الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ترمذي کل احادیث (3956)
حدیث نمبر سے تلاش:

سنن ترمذي
كتاب الصيام عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: روزوں کے احکام و مسائل
حدیث نمبر: 702
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ أَبِي عَطِيَّةَ، قَالَ: دَخَلْتُ أَنَا وَمَسْرُوقٌ عَلَى عَائِشَةَ، فَقُلْنَا: يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ رَجُلَانِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَدُهُمَا يُعَجِّلُ الْإِفْطَارَ وَيُعَجِّلُ الصَّلَاةَ، وَالْآخَرُ يُؤَخِّرُ الْإِفْطَارَ وَيُؤَخِّرُ الصَّلَاةَ، قَالَتْ: أَيُّهُمَا يُعَجِّلُ الْإِفْطَارَ وَيُعَجِّلُ الصَّلَاةَ؟ قُلْنَا: عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ، قَالَتْ: هَكَذَا صَنَع رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالْآخَرُ أَبُو مُوسَى. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو عَطِيَّةَ اسْمُهُ مَالِكُ بْنُ أَبِي عَامِرٍ الْهَمْدَانِيُّ وَيُقَالُ ابْنُ عَامِرٍ الْهَمْدَانِيُّ، وَابْنُ عَامِرٍ أَصَحُّ.
ابوعطیہ کہتے ہیں کہ میں اور مسروق دونوں ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کے پاس گئے، ہم نے عرض کیا: ام المؤمنین! صحابہ میں سے دو آدمی ہیں، ان میں سے ایک افطار جلدی کرتا ہے اور نماز ۱؎ بھی جلدی پڑھتا ہے اور دوسرا افطار میں تاخیر کرتا ہے اور نماز بھی دیر سے پڑھتا ہے ۲؎ انہوں نے کہا: وہ کون ہے جو افطار جلدی کرتا ہے اور نماز بھی جلدی پڑھتا ہے، ہم نے کہا: وہ عبداللہ بن مسعود ہیں، اس پر انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح کرتے تھے اور دوسرے ابوموسیٰ ہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- ابوعطیہ کا نام مالک بن ابی عامر ہمدانی ہے اور انہیں ابن عامر ہمدانی بھی کہا جاتا ہے۔ اور ابن عامر ہی زیادہ صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيام عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 702]
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الصوم 9 (1099)، سنن ابی داود/ الصوم 20 (2354)، سنن النسائی/الصیام 23 (2160)، (تحفة الأشراف: 17799)، مسند احمد (6/48) (صحیح) وأخرجہ مسند احمد (6/173) من غیر ہذا الطریق۔»

قال الشيخ الألباني: صحيح، صحيح أبي داود (2039)

14. باب مَا جَاءَ فِي تَأْخِيرِ السُّحُورِ
14. باب: سحری تاخیر سے کھانے کا بیان۔
حدیث نمبر: 703
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ الدَّسْتُوَائِيُّ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، قَالَ: " تَسَحَّرْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قُمْنَا إِلَى الصَّلَاةِ "، قَالَ: قُلْتُ: كَمْ كَانَ قَدْرُ ذَلِكَ؟ قَالَ: " قَدْرُ خَمْسِينَ آيَةً ".
انس بن مالک رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ زید بن ثابت رضی الله عنہ کہتے ہیں: ہم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سحری کی، پھر ہم نماز کے لیے کھڑے ہوئے، انس کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا: اس کی مقدار کتنی تھی؟ ۱؎ انہوں نے کہا: پچاس آیتوں کے (پڑھنے کے) بقدر ۲؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيام عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 703]
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/المواقیت 28 (575)، والصوم 19 (1921)، صحیح مسلم/الصیام 9 (1097)، سنن النسائی/الصیام 21 (2157)، سنن ابن ماجہ/الصوم 23 (1994)، (تحفة الأشراف: 3696)، مسند احمد (5/182، 185، 186، 188، 192)، سنن الدارمی/الصوم 8 (1702) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 704
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ هِشَامٍ بِنَحْوِهِ، إِلَّا أَنَّهُ قَالَ: قَدْرُ قِرَاءَةِ خَمْسِينَ آيَةً. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ حُذَيْفَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَبِهِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ، وَأَحْمَدُ، وَإِسْحَاق: اسْتَحَبُّوا تَأْخِيرَ السُّحُورِ.
اس سند سے بھی ہشام سے اسی طرح مروی ہے البتہ اس میں یوں ہے: پچاس آیتوں کے پڑھنے کے بقدر۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- زید بن ثابت رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں حذیفہ رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے،
۳- یہی شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے، ان لوگوں نے سحری میں دیر کرنے کو پسند کیا ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيام عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 704]
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: **

