الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ابن ماجه کل احادیث (4341)
حدیث نمبر سے تلاش:

سنن ابن ماجه
كتاب تعبير الرؤيا
کتاب: خواب کی تعبیر سے متعلق احکام و مسائل
حدیث نمبر: 3913
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ , أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ , عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ , عَنْ جَابِرٍ , عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ:" إِذَا حَلَمَ أَحَدُكُمْ , فَلَا يُخْبِرِ النَّاسَ بِتَلَعُّبِ الشَّيْطَانِ بِهِ فِي الْمَنَامِ".
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی شخص شیطانی خواب دیکھے تو کسی سے اپنے ساتھ شیطان کے اس کھلواڑ کو بیان نہ کرے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب تعبير الرؤيا/حدیث: 3913]
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الرؤیا 2 (2268)، (تحفة الأشراف: 2915)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/350) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

6. بَابُ: الرُّؤْيَا إِذَا عُبِرَتْ وَقَعَتْ فَلاَ يَقُصُّهَا إِلاَّ عَلَى وَادٍّ
6. باب: جب خواب کی تعبیر بیان کر دی جائے تو اسی طرح واقع ہو جاتی ہے اس لیے۔
حدیث نمبر: 3914
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ , حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ , عَنْ يَعْلَى بْنِ عَطَاءٍ , عَنْ وَكِيعِ بْنِ عُدُسٍ الْعُقَيْلِيِّ , عَنْ عَمِّهِ أَبِي رَزِينٍ , أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ:" الرُّؤْيَا عَلَى رِجْلِ طَائِرٍ مَا لَمْ تُعْبَرْ , فَإِذَا عُبِرَتْ وَقَعَتْ" , قَالَ:" وَالرُّؤْيَا جُزْءٌ مِنْ سِتَّةٍ وَأَرْبَعِينَ جُزْءًا مِنَ النُّبُوَّةِ" , قَالَ: وَأَحْسِبُهُ قَالَ:" لَا يَقُصُّهَا إِلَّا عَلَى وَادٍّ أَوْ ذِي رَأْيٍ".
ابورزین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: خواب کی جب تک تعبیر نہ بیان کی جائے وہ ایک پرندہ کے پیر پر ہوتا ہے، پھر جب تعبیر بیان کر دی جاتی ہے تو وہ واقع ہو جاتا ہے ۱؎، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا: خواب نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہے، اور میں سمجھتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا: تم خواب کو صرف اسی شخص سے بیان کرو جس سے تمہاری محبت و دوستی ہو، یا وہ صاحب عقل ہو ۲؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب تعبير الرؤيا/حدیث: 3914]
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الأدب 96 (5020)، سنن الترمذی/الرؤیا 6 (2278، 2279)، (تحفة الأشراف: 11174)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/10، 11، 12، 13)، سنن الدارمی/الرؤیا 11 (2194) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

7. بَابُ: عَلاَمَ تُعْبَرُ بِهِ الرُّؤْيَا
7. باب: خواب کی تعبیر کس طرح بیان کی جائے؟
حدیث نمبر: 3915
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ , حَدَّثَنَا أَبِي , حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ , عَنْ يَزِيدَ الرَّقَاشِيِّ , عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اعْتَبِرُوهَا بِأَسْمَائِهَا , وَكَنُّوهَا بِكُنَاهَا , وَالرُّؤْيَا لِأَوَّلِ عَابِرٍ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم خواب کی تعبیر اس کے نام اور کنیت کی روشنی میں بتایا کرو، اور اس کی تعبیر سب سے پہلے بتانے والے کے مطابق ہوتی ہے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب تعبير الرؤيا/حدیث: 3915]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 1688، ومصباح الزجاجة: 1370) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (سند میں یزید بن ابان الرقاشی ضعیف ہیں، لیکن «والرؤيا لأول عابر» کا صحیح شاہد موجود ہے)

