَّفَقَةَ.
سیدہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ان کے شوہر نے ان کو تین طلاق دیدی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے سکنی دلایا اور نہ نفقہ۔ مسلمہ نے کہا: میں نے اس کا تذکرہ ابراہیم سے کیا تو انہوں نے کہا: سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم اپنے رب کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت کو ایک عورت کے کہنے سے چھوڑ دیں گے؟ نہیں، چنانچہ انہوں نے مطلقہ عورت کے لئے سکنی اور نفقہ مقرر فرمایا۔ [سنن دارمي/من كتاب الطلاق/حدیث: 2311]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «حديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2320] »
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1480] ، [أبوداؤد 2291] ، [ترمذي 1180] ، [نسائي 3403] ، [ابن ماجه 2035] ، [ابن حبان 4049] ، [موارد الظمآن 1242] ، [الحميدي 367]

حدیث نمبر: 2312
أَخْبَرَنَا يَعْلَى، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا، عَنْ عَامِرٍ، حَدَّثَتْنِي فَاطِمَةُ بِنْتُ قَيْسٍ:"أَنَّ زَوْجَهَا طَلَّقَهَا ثَلَاثًا، فَأَمَرَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ تَعْتَدَّ عِنْدَ ابْنِ عَمِّهَا ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ".
سیدہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا نے حدیث بیان کی کہ ان کے شوہر نے ان کو تیسری طلاق دی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ وہ اپنے چچا زاد بھائی (عبداللہ) بن ام مکتوم کے گھر میں عدت گذاریں۔ [سنن دارمي/من كتاب الطلاق/حدیث: 2312]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح وهو طرف للحديث السابق، [مكتبه الشامله نمبر: 2321] »
اس روایت کی سند صحیح ہے اور مذکورہ بالا حدیث کا یہ ایک ٹکڑا ہے۔ نیز حدیث نمبر (2214) میں اسکی تفصیل گذر چکی ہے۔

حدیث نمبر: 2313
أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ، عَنْ الْأَشْعَثِ، عَنْ الْحَكَمِ، وَحَمَّادٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ الْأَسْوَدِ، عَنْ عُمَرَ، قَالَ: "لَا نَدَعُ كِتَابَ رَبِّنَا وَسُنَّةَ نَبِيِّهِ بِقَوْلِ امْرَأَةٍ: الْمُطَلَّقَةُ ثَلَاثًا لَهَا السُّكْنَى وَالنَّفَقَةُ".
سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم اپنے رب کی کتاب اور اس کے نبی کی سنت کو ایک عورت کے کہنے سے چھوڑ دیں گے؟ نہیں، جس عورت کی تین طلاق ہو جائے اس کے لئے سکنی بھی ہے اور نفقہ بھی۔ [سنن دارمي/من كتاب الطلاق/حدیث: 2313]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف ولكن الحديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2322] »
یہ حدیث مذکورہ بالا حدیث نمبر (2311) کا ہی ایک جملہ ہے۔ تخریج اوپر گذر چکی ہے۔

حدیث نمبر: 2314
أَخْبَرَنَا طَلْقُ بْنُ غَنَّامٍ، عَنْ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ الْأَسْوَدِ، عَنْ عُمَرَ، نَحْوَهُ.
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مثلِ سابق روایت ہے۔ [سنن دارمي/من كتاب الطلاق/حدیث: 2314]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2323] »
ترجمہ و تخریج اوپر گذر چکی ہے۔

