الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


بلوغ المرام کل احادیث (1359)
حدیث نمبر سے تلاش:

بلوغ المرام
كتاب الحج
حج کے مسائل
حدیث نمبر: 599
وعن أبي قتادة الأنصاري رضي الله عنه في قصة صيده الحمار الوحشي وهو غير محرم قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم لأصحابه وكانوا محرمين: «‏‏‏‏هل منكم أحد أمره أو أشار إليه بشيء؟» ‏‏‏‏ قالوا: لا قال: «‏‏‏‏فكلوا ما بقي من لحمه» .‏‏‏‏ متفق عليه.
سیدنا ابوقتادہ انصاری رضی اللہ عنہ سے ان کے جنگلی گدھے کو شکار کرنے کے قصے میں جبکہ انہوں نے احرام نہیں باندھا تھا، مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم سے فرمایا اور وہ احرام والے تھے کیا تم میں سے کسی نے اسے حکم دیا تھا یا اس کی طرف کسی چیز سے اشارہ کیا تھا؟ انہوں نے کہا نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پس کھاؤ اس کے گوشت سے جو بچ گیا ہے۔ (بخاری و مسلم) [بلوغ المرام/كتاب الحج/حدیث: 599]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، جزاء الصيد، باب لا يشير المحرم إلي الصيد، حديث:1824، ومسلم، الحج، باب تحريم الصيد للمحرم، حديث:1196.»

حدیث نمبر: 600
وعن الصعب بن جثامة الليثي رضي الله عنه أنه أهدى لرسول الله صلى الله عليه وآله وسلم حمارا وحشيا وهو بالأبواء أو بودان فرده عليه وقال: «‏‏‏‏إنا لم نرده عليك إلا أنا حرم» . متفق عليه.
سیدنا صعب بن جثامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک وحشی گدھا بطور تحفہ بھیجا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابواء یا ودان مقام پر تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ انہیں واپس کر دیا اور فرمایا کہ ہم نے یہ اس لئے واپس کیا کہ ہم احرام والے ہیں۔ (بخاری و مسلم) [بلوغ المرام/كتاب الحج/حدیث: 600]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، جزاء الصيد، باب إذا أهدي للمحرم حمارًا وحشيًا، حديث:1825، ومسلم، الحج، باب تحريم الصيد للمحرم، حديث:1193.»

حدیث نمبر: 601
وعن عائشة رضي الله عنها قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «‏‏‏‏خمس من الدواب كلهن فواسق يقتلن في الحل والحرم: العقرب والحدأة والغراب والفأرة والكلب العقور» .‏‏‏‏ متفق عليه.
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جانوروں میں سے پانچ سب کے سب شریر ہیں۔ حل اور حرم (سب جگہوں پر) مار دیئے جائیں اور وہ ہیں بچھو، چیل، کوا، چوہا اور کاٹ کھانے والا کتا۔ (بخاری و مسلم) [بلوغ المرام/كتاب الحج/حدیث: 601]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، جزاء الصيد، باب ما يقتل المحرم من الدواب، حديث:1829، ومسلم، الحج، باب ما يندب للمحرم وغيره قتله، حديث:1198.»

حدیث نمبر: 602
وعن ابن عباس رضي الله عنهما أن النبي صلى الله عليه وآله وسلم احتجم وهو محرم. متفق عليه
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ بیشک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سینگی لگوائی جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم احرام کی حالت میں تھے۔ (بخاری و مسلم) [بلوغ المرام/كتاب الحج/حدیث: 602]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، جزاء الصيد، باب الحجامة للمحرم، حديث:1835، ومسلم، الحج، باب جواز الحجامة للمحرم، حديث:1202.»

