الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن دارمي کل احادیث (3535)
حدیث نمبر سے تلاش:

سنن دارمي
من كتاب الرويا
کتاب خوابوں کے بیان میں
حدیث نمبر: 2193
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ هُوَ ابْنُ كَثِيرٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ مِمَّا يَقُولُ لِأَصْحَابِهِ: "مَنْ رَأَى مِنْكُمْ رُؤْيَا، فَلْيَقُصَّهَا عَلَيَّ فَأَعْبُرَهَا لَهُ". قَالَ: فَجَاءَ رَجُلٌ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، رَأَيْتُ ظُلَّةً بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ تَنْطِفُ عَسَلًا وَسَمْنًا، وَرَأَيْتُ سَبَبًا وَاصِلًا مِنْ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ، وَرَأَيْتُ أُنَاسًا يَتَكَفَّفُونَ مِنْهَا، فَمُسْتَكْثِرٌ وَمُسْتَقِلٌّ، فَأَخَذْتَ بِهِ فَعَلَوْتَ، فَأَعْلَاكَ اللَّهُ، ثُمَّ أَخَذَ بِهِ الَّذِي بَعْدَكَ فَعَلَا، فَأَعْلَاهُ اللَّهُ، ثُمَّ أَخَذَهُ الَّذِي بَعْدَهُ فَعَلَا، فَأَعْلَاهُ اللَّهُ، ثُمَّ أَخَذَهُ الَّذِي بَعْدَهُ فَقُطِعَ بِهِ، ثُمَّ وُصِلَ فَاتَّصَلَ. فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، ائْذَنْ لِي فَأَعْبُرَهَا، فَقَالَ: اعْبُرْهَا. وَكَانَ أَعْبَرَ النَّاسِ لِلرُّؤْيَا بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: أَمَّا الظُّلَّةُ فَالْإِسْلَامُ، وَأَمَّا الْعَسَلُ وَالسَّمْنُ فَالْقُرْآنُ: حَلَاوَةُ الْعَسَلِ وَلِينُ السَّمْنِ، وَأَمَّا الَّذِينَ يَتَكَفَّفُونَ مِنْهُ، فَمُسْتَكْثِرٌ وَمُسْتَقِلٌّ فَهُمْ حَمَلَةُ الْقُرْآنِ، وَأَمَّا السَّبَبُ الْوَاصِلُ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الأَرْضِ فَالْحَقُّ الَّذِي أَنْتَ عَلَيْهِ، تَأْخُذُ بِهِ فَيُعْليكَ اللهُ بِهِ، ثُمَّ يَأْخُذُ بِهِ رَجُلٌ مِنْ بَعْدِكَ فَيَعْلُو بِهِ، ثُمَّ يَأَخُذُ بِهِ رَجُلٌ آخَرُ فَيَعْلُو بِهِ، ثُمَّ يَأْخُذُ بِهِ رَجُلٌ آخَرُ فَيَنْقَطِعُ بِهِ، ثُمَّ يُوصَلُ لَهُ فَيَعْلُو بِهِ، فَأَخْبِرْني يَا رَسُولَ اللَّهِ بِأَبِي أَنْتَ أَصَبْتُ أَمْ أَخْطَأْتُ، فَقَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"أَصَبْتَ وَأَخْطَأْتَ". فَقَالَ: فَمَا الَّذِي أَصَبْتُ وَمَا الَّذِي أَخْطَأْتُ؟ فَأَبَى أَنْ يُخْبِرَهُ.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ سے فرماتے تھے: تم میں سے کسی نے خواب دیکھا ہو تو بتائے تاکہ میں اس کی تعبیر بتا دوں، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: چنانچہ ایک صحابی تشریف لائے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! میں نے زمین و آسمان کے بیچ ابر (بدلی) دیکھی جس سے شہد اور گھی ٹپک رہا ہے، اور دیکھتا ہوں کہ ایک رسی آسمان سے زمین تک لٹکی ہوئی ہے، میں نے کچھ لوگوں کو دیکھا وہ اس (گھی اور شہد) کو اپنے ہاتھوں میں لے رہے ہیں، کوئی زیادہ لے رہا ہے اور کوئی کم پا رہا ہے، دیکھا کہ آپ نے اس رسی کو پکڑا اور اوپر چڑھے، الله تعالیٰ نے آپ کو اوپر چڑھا دیا، پھر آپ کے بعد ایک اور شخص نے اس رسی کو پکڑا اور اوپر چڑھے، الله تعالیٰ نے انہیں بھی اوپر چڑھا دیا، پھر ان کے بعد ایک اور شخص نے اس رسی کو تھاما لیکن وہ رسی کٹ گئی پھر جڑ گئی اور وہ بھی اوپر چلے گئے۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! مجھے اجازت دیجئے میں اس خواب کی تعبیر بیان کروں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چلو بیان کرو، اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تعبیر الرویا کا سب سے زیادہ علم رکھتے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ اس سایہ یا ابر سے مراد اسلام ہے، اور ٹپکتا ہوا شہد و گھی قرآن پاک ہے جس میں شہد کی سی مٹھاس اور دودھ کی سی نرمی ہے، اور جو اس کو اپنے ہاتھوں میں لے رہے ہیں کسی کو زیادہ حصہ مل رہا ہے اور کسی کو کم سو یہ قرآن کے حاملین ہیں۔ ایک نسخہ میں یہ اضافہ ہے: رہی آسمان سے زمین تک لٹکی ہوئی رسی تو وہ سچائی و سرداری ہے جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم قائم ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے تھامے ہوئے ہیں اور اس کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تبارک سے جا ملیں گے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جو اس رسی کو تھامے گا وہ بھی اس کے ساتھ اللہ سے جا ملے گا۔ پھر ان کے بعد دوسرا آدمی اس کو پکڑے گا اور اللہ سے جا ملے گا، پھر اس کے بعد جو شخص اس کو تھامے گا وہ رسی اس سے ٹوٹ جائے گی، پھر اس کو جوڑ دیا جائے گا اور وہ اس کے ساتھ اللہ سے جا ملے گا۔ اے اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر قربان، بتایئے، میں نے صحیح کہا یا غلط؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے بعض حصے کی صحیح تعبیر بتائی اور بعض کی غلط، عرض کیا: پھر بتایئے، میں نے کہاں صحیح کہا ہے اور کیا غلط بیانی کی ہے؟ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتانے سے انکار کر دیا ہے۔ [سنن دارمي/من كتاب الرويا/حدیث: 2193]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2202] »
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 7046] ، [مسلم 2269] ، [أبوداؤد 3269] ، [ابن ماجه 3918] ، [أبويعلی 2565] ، [ابن حبان 1111] ، [الحميدي 546]

حدیث نمبر: 2194
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مِهْرَانَ، حَدَّثَنَا مِسْكِينٌ الْحَرَّانِيُّ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ بُرْقَانَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ الْأَصَمِّ، عَنْ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، فَقَالَ: رَأَيْتُ فِي الْمَنَامِ كَأَنَّ شَمْسًا أَوْ قَمَرًا شَكَّ أَبُو جَعْفَرٍ فِي الْأَرْضِ تُرْفَعُ إِلَى السَّمَاءِ بِأَشْطَانٍ شِدَادٍ، فَذَكَرَ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: "ذَاكَ وَفَاةُ ابْنُ أَخِيكَ يَعْنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَفْسَهُ".
سیدنا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک سورج یا چاند زمین سے اٹھا کر آسمان پر لے جایا جا رہا ہے، انہوں نے یہ خواب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تعبیر بتائی کہ اس سے آپ کے بھتیجے یعنی خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات مراد ہے۔ [سنن دارمي/من كتاب الرويا/حدیث: 2194]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2203] »
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [كشف الاستار للبزار 844] و [مجمع الزوائد 23/9-24]

حدیث نمبر: 2195
أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ بَرِيدَ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى، عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "رَأَيْتُ فِي رُؤْيَايَ هَذِهِ أَنِّي هَزَزْتُ سَيْفًا فَانْقَطَعَ صَدْرُهُ، فَإِذَا هُوَ مَا أُصِيبَ مِنْ الْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ أُحُدٍ، ثُمَّ هَزَزْتُهُ أُخْرَى فَعَادَ كَأَحْسَنِ مَا كَانَ، فَإِذَا هُوَ مَا جَاءَ اللَّهُ بِهِ مِنْ الْفَتْحِ وَاجْتِمَاعِ الْمُؤْمِنِينَ، وَرَأَيْتُ فِيهَا أَيْضًا بَقَرًا وَاللَّهِ خَيْرٌ، فَإِذَا هُوَ النَّفَرُ مِنْ الْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ أُحُدٍ، وَإِذَا الْخَيْرُ مَا جَاءَ اللَّهُ بِهِ مِنْ الْخَيْرِ، وَثَوَابِ الصِّدْقِ الَّذِي آتَانَا بَعْدَ يَوْمِ بَدْرٍ".
سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے اپنے اس خواب کو دیکھا کہ میں نے تلوار ہلائی تو وہ بیچ میں سے ٹوٹ گئی، یہ اس مصیبت کی طرف اشارہ تھا جو احد کی لڑائی میں مسلمانوں کو اٹھانی پڑی تھی، پھر میں نے دوسری مرتبہ اس تلوار کو ہلایا تو وہ پہلے سے بھی زیادہ اچھی صورت میں ہو گئی، یہ اس واقعہ کی طرف اشارہ تھا کہ الله تعالیٰ نے پھر سے فتح دی اور مسلمان سب اکٹھے ہو گئے، میں نے اسی خواب میں گائیں دیکھیں اور قسم اللہ کی! اللہ تعالیٰ کا ہر کام بہتر ہے۔ ان گایوں سے مسلمانوں کی اس جماعت کی طرف اشارہ تھا جو احد کی لڑائی میں شہید کئے گئے تھے اور خیر و بھلائی وہ تھی جو ہمیں الله تعالیٰ سے سچائی کا بدلہ بدر کی لڑائی کے بعد عطا فرمایا تھا۔ [سنن دارمي/من كتاب الرويا/حدیث: 2195]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2204] »
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 3622] ، [مسلم 2272] ، [ابن ماجه 3921] ، [أبويعلی 7298] ، [ابن حبان 6275]

حدیث نمبر: 2196
أَخْبَرَنَا الْحَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "رَأَيْتُ كَأَنِّي فِي دِرْعٍ حَصِينَةٍ، وَرَأَيْتُ بَقَرًا يُنْحَرُ، فَأَوَّلْتُ أَنَّ الدِّرْعَ الْمَدِينَةُ، وَأَنَّ الْبَقَرَ نَفَرٌ، وَاللَّهِ خَيْرٌ، وَلَوْ أَقَمْنَا بِالْمَدِينَةِ، فَإِنْ دَخَلُوا عَلَيْنَا، قَاتَلْنَاهُمْ". فَقَالُوا: وَاللَّهِ مَا دُخِلَتْ عَلَيْنَا فِي الْجَاهِلِيَّةِ أَفَتُدْخَلُ عَلَيْنَا فِي الْإِسْلَامِ؟ قَالَ:"فَشَأْنَكُمْ إِذًا". وَقَالَتْ الْأَنْصَارُ بَعْضُهَا لِبَعْضٍ: رَدَدْنَا عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأْيَهُ، فَجَاؤُوا، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ شَأْنُكَ، فَقَالَ:"الْآنَ؟ إِنَّهُ لَيْسَ لِنَبِيٍّ إِذَا لَبِسَ لَأْمَتَهُ أَنْ يَضَعَهَا حَتَّى يُقَاتِلَ".