15. باب مَا جَاءَ فِي بَيَانِ الْفَجْرِ
15. باب: صبح صادق کے واضح ہو جانے کا بیان۔
حدیث نمبر: 705
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا مُلَازِمُ بْنُ عَمْرٍو، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ النُّعْمَانِ، عَنْ قَيْسِ بْنِ طَلْقٍ، حَدَّثَنِي أَبِي طَلْقُ بْنُ عَلِيٍّ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " كُلُوا وَاشْرَبُوا وَلَا يَهِيدَنَّكُمُ السَّاطِعُ الْمُصْعِدُ، وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يَعْتَرِضَ لَكُمُ الْأَحْمَرُ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ، وَأَبِي ذَرٍّ، وَسَمُرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ طَلْقِ بْنِ عَلِيٍّ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ، أَنَّهُ لَا يَحْرُمُ عَلَى الصَّائِمِ الْأَكْلُ وَالشُّرْبُ حَتَّى يَكُونَ الْفَجْرُ الْأَحْمَرُ الْمُعْتَرِضُ. وَبِهِ يَقُولُ عَامَّةُ أَهْلِ الْعِلْمِ.
قیس بن طلق کہتے ہیں کہ مجھ سے میرے باپ طلق بن علی رضی الله عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کھاؤ پیو، تمہیں کھانے پینے سے چمکتی اور چڑھتی ہوئی صبح یعنی صبح کاذب نہ روکے ۱؎ کھاتے پیتے رہو، یہاں تک کہ سرخی تمہارے چوڑان میں ہو جائے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- طلق بن علی رضی الله عنہ کی حدیث اس سند سے حسن غریب ہے،
۲- اس باب میں عدی بن حاتم، ابوذر اور سمرہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- اسی پر اہل علم کا عمل ہے کہ صائم پر کھانا پینا حرام نہیں ہوتا جب تک کہ فجر کی سرخ چوڑی روشنی نمودار نہ ہو جائے، اور یہی اکثر اہل علم کا قول ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيام عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 705]
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الصیام 17 (2348) (تحفة الأشراف: 5025) (حسن صحیح)»

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح، صحيح أبي داود (2033)

حدیث نمبر: 706
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، وَيُوسُفُ بْنُ عِيسَى، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ أَبِي هِلَالٍ، عَنْ سَوَادَةَ بْنِ حَنْظَلَةَ هُوَ الْقُشَيْرِيُّ، عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا يَمْنَعَنَّكُمْ مِنْ سُحُورِكُمْ أَذَانُ بِلَالٍ وَلَا الْفَجْرُ الْمُسْتَطِيلُ، وَلَكِنْ الْفَجْرُ الْمُسْتَطِيرُ فِي الْأُفُقِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
سمرہ بن جندب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہیں سحری کھانے سے بلال کی اذان باز نہ رکھے اور نہ ہی لمبی فجر باز رکھے، ہاں وہ فجر باز رکھے جو کناروں میں پھیلتی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيام عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 706]
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الصوم 8 (1094)، سنن ابی داود/ الصیام 17 (2346)، سنن النسائی/الصیام 30 (2173)، (تحفة الأشراف: 4624)، مسند احمد (5/7، 9، 13، 18) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، صحيح أبي داود (2031)

