الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


بلوغ المرام کل احادیث (1359)
حدیث نمبر سے تلاش:

بلوغ المرام
كتاب الجنايات
جنایات (جرائم) کے مسائل
حدیث نمبر: 1013
وعن ابن عباس عن النبي صلى الله عليه وآله وسلم قال: «‏‏‏‏هذه وهذه سواء» ‏‏‏‏ يعني الخنصر والإبهام. رواه البخاري. ولأبي داود والترمذي: «‏‏‏‏دية الأصابع سواء والأسنان سواء الثنية والضرس سواء» .‏‏‏‏ ولابن حبان: «‏‏‏‏دية أصابع اليدين والرجلين سواء: عشرة من الإبل لكل إصبع» .‏‏‏‏
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ اور یہ یعنی چھنگلی اور انگوٹھا برابر ہیں۔ (بخاری) اور ابوداؤد اور ترمذی کی روایت میں ہے سب انگلیاں برابر اور سارے دانت برابر، «ثنية» (سامنے اوپر نیچے کے دو دو دانت) اور داڑھ برابر۔ اور ابن حبان میں روایت ہے ہاتھوں اور پاؤں کی انگلیوں کی دیت برابر ہے۔ ہر انگلی کے بدلہ دس اونٹ دیت ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الجنايات/حدیث: 1013]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الديات، باب دية الأصابع، حديث:6895، وأبوداود، الديات، حديث:4559، والترمذي، الديات، حديث:1392، وابن حبان (الإحسان):7 /602، حديث:5980.»

حدیث نمبر: 1014
وعن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده رضي الله عنهم رفعه قال: «من تطبب،‏‏‏‏ ولم يكن بالطب معروفا،‏‏‏‏ فأصاب نفسا فما دونها،‏‏‏‏ فهو ضامن» ‏‏‏‏ أخرجه الدارقطني وصححه الحاكم وهو عند أبي داود والنسائي وغيرهما إلا أن من أرسله أقوى ممن وصله.
سیدنا عمرو بن شعیب رحمہ اللہ نے اپنے باپ سے اور انہوں نے اپنے دادا سے مرفوع روایت بیان کی ہے کہ جو شخص اپنے آپ طبیب بن کر کسی کو دوائی دیتا ہے حالانکہ اسے طبابت میں مہارت نہیں اور اس (کے غلط علاج) سے کوئی آدمی قتل ہو جائے یا کوئی نقصان کسی کو پہنچ جائے تو وہ اس کا ضامن ہے۔ اسے دارقطنی نے روایت کیا ہے اور حاکم نے صحیح قرار دیا ہے۔ ابوداؤد اور نسائی وغیرہ کے ہاں بھی یہ روایت منقول ہے مگر جن راویوں نے اس روایت کو مرسل بیان کیا ہے وہ ان راویوں سے زیادہ قوی ہیں جنہوں نے اسے موصول بیان کیا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الجنايات/حدیث: 1014]
تخریج الحدیث: «أخرجه الدارقطني: 3 /196، والحاكم:4 /212 وصححه، ووافقه الذهبي [وسنده ضعيف] وأبوداود، الديات، حديث:4586، والنسائي، القسامة، حديث"4834.»

حدیث نمبر: 1015
وعنه أن النبي صلى الله عليه وآله وسلم قال: «‏‏‏‏في المواضح خمس خمس من الإبل» ‏‏‏‏ رواه أحمد والأربعة وزاد أحمد: «‏‏‏‏والأصابع سواء: كلهن عشر عشر من الإبل» .‏‏‏‏ وصححه ابن خزيمة وابن الجارود.
عمرو بن شعیب رحمہ اللہ نے اپنے والد سے، انہوں نے اپنے دادا سے روایت کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جن زخموں سے ہڈی کھل جائے ان کی دیت پانچ اونٹ ہیں۔ اسے احمد اور چاروں نے روایت کیا ہے اور احمد میں اتنا اضافہ ہے تمام انگلیوں کی دیت برابر ہے، ہر انگلی کی دیت دس دس اونٹ ہے۔ اس روایت کو ابن خزیمہ اور ابن جارود نے صحیح قرار دیا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الجنايات/حدیث: 1015]
تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، الديات، باب ديات الأعضاء، حديث"4566، والترمذي، الديات، حديث:1390، والنسائي، القسامة، حديث:4856، وابن ماجه، الديات، حديث:2655، وأحمد:2 /179، 189، 207، 215.»