حدیث نمبر: 2315
أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَفْصٌ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ الْأَسْوَدِ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ: "لَا نُجِيزُ قَوْلَ امْرَأَةٍ فِي دِينِ اللَّهِ: الْمُطَلَّقَةُ ثَلَاثًا لَهَا السُّكْنَى وَالنَّفَقَةُ". قَالَ أَبُو مُحَمَّدٍ: لَا أَرَى السُّكْنَى وَالنَّفَقَةَ لِلْمُطَلَّقَةِ.
اسود سے مروی ہے امیر المومنین سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہم اللہ کے دین میں کسی عورت کی بات نہیں مانیں گے۔ تین طلاق والی عورت کے لئے سکنی بھی ہے اور نفقہ بھی۔
امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: ایسی مطلقہ کے لئے میرے نزدیک نہ سکنی ہے اور نہ نفقہ۔ [سنن دارمي/من كتاب الطلاق/حدیث: 2315]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «قَالَ أَبُو مُحَمَّد: «لَا أَرَى السُّكْنَى، وَالنَّفَقَةَ لِلْمُطَلَّقَةِ» ، [مكتبه الشامله نمبر: 2324] »
اس حدیث کی تخریج اور کچھ تفصیل اوپر حدیث نمبر (2312) میں گذر چکی ہے۔

11. باب في عِدَّةِ الْحَامِلِ الْمُتَوَفَّى عَنْهَا زَوْجُهَا وَالْمُطَلَّقَةِ:
11. مطلقہ اور «متوفى عنها زوجها» کی حالت حمل میں عدت کا بیان
حدیث نمبر: 2316
أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، أَنَّ سُلَيْمَانَ بْنَ يَسَارٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّ أَبَا سَلَمَةَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَخْبَرَهُ: أَنَّهُ اجْتَمَعَ هُوَ وَابْنُ عَبَّاسٍ عِنْدَ أَبِي هُرَيْرَةَ فَذَكَرُوا الرَّجُلَ يُتَوَفَّى عَنِ الْمَرْأَةِ فَتَلِدُ بَعْدَهُ بِلَيَالٍ قَلَائِلَ، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: حِلُّهَا آخِرُ الْأَجَلَيْنِ. وَقَالَ أَبُو سَلَمَةَ: إِذَا وَضَعَتْ، فَقَدْ حَلَّتْ، فَتَرَاجَعَا فِي ذَلِكَ بَيْنَهُمَا، فَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: أَنَا مَعَ ابْنِ أَخِي يَعْنِي أَبَا سَلَمَةَ، فَبَعَثُوا كُرَيْبًا مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ إِلَى أُمِّ سَلَمَةَ فَسَأَلَهَا، فَذَكَرَتْ أُمُّ سَلَمَةَ،"أَنَّ سُبَيْعَةَ بِنْتَ الْحَارِثِ الْأَسْلَمِيَّةَ مَاتَ عَنْهَا زَوْجُهَا، فَنَفِسَتْ بَعْدَهُ بِلَيَالٍ وَأَنَّ رَجُلًا مِنْ بَنِي عَبْدِ الدَّارِ يُكْنَى أَبَا السَّنَابِلِ خَطَبَهَا، وَأَخْبَرَهَا أَنَّهَا قَدْ حَلَّتْ فَأَرَادَتْ أَنْ تَتَزَوَّجَ غَيْرَهُ، فَقَالَ لَهَا أَبُو السَّنَابِلِ: فَإِنَّكِ لَمْ تَحِلِّينَ، فَذَكَرَتْ سُبَيْعَةُ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَمَرَهَا أَنْ تَتَزَوَّجَ".
ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے خبر دی کہ وہ اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس جمع ہوئے اور اس (حاملہ) عورت کے بارے میں تذکرہ ہوا جس کا شوہر وفات پا گیا ہو اور تھوڑے ہی دن کے بعد اس کی ولادت ہو جائے تو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: اس کی عدت کی مدت وہ ہوگی جو زیادہ ہے، اور ابوسلمہ نے کہا: جب وضع حمل ہوجائے تو وہ حلال ہوجائے گی (یعنی عدت ختم ہوگئی، وہ اب نکاح کرسکتی ہے)، اس بارے میں دونوں میں تکرار ہوئی تو سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں اپنے بھتیجے ابوسلمہ کے ساتھ ہوں، پھر انہوں نے کریب سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے غلام کو ام المومنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس بھیجا اور انہوں نے ان سے یہ سوال پوچھا تو سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے بتایا کہ سیدہ سبیعہ بنت حارث اسلمیہ رضی اللہ عنہا کے شوہر نے وفات پائی اور اس کے چند دن بعد اس کو نفاس آ گیا (یعنی ولادت کے بعد خون جاری ہو گیا) اور بنو عبدالدار کے ایک شخص جن کی کنیت ابوالسنابل تھی انہوں نے سیدہ سبیعہ رضی اللہ عنہا کو شادی کا پیغام دیا اور بتایا کہ (وضع حمل کے بعد) وہ شادی کے لئے حلال ہو چکی ہیں اور سیدہ سبیعہ رضی اللہ عنہا نے انکو چھوڑ کر دوسرے شخص سے شادی کا ارادہ کر لیا تو ابوالسنابل نے کہا کہ تم حلال نہیں ہوئیں، چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور یہ قصہ ذکر کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ وہ نکاح کر سکتی ہیں۔ [سنن دارمي/من كتاب الطلاق/حدیث: 2316]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح والحديث متفق على إسناده، [مكتبه الشامله نمبر: 2325] »
اس حدیث کی سند صحیح اور متفق علیہ روایت ہے۔ دیکھئے: [بخاري 4909] ، [مسلم 1486] ، [ترمذي 1194] ، ن [سائي 3511-3515] ، [أبويعلی 6978] ، [ابن حبان 4295]