16. باب مَا جَاءَ فِي التَّشْدِيدِ فِي الْغِيبَةِ لِلصَّائِمِ
16. باب: روزہ دار کے غیبت کرنے کی شناعت کا بیان۔
حدیث نمبر: 707
حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، قَالَ: وَأَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَنْ لَمْ يَدَعْ قَوْلَ الزُّورِ وَالْعَمَلَ بِهِ، فَلَيْسَ لِلَّهِ حَاجَةٌ بِأَنْ يَدَعَ طَعَامَهُ وَشَرَابَهُ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو ( «صائم») جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کرنا نہ چھوڑے تو اللہ تعالیٰ کو اس کے کھانا پینا چھوڑنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيام عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 707]
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الصوم 8 (1903)، والأدب 51 (6057)، سنن ابن ماجہ/الصیام 21 (1689)، (تحفة الأشراف: 14321) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1689)

17. باب مَا جَاءَ فِي فَضْلِ السُّحُورِ
17. باب: سحری کھانے کی فضیلت کا بیان۔
حدیث نمبر: 708
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، وَعَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ صُهَيْبٍ، عَنْ أَنَسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " تَسَحَّرُوا فَإِنَّ فِي السَّحُورِ بَرَكَةً ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، وَجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَعَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، وَالْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ، وَعُتْبَةَ بْنِ عَبْدٍ، وَأَبِي الدَّرْدَاءِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سحری کھاؤ ۱؎، کیونکہ سحری میں برکت ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- انس رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ابوہریرہ، عبداللہ بن مسعود، جابر بن عبداللہ، ابن عباس، عمرو بن العاص، عرباض بن ساریہ، عتبہ بن عبداللہ اور ابو الدرداء رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
۳- نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: ہمارے روزوں اور اہل کتاب کے روزوں میں فرق سحری کھانے کا ہے ۲؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيام عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 708]
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الصوم 9 (1095)، سنن النسائی/الصیام 18 (2148)، (تحفة الأشراف: 1068 و1433) (صحیح) وأخرجہ کل من: صحیح البخاری/الصوم 20 (1923)، وسنن ابن ماجہ/الصیام 22 (1692)، و مسند احمد (3/99، 215، 258، 281)، وسنن الدارمی/الصوم 9 (1738)، من غیر ہذا الطریق۔»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1692)

حدیث نمبر: 709
وَرُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: " فَصْلُ مَا بَيْنَ صِيَامِنَا وَصِيَامِ أَهْلِ الْكِتَابِ أَكْلَةُ السَّحَرِ ". حَدَّثَنَا بِذَلِكَ قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ مُوسَى بْنِ عَلِيٍّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي قَيْسٍ مَوْلَى عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِذَلِكَ. قَالَ: وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَأَهْلُ مِصْرَ يَقُولُونَ: مُوسَى بْنُ عَلِيٍّ، وَأَهْلُ الْعِرَاقِ يَقُولُونَ: مُوسَى بْنُ عُلَيٍّ وَهُوَ مُوسَى بْنُ عُلَيِّ بْنِ رَبَاحٍ اللَّخْمِيُّ.
اس سند سے عمرو بن عاص رضی الله عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی حدیث روایت کرتے ہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- اور یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اہل مصر موسى بن عَلِيّ (عین کے فتحہ کے ساتھ): کہتے ہیں اور اہل عراق موسى بن عُليّ (عین کے ضمہ کے ساتھ) کہتے ہیں اور وہ موسیٰ بن عُلَيّ بن رباح اللخمی ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيام عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 709]
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الصوم 9 (1096)، سنن ابی داود/ الصیام 15 (2343)، سنن النسائی/الصیام 27 (2168)، (تحفة الأشراف: 10749)، مسند احمد (4/197)، سنن الدارمی/الصوم 9 (1738) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح حجاب المرأة المسلمة (88) ، صحيح أبي داود (2029)

