الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ابي داود کل احادیث (5274)
حدیث نمبر سے تلاش:

سنن ابي داود
كِتَاب السُّنَّةِ
کتاب: سنتوں کا بیان
حدیث نمبر: 4606
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ الْبَزَّازُ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ. ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ الْمَخْرَمِيُّ، وَإِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ فِيهِ فَهُوَ رَدٌّ"، قَالَ ابْنُ عِيسَى: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ صَنَعَ أَمْرًا عَلَى غَيْرِ أَمْرِنَا فَهُوَ رَدٌّ.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو ہمارے اس دین میں کوئی ایسی نئی بات پیدا کرے جو اس میں نہیں ہے تو وہ مردود ہے۔ ابن عیسیٰ کی روایت میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو کوئی ایسا کام کرے جو ہمارے طریقے کے خلاف ہو تو وہ مردود ہے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب السُّنَّةِ/حدیث: 4606]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الصلح 5 (2697)، صحیح مسلم/الأقضیة 8 (1718)، سنن ابن ماجہ/المقدمة 2 (14)، (تحفة الأشراف: 17455)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/73، 146، 180، 240، 256، 270) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 4607
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا ثَوْرُ بْنُ يَزِيدَ، قَالَ: حَدَّثَنِي خَالِدُ بْنُ مَعْدَانَ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَمْرٍو السُّلَمِيُّ، وَحُجْرُ بْنُ حُجْرٍ، قَالَا:" أَتَيْنَا الْعِرْبَاضَ بْنَ سَارِيَةَ، وَهُوَ مِمَّنْ نَزَلَ فِيهِ: وَلا عَلَى الَّذِينَ إِذَا مَا أَتَوْكَ لِتَحْمِلَهُمْ قُلْتَ لا أَجِدُ مَا أَحْمِلُكُمْ عَلَيْهِ سورة التوبة آية 92، فَسَلَّمْنَا، وَقُلْنَا: أَتَيْنَاكَ زَائِرِينَ وَعَائِدِينَ وَمُقْتَبِسِينَ، فَقَالَ الْعِرْبَاضُ" صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيْنَا فَوَعَظَنَا مَوْعِظَةً بَلِيغَةً ذَرَفَتْ مِنْهَا الْعُيُونُ وَوَجِلَتْ مِنْهَا الْقُلُوبُ، فَقَالَ قَائِلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ كَأَنَّ هَذِهِ مَوْعِظَةُ مُوَدِّعٍ، فَمَاذَا تَعْهَدُ إِلَيْنَا؟ فَقَالَ:أُوصِيكُمْ بِتَقْوَى اللَّهِ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَةِ، وَإِنْ عَبْدًا حَبَشِيًّا فَإِنَّهُ مَنْ يَعِشْ مِنْكُمْ بَعْدِي فَسَيَرَى اخْتِلَافًا كَثِيرًا، فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الْمَهْدِيِّينَ الرَّاشِدِينَ تَمَسَّكُوا بِهَا وَعَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ، وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُورِ فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ".
عبدالرحمٰن بن عمرو سلمی اور حجر بن حجر کہتے ہیں کہ ہم عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، یہ ان لوگوں میں سے ہیں جن کے بارے میں آیت کریمہ «ولا على الذين إذا ما أتوك لتحملهم قلت لا أجد ما أحملكم عليه»  ۱؎ نازل ہوئی، تو ہم نے سلام کیا اور عرض کیا: ہم آپ کے پاس آپ سے ملنے، آپ کی عیادت کرنے، اور آپ سے علم حاصل کرنے کے لیے آئے ہیں، اس پر عرباض رضی اللہ عنہ نے کہا: ایک دن ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی، پھر ہماری طرف متوجہ ہوئے اور ہمیں دل موہ لینے والی نصیحت کی جس سے آنکھیں اشک بار ہو گئیں، اور دل کانپ گئے، پھر ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ تو کسی رخصت کرنے والے کی سی نصیحت ہے، تو آپ ہمیں کیا وصیت فرما رہے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تمہیں اللہ سے ڈرنے، امیر کی بات سننے اور اس کی اطاعت کرنے کی وصیت کرتا ہوں، خواہ وہ کوئی حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو، اس لیے کہ جو میرے بعد تم میں سے زندہ رہے گا عنقریب وہ بہت سے اختلافات دیکھے گا، تو تم میری سنت اور ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کے طریقہ کار کو لازم پکڑنا، تم اس سے چمٹ جانا، اور اسے دانتوں سے مضبوط پکڑ لینا، اور دین میں نکالی گئی نئی باتوں سے بچتے رہنا، اس لیے کہ ہر نئی بات بدعت ہے، اور ہر بدعت گمراہی ہے ۲؎۔ [سنن ابي داود/كِتَاب السُّنَّةِ/حدیث: 4607]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن الترمذی/العلم 16 (2676)، سنن ابن ماجہ/المقدمة 6 (43، 44)، (تحفة الأشراف: 9890)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/126)، سنن الدارمی/المقدمة 16 (96) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 4608
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ يَعْنِي ابْنَ عَتِيقٍ، عَنْ طَلْقِ بْنِ حَبِيبٍ، عَنْ الْأَحْنَفِ بْنِ قَيْسٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" أَلَا هَلَكَ الْمُتَنَطِّعُونَ، ثَلَاثَ مَرَّاتٍ".