حدیث نمبر: 2317
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ كُرَيْبٍ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ:"تُوُفِّيَ زَوْجُ سُبَيْعَةَ بِنْتِ الْحَارِثِ، فَوَضَعَتْ بَعْدَ وَفَاةِ زَوْجِهَا بِأَيَّامٍ، فَأَمَرَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ تَتَزَوَّجَ".
کریب سے مروی ہے کہ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: سیدہ سبیعہ بنت الحارث رضی اللہ عنہا کے شوہر وفات پاگئے اور ان کی وفات کے چند روز بعد سیدہ سبیعہ رضی اللہ عنہا نے بچے کو جنم دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو نکاح کر لینے کا حکم دیا۔ [سنن دارمي/من كتاب الطلاق/حدیث: 2317]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «حديث صحيح وهو مختصر الحديث السابق، [مكتبه الشامله نمبر: 2326] »
یہ حدیث صحیح اور اوپر والی حدیث کا اختصار ہے۔ تخریج اوپر گذر چکی ہے۔

حدیث نمبر: 2318
أَخْبَرَنَا بِشْرُ بْنُ عُمَرَ الزَّهْرَانِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، حَدَّثَنَا مَنْصُورٌ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ الْأَسْوَدِ، عَنْ أَبِي السَّنَابِلِ، قَالَ: وَضَعَتْ سُبَيْعَةُ بِنْتُ الْحَارِثِ حَمْلَهَا بَعْدَ وَفَاةِ زَوْجِهَا بِبِضْعٍ وَعِشْرِينَ لَيْلَةً، فَلَمَّا تَعَلَّتْ مِنْ نِفَاسِهَا تَشَوَّفَتْ، فَعِيبَ ذَلِكَ عَلَيْهَا، فَذُكِرَ أَمْرُهَا لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: "إِنْ تَفْعَلْ، فَقَدْ انْقَضَى أَجَلُهَا".
ابوالسنابل (ابن بعلک رضی اللہ عنہ) نے کہا: سیدہ سبیعہ بنت الحارث رضی اللہ عنہا نے اپنے شوہر کی وفات سے بیس سے زیادہ راتوں کے بعد وضع حمل کیا اور انہیں جب نفاس سے فراغت ہوئی تو انہوں نے آرائش کی یعنی شادی کا سامان کیا، اس پر انہیں عیب لگایا گیا، لہٰذا انہوں نے اس کا تذکرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: وہ نکاح کر سکتی ہیں اور ان کی عدت پوری ہو چکی ہے۔ [سنن دارمي/من كتاب الطلاق/حدیث: 2318]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2327] »
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 3991، 5319] ، [مسلم 1485] ، [أبوداؤد 3306] ، [نسائي 3518] ، [ابن ماجه 2028] ، [ابن حبان 4299] ، [موارد الظمآن 1329]


Previous    1    2    3    4    Next