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے خواب میں دیکھا کہ میں محفوظ درع میں ہوں اور میں نے دیکھا کہ گائے ذبح کی جا رہی ہے، جس کی تعبیر یہ سمجھ میں آئی کہ وہ درع مدینہ ہے اور گائے مسلمانوں کی ایک جماعت ہے جو شہید ہو گئی اور الله تعالیٰ کا ہر کام بہتر ہے۔ اور (میری رائے یہ تھی) کہ اگر ہم مدینہ ہی میں قیام کرتے جب مشرکین ہم پر حملہ کرتے تو ہم انہیں مار بھگاتے۔ انصار نے کہا: اللہ کی قسم دور جاہلیت میں وہ ہمارے شہر میں نہ گھس سکے تو کیا اب (ہمارے) اسلام لانے کے بعد وہ ہمارے محلوں میں گھس پائیں گے۔ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر جیسی تمہاری رائے ہو، چنانچہ انصار کے لوگوں نے مشورہ کیا اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رائے پر ہی عمل کرنا چاہیے، اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ جیسا مناسب سمجھیں کیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اب یہ کہتے ہو۔ (اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم جنگی لباس زیب تن کر چکے تھے اس لئے) فرمایا: کسی بھی نبی کو یہ زیب نہیں دیتا کہ جب اپنا جنگی لباس پہن لے تو پھر بنا جہاد کئے اسے اتار دے۔ [سنن دارمي/من كتاب الرويا/حدیث: 2196]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح على شرط مسلم، [مكتبه الشامله نمبر: 2205] »
اس روایت کی سند صحیح على شرط مسلم ہے۔ دیکھئے: [أحمد 351/3] ، [نسائي فى الكبرىٰ 7647]

حدیث نمبر: 2197
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الرَّقَاشِيُّ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،، أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ: "أَكْرَهُ الْغُلَّ، وَأُحِبُّ الْقَيْدَ، الْقَيْدُ ثَبَاتٌ فِي الدِّينِ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: میں گلے میں زنجیر و طوق کو (خواب میں دیکھا جانا) برا جانتا ہوں، اور پاؤں میں بیڑی (زنجیر) کا دیکھا جانا پسند کرتا ہوں کیونکہ اس سے مراد آدمی کا دین پر قائم اور مضبوطی سے ثابت قدم رہنا مراد ہے۔ [سنن دارمي/من كتاب الرويا/حدیث: 2197]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2206] »
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 7017] ، [مسلم 2263] ، [ابن ماجه 3926] ، [ابن حبان 6040] ۔ نیز دیکھئے: [الفصل و الوصل للخطيب 211/1]

حدیث نمبر: 2198
أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْهَاشِمِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: "رَأَيْتُ فِي الْمَنَامِ امْرَأَةً سَوْدَاءَ ثَائِرَةَ الشَّعْرِ تَفِلَةً، أُخْرِجَتْ مِنْ الْمَدِينَةِ فَأُسْكِنَتْ مَهْيَعَةَ، فَأَوَّلْتُهَا وَبَاءَ الْمَدِينَةِ يَنْقُلُهَا اللَّهُ إِلَى مَهْيَعَةَ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: میں نے خواب میں ایک کالی پراگنده بال والی عورت کو دیکھا، وہ مدینہ (منورہ) سے نکلی اور مہیعہ میں جا ٹھہری، میں نے اس کی تعبیر یہ لی کہ مدینہ کی وبا مہیعہ نامی بستی میں منتقل ہو گئی۔ [سنن دارمي/من كتاب الرويا/حدیث: 2198]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2207] »
یہ حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 7038] ، [ترمذي 229] ، [ابن ماجه 3924] ، [أحمد 137/2] ، [مجمع الزوائد 5887]

حدیث نمبر: 2199
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، حَدَّثَنَا عَبِيدَةُ بْنُ الْأَسْوَدِ، عَنْ مُجَالِدٍ، عَنْ عَامِرٍ، عَنْ جَابِرٍ، عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ يَوْمًا مِنْ الْأَيَّامِ: "رَأَيْتُ فِي الْمَنَامِ أَنَّ رَجُلًا أَتَانِي بِكُتْلَةٍ مِنْ تَمْرٍ فَأَكَلْتُهَا، فَوَجَدْتُ فِيهَا نَوَاةً، فَآذَتْنِي حِينَ مَضَغْتُهَا، ثُمَّ أَعْطَانِي كُتْلَةً أُخْرَى، فَقُلْتُ: إِنَّ الَّذِي أَعْطَيْتَنِي وَجَدْتُ فِيهَا نَوَاةً آذَتْنِي فَأَكَلْتُهَا". فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: نَامَتْ عَيْنُكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَذِهِ السَّرِيَّةُ الَّتِي بَعَثْتَ بِهَا، غَنِمُوا مَرَّتَيْنِ كِلْتَاهُمَا وَجَدُوا رَجُلًا يَنْشُدُ ذِمَّتَكَ. فَقُلْتُ لِمُجَالِدٍ: مَا يَنْشُدُ ذِمَّتَكَ؟ قَالَ: يَقُولُ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ.