قال الشيخ الألباني: ضعيف

8. بَابُ: مَنْ تَحَلَّمَ حُلُمًا كَاذَبًا
8. باب: جھوٹا خواب بیان کرنے والے کا حکم۔
حدیث نمبر: 3916
حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ هِلَالٍ الصَّوَّافُ , حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ , عَنْ أَيُّوبَ , عَنْ عِكْرِمَةَ , عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ تَحَلَّمَ حُلُمًا كَاذِبًا , كُلِّفَ أَنْ يَعْقِدَ بَيْنَ شَعِيرَتَيْنِ , وَيُعَذَّبُ عَلَى ذَلِكَ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص جھوٹا خواب بیان کرے گا وہ اس بات کا مکلف کیا جائے گا کہ جو کے دو دانوں کے درمیان گرہ لگائے اور اس پر وہ عذاب دیا جائے گا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب تعبير الرؤيا/حدیث: 3916]
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/التعبیر 45 (7042)، سنن ابی داود/الأدب 96 (5024)، سنن الترمذی/الرؤیا 8 (2283)، سنن النسائی/الزینة من المجتبیٰ 59 (5361)، (تحفة الأشراف: 5986) وقد أخرجہ: مسند احمد (1/216، 241، 246، 350، 359، 360) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

9. بَابُ: أَصْدَقُ النَّاسِ رُؤْيَا أَصْدَقُهُمْ حَدِيثًا
9. باب: جو شخص جتنا ہی زیادہ سچا ہو گا اسی قدر اس کا خواب بھی سچا ہو گا۔
حدیث نمبر: 3917
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ الْمِصْرِيُّ , حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ بَكْرٍ , حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ , عَنْ ابْنِ سِيرِينَ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا قَرُبَ الزَّمَانُ لَمْ تَكَدْ رُؤْيَا الْمُؤْمِنِ تَكْذِبُ , وَأَصْدَقُهُمْ رُؤْيَا أَصْدَقُهُمْ حَدِيثًا , وَرُؤْيَا الْمُؤْمِنِ جُزْءٌ مِنْ سِتَّةٍ وَأَرْبَعِينَ جُزْءًا مِنَ النُّبُوَّةِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب قیامت قریب آ جائے گی تو مومن کے خواب کم ہی جھوٹے ہوں گے، اور جو شخص جتنا ہی بات میں سچا ہو گا اتنا ہی اس کا خواب سچا ہو گا، کیونکہ مومن کا خواب نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب تعبير الرؤيا/حدیث: 3917]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 14478) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

10. بَابُ: تَعْبِيرِ الرُّؤْيَا
10. باب: خواب کی تعبیر کا بیان۔
حدیث نمبر: 3918
حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ حُمَيْدِ بْنِ كَاسِبٍ الْمَدَنِيُّ , حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ , عَنْ الزُّهْرِيِّ , عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ , عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ , قَالَ: أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ مُنْصَرَفَهُ مِنْ أُحُدٍ , فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِنِّي رَأَيْتُ فِي الْمَنَامِ ظُلَّةً تَنْطُفُ سَمْنًا وَعَسَلًا , وَرَأَيْتُ النَّاسَ يَتَكَفَّفُونَ مِنْهَا , فَالْمُسْتَكْثِرُ وَالْمُسْتَقِلُّ , وَرَأَيْتُ سَبَبًا وَاصِلًا إِلَى السَّمَاءِ , رَأَيْتُكَ أَخَذْتَ بِهِ , فَعَلَوْتَ بِهِ , ثُمَّ أَخَذَ بِهِ رَجُلٌ بَعْدَكَ , فَعَلَا بِهِ , ثُمَّ أَخَذَ بِهِ رَجُلٌ بَعْدَهُ , فَعَلَا بِهِ , ثُمَّ أَخَذَ بِهِ رَجُلٌ بَعْدَهُ , فَانْقَطَعَ بِهِ , ثُمَّ وُصِلَ لَهُ فَعَلَا بِهِ , فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: دَعْنِي أَعْبُرُهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ , قَالَ:" اعْبُرْهَا" , قَالَ: أَمَّا الظُّلَّةُ فَالْإِسْلَامُ , وَأَمَّا مَا يَنْطُفُ مِنْهَا مِنَ الْعَسَلِ وَالسَّمْنِ , فَهُوَ الْقُرْآنُ حَلَاوَتُهُ وَلِينُهُ , وَأَمَّا مَا يَتَكَفَّفُ مِنْهُ النَّاسُ , فَالْآخِذُ مِنَ الْقُرْآنِ كَثِيرًا وَقَلِيلًا , وَأَمَّا السَّبَبُ الْوَاصِلُ إِلَى السَّمَاءِ , فَمَا أَنْتَ عَلَيْهِ مِنَ الْحَقِّ , أَخَذْتَ بِهِ فَعَلَا بِكَ , ثُمَّ يَأْخُذُهُ رَجُلٌ مِنْ بَعْدِكَ فَيَعْلُو بِهِ , ثُمَّ آخَرُ فَيَعْلُو بِهِ , ثُمَّ آخَرُ فَيَنْقَطِعُ بِهِ , ثُمَّ يُوَصَّلُ لَهُ فَيَعْلُو بِهِ , قَالَ:" أَصَبْتَ بَعْضًا وَأَخْطَأْتَ بَعْضًا" , قَالَ أَبُو بَكْرٍ: أَقْسَمْتُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ لَتُخْبِرَنِّي بِالَّذِي أَصَبْتُ مِنَ الَّذِي أَخْطَأْتُ , فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا تُقْسِمْ يَا أَبَا بَكْرٍ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک شخص آیا، اس وقت آپ جنگ احد سے واپس تشریف لائے تھے، اس نے آپ سے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے خواب میں بادل کا ایک سایہ (ٹکڑا) دیکھا جس سے گھی اور شہد ٹپک رہا تھا، اور میں نے لوگوں کو دیکھا کہ اس میں سے ہتھیلی بھربھر کر لے رہے ہیں، کسی نے زیادہ لیا، کسی نے کم، اور میں نے دیکھا کہ ایک رسی آسمان تک تنی ہوئی ہے، میں نے آپ کو دیکھا کہ آپ نے وہ رسی پکڑی اور اوپر چڑھ گئے، آپ کے بعد ایک اور شخص نے پکڑی اور وہ بھی اوپر چڑھ گیا، اس کے بعد ایک اور شخص نے پکڑی تو وہ بھی اوپر چڑھ گیا، پھر اس کے بعد ایک اور شخص نے پکڑی تو رسی ٹوٹ گئی، لیکن وہ پھر جوڑ دی گئی، اور وہ بھی اوپر چڑھ گیا، یہ سن کر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اس خواب کی تعبیر مجھے بتانے دیجئیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اس کی تعبیر بیان کرو، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ وہ بادل کا ٹکڑا دین اسلام ہے، شہد اور گھی جو اس سے ٹپک رہا ہے اس سے مراد قرآن، اور اس کی حلاوت (شیرینی) اور لطافت ہے، اور لوگ جو اس سے ہتھیلی بھربھر کر لے رہے ہیں اس سے مراد قرآن حاصل کرنے والے ہیں، کوئی زیادہ حاصل کر رہا ہے کوئی کم، اور وہ رسی جو آسمان تک گئی ہے اس سے وہ حق (نبوت یا خلافت) کی رسی مراد ہے جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، اور جو آپ نے پکڑی اور اوپر چلے گئے (یعنی اس حالت میں آپ نے وفات پائی)، پھر اس کے بعد دوسرے نے پکڑی اور وہ بھی اوپر چڑھ گیا، پھر تیسرے نے پکڑی وہ بھی اوپر چڑھ گیا، پھر چوتھے نے پکڑی تو حق کی رسی کمزور ہو کر ٹوٹ گئی، لیکن اس کے بعد اس کے لیے وہ جوڑی جاتی ہے تو وہ اس کے ذریعے اوپر چڑھ جاتا ہے، یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے کچھ تعبیر صحیح بتائی اور کچھ غلط، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں آپ کو قسم دلاتا ہوں، آپ ضرور بتائیے کہ میں نے کیا صحیح کہا، اور کیا غلط؟ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابوبکر! قسم نہ دلاؤ۔ [سنن ابن ماجه/كتاب تعبير الرؤيا/حدیث: 3918]
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/التعبیر 47 (7046)، صحیح مسلم/الرؤیا 3 (2269)، سنن ابی داود/الأیمان والنذور 13 (3267، 3269)، السنة 9 (4632، 4633)، سنن الترمذی/الرؤیا10 (2287)، (تحفة الأشراف: 5838)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/219)، سنن الدارمی/الرؤیا 13 (2202) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 3918M
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى , حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ , أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ , عَنْ الزُّهْرِيِّ , عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ , عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ , قَالَ: كَانَ أَبُو هُرَيْرَةَ يُحَدِّثُ , أَنَّ رَجُلًا أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , رَأَيْتُ ظُلَّةً بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ تَنْطِفُ سَمْنًا وَعَسَلًا , فَذَكَرَ الْحَدِيثَ نَحْوَهُ.