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار فرمایا: سنو، بہت زیادہ بحث و تکرار کرنے اور جھگڑنے والے ہلاک ہو گئے ۱؎۔ [سنن ابي داود/كِتَاب السُّنَّةِ/حدیث: 4608]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/العلم 4 (2670)، (تحفة الأشراف: 9317)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/386) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

7. باب لُزُومِ السُّنَّةِ
7. باب: سنت پر عمل کرنے کی دعوت دینے والوں کے اجر و ثواب کا بیان۔
حدیث نمبر: 4609
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل يَعْنِي ابْنَ جَعْفَرٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي الْعَلَاءُ يَعْنِي ابْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" مَنْ دَعَا إِلَى هُدًى كَانَ لَهُ مِنَ الْأَجْرِ مِثْلُ أُجُورِ مَنْ تَبِعَهُ لَا يَنْقُصُ ذَلِكَ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْئًا، وَمَنْ دَعَا إِلَى ضَلَالَةٍ كَانَ عَلَيْهِ مِنَ الْإِثْمِ مِثْلُ آثَامِ مَنْ تَبِعَهُ لَا يَنْقُصُ ذَلِكَ مِنْ آثَامِهِمْ شَيْئًا".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص دوسروں کو نیک عمل کی دعوت دیتا ہے تو اس کی دعوت سے جتنے لوگ ان نیک باتوں پر عمل کرتے ہیں ان سب کے برابر اس دعوت دینے والے کو بھی ثواب ملتا ہے، اور عمل کرنے والوں کے ثواب میں سے کوئی کمی نہیں کی جاتی، اور جو کسی گمراہی و ضلالت کی طرف بلاتا ہے تو جتنے لوگ اس کے بلانے سے اس پر عمل کرتے ہیں ان سب کے برابر اس کو گناہ ہوتا ہے اور ان کے گناہوں میں (بھی) کوئی کمی نہیں ہوتی۔ [سنن ابي داود/كِتَاب السُّنَّةِ/حدیث: 4609]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/العلم 6 (2674)، سنن الترمذی/العلم 15 (2674)، (تحفة الأشراف: 13976)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/397)، سنن الدارمی/المقدمة 44 (530) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 4610
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ أَعْظَمَ الْمُسْلِمِينَ فِي الْمُسْلِمِينَ جُرْمًا مَنْ سَأَلَ عَنْ أَمْرٍ لَمْ يُحَرَّمْ فَحُرِّمَ عَلَى النَّاسِ مِنْ أَجْلِ مَسْأَلَتِهِ".
سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمانوں کے حق میں سب سے بڑا مجرم وہ مسلمان ہے جو ایسی چیز کے بارے میں سوال کرے جو حرام نہیں کی گئی تھی لیکن اس کے سوال کرنے کی وجہ سے مسلمانوں پر حرام کر دی گئی ۱؎۔ [سنن ابي داود/كِتَاب السُّنَّةِ/حدیث: 4610]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الاعتصام 3 (7289)، صحیح مسلم/الفضائل 37 (2358)، (تحفة الأشراف: 3892)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/176، 179) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 4611
حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ خَالِدِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَوْهَبٍ الْهَمْدَانِيُّ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، أَنَّ أَبَا إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيَّ عَائِذَ اللَّهِ أَخْبَرَهُ، أَنَّ يَزِيدَ بْنَ عُمَيْرَةَ وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ أَخْبَرَهُ، قَالَ:" كَانَ لَا يَجْلِسُ مَجْلِسًا لِلذِّكْرِ حِينَ يَجْلِسُ، إِلَّا قَالَ: اللَّهُ حَكَمٌ قِسْطٌ هَلَكَ الْمُرْتَابُونَ، فَقَالَ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ يَوْمًا إِنَّ مِنْ وَرَائِكُمْ فِتَنًا يَكْثُرُ فِيهَا الْمَالُ وَيُفْتَحُ فِيهَا الْقُرْآنُ حَتَّى يَأْخُذَهُ الْمُؤْمِنُ وَالْمُنَافِقُ وَالرَّجُلُ وَالْمَرْأَةُ وَالصَّغِيرُ وَالْكَبِيرُ وَالْعَبْدُ وَالْحُرُّ، فَيُوشِكُ قَائِلٌ أَنْ يَقُولَ: مَا لِلنَّاسِ لَا يَتَّبِعُونِي وَقَدْ قَرَأْتُ الْقُرْآنَ مَا هُمْ بِمُتَّبِعِيَّ حَتَّى أَبْتَدِعَ لَهُمْ غَيْرَهُ، فَإِيَّاكُمْ وَمَا ابْتُدِعَ فَإِنَّ مَا ابْتُدِعَ ضَلَالَةٌ، وَأُحَذِّرُكُمْ زَيْغَةَ الْحَكِيمِ فَإِنَّ الشَّيْطَانَ قَدْ يَقُولُ كَلِمَةَ الضَّلَالَةِ عَلَى لِسَانِ الْحَكِيمِ، وَقَدْ يَقُولُ الْمُنَافِقُ كَلِمَةَ الْحَقِّ، قَالَ: قُلْتُ لِمُعَاذٍ: مَا يُدْرِينِي رَحِمَكَ اللَّهُ؟ أَنَّ الْحَكِيمَ قَدْ يَقُولُ كَلِمَةَ الضَّلَالَةِ وَأَنَّ الْمُنَافِقَ قَدْ يَقُولُ كَلِمَةَ الْحَقِّ، قَالَ: بَلَى اجْتَنِبْ مِنْ كَلَامِ الْحَكِيمِ الْمُشْتَهِرَاتِ الَّتِي يُقَالُ لَهَا مَا هَذِهِ، وَلَا يُثْنِيَنَّكَ ذَلِكَ عَنْهُ فَإِنَّهُ لَعَلَّهُ أَنْ يُرَاجِعَ، وَتَلَقَّ الْحَقَّ إِذَا سَمِعْتَهُ فَإِنَّ عَلَى الْحَقِّ نُورًا"، قَالَ أَبُو دَاوُد: قَالَ مَعْمَرٌ: عَنِ الزُّهْرِيِّ فِي هَذَا الْحَدِيثِ: وَلَا يُنْئِيَنَّكَ ذَلِكَ عَنْهُ مَكَانَ يُثْنِيَنَّكَ، وقَالَ صَالِحُ بْنُ كَيْسَانَ: عَنِ الزُّهْرِيِّ فِي هَذَا: الْمُشَبِّهَاتِ مَكَانَ الْمُشْتَهِرَاتِ، وَقَالَ: لَا يُثْنِيَنَّكَ، كَمَا قَالَ عُقَيْلٌ، وقَالَ ابْنُ إِسْحَاق، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: بَلَى مَا تَشَابَهَ عَلَيْكَ مِنْ قَوْلِ الْحَكِيمِ حَتَّى تَقُولَ مَا أَرَادَ بِهَذِهِ الْكَلِمَةِ.