حدیث نمبر: 603
وعن كعب بن عجرة رضي الله عنه قال: حملت إلى رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم والقمل يتناثر على وجهي فقال:«‏‏‏‏ما كنت أرى الوجع بلغ بك ما أرى أتجد شاة؟» ‏‏‏‏ قلت: لا،‏‏‏‏ قال: «‏‏‏‏فصم ثلاثة أيام،‏‏‏‏ أو أطعم ستة مساكين،‏‏‏‏ لكل مسكين نصف صاع» . متفق عليه
سیدنا کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اٹھا کر لایا گیا اور جوئیں میرے چہرے پر گر رہی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرا یہ خیال نہ تھا کہ تم کو بیماری نے اس حالت کو پہنچا دیا ہو گا جو میں دیکھ رہا ہوں، کیا تیرے پاس بکری ہے؟ میں نے عرض کیا کہ نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تین دن روزہ رکھ یا چھ مسکینوں کو آدھا صاع ہر مسکین کے حساب سے کھانا دے۔ (بخاری و مسلم) [بلوغ المرام/كتاب الحج/حدیث: 603]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، المحصر، باب الإطعام في الفدية نصف صاع، حديث:1816، ومسلم، الحج، باب جواز حلق الرأس للمحرم، حديث:1201.»

حدیث نمبر: 604
وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال: لما فتح الله على رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم مكة قام رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم في الناس فحمد الله وأثنى عليه ثم قال: «‏‏‏‏إن الله حبس عن مكة الفيل وسلط عليها رسوله والمؤمنين وإنها لم تحل لأحد كان قبلي وإنما أحلت لي ساعة من نهار وإنها لم تحل لأحد بعدي فلا ينفر صيدها ولا يختلى شوكها ولا تحل ساقطتها إلا لمنشد ومن قتل له قتيل فهو بخير النظرين إما أن يفدي وإما أن يقيد» .‏‏‏‏ فقال العباس: إلا الإذخر يا رسول الله فإنا نجعله في قبورنا وبيوتنا فقال: «إلا الإذخر» .‏‏‏‏ متفق عليه.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ کی فتح دی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے درمیان کھڑے ہوئے پھر اللہ کی حمد و ثنا بیان کی اور فرمایا بیشک اللہ تعالیٰ نے ہاتھیوں کو مکہ سے روک دیا مگر رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور مومنوں کو اس پر غلبہ عطا فرمایا اور تحقیق مجھ سے پہلے مکہ کسی پر حلال نہ تھا مگر میرے لئے دن کی ایک گھڑی حلال کر دیا گیا ہے اور یقیناً میرے بعد یہ کسی کیلئے حلال نہیں ہو گا یعنی نہ اس کا شکار بھگایا جائے، نہ اس کا کوئی کانٹے دار درخت کاٹا جائے اور نہ ہی اس کی گری ہوئی چیز سوائے شناخت کرنے والے کے کسی پر حلال ہے اور جس کا کوئی آدمی مارا جائے وہ دو بہتر سوچے ہوئے کاموں میں سے ایک کام میں اختیار رکھتا ہے۔ تو سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! اذخر (ایک قسم کی گھاس) کے سوا، کیونکہ اسے ہم اپنی قبروں اور چھتوں میں رکھتے ہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سوائے اذخر کے، (یعنی اسے کاٹنے کی اجازت ہے۔) (بخاری و مسلم) [بلوغ المرام/كتاب الحج/حدیث: 604]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، العلم، باب كتابه العلم، حديث:112، ومسلم، الحج، باب تحريم مكة وصيدها، حديث:1355.»

حدیث نمبر: 605
وعن عبد الله بن زيد بن عاصم رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم قال: «‏‏‏‏إن إبراهيم حرم مكة ودعا لأهلها وإني حرمت المدينة كما حرم إبراهيم مكة وإني دعوت في صاعها ومدها بمثلي ما دعا به إبراهيم لأهل مكة» . متفق عليه.
سیدنا عبداللہ بن زید بن عاصم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تحقیق ابراھیم علیہ السلام نے مکہ کو حرمت دی اور اس کے بسنے والوں کیلئے دعا کی اور بیشک میں نے مدینہ کو حرمت دی۔ جس طرح ابراھیم علیہ السلام نے مکہ کو حرام قرار دیا اور یقیناً میں نے مدینہ کے صاع اور اس کے مد کے متعلق ابراھیم علیہ السلام کی طرح دعا کی جو مکہ میں بسنے والوں کے متعلق تھی۔ (بخاری و مسلم) [بلوغ المرام/كتاب الحج/حدیث: 605]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، البيوع، باب بركة صاح النبي صلي الله عليه وسلم ومده، حديث:2129، ومسلم، الحج، باب فضل المدينة، حديث:1360.»