18. باب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ الصَّوْمِ فِي السَّفَرِ
18. باب: سفر میں روزہ رکھنے کی کراہت کا بیان۔
حدیث نمبر: 710
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ إِلَى مَكَّةَ عَامَ الْفَتْحِ، فَصَامَ حَتَّى بَلَغَ كُرَاعَ الْغَمِيمِ وَصَامَ النَّاسُ مَعَهُ، فَقِيلَ لَهُ: إِنَّ النَّاسَ قَدْ شَقَّ عَلَيْهِمُ الصِّيَامُ، وَإِنَّ النَّاسَ يَنْظُرُونَ فِيمَا فَعَلْتَ، فَدَعَا بِقَدَحٍ مِنْ مَاءٍ بَعْدَ الْعَصْرِ، فَشَرِبَ وَالنَّاسُ يَنْظُرُونَ إِلَيْهِ، فَأَفْطَرَ بَعْضُهُمْ وَصَامَ بَعْضُهُمْ، فَبَلَغَهُ أَنَّ نَاسًا صَامُوا، فَقَالَ: " أُولَئِكَ الْعُصَاةُ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ كَعْبِ بْنِ عَاصِمٍ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ جَابِرٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: " لَيْسَ مِنَ الْبِرِّ الصِّيَامُ فِي السَّفَرِ " وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي الصَّوْمِ فِي السَّفَرِ، فَرَأَى بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، أَنَّ الْفِطْرَ فِي السَّفَرِ أَفْضَلُ، حَتَّى رَأَى بَعْضُهُمْ عَلَيْهِ الْإِعَادَةَ إِذَا صَامَ فِي السَّفَرِ. وَاخْتَارَ أَحْمَدُ، وَإِسْحَاق الْفِطْرَ فِي السَّفَرِ. وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ: إِنْ وَجَدَ قُوَّةً فَصَامَ فَحَسَنٌ، وَهُوَ أَفْضَلُ، وَإِنْ أَفْطَرَ فَحَسَنٌ، وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَمَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ. وقَالَ الشَّافِعِيُّ: وَإِنَّمَا مَعْنَى قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَيْسَ مِنَ الْبِرِّ الصِّيَامُ فِي السَّفَرِ "، وَقَوْلِهِ حِينَ بَلَغَهُ أَنَّ نَاسًا صَامُوا، فَقَالَ: " أُولَئِكَ الْعُصَاةُ "، فَوَجْهُ هَذَا إِذَا لَمْ يَحْتَمِلْ قَلْبُهُ قَبُولَ رُخْصَةِ اللَّهِ، فَأَمَّا مَنْ رَأَى الْفِطْرَ مُبَاحًا وَصَامَ وَقَوِيَ عَلَى ذَلِكَ فَهُوَ أَعْجَبُ إِلَيَّ.
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے سال مکہ کی طرف نکلے تو آپ نے روزہ رکھا، اور آپ کے ساتھ لوگوں نے بھی روزہ رکھا، یہاں تک کہ آپ کراع غمیم ۱؎ پر پہنچے تو آپ سے عرض کیا گیا کہ لوگوں پر روزہ رکھنا گراں ہو رہا ہے اور لوگ آپ کے عمل کو دیکھ رہے ہیں۔ (یعنی منتظر ہیں کہ آپ کچھ کریں) تو آپ نے عصر کے بعد ایک پیالہ پانی منگا کر پیا، لوگ آپ کو دیکھ رہے تھے، تو ان میں سے بعض نے روزہ توڑ دیا اور بعض رکھے رہے۔ آپ کو معلوم ہوا کہ کچھ لوگ (اب بھی) روزے سے ہیں، آپ نے فرمایا: یہی لوگ نافرمان ہیں ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- جابر رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں کعب بن عاصم، ابن عباس اور ابوہریرہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: سفر میں روزہ رکھنا نیکی نہیں ہے،
۴- سفر میں روزہ رکھنے کے سلسلے میں اہل علم کا اختلاف ہے، صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا خیال ہے کہ سفر میں روزہ نہ رکھنا افضل ہے، یہاں تک بعض لوگوں کی رائے ہے کہ جب وہ سفر میں روزہ رکھ لے تو وہ سفر سے لوٹنے کے بعد پھر دوبارہ رکھے، احمد اور اسحاق بن راہویہ نے بھی سفر میں روزہ نہ رکھنے کو ترجیح دی ہے۔
۵- اور صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ اگر وہ طاقت پائے اور روزہ رکھے تو یہی مستحسن اور افضل ہے۔ سفیان ثوری، مالک بن انس اور عبداللہ بن مبارک اسی کے قائل ہیں،
۶- شافعی کہتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول سفر میں روزہ رکھنا نیکی نہیں اور جس وقت آپ کو معلوم ہوا کہ کچھ لوگ روزے سے ہیں تو آپ کا یہ فرمانا کہ یہی لوگ نافرمان ہیں ایسے شخص کے لیے ہے جس کا دل اللہ کی دی ہوئی رخصت اور اجازت کو قبول نہ کرے، لیکن جو لوگ سفر میں روزہ نہ رکھنے کو مباح سمجھتے ہوئے روزہ رکھے اور اس کی قوت بھی رکھتا ہو تو یہ مجھے زیادہ پسند ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيام عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 710]
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الصوم 15 (1141)، سنن النسائی/الصیام 49 (2265)، (تحفة الأشراف: 2598) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، الإرواء (4 / 57)