اس سند سے بھی ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے تھے کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے آسمان اور زمین کے درمیان ایک سایہ (بادل کا ایک ٹکڑا) دیکھا، جس سے شہد اور گھی ٹپک رہا تھا، پھر راوی نے باقی حدیث اسی طرح ذکر کی۔ [سنن ابن ماجه/كتاب تعبير الرؤيا/حدیث: 3918M]
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الأیمان والنذور 13 (3268، 4632)، سنن الترمذی/الرؤیا 9 (2293)، (تحفة الأشراف: 13575)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/التعبیر 47 (7046)، صحیح مسلم/الرؤیا 3 (2269)، سنن الدارمی/الرؤیا 13 (2202)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 3919
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ الْحِزَامِيُّ , حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ الصَّنْعَانِيُّ , عَنْ مَعْمَرٍ , عَنْ الزُّهْرِيِّ , عَنْ سَالِمٍ , عَنْ ابْنِ عُمَرَ , قَالَ: كُنْتُ غُلَامًا شَابًّا عَزَبًا , فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَكُنْتُ أَبِيتُ فِي الْمَسْجِدِ , فَكَانَ مَنْ رَأَى مِنَّا رُؤْيَا يَقُصُّهَا عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقُلْتُ: اللَّهُمَّ إِنْ كَانَ لِي عِنْدَكَ خَيْرٌ فَأَرِنِي رُؤْيَا يُعَبِّرُهَا لِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَنِمْتُ فَرَأَيْتُ مَلَكَيْنِ أَتَيَانِي فَانْطَلَقَا بِي , فَلَقِيَهُمَا مَلَكٌ آخَرُ , فَقَالَ: لَمْ تُرَعْ , فَانْطَلَقَا بِي إِلَى النَّارِ , فَإِذَا هِيَ مَطْوِيَّةٌ كَطَيِّ الْبِئْرِ , وَإِذَا فِيهَا نَاسٌ قَدْ عَرَفْتُ بَعْضَهُمْ , فَأَخَذُوا بِي ذَاتَ الْيَمِينِ , فَلَمَّا أَصْبَحْتُ ذَكَرْتُ ذَلِكَ لِحَفْصَةَ , فَزَعَمَتْ حَفْصَةُ أَنَّهَا قَصَّتْهَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَ:" إِنَّ عَبْدَ اللَّهِ رَجُلٌ صَالِحٌ , لَوْ كَانَ يُكْثِرُ الصَّلَاةَ مِنَ اللَّيْلِ" , قَالَ: فَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ يُكْثِرُ الصَّلَاةَ مِنَ اللَّيْلِ.
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک نوجوان غیر شادی شدہ لڑکا تھا، اور رات میں مسجد میں سویا کرتا تھا، اور ہم میں سے جو شخص بھی خواب دیکھتا وہ اس کی تعبیر آپ سے پوچھا کرتا، میں نے (ایک دن دل میں) کہا: اے اللہ! اگر میرے لیے تیرے پاس خیر ہے تو مجھے بھی ایک خواب دکھا جس کی تعبیر میرے لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بیان فرما دیں، پھر میں سویا تو میں نے دو فرشتوں کو دیکھا کہ وہ میرے پاس آئے، اور مجھے لے کر چلے، (راستے میں) ان دونوں کو ایک اور فرشتہ ملا اور اس نے کہا: تم خوفزدہ نہ ہو، بالآخر وہ دونوں فرشتے مجھ کو جہنم کی طرف لے گئے، میں نے اسے ایک کنویں کی طرح گھرا ہوا پایا، (اور میں نے اس میں اوپر نیچے بہت سے درجے دیکھے) اور مجھے بہت سے جانے پہچانے لوگ بھی نظر آئے، اس کے بعد وہ فرشتے مجھے دائیں طرف لے کر چلے، پھر صبح ہوئی تو میں نے یہ خواب حفصہ رضی اللہ عنہا سے بیان کیا، حفصہ رضی اللہ عنہا کا کہنا ہے کہ انہوں نے یہ خواب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عبداللہ ایک نیک آدمی ہے، اگر وہ رات کو نماز زیادہ پڑھا کرے۔ راوی کہتے ہیں اس کے بعد عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما رات کو نماز زیادہ پڑھنے لگے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب تعبير الرؤيا/حدیث: 3919]
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الصلاة 58 (440)، فضائل الصحابة 19 (3738، 3739)، التعبیر 35 (7028)، صحیح مسلم/فضائل الصحابة 31 (2479)، (تحفة الأشراف: 15805)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الصلاة 123 (321)، سنن النسائی/المساجد 29 (723)، مسند احمد (2/146)، سنن الدارمی/الرؤیا 13 (2198) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 3920
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ , حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَى الْأَشْيَبُ , حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ , عَنْ عَاصِمِ بْنِ بَهْدَلَةَ , عَنْ الْمُسَيَّبِ بْنِ رَافِعٍ , عَنْ خَرَشَةَ بْنِ الْحُرِّ , قَالَ: قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ , فَجَلَسْتُ إِلَى أشِيَخَةٍ فِي مَسْجِدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَجَاءَ شَيْخٌ يَتَوَكَّأُ عَلَى عَصًا لَهُ , فَقَالَ الْقَوْمُ: مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَنْظُرَ إِلَى رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَلْيَنْظُرْ إِلَى هَذَا , فَقَامَ خَلْفَ سَارِيَةٍ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ , فَقُمْتُ إِلَيْهِ فَقُلْتُ لَهُ: قَالَ بَعْضُ الْقَوْمِ: كَذَا وَكَذَا , قَالَ: الْحَمْدُ لِلَّهِ , الْجَنَّةُ لِلَّهِ يُدْخِلُهَا مَنْ يَشَاءُ , وَإِنِّي رَأَيْتُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رُؤْيَا , رَأَيْتُ كَأَنَّ رَجُلًا أَتَانِي , فَقَالَ لِي: انْطَلِقْ , فَذَهَبْتُ مَعَهُ , فَسَلَكَ بِي فِي مَنَهْجٍ عَظِيمٍ , فَعُرِضَتْ عَلَيَّ طَرِيقٌ عَلَى يَسَارِي , فَأَرَدْتُ أَنْ أَسْلُكَهَا , فَقَالَ: إِنَّكَ لَسْتَ مِنْ أَهْلِهَا , ثُمَّ عُرِضَتْ عَلَيَّ طَرِيقٌ عَنْ يَمِينِي , فَسَلَكْتُهَا حَتَّى إِذَا انْتَهَيْتُ إِلَى جَبَلٍ زَلَقٍ , فَأَخَذَ بِيَدِي فَزَجَّلَ بِي , فَإِذَا أَنَا عَلَى ذُرْوَتِهِ فَلَمْ أَتَقَارَّ وَلَمْ أَتَمَاسَكْ , وَإِذَا عَمُودٌ مِنْ حَدِيدٍ فِي ذُرْوَتِهِ حَلْقَةٌ مِنْ ذَهَبٍ , فَأَخَذَ بِيَدِي فَزَجَّلَ بِي حَتَّى أَخَذْتُ بِالْعُرْوَةِ , فَقَالَ: اسْتَمْسَكْتَ , قُلْتُ: نَعَمْ , فَضَرَبَ الْعَمُودَ بِرِجْلِهِ فَاسْتَمْسَكْتُ بِالْعُرْوَةِ , فَقَالَ: قَصَصْتُهَا عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ:" رَأَيْتَ خَيْرًا , أَمَّا الْمَنْهَجُ الْعَظِيمُ: فَالْمَحْشَرُ , وَأَمَّا الطَّرِيقُ الَّتِي عُرِضَتْ عَنْ يَسَارِكَ: فَطَرِيقُ أَهْلِ النَّارِ , وَلَسْتَ مِنْ أَهْلِهَا , وَأَمَّا الطَّرِيقُ الَّتِي عُرِضَتْ عَنْ يَمِينِكَ: فَطَرِيقُ أَهْلِ الْجَنَّةِ , وَأَمَّا الْجَبَلُ الزَّلَقُ: فَمَنْزِلُ الشُّهَدَاءِ , وَأَمَّا الْعُرْوَةُ الَّتِي اسْتَمْسَكْتَ بِهَا: فَعُرْوَةُ الْإِسْلَامِ , فَاسْتَمْسِكْ بِهَا حَتَّى تَمُوتَ" , فَأَنَا أَرْجُو أَنْ أَكُونَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ , فَإِذَا هُوَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلَامٍ .