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن فرمایا: میں نے خواب میں دیکھا ایک آدمی کھجور کا ایک گچھا لے کر میرے پاس آیا، میں نے اسے کھا لیا لیکن اس میں ایک گٹھلی ایسی تھی جس کو میں نے چبایا تو اس سے مجھے تکلیف ہوئی، پھر اس شخص نے مجھے ایک اور گچھا دیا تو میں نے کہا: تم نے مجھے پہلے جو گچھا دیا اس میں ایک گٹھلی ایسی تھی جس کو میں نے کھایا تو اس نے مجھے اذیت دی، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! اللہ تعالیٰ آپ کو آرام دے، اس سے مراد وہ لشکر ہے جو آپ نے (دشمن کی سرکوبی کے لئے) روانہ کیا، ان کو دو مرتبہ مال غنیمت حاصل ہو گا (اور وہ کامیاب ہوں گے)، ہر بار ان کو ایک ایسے آدمی سے واسطہ پڑے گا جو آپ سے ذمہ طلب کر رہا ہو گا۔ راوی نے کہا: میں نے مجالد سے پوچھا: کیسا ذمہ طلب کرے گا؟ بتایا کہ: لا الہ الا اللہ کہہ رہا ہو گا۔ (تاکہ اس کو قتل نہ کیا جائے)۔ [سنن دارمي/من كتاب الرويا/حدیث: 2199]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف لضعف مجالد بن سعيد، [مكتبه الشامله نمبر: 2208] »
اس روایت کی سند مجالد بن سعید کی وجہ سے ضعیف ہے۔ دیکھئے: [مسند أحمد 399/3]

حدیث نمبر: 2200
أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ بْنُ يَعِيشَ، حَدَّثَنَا يُونُسُ هُوَ ابْنُ بُكَيْرٍ، أَخْبَرَنَا ابْنُ إِسْحَاق، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: كَانَتْ امْرَأَةٌ مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ لَهَا زَوْجٌ تَاجِرٌ يَخْتَلِفُ، فَكَانَتْ تَرَى رُؤْيَا كُلَّمَا غَابَ عَنْهَا زَوْجُهَا، وَقَلَّمَا يَغِيبُ إِلَّا تَرَكَهَا حَامِلًا، فَتَأْتِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَتَقُولُ: إِنَّ زَوْجِي خَرَجَ تَاجِرًا فَتَرَكَنِي حَامِلًا، فَرَأَيْتُ فِيمَا يَرَى النَّائِمُ: أَنَّ سَارِيَةَ بَيْتِي انْكَسَرَتْ، وَأَنِّي وَلَدْتُ غُلَامًا أَعْوَرَ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"خَيْرٌ، يَرْجِعُ زَوْجُكِ عَلَيْكِ إِنْ شَاءَ اللَّهُ تَعَالَى صَالِحًا، وَتَلِدِينَ غُلَامًا بَرًّا". فَكَانَتْ تَرَاهَا مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا، كُلُّ ذَلِكَ تَأْتِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَيَقُولُ ذَلِكَ لَهَا فَيَرْجِعُ زَوْجُهَا، وَتَلِدُ غُلَامًا، فَجَاءَتْ يَوْمًا كَمَا كَانَتْ تَأْتِيهِ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَائِبٌ، وَقَدْ رَأَتْ تِلْكَ الرُّؤْيَا، فَقُلْتُ لَهَا: عَمَّ تَسْأَلِينَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا أَمَةَ اللَّهِ؟ فَقَالَتْ: رُؤْيَا كُنْتُ أُرَاهَا، فَآتِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَسْأَلُهُ عَنْهَا فَيَقُولُ خَيْرًا، فَيَكُونُ كَمَا قَالَ. فَقُلْتُ: فَأَخْبِرِينِي مَا هِيَ. قَالَتْ: حَتَّى يَأْتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَعْرِضَهَا عَلَيْهِ كَمَا كُنْتُ أَعْرِضُ. فَوَاللَّهِ مَا تَرَكْتُهَا حَتَّى أَخْبَرَتْنِي، فَقُلْتُ: وَاللَّهِ لَئِنْ صَدَقَتْ رُؤْيَاكِ، لَيَمُوتَنَّ زَوْجُكِ وَتَلِدِينَ غُلَامًا فَاجِرًا، فَقَعَدَتْ تَبْكِي، وَقَالَتْ مَا لِي حِينَ عَرَضْتُ عَلَيْكِ رُؤْيَايَ؟ فَدَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهِيَ تَبْكِي، فَقَالَ لَهَا: مَا لَهَا يَا عَائِشَةُ؟ فَأَخْبَرْتُهُ الْخَبَرَ وَمَا تَأَوَّلْتُ لَهَا. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"مَهْ يَا عَائِشَةُ، إِذَا عَبَرْتُمْ لِلْمُسْلِمِ الرُّؤْيَا، فَاعْبُرُوهَا عَلَى الْخَيْرِ، فَإِنَّ الرُّؤْيَا تَكُونُ عَلَى مَا يَعْبُرُهَا صَاحِبُهَا". فَمَاتَ وَاللَّهِ زَوْجُهَا، وَلَا أُرَاهَا إِلَّا وَلَدَتْ غُلَامًا فَاجِرًا.