حدیث نمبر: 606
وعن علي بن أبي طالب رضي الله عنه قال: قال النبي صلى الله عليه وآله وسلم: «‏‏‏‏المدينة حرم ما بين عير إلى ثور» .‏‏‏‏ رواه مسلم.
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مدینہ حرم ہے عیر سے ثور کے درمیان۔ (مسلم) [بلوغ المرام/كتاب الحج/حدیث: 606]
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم، الحج، باب فضل المدينة حديث:1370.»

5. باب صفة الحج ودخول مكة
5. حج کا طریقہ اور دخول مکہ کا بیان
حدیث نمبر: 607
عن جابر بن عبد الله رضي الله عنهما أن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم حج فخرجنا معه حتى إذا أتينا ذا الحليفة فولدت أسماء بنت عميس فقال: «اغتسلي واستثفري بثوب وأحرمي» ‏‏‏‏ وصلى رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم في المسجد ثم ركب القصواء حتى إذا استوت به على البيداء أهل بالتوحيد «‏‏‏‏لبيك اللهم لبيك لبيك لا شريك لك لبيك إن الحمد والنعمة لك والملك لا شريك لك» ‏‏‏‏ حتى إذا أتينا البيت استلم الركن فرمل ثلاثا ومشى أربعا ثم نفر إلى مقام إبراهيم فصلى ثم رجع إلى الركن فاستلمه ثم خرج من الباب إلى الصفا فلما دنا من الصفا قرأ «‏‏‏‏أبدأ بما بدأ الله به» ‏‏‏‏ فرقى الصفا حتى رأى البيت فاستقبل القبلة فوحد الله وكبره وقال: «‏‏‏‏لا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير لا إله إلا الله وحده أنجز وعده ونصر عبده وهزم الأحزاب وحده» ‏‏‏‏ ثم دعا بين ذلك ثلاث مرات ثم نزل إلى المروة حتى إذا انصبت قدماه في بطن الوادي سعى حتى إذا صعدتا مشى حتى أتى المروة ففعل على المروة كما فعل على الصفا فذكر الحديث وفيه: فلما كان يوم التروية توجهوا إلى منى فأهلوا بالحج وركب رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم فصلى بها الظهر والعصر والمغرب والعشاء والفجر ثم مكث قليلا حتى طلعت الشمس فأجاز حتى أتى عرفة فوجد القبة قد ضربت له بنمرة فنزل بها حتى إذا زاغت الشمس أمر بالقصواء فرحلت له فأتى بطن الوادي فخطب الناس ثم أذن ثم أقام فصلى الظهر ثم أقام فصلى العصر ولم يصل بينهما شيئا ثم ركب حتى أتى الموقف فجعل بطن ناقته القصواء إلى الصخرات وجعل حبل المشاة بين يديه واستقبل القبلة فلم يزل واقفا حتى غربت الشمس وذهبت الصفرة قليلا حتى غاب القرص ودفع وقد شنق للقصواء الزمام حتى إن رأسها ليصيب مورك رحله ويقول بيده اليمنى: «‏‏‏‏أيها الناس السكينة السكينة» ‏‏‏‏ كلما أتى حبلا من الحبال أرخى لها قليلا حتى تصعد حتى أتى المزدلفة فصلى بها المغرب والعشاء بأذان واحد وإقامتين ولم يسبح بينهما شيئا ثم اضطجع حتى طلع الفجر فصلى الفجر حين تبين له الصبح بأذان وإقامة ثم ركب القصواء حتى أتى المشعر الحرام فاستقبل القبلة فدعا وكبر وهلل فلم يزل واقفا حتى أسفر جدا فدفع قبل أن تطلع الشمس حتى أتى بطن محسر فحرك قليلا ثم سلك الطريق الوسطى التي تخرج على الجمرة الكبرى حتى أتى الجمرة التي عند الشجرة فرماها بسبع حصيات يكبر مع كل حصاة منها مثل حصى الخذف رمى من بطن الوادي ثم انصرف إلى المنحر فنحر ثم ركب رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم فأفاض إلى البيت فصلى بمكة الظهر. رواه مسلم مطولا.