خرشہ بن حرر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب میں مدینہ آیا تو مسجد نبوی میں چند بوڑھوں کے پاس آ کر بیٹھ گیا، اتنے میں ایک بوڑھا اپنی لاٹھی ٹیکتے ہوئے آیا، تو لوگوں نے کہا: جسے کوئی جنتی آدمی دیکھنا پسند ہو وہ اس شخص کو دیکھ لے، پھر اس نے ایک ستون کے پیچھے جا کر دو رکعت نماز ادا کی، تو میں ان کے پاس گیا، اور ان سے عرض کیا کہ آپ کی نسبت کچھ لوگوں کا ایسا ایسا کہنا ہے؟ انہوں نے کہا: الحمدللہ! جنت اللہ کی ملکیت ہے وہ جسے چاہے اس میں داخل فرمائے، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ایک خواب دیکھا تھا، میں نے دیکھا، گویا ایک شخص میرے پاس آیا، اور کہنے لگا: میرے ساتھ چلو، تو میں اس کے ساتھ ہو گیا، پھر وہ مجھے ایک بڑے میدان میں لے کر چلا، پھر میرے بائیں جانب ایک راستہ سامنے آیا، میں نے اس پر چلنا چاہا تو اس نے کہا: یہ تمہارا راستہ نہیں، پھر دائیں طرف ایک راستہ سامنے آیا تو میں اس پر چل پڑا یہاں تک کہ جب میں ایک ایسے پہاڑ کے پاس پہنچا جس پر پیر نہیں ٹکتا تھا، تو اس شخص نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھ کو دھکیلا یہاں تک کہ میں اس چوٹی پر پہنچ گیا، لیکن وہاں پر میں ٹھہر نہ سکا اور نہ وہاں کوئی ایسی چیز تھی جسے میں پکڑ سکتا، اچانک مجھے لوہے کا ایک کھمبا نظر آیا جس کے سرے پر سونے کا ایک کڑا تھا، پھر اس شخص نے میرا ہاتھ پکڑا، اور مجھے دھکا دیا یہاں تک کہ میں نے وہ کڑا پکڑ لیا، تو اس نے مجھ سے پوچھا: کیا تم نے مضبوطی سے پکڑ لیا؟ میں نے کہا: ہاں، میں نے پکڑ لیا، پھر اس نے کھمبے کو پاؤں سے ٹھوکر ماری، لیکن میں کڑا پکڑے رہا۔ میں نے یہ خواب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے خواب تو بہت ہی اچھا دیکھا، وہ بڑا میدان میدان حشر تھا، اور جو راستہ تمہارے بائیں جانب دکھایا گیا وہ جہنمیوں کا راستہ تھا، لیکن تم جہنم والوں میں سے نہیں ہو اور وہ راستہ جو تمہارے دائیں جانب دکھایا گیا وہ جنتیوں کا راستہ ہے، اور جو پھسلنے والا پہاڑ تم نے دیکھا وہ شہیدوں کا مقام ہے، اور وہ کڑا جو تم نے تھاما وہ اسلام کا کڑا ہے، لہٰذا تم اسے مرتے دم تک مضبوطی سے پکڑے رہو، تو مجھے امید ہے کہ میں اہل جنت میں ہوں گا اور وہ (بوڑھے آدمی) عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ تھے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب تعبير الرؤيا/حدیث: 3920]
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/فضائل الصحابة 33 (2484)، (تحفة الأشراف: 5330)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/مناقب الأنصار19 (3813)، مسند احمد (2/343، 367 5/452) (صحیح)» ‏‏‏‏ (یہ سند حسن ہے، اور اصل حدیث صحیح مسلم میں: جریر عن الاعمش عن سلیمان بن مسہر عن خرشہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: نیز یہ صحیح بخاری میں بھی ہے: «کما فی التخریج»