ام المومنین زوجہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: مدینے کی ایک عورت تھی جس کا شوہر تاجر تھا اور سفر پر آیا جایا کرتا تھا، اور جب بھی اس کا شوہر سفر پر جاتا وہ خواب دیکھتی اور بہت کم ایسا ہوتا کہ وہ سفر پر جائے اور اس کی بیوی حاملہ نہ ہو، وہ عورت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتی اور عرض کرتی: میرا شوہر تجارت کے لئے نکلا ہے اس حال میں کہ میں حاملہ ہوں اور میں نے خواب دیکھنے والے کی طرح خواب دیکھا ہے کہ میرے گھر کا ایک ستون ٹوٹ گیا اور میں نے کانا بچہ جنا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تعبیر بتائی کہ بہت اچھا ہے، تمہارا شوہر ان شاء الله صحیح سالم تمہارے پاس لوٹ آئے گا اور تم ایسے بچے کو جنم دو گی جو بہت نیک ہو گا۔ اس نے کئی بار یہ خواب دیکھا، ہر بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو یہی تعبیر بتاتے اور (اللہ کے حکم سے) اس کا شوہر واپس آتا اور وہ لڑکا جنتی، ایک دن وہ عورت اسی طرح حاضر ہوئی جیسے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا کرتی تھی، اس وقت رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم موجود نہ تھے اور اس نے ویسا ہی خواب دیکھا تھا، میں نے اس سے کہا: اے اللہ کی بندی! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا پوچھنا چاہتی ہو؟ کہا: میں خواب دیکھتی تھی اور آ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی تعبیر پوچھتی تھی۔ آپ فرماتے خیر ہے اور جیسی آپ تعبیر بتاتے ویسا ہی ہوتا، میں نے کہا: تو وہ خواب مجھے بھی سناؤ، اس نے کہا: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئیں گے تب ہی سناؤں گی جس طرح پہلے عرض کرتی تھی، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: میں نے اس کا پیچھا نہیں چھوڑا یہاں تک کہ وہ اپنا خواب بتانے پر آمادہ ہو گئی (اور مجھے اپنا خواب بتا دیا) میں نے کہا: اگر تمہارا خواب سچا ہے تو تمہارا شوہر مر جائے گا اور فاسق و فاجر بچے کو تم جنم دو گی، وہ عورت بیٹھ کر رونے اور کہنے لگی: میں نے تم کو کیوں اپنا خواب بتا دیا؟ اسی اثنا میں جب وہ رو رہی تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے اور فرمایا: اے عائشہ! اس عورت کو کیا ہوا، کیوں روتی ہے؟ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سارا ماجرا کہہ سنایا اور جو تعبیر بتائی وہ بھی بتا دی، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سنو اے عائشہ! جب تم کسی مسلمان کے خواب کی تعبیر بیان کرو تو اچھی بات بتاؤ کیونکہ معبر خواب کی جس طرح تعبیر بتاتا ہے وہ ویسے ہی واقع ہو جاتا ہے، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: قسم اللہ کی اس کا شوہر مر گیا اور میں سمجھتی ہوں اس نے فاسق و فاجر کو جنم دیا ہو گا۔ [سنن دارمي/من كتاب الرويا/حدیث: 2200]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده رجاله ثقات غير أن ابن إسحاق قد عنعن ومع ذلك فقد قال الحافظ في الفتح إسناده حسن (قلت: وكذا قال الأرناؤوطان في تحقيق زاد المعاد: إسناده حسن)، [مكتبه الشامله نمبر: 2209] »
اس روایت کے رواۃ ثقہ ہیں صرف ابن اسحاق کا عنعنہ اس روایت کی علت ہے، اس کو صرف امام دارمی رحمہ اللہ نے ہی روایت کیا ہے اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے [فتح الباري 432/12] میں ان سے یہ واقعہ نقل کیا ہے۔


Previous    1    2    3