حدیث نمبر: 1016
وعنه رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «عقل أهل الذمة نصف عقل المسلمين» .‏‏‏‏ رواه أحمد والأربعة ولفظ أبي داود: «‏‏‏‏دية المعاهد نصف دية الحر» ‏‏‏‏ وللنسائي: «‏‏‏‏عقل المرأة مثل عقل الرجل حتى يبلغ الثلث من ديتها» ‏‏‏‏ وصححه ابن خزيمة.
یہ روایت بھی انہی (عمرو بن شعیب رحمہ اللہ) سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ذمیوں کی دیت مسلمانوں کی دیت کا نصف ہے۔ اسے احمد اور چاروں نے روایت کیا ہے اور ابوداؤد کے الفاظ اس طرح ہیں کہ ذمی کی دیت آزاد کے مقابلہ میں آدھی ہے۔ اور نسائی کی روایت میں ہے کہ عورت کی دیت مرد کی دیت کی مانند ہے۔ یہاں تک کہ دونوں کی دیت تہائی تک پہنچے۔ اسے ابن خزیمہ نے صحیح قرار دیا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الجنايات/حدیث: 1016]
تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، الديات، باب في دية الذمي، حديث:4583، والنسائي، القسامة، حديث:4809، وابن ماجه، الديات، حديث:2644، والترمذي، الديات، حديث:1413، وأحمد:2 /180، 215، وابن خزيمة.»

حدیث نمبر: 1017
وعنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «‏‏‏‏عقل شبه العمد مغلظ مثل عقل العمد ولا يقتل صاحبه وذلك أن ينزو الشيطان فتكون دماء بين الناس في غير ضغينة ولا حمل سلاح» .‏‏‏‏ أخرجه الدارقطني وضعفه.
سیدنا عمرو بن شعیب ہی اس کے بھی راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قتل شبہ کی دیت قتل عمد کی طرح دیت مغلظہ ہے۔ اس لئے قاتل کو قتل نہیں کیا جائے گا۔ ہو سکتا ہے کہیں شیطان درمیان میں دخل اندازی کرے اور بغیر کسی دشمنی اور بغیر ہتھیاروں کے کسی اور وجہ سے قتل عام شروع ہو جائے۔ اس کی دارقطنی نے تخریج کی ہے اور اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الجنايات/حدیث: 1017]
تخریج الحدیث: «أخرجه الدارقطني:3 /95، وأبوداود، الديات، حديث:4565، ومسند أحمد:2 /217.»

حدیث نمبر: 1018
وعن ابن عباس رضي الله عنهما قال: قتل رجل رجلا على عهد رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم فجعل النبي صلى الله عليه وآله وسلم ديته اثني عشر ألفا. رواه الأربعة ورجح النسائي وأبو حاتم إرساله.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں ایک آدمی نے دوسرے آدمی کو قتل کر دیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی دیت بارہ ہزار (درہم) طے فرمائی۔ اسے چاروں نے روایت کیا ہے، نسائی اور ابوحاتم نے اس روایت کے مرسل ہونے کو ترجیح دی ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الجنايات/حدیث: 1018]
تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، الديات، باب الدية كم هي، حديث:4546، والترمذي، الديات، حديث:1388، والنسائي، القسامة، حديث:4807، وابن ماجه، الديات، حديث:2629.»

حدیث نمبر: 1019
وعن أبي رمثة قال: أتيت النبي صلى الله عليه وآله وسلم ومعي ابني فقال: «‏‏‏‏من هذا؟» ‏‏‏‏ فقلت: ابني وأشهد به قال: «أما إنه لا يجني عليك ولا تجني عليه» . رواه النسائي وأبو داود وصححه ابن خزيمة وابن الجارود.
سیدنا ابو رمثہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ میرے ساتھ میرا بیٹا بھی تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا یہ کون ہے؟ میں نے عرض کیا۔ میرا بیٹا ہے لہذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر گواہ رہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بیشک یہ تیرے گناہ و جرم کا ذمہ دار نہیں اور نہ تو اس کے گناہ و جرم کا ذمہ دار۔ اسے نسائی اور ابوداؤد نے روایت کیا ہے اور ابن خزیمہ اور ابن جارود نے اسے صحیح کہا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الجنايات/حدیث: 1019]
تخریج الحدیث: «أخرجه النسائي، القسامة، باب هل يؤخذ أحد بجريرة غيره، حديث:4836، وأبوداود، الديات، حديث:4495، وابن خزيمة، وابن الجارود.»

