سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے ”تمہاری بقا (کی مدت) باعتبار ان امتوں کے جو تم سے پہلے گزر چکی ہیں، ایسی ہی ہے جیسے نماز عصر سے لے کر غروب آفتاب تک۔ توریت والوں کو توریت دی گئی اور انھوں نے کام کیا، یہاں تک کہ دن آدھا ہو گیا، وہ تھک گئے اور انھیں ایک ایک قیراط دے دیا گیا۔ اس کے بعد انجیل والوں کو انجیل دی گئی اور انھوں نے عصر کی نماز تک کام کیا، پھر وہ تھک گئے اور انھیں ایک ایک قیراط دے دیا گیا۔ اس کے بعد ہم لوگوں کو قرآن دیا گیا اور ہم نے غروب آفتاب تک کام کیا تو ہمیں دو دو قیراط دیے گئے تو دونوں اہل کتاب نے کہا کہ اے ہمارے پروردگار! تو نے ان لوگوں کو دو دو قیراط دیے اور ہمیں ایک ہی قیراط دیا حالانکہ ہم نے کام زیادہ کیا ہے۔ اللہ عزوجل نے فرمایا کہ کیا میں نے تمہاری مزدوری میں سے کچھ کم دیا ہے؟ وہ بولے نہیں تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ”یہ میری رحمت ہے جسے میں چاہتا ہوں دیتا ہوں (تمہارا کیا اجارہ ہے؟)“ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 345]
14. مغرب کا وقت (کب شروع ہوتا ہے؟)۔
سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ مغرب کی نماز پڑھتے تھے تو ہم میں سے ہر ایک (نماز پڑھ کے) ایسے وقت لوٹ آتا تھا کہ وہ اپنے تیر کے گرنے کے مقامات کو دیکھ لیتا تھا۔ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 346]
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی نماز ٹھیک دوپہر کو پڑھتے تھے اور عصر کی ایسے وقت کہ آفتاب صاف اور چمک رہا ہوتا تھا اور مغرب کی جب آفتاب غروب ہو جاتا اور عشاء کی کبھی کسی وقت، کبھی کسی وقت۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم دیکھتے کہ لوگ جمع ہو گئے ہیں تو جلدی پڑھ لیتے اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم دیکھتے کہ لوگوں نے دیر کی تو دیر سے پڑھتے اور صبح کی نماز وہ لوگ یا یہ کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اندھیرے میں پڑھتے تھے۔ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 347]
15. جس نے اس امر کو برا جانا ہے کہ مغرب کو عشاء کہا جائے۔
سیدنا عبداللہ مزنی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اعراب تمہاری نماز مغرب کے نام پر تم سے غلبہ نہ کریں (یعنی نماز مغرب کا کچھ اور نام رکھ دیں)“ اور فرمایا: ”اعراب کہتے ہیں کہ وہ (یعنی مغرب) عشاء ہے۔“ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 348]
16. عشاء (کی نماز) کی فضیلت۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک شب عشاء کی نماز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تاخیر کر دی اور یہ (واقعہ) اشاعت اسلام سے پہلے (کا ہے) پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہیں نکلے یہاں تک کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے (آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے آ کر) کہا کہ عورتیں اور بچے سو رہے، پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور فرمایا ”زمین والوں میں سوا تمہارے کوئی اس نماز کا منتظر نہیں۔“ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 349]
سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں اور میرے وہ ساتھی جو کشتی میں میرے ہمراہ آئے تھے، بقیع بطحان میں ٹھہرے ہوئے تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں تھے تو ان میں سے ایک ایک گروپ باری باری نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاتا تھا۔ پھر (ایک دن) ہم سب یعنی میں اور میرے ساتھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے کام میں مصروفیت تھی لہٰذا (عشاء کی) نماز میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تاخیر کر دی یہاں تک کہ رات آدھی ہو گئی۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور لوگوں کو نماز پڑھائی۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نماز ختم کر چکے تو جو لوگ وہاں موجود تھے ان سے فرمایا: ”اس وقت میں تمہارے سوا کوئی نماز نہیں پڑھتا“ یا اس طرح فرمایا: ”کسی نے نماز نہیں پڑھی۔“ معلوم نہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ان دو جملوں میں سے) کیا فرمایا: ”ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم اس بات سے جو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہم نے سنی، خوش ہو کر لوٹے۔ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 350]
17. جو شخص (نیند) سے مغلوب ہو جائے تو اس کے لیے عشاء سے پہلے سو رہنا (جائز ہے)۔
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء کی نماز میں تاخیر کی تو امیرالمؤمنین عمر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پکارا، پہلے گزری ہے (دیکھئیے کتاب: نماز کے اوقات کا بیان۔۔۔ باب: عشاء کی نماز کی فضیلت۔۔۔) اس روایت میں اتنا زیادہ کہتی ہیں کہ صحابہ رضی اللہ عنہم (عشاء کی نماز) شفق کے غائب ہو جانے کے بعد رات کی پہلی تہائی تک پڑھ لیتے تھے۔ اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت میں ہے: ”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نکلے گویا کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اس وقت دیکھ رہا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سرمبارک سے پانی ٹپک رہا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا ہاتھ اپنے سرمبارک پر رکھے ہوئے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر میں اپنی امت پر گراں نہ سمجھتا تو یقیناً انھیں حکم دیتا کہ عشاء کی نماز اسی طرح (اسی وقت) پڑھا کریں۔“ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 351]
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بتاتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سر پر ہاتھ کیسے رکھا تو انھوں نے اپنی انگلیوں کے درمیان کچھ تفریق کر دی اور اپنی انگلیوں کے سرے، سر کے ایک طرف رکھ دیے پھر ان کو ملا کر اس طرح سر پر کھینچ لائے یہاں تک کہ ان کا انگوٹھا ان کے کان کی لو سے، چہرے کے قریب ڈاڑھی کے کنارے سے مل گیا۔ نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیر کی اور نہ جلدی بس اسی طرح کیا جیسے میں نے تمہیں بتایا۔ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 352]
18. عشاء کا وقت آدھی رات تک (رہتا ہے)۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ (عشاء کی نماز کے متعلق) بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ گویا میں اس شب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگوٹھی کی چمک کو دیکھ رہا ہوں۔ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 353]
19. نماز فجر کی فضیلت (کا بیان)۔
سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص دو ٹھنڈی نمازیں پڑھ لے گا، وہ جنت میں داخل ہو گا۔“ [مختصر صحيح بخاري/حدیث: 354]