ابوادریس خولانی کہتے ہیں کہ یزید بن عمیرہ (جو معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کے شاگردوں میں سے تھے) نے انہیں خبر دی ہے کہ وہ جب بھی کسی مجلس میں وعظ کہنے کو بیٹھتے تو کہتے: اللہ بڑا حاکم اور عادل ہے، شک کرنے والے تباہ ہو گئے تو ایک روز معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہنے لگے: تمہارے بعد بڑے بڑے فتنے ہوں گے، ان (دنوں) میں مال کثرت سے ہو گا، قرآن آسان ہو جائے گا، یہاں تک کہ اسے مومن و منافق، مرد و عورت، چھوٹے بڑے، غلام اور آزاد سبھی حاصل کر لیں گے، تو قریب ہے کہ کہنے والا کہے: لوگوں کو کیا ہو گیا ہے؟ میری پیروی نہیں کرتے، حالانکہ میں نے قرآن پڑھا ہے، وہ میری پیروی اس وقت تک نہیں کریں گے جب تک کہ میں ان کے لیے اس کے علاوہ کوئی نئی چیز نہ نکالوں، لہٰذا جو نئی چیز نکالی جائے تم اس سے بچو ۱؎ اس لیے کہ ہر وہ نئی چیز جو نکالی جائے گمراہی ہے، اور میں تمہیں حکیم و دانا کی گمراہی سے ڈراتا ہوں، اس لیے کہ بسا اوقات شیطان، حکیم و دانا شخص کی زبانی گمراہی کی بات کہتا ہے اور کبھی کبھی منافق بھی حق بات کہتا ہے۔ میں نے معاذ سے کہا: (اللہ آپ پر رحم کرے) مجھے کیسے معلوم ہو گا کہ حکیم و دانا گمراہی کی بات کہتا ہے، اور منافق حق بات؟ وہ بولے: کیوں نہیں، حکیم و عالم کی ان مشہور باتوں سے بچو، جن کے متعلق یہ کہا جاتا ہو کہ وہ یوں نہیں ہے، لیکن یہ چیز تمہیں خود اس حکیم سے نہ پھیر دے، اس لیے کہ امکان ہے کہ وہ (اپنی پہلی بات سے) پھر جائے اور حق پر آ جائے، اور جب تم حق بات سنو تو اسے لے لو، اس لیے کہ حق میں ایک نور ہوتا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اس قصے میں معمر نے زہری سے «ولا يثنينك ذلك عنه» کے بجائے «ولا ينئينك ذلك عنه» روایت کی ہے اور صالح بن کیسان نے زہری سے اس میں «المشتهرات» کے بجائے «المشبهات» روایت کی ہے اور «ولا يثنينك» ہی روایت کی ہے جیسا کہ عقیل کی روایت میں ہے۔ ابن اسحاق نے زہری سے روایت کی ہے: کیوں نہیں، جب کسی حکیم و عالم کا قول تم پر مشتبہ ہو جائے یہاں تک کہ تم کہنے لگو کہ اس بات سے اس کا کیا مقصد ہے؟ (تو سمجھ لو کہ یہ حکیم و عالم کی زبانی گمراہی کی بات ہے) ۲؎۔ [سنن ابي داود/كِتَاب السُّنَّةِ/حدیث: 4611]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 11369) (صحیح الإسناد)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد موقوف

حدیث نمبر: 4612