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کیا تو ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے یہاں تک کہ ہم ذوالحلیفہ پہنچے تو اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا نے بچہ جنا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا غسل کر اور کسی کپڑے سے لنگوٹ باندھ لے اور احرام باندھ لے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں نماز پڑھی اور قصواء (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کا نام) پر سوار ہو گئے یہاں تک کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیداء کے برابر آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے توحیدی تلبیہ پکارا «لبيك اللهم لبيك لبيك لا شريك لك لبيك إن الحمد والنعمة لك والملك لا شريك لك» حاضر ہوں، اے میرے اللہ! میں حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں، میں حاضر ہوں، بلا شک سب تعریفیں اور انعامات تیرے ہیں۔ بادشاہت بھی تیری ہے، تیرا کوئی شریک نہیں۔ یہاں تک کہ ہم بیت اللہ میں داخل ہوئے۔ رکن (اسود) کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بوسہ دیا، تین بار رمل کیا اور چار بار معمول کے مطابق چلے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مقام ابراہیم پر آئے اور نماز پڑھی پھر رکن (حجر اسود) کی طرف واپس آئے اور اس کو بوسہ دیا۔ پھر مسجد الحرام کے دروازہ سے صفا کی طرف نکلے جب صفا کے نزدیک پہنچے تو یہ آیت پڑھی۔ تحقیق صفا اور مروہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہیں۔ (پھر فرمایا) میں شروع کرتا ہوں (سعی کو) اس مقام سے کہ جہاں سے اللہ نے شروع کیا ہے۔ پھر صفا پر چڑھے۔ یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ کو دیکھا۔ پھر قبلہ رخ ہوئے اور اللہ کی وحدانیت اور کبریائی بیان کی اور کہا اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے کوئی اس کا شریک نہیں۔ بادشاہی اور سب خوبیاں اسی کی ہیں اور وہ ہر چیز پر قادر ہے اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اس نے اپنا وعدہ پورا کر دیا اور اپنے بندے کی مدد کی اور کفار کی جماعت کو اکیلے اسی نے شکست دی۔ پھر اس کے درمیان تین بار دعا کی۔ پھر صفا سے اترے اور مروہ کی طرف گئے۔ یہاں تک کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں پاؤں وادی کے نشیب میں پڑے تو دوڑے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نشیب سے اوپر چڑھے اور مروہ کی طرف چلے۔ مروہ پر وہی کچھ کیا جو صفا پر کیا تھا۔ پھر جابر رضی اللہ عنہ نے ساری حدیث بیان کی جس میں یہ ہے کہ جب ترویہ کا دن (8 ذی الحج) ہوا تو لوگ منیٰ کی طرف متوجہ ہوئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سوار تھے پھر وہاں ظہر، عصر، مغرب، عشاء اور صبح کی نماز پڑھی۔ پھر تھوڑی دیر ٹھہرے یہاں تک کہ سورج نکل آیا تو وہاں سے روانہ ہوئے اور مزدلفہ سے گزرتے ہوئے عرفات میں پہنچے تو خیمہ میں اترے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے نمرہ میں لگایا گیا تھا۔ پھر جب سورج ڈھلنے لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قصواء پر پالان رکھنے کا حکم دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہو کر وادی کے درمیان میں آئے اور لوگوں کو خطبہ دیا پھر اذان دلوائی پھر اقامت کہلوائی تو نماز ظہر ادا کی پھر اقامت کہلوائی تو عصر کی نماز پڑھی اور ان دونوں کے درمیان کوئی نماز نہ پڑھی۔ پھر سوار ہو کر ٹھہرنے کی جگہ پر پہنچے تو اپنی اونٹنی قصواء کا پیٹ پتھروں کی طرف کر دیا اور راہ چلنے والوں کو اپنے سامنے کر لیا اور اپنا رخ قبلہ کی جانب کر لیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت تک ٹھہرے رہے کہ سورج غروب ہونے لگا اور تھوڑی سی زردی ختم ہو گئی حتیٰ کہ سورج مکمل طور پر غروب ہو گیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی حالت میں واپس ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قصواء کی باگ اتنی تنگ کر رکھی تھی کہ اس کا سر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پالان کے اگلے ابھرے ہوئے حصے کو پہنچتا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے داہنے ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے فرماتے تھے اے لوگو! تسکین و اطمینان اختیار کرو اور جب بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی ٹیلے پر آتے تو باگ تھوڑی سی ڈھیلی کر دیتے کہ وہ اوپر چڑھ جاتی یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مزدلفہ تشریف لائے اور وہاں ایک اذان اور دو اقامت کے ساتھ مغرب اور عشاء کی نماز پڑھی اور دونوں کے درمیان کوئی نفلی نماز نہیں پڑھی۔ پھر لیٹ گئے۔ یہاں تک کہ صبح ہو گئی۔ جب صبح کا وقت ظاہر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اذان اور اقامت سے فجر کی نماز پڑھی۔ پھر سوار ہو کر مشعر حرام پر آئے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم قبلہ رو ہوئے دعا کی اور تکبیر و تہلیل کہتے رہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں اچھی طرح سفیدی ظاہر ہونے تک ٹھہرے رہے پھر سورج نکلنے سے پہلے واپس ہو کر وادی محسر کے نشیب میں آ گئے تو سواری کو کچھ تیز کر دیا۔ پھر درمیانی راستہ پر چلے جو جمرہ کبریٰ (بڑا شیطان) پر پہنچتا ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس جمرہ پر آئے جو درخت کے پاس ہے تو اسے سات کنکریاں وادی کے نشیب سے ماریں، ہر کنکری کے ساتھ «الله اكبر» کہتے تھے، ان میں سے ہر کنکری خذف (لوبیے کے دانے) کے برابر تھی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم قربان گاہ کی طرف گئے اور وہاں قربانی کی پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہوئے اور بیت اللہ کی طرف روانہ ہوئے۔ پھر مکہ میں ظہر کی نماز پڑھی۔ اسے مسلم نے تفصیل سے بیان کیا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الحج/حدیث: 607]
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم، الحج، باب حجة النبي صلي الله عليه وسلم، حديث:1218.»

حدیث نمبر: 608
وعن خزيمة بن ثابت رضي الله عنه: أن النبي صلى الله عليه وآله وسلم كان إذا فرغ من تلبيته في حج أو عمرة سأل الله رضوانه والجنة واستعاذ برحمته من النار. رواه الشافعي بإسناد ضعيف.
سیدنا خزیمہ بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب حج یا عمرہ میں تلبیہ (یعنی لبیک) کہنے سے فارغ ہوتے تو اللہ تعالیٰ سے اس کی رضامندی اور جنت طلب کرتے اور اس کی رحمت کے ساتھ آگ سے پناہ مانگتے۔ اسے امام شافعی رحمہ اللہ نے ضعیف سند سے روایت کیا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الحج/حدیث: 608]
تخریج الحدیث: «أخرجه الشافعي في الأم:2 /157 عن إبراهيم بن محمد الأسلمي عن صالح بن محمد بن زائدة عن عمارة بن خزيمة عن أبيه به. * إبراهيم متروك وشيخه منكر الحديث كما قال البخاري رحمه الله.»


Previous    1    2    3    4    5    6    7    Next