19. باب مَا جَاءَ مِنَ الرُّخْصَةِ فِي الصَّوْمِ فِي السَّفَرِ
19. باب: سفر میں روزہ نہ رکھنے کی رخصت کا بیان۔
حدیث نمبر: 711
حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ إِسْحَاق الْهَمْدَانِيُّ، عَنْ عَبْدَةَ بْنِ سُلَيْمَانَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ حَمْزَةَ بْنَ عَمْرٍو الْأَسْلَمِيِّ، سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الصَّوْمِ فِي السَّفَرِ وَكَانَ يَسْرُدُ الصَّوْمَ، فَقَال رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنْ شِئْتَ فَصُمْ وَإِنْ شِئْتَ فَأَفْطِرْ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، وَأَبِي سَعِيدٍ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، وَأَبِي الدَّرْدَاءِ، وَحَمْزَةَ بْنِ عَمْرٍو الْأَسْلَمِيِّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَائِشَةَ، أَنَّ حَمْزَةَ بْنَ عَمْرٍو، سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ حمزہ بن عمرو اسلمی رضی الله عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سفر میں روزہ رکھنے کے بارے میں پوچھا، وہ خود مسلسل روزہ رکھا کرتے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چاہو تو رکھو اور چاہو تو نہ رکھو۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- عائشہ کی حدیث کہ حمزہ بن عمرو رضی الله عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا، حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں انس بن مالک، ابو سعید خدری، عبداللہ بن مسعود، عبداللہ بن عمرو، ابو الدرداء اور حمزہ بن عمرو اسلمی رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيام عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 711]
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/الصوم 58 (2310)، (تحفة الأشراف: 17071) (صحیح) وأخرجہ کل من: صحیح البخاری/الصوم 33 (1942، 1943) وصحیح مسلم/الصیام 7 (1121)، و سنن ابی داود/ الصوم 42 (2402)، وسنن النسائی/الصیام 58 (2308-2310)، و74 (2386)، وسنن ابن ماجہ/الصوم 10 (1662)، موطا امام مالک/الصیام 7 (24) و مسند احمد (6/46، 193، 202، 207)، وسنن الدارمی/الصوم 15 (1748)، من غیر ہذا الطریق۔»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1662)


Previous    1    2    3    4    5    6    7    Next