3. باب دعوى الدم والقسامة
3. دعویٰ خون اور قسامت
حدیث نمبر: 1020
عن سهل بن أبي حثمة رضي الله عنه عن رجال من كبراء قومه أن عبد الله بن سهل ومحيصة بن مسعود خرجا إلى خيبر من جهد أصابهم فأتي محيصة فأخبر أن عبد الله بن سهل قد قتل وطرح في عين فأتى يهود فقال: أنتم والله قتلتموه قالوا: والله ما قتلناه فأقبل هو وأخوه حويصة وعبد الرحمن بن سهل فذهب محيصة ليتكلم فقال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «‏‏‏‏كبر كبر» ‏‏‏‏ يريد السن فتكلم حويصة ثم تكلم محيصة فقال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «‏‏‏‏إما أن يدوا صاحبكم وإما أن يأذنوا بحرب» ‏‏‏‏ فكتب إليهم في ذلك فكتبوا: إنا والله ما قتلناه فقال لحويصة ومحيصة وعبد الرحمن بن سهل: «‏‏‏‏أتحلفون وتستحقون دم صاحبكم؟» ‏‏‏‏ قالوا: لا قال: «فيحلف لكم يهود؟» ‏‏‏‏ قالوا: ليسوا مسلمين،‏‏‏‏ فوداه رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم من عنده فبعث إليهم مائة ناقة قال سهل: فلقد ركضتني منها ناقة حمراء. متفق عليه.
سیدنا سہل بن ابی حثمہ نے اپنی قوم کے بڑے بزرگوں سے روایت بیان کی ہے کہ عبداللہ بن سہل اور محیصہ بن مسعود رضی اللہ عنہما اپنی تنگ دستی کی وجہ سے خیبر کی طرف نکلے۔ پس محیصہ نے آ کر اطلاع دی کہ عبداللہ بن سہل رضی اللہ عنہ کو قتل کر دیا گیا ہے۔ اور اسے ایک چشمہ میں پھینک دیا گیا ہے۔ محیصہ رضی اللہ عنہ یہود کے پاس آئے اور کہا کہ خدا کی قسم تم لوگوں نے اسے قتل کیا ہے۔ وہ بولے اللہ کی قسم ہم نے اسے قتل نہیں کیا۔ پھر محیصہ اور اس کا بھائی حویصہ اور عبدالرحمٰن بن سہل رضی اللہ عنہم تینوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عدالت میں پہنچے اور محیصہ نے گفتگو کرنی چاہی۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بڑے کو بات کرنے دو بڑے کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد تھی جو تم میں عمر میں بڑا ہے (اسے بات کرنی چاہیئے) چنانچہ حویصہ رضی اللہ عنہ نے بیان دیا پھر محیصہ بولا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ لوگ یا تو تمہارے صاحب و ساتھی کی دیت ادا کریں گے یا جنگ کے لیے تیار ہو جائیں۔ پھر اس سلسلہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو خط تحریر فرمایا جس کے جواب میں انہوں نے لکھا کہ اللہ کی قسم ہم نے اسے قتل نہیں کیا۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حویصہ، محیصہ اور عبدالرحمٰن بن سہل (رضی اللہ عنہم) سے فرمایا کیا تم لوگ قسم کھا کر اپنے صاحب کے خون کے حقدار بنو گے؟ انہوں نے جواب دیا۔ نہیں! پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت فرمایا کہ تم کو یہودی قسم دیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ وہ تو مسلمان نہیں ہیں (اس لئے ان کی قسم کا کوئی اعتبار نہیں) پس پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی دیت اپنے پاس (بیت المال) سے دی اور ان کو سو اونٹنیاں بھیج دیں۔ سہل رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ ان میں سے ایک سرخ رنگ کی اونٹنی نے مجھے لات ماری۔ (بخاری و مسلم) [بلوغ المرام/كتاب الجنايات/حدیث: 1020]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الأحكام، باب كتاب الحاكم إلي عماله والقاضي إلي أمنائه، حديث:7192، ومسلم، القسامة والمحاربين....، باب القسامة، حديث:1669.»

حدیث نمبر: 1021
وعن رجل من الأنصار: أن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم أقر القسامة على ما كانت عليه في الجاهلية وقضى بها رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم بين ناس من الأنصار في قتيل ادعوه على اليهود. رواه مسلم.
ایک انصاری صحابی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زمانہ جاہلیت کی قسامت کو برقرار رکھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا فیصلہ انصار کے کچھ لوگوں کے درمیان ایک مقتول کے حق میں دیا۔ جس کا دعویٰ یہودیوں پر کیا گیا تھا۔ (مسلم) [بلوغ المرام/كتاب الجنايات/حدیث: 1021]
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم، القسامة، حديث:1670.»

4. باب قتال أهل البغي
4. باغی لوگوں سے جنگ و قتال کرنا
حدیث نمبر: 1022
عن ابن عمر رضي الله عنهما قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «‏‏‏‏من حمل علينا السلاح فليس منا» ‏‏‏‏ متفق عليه.
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کسی نے ہمارے خلاف ہتھیار اٹھایا۔ اس کا ہم سے کوئی تعلق نہیں۔ (بخاری و مسلم) [بلوغ المرام/كتاب الجنايات/حدیث: 1022]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الديات، باب قول الله تعالي: " ومن أحياها"، حديث:6874، ومسلم، الإيمان، باب قول النبي صلي الله عليه وسلم من حمل علينا السلاح فليس منا، حديث:98.»


Previous    1    2    3    4    5    Next