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: كَتَبَ رَجُلٌ إِلَى عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ يَسْأَلُهُ عَنِ الْقَدَرِ. ح وحَدَّثَنَا الرَّبِيعُ بْنُ سُلَيْمَانَ الْمُؤَذِّنُ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَسَدُ بْنُ مُوسَى، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ دُلَيْلٍ، قَالَ: سَمِعْتُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيَّ يُحَدِّثُنَا، عَنِ النَّضْرِ. ح وحَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، عَنْ قَبِيصَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو رَجَاءٍ، عَنْ أَبِي الصَّلْتِ، وَهَذَا لَفْظُ حَدِيثِ ابْنِ كَثِيرٍ وَمَعْنَاهُمْ، قَالَ: كَتَبَ رَجُلٌ إِلَى عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ يَسْأَلُهُ عَنِ الْقَدَرِ، فَكَتَبَ:" أَمَّا بَعْدُ أُوصِيكَ بِتَقْوَى اللَّهِ وَالِاقْتِصَادِ فِي أَمْرِهِ وَاتِّبَاعِ سُنَّةِ نَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَتَرْكِ مَا أَحْدَثَ الْمُحْدِثُونَ بَعْدَ مَا جَرَتْ بِهِ سُنَّتُهُ وَكُفُوا مُؤْنَتَهُ، فَعَلَيْكَ بِلُزُومِ السُّنَّةِ فَإِنَّهَا لَكَ بِإِذْنِ اللَّهِ عِصْمَةٌ، ثُمَّ اعْلَمْ أَنَّهُ لَمْ يَبْتَدِعِ النَّاسُ بِدْعَةً إِلَّا قَدْ مَضَى قَبْلَهَا مَا هُوَ دَلِيلٌ عَلَيْهَا أَوْ عِبْرَةٌ فِيهَا، فَإِنَّ السُّنَّةَ إِنَّمَا سَنَّهَا مَنْ قَدْ عَلِمَ مَا فِي خِلَافِهَا، وَلَمْ يَقُلِ ابْنُ كَثِيرٍ: مَنْ قَدْ عَلِمَ مِنَ الْخَطَإِ وَالزَّلَلِ وَالْحُمْقِ وَالتَّعَمُّقِ فَارْضَ لِنَفْسِكَ مَا رَضِيَ بِهِ الْقَوْمُ لِأَنْفُسِهِمْ، فَإِنَّهُمْ عَلَى عِلْمٍ وَقَفُوا وَبِبَصَرٍ نَافِذٍ كَفُّوا وَهُمْ عَلَى كَشْفِ الْأُمُورِ كَانُوا أَقْوَى وَبِفَضْلِ مَا كَانُوا فِيهِ أَوْلَى، فَإِنْ كَانَ الْهُدَى مَا أَنْتُمْ عَلَيْهِ لَقَدْ سَبَقْتُمُوهُمْ إِلَيْهِ وَلَئِنْ قُلْتُمْ إِنَّمَا حَدَثَ بَعْدَهُمْ مَا أَحْدَثَهُ إِلَّا مَنِ اتَّبَعَ غَيْرَ سَبِيلِهِمْ، وَرَغِبَ بِنَفْسِهِ عَنْهُمْ فَإِنَّهُمْ هُمُ السَّابِقُونَ فَقَدْ تَكَلَّمُوا فِيهِ بِمَا يَكْفِي وَوَصَفُوا مِنْهُ مَا يَشْفِي، فَمَا دُونَهُمْ مِنْ مَقْصَرٍ وَمَا فَوْقَهُمْ مِنْ مَحْسَرٍ وَقَدْ قَصَّرَ قَوْمٌ دُونَهُمْ فَجَفَوْا، وَطَمَحَ عَنْهُمْ أَقْوَامٌ فَغَلَوْا وَإِنَّهُمْ بَيْنَ ذَلِكَ لَعَلَى هُدًى مُسْتَقِيمٍ، كَتَبْتَ تَسْأَلُ عَنِ الْإِقْرَارِ بِالْقَدَرِ فَعَلَى الْخَبِيرِ بِإِذْنِ اللَّهِ، وَقَعْتَ مَا أَعْلَمُ مَا أَحْدَثَ النَّاسُ مِنْ مُحْدَثَةٍ وَلَا ابْتَدَعُوا مِنْ بِدْعَةٍ هِيَ أَبْيَنُ أَثَرًا وَلَا أَثْبَتُ أَمْرًا مِنَ الْإِقْرَارِ بِالْقَدَرِ، لَقَدْ كَانَ ذَكَرَهُ فِي الْجَاهِلِيَّةِ الْجُهَلَاءُ يَتَكَلَّمُونَ بِهِ فِي كَلَامِهِمْ وَفِي شِعْرِهِمْ يُعَزُّونَ بِهِ أَنْفُسَهُمْ عَلَى مَا فَاتَهُمْ ثُمَّ لَمْ يَزِدْهُ الْإِسْلَامُ بَعْدُ إِلَّا شِدَّةً، وَلَقَدْ ذَكَرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَيْرِ حَدِيثٍ وَلَا حَدِيثَيْنِ وَقَدْ سَمِعَهُ مِنْهُ الْمُسْلِمُونَ، فَتَكَلَّمُوا بِهِ فِي حَيَاتِهِ وَبَعْدَ وَفَاتِهِ يَقِينًا وَتَسْلِيمًا لِرَبِّهِمْ وَتَضْعِيفًا لِأَنْفُسِهِمْ أَنْ يَكُونَ شَيْءٌ لَمْ يُحِطْ بِهِ عِلْمُهُ وَلَمْ يُحْصِهِ كِتَابُهُ وَلَمْ يَمْضِ فِيهِ قَدَرُهُ، وَإِنَّهُ مَعَ ذَلِكَ لَفِي مُحْكَمِ كِتَابِهِ مِنْهُ اقْتَبَسُوهُ وَمِنْهُ تَعَلَّمُوهُ، وَلَئِنْ قُلْتُمْ لِمَ أَنْزَلَ اللَّهُ آيَةَ كَذَا؟ لِمَ قَالَ كَذَا؟ لَقَدْ قَرَءُوا مِنْهُ مَا قَرَأْتُمْ وَعَلِمُوا مِنْ تَأْوِيلِهِ مَا جَهِلْتُمْ، وَقَالُوا بَعْدَ ذَلِكَ كُلِّهِ بِكِتَابٍ وَقَدَرٍ وَكُتِبَتِ الشَّقَاوَةُ وَمَا يُقْدَرْ يَكُنْ وَمَا شَاءَ اللَّهُ كَانَ وَمَا لَمْ يَشَأْ لَمْ يَكُنْ، وَلَا نَمْلِكُ لِأَنْفُسِنَا ضَرًّا وَلَا نَفْعًا ثُمَّ رَغِبُوا بَعْدَ ذَلِكَ وَرَهِبُوا".
سفیان ثوری کہتے ہیں کہ ایک شخص نے خط لکھ کر عمر بن عبدالعزیز سے تقدیر کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے (جواب میں) لکھا: امابعد! میں تمہیں اللہ سے ڈرنے اور اس کے دین کے سلسلہ میں میانہ روی اختیار کرنے، اس کے نبی کی سنت کی پیروی کرنے کی اور بدعتیوں نے جو بدعتیں سنت کے جاری اور ضروریات کے لیے کافی ہو جانے کے بعد ایجاد کی ہیں ان کے چھوڑ دینے کی وصیت کرتا ہوں، لہٰذا تم پر سنت کا دامن تھامے رہنا لازم ہے، اللہ کے حکم سے یہی چیز تمہارے لیے گمراہی سے بچنے کا ذریعہ ہو گی۔ پھر یہ بھی جان لو کہ لوگوں نے کوئی بدعت ایسی نہیں نکالی ہے جس کے خلاف پہلے سے کوئی دلیل موجود نہ رہی ہو یا اس کے بدعت ہونے کے سلسلہ میں کوئی نصیحت آمیز بات نہ ہو، اس لیے کہ سنت کو جس نے جاری کیا ہے، (اللہ تعالیٰ یا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ) وہ جانتا تھا کہ اس کی مخالفت میں کیا وبال ہے، کیا کیا غلطیاں، لغزشیں، حماقتیں اور انتہا پسندیاں ہیں (ابن کثیر کی روایت میں «من قد علم» کا لفظ نہیں ہے) لہٰذا تم اپنے آپ کو اسی چیز سے خوش رکھو جس سے قوم (سلف) نے اپنے آپ کو خوش رکھا ہے، اس لیے کہ وہ دین کے بڑے واقف کار تھے، جس بات سے انہوں نے روکا ہے گہری بصیرت سے روکا ہے، انہیں معاملات کے سمجھنے پر ہم سے زیادہ دسترس تھی، اور تمام خوبیوں میں وہ ہم سے فائق تھے، لہٰذا اگر ہدایت وہ ہوتی جس پر تم ہو تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ تم ان سے آگے بڑھ گئے، اور اگر تم یہ کہتے ہو کہ جن لوگوں نے بدعتیں نکالی ہیں وہ اگلے لوگوں کی راہ پر نہیں چلے اور ان سے اعراض کیا تو واقعہ بھی یہی ہے کہ اگلے لوگ ہی فائق و برتر تھے انہوں نے جتنا کچھ بیان کر دیا ہے اور جو کچھ کہہ دیا ہے شافی و کافی ہے، لہٰذا اب دین میں نہ اس سے کم کی گنجائش ہے نہ زیادہ کی، اور حال یہ ہے کہ کچھ لوگوں نے اس میں کمی کر ڈالی تو وہ جفا کار ٹھہرے اور کچھ لوگوں نے زیادتی