قال الشيخ الألباني: حسن

حدیث نمبر: 3921
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ , حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ , حَدَّثَنَا بُرَيْدَةُ , عَنْ أَبِي بُرْدَةَ , عَنْ أَبِي مُوسَى , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ:" رَأَيْتُ فِي الْمَنَامِ أَنِّي أُهَاجِرُ مِنْ مَكَّةَ إِلَى أَرْضٍ بِهَا نَخْلٌ , فَذَهَبَ وَهَلِي إِلَى أَنَّهَا يَمَامَةُ , أَوْ هَجَرٌ فَإِذَا هِيَ الْمَدِينَةُ يَثْرِبُ , وَرَأَيْتُ فِي رُؤْيَايَ هَذِهِ , أَنِّي هَزَزْتُ سَيْفًا فَانْقَطَعَ صَدْرُهُ , فَإِذَا هُوَ مَا أُصِيبَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ أُحُدٍ , ثُمَّ هَزَزْتُهُ فَعَادَ أَحْسَنَ مَا كَانَ , فَإِذَا هُوَ مَا جَاءَ اللَّهُ بِهِ مِنَ الْفَتْحِ وَاجْتِمَاعِ الْمُؤْمِنِينَ , وَرَأَيْتُ فِيهَا أَيْضًا بَقَرًا وَاللَّهُ خَيْرٌ , فَإِذَا هُمُ النَّفَرُ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ أُحُدٍ , وَإِذَا الْخَيْرُ مَا جَاءَ اللَّهُ بِهِ مِنَ الْخَيْرِ بَعْدُ , وَثَوَابِ الصِّدْقِ الَّذِي آتَانَا اللَّهُ بِهِ يَوْمَ بَدْرٍ".
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے خواب میں دیکھا کہ میں مکہ سے ایسی سر زمین کی طرف ہجرت کر رہا ہوں جہاں کھجور کے درخت (بہت) ہیں، پھر میرا خیال یمامہ (ریاض) یا ہجر (احساء) کی طرف گیا، لیکن وہ مدینہ (یثرب) نکلا، اور میں نے اسی خواب میں یہ بھی دیکھا کہ میں نے ایک تلوار ہلائی جس کا سرا ٹوٹ گیا، اس کی تعبیر وہ صدمہ ہے جو احد کے دن مسلمانوں کو لاحق ہوا، اس کے بعد میں نے پھر تلوار لہرائی تو وہ پہلے سے بھی بہتر ہو گئی، اس کی تعبیر وہ فتح اور وہ اجتماعیت ہے جو اللہ نے بعد میں مسلمانوں کو عطا کی، پھر میں نے اسی خواب میں کچھ گائیں بھی دیکھیں، اور یہ آواز سنی، «والله خير» یعنی اللہ بہتر ہے، اس کی تعبیر یہ تھی کہ چند مسلمان جنگ احد کے دن کام آئے ۱؎، «والله خير»، کی آواز آنے سے مراد وہ بہتری تھی جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس کے بعد دی، اور وہ سچا ثواب ہے جو غزوہ بدر میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا کیا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب تعبير الرؤيا/حدیث: 3921]
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/المناقب 25 (3622)، صحیح مسلم/الرؤیا 4 (2272)، (تحفة الأشراف: 9043)، وقد أخرجہ: سنن الدارمی/الرؤیا 13 (2204) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح


Previous    1    2    3    4    Next