کی تو وہ غلو کا شکار ہو گئے، اور اگلے لوگ ان دونوں انتہاؤں کے بیچ سیدھی راہ پر رہے، اور تم نے ایمان بالقدر کے اقرار کے بارے میں بھی پوچھا ہے تو باذن اللہ تم نے یہ سوال ایک ایسے شخص سے کیا ہے جو اس کو خوب جانتا ہے، ان لوگوں نے جتنی بھی بدعتیں ایجاد کی ہیں ان میں اثر کے اعتبار سے ایمان بالقدر کے اقرار سے زیادہ واضح اور ٹھوس کوئی نہیں ہے، اس کا تذکرہ تو جاہلیت میں جہلاء نے بھی کیا ہے، وہ اپنی گفتگو اور اپنے شعر میں اس کا تذکرہ کرتے تھے، اس کے ذریعے وہ اپنے آپ کو کسی فوت ہو جانے والے کے غم میں تسلی دیتے ہیں۔ پھر اسلام نے اس خیال کو مزید پختگی بخشی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا ذکر ایک یا دو حدیثوں میں نہیں بلکہ کئی حدیثوں میں کیا، اور اس کو مسلمانوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، پھر آپ کی زندگی میں بھی اسے بیان کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بھی، اس پر یقین کر کے، اس کو تسلیم کر کے اور اپنے کو اس سے کمزور سمجھ کے، کوئی چیز ایسی نہیں جس کو اللہ کا علم محیط نہ ہو، اور جو اس کے نوشتہ میں نہ آ چکی ہو، اور اس میں اس کی تقدیر جاری نہ ہو چکی ہو، اس کے باوجود اس کا ذکر اس کی کتاب محکم میں ہے، اسی سے لوگوں نے اسے حاصل کیا، اسی سے اسے سیکھا۔ اور اگر تم یہ کہو: اللہ نے ایسی آیت کیوں نازل فرمائی؟ اور ایسا کیوں کہا (جو آیات تقدیر کے خلاف ہیں)؟ تو (جان لو) ان لوگوں نے بھی اس میں سے وہ سب پڑھا تھا جو تم نے پڑھا ہے لیکن انہیں اس کی تاویل و تفسیر کا علم تھا جس سے تم ناواقف ہو، اس کے بعد بھی وہ اسی بات کے قائل تھے: ہر بات اللہ کی تقدیر اور اس کے لکھے ہوئے کے مطابق ہے جو مقدر میں لکھا ہے وہ ہو گا، جو اللہ نے چاہا، وہی ہوا، جو نہیں چاہا، نہیں ہوا۔ اور ہم تو اپنے لیے نہ کسی ضرر کے مالک ہیں اور نہ ہی کسی نفع کے پھر اس اعتقاد کے بعد بھی اگلے لوگ اچھے کام کرتے رہے اور بر ے کاموں سے ڈرتے رہے ۱؎۔ [سنن ابي داود/كِتَاب السُّنَّةِ/حدیث: 4612]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 19145) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح مقطوع

حدیث نمبر: 4613
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَعِيدٌ يَعْنِي ابْنَ أَبِي أَيُّوبَ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو صَخْرٍ، عَنْ نَافِعٍ، قَالَ: كَانَ لِابْنِ عُمَرَ صَدِيقٌ مِنْ أَهْلِ الشَّامِ يُكَاتِبُهُ فَكَتَبَ إِلَيْهِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ: إِنَّهُ بَلَغَنِي أَنَّكَ تَكَلَّمْتَ فِي شَيْءٍ مِنَ الْقَدَرِ، فَإِيَّاكَ أَنْ تَكْتُبَ إِلَيَّ، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" إِنَّهُ سَيَكُونُ فِي أُمَّتِي أَقْوَامٌ يُكَذِّبُونَ بِالْقَدَرِ".
نافع کہتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کا ایک شامی دوست تھا جو ان سے خط و کتابت رکھتا تھا، تو عبداللہ بن عمر نے اسے لکھا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم نے تقدیر کے سلسلے میں (سلف کے قول کے خلاف) کوئی بات کہی ہے، لہٰذا اب تم مجھ سے خط و کتابت نہ رکھنا، اس لیے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: میری امت میں کچھ ایسے لوگ ہوں گے جو تقدیر کو جھٹلائیں گے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب السُّنَّةِ/حدیث: 4613]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہذا المتن أبوداود، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/القدر 16 (2152)، سنن ابن ماجہ/الفتن 29 (4061)، بسیاق نحوہ ولفظہ: ''في ہذہ الأمة خسف ومسخ أو قذف في أہل القدر'' (تحفة الأشراف: 7651)، و مسند احمد (2/108، 136) (حسن)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: حسن

حدیث نمبر: 4614
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْجَرَّاحِ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ، قَالَ:" قُلْتُ لِلْحَسَنِ: يَا أَبَا سَعِيدٍ أَخْبِرْنِي عَنْ آدَمَ أَلِلسَّمَاءِ خُلِقَ أَمْ لِلْأَرْضِ؟ قَالَ: لَا بَلْ لِلْأَرْضِ، قُلْتُ: أَرَأَيْتَ لَوِ اعْتَصَمَ فَلَمْ يَأْكُلْ مِنَ الشَّجَرَةِ، قَالَ: لَمْ يَكُنْ لَهُ مِنْهُ بُدٌّ، قُلْتُ: أَخْبِرْنِي عَنْ قَوْلِهِ تَعَالَى: مَا أَنْتُمْ عَلَيْهِ بِفَاتِنِينَ {162} إِلا مَنْ هُوَ صَالِ الْجَحِيمِ {163} سورة الصافات آية 162-163، قَالَ: إِنَّ الشَّيَاطِينَ لَا يَفْتِنُونَ بِضَلَالَتِهِمْ إِلَّا مَنْ أَوْجَبَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَحِيمَ".
خالد الحذاء کہتے ہیں کہ میں نے حسن (حسن بصری) سے کہا: اے ابوسعید! آدم کے سلسلہ میں مجھے بتائیے کہ وہ آسمان کے لیے پیدا کئے گئے، یا زمین کے لیے؟ آپ نے کہا: نہیں، بلکہ زمین کے لیے، میں نے عرض کیا: آپ کا کیا خیال ہے؟ اگر وہ نافرمانی سے بچ جاتے اور درخت کا پھل نہ کھاتے، انہوں نے کہا: یہ ان کے بس میں نہ تھا، میں نے کہا: مجھے اللہ کے فرمان  «ما أنتم عليه بفاتنين * إلا من هو صال الجحيم» شیاطین تم میں سے کسی کو اس کے راستے سے گمراہ نہیں کر سکتے سوائے اس کے جو جہنم میں جانے والا ہو (الصافات: ۱۶۳) کے بارے میں بتائیے، انہوں نے کہا: شیاطین اپنی گمراہی کا شکار صرف اسی کو بنا سکتے ہیں جس پر اللہ نے جہنم واجب کر دی ہے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب السُّنَّةِ/حدیث: 4614]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 18517، 18518) (حسن الإسناد)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: حسن الإسناد مقطوع

حدیث نمبر: 4615
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ الْحَذَّاءُ، عَنِ الْحَسَنِ، فِي قَوْلِهِ تَعَالَى:" وَلِذَلِكَ خَلَقَهُمْ سورة هود آية 119، قَالَ: خَلَقَ هَؤُلَاءِ لِهَذِهِ وَهَؤُلَاءِ لِهَذِهِ".
‏‏‏‏ حسن بصری سے اللہ تعالیٰ کے قول «ولذلك خلقهم» اور اسی کے لیے انہیں پیدا کیا (سورۃ ھود: ۱۱۹) کے بارے میں روایت ہے، انہوں نے کہا: انہیں پیدا کیا اس (جنت) کے لیے اور انہیں پیدا کیا اس (جہنم) کے لیے ۱؎۔ [سنن ابي داود/كِتَاب السُّنَّةِ/حدیث: 4615]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 18516) (صحیح الإسناد)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد مقطوع


Previous    1    2    3    4    5    6    Next