الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ترمذي کل احادیث (3956)
حدیث نمبر سے تلاش:

سنن ترمذي
كتاب الصيام عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: روزوں کے احکام و مسائل
حدیث نمبر: 722
حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ عَوْفٍ، عَنْ ابْنِ سِيرِينَ، وَخَلَّاسٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَهُ أَوْ نَحْوَهُ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، وَأُمِّ إِسْحَاق الْغَنَوِيَّةِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ. وَبِهِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، وَالشَّافِعِيُّ، وَأَحْمَدُ، وَإِسْحَاق، وقَالَ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ: إِذَا أَكَلَ فِي رَمَضَانَ نَاسِيًا فَعَلَيْهِ الْقَضَاءُ، وَالْقَوْلُ الْأَوَّلُ أَصَحُّ.
اس سند سے بھی ابوہریرہ رضی الله عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ابو سعید خدری اور ام اسحاق غنویہ رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- اکثر اہل علم کا عمل اسی پر ہے۔ سفیان ثوری، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ اسی کے قائل ہیں،
۴- مالک بن انس کہتے ہیں کہ جب کوئی رمضان میں بھول کر کھا پی لے تو اس پر روزوں کی قضاء لازم ہے، پہلا قول زیادہ صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيام عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 722]
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأیمان والنذور 15 (6669)، سنن ابن ماجہ/الصیام 15 (1673)، و (تحفة الأشراف: 12303، و1447) (صحیح) وأخرجہ سنن ابی داود/ الصیام 39 (2398) من غیر ہذا الطریق والسیاق، وانظر ما قبلہ»

قال الشيخ الألباني: **

27. باب مَا جَاءَ فِي الإِفْطَارِ مُتَعَمِّدًا
27. باب: جان بوجھ کر رمضان کے روزے چھوڑ دینے کے حکم کا بیان۔
حدیث نمبر: 723
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، حَدَّثَنَا أَبُو الْمُطَوِّسِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ أَفْطَرَ يَوْمًا مِنْ رَمَضَانَ مِنْ غَيْرِ رُخْصَةٍ وَلَا مَرَضٍ، لَمْ يَقْضِ عَنْهُ صَوْمُ الدَّهْرِ كُلِّهِ وَإِنْ صَامَهُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وسَمِعْت مُحَمَّدًا، يَقُولُ: أَبُو الْمُطَوِّسِ اسْمُهُ يَزِيدُ بْنُ الْمُطَوِّسِ، وَلَا أَعْرِفُ لَهُ غَيْرَ هَذَا الْحَدِيثِ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے بغیر کسی شرعی رخصت اور بغیر کسی بیماری کے رمضان کا کوئی روزہ نہیں رکھا تو پورے سال کا روزہ بھی اس کو پورا نہیں کر پائے گا چاہے وہ پورے سال روزے سے رہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث کو ہم صرف اسی طریق سے جانتے ہیں،
۲- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے سنا کہ ابوالمطوس کا نام یزید بن مطوس ہے اور اس کے علاوہ مجھے ان کی کوئی اور حدیث معلوم نہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيام عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 723]
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الصیام 38 (2396، 2397)، سنن ابن ماجہ/الصیام 15 (1672)، مسند احمد (2/458، 470)، سنن الدارمی/الصوم 18 (1756)، (تحفة الأشراف: 14616) (ضعیف) (سند میں ابو المطوس لین الحدیث ہیں اور ان کے والد مجہول)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (1672) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (368) مختصرا، المشكاة (2013) ، ضعيف الجامع الصغير (5462) ، ضعيف أبي داود (517 / 2396) //

28. باب مَا جَاءَ فِي كَفَّارَةِ الْفِطْرِ فِي رَمَضَانَ
28. باب: رمضان میں روزہ نہ رکھنے پر عائد کفارہ کا بیان۔
حدیث نمبر: 724
حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ، وَأَبَو عَمَّارٍ، وَالْمَعْنَى وَاحِدٌ وَاللَّفْظُ لَفْظُ أَبِي عَمَّارٍ، قَالَا: أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: أَتَاهُ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ هَلَكْتُ، قَالَ: " وَمَا أَهْلَكَكَ؟ " قَالَ: وَقَعْتُ عَلَى امْرَأَتِي فِي رَمَضَانَ، قَالَ: " هَلْ تَسْتَطِيعُ أَنْ تُعْتِقَ رَقَبَةً؟ " قَالَ: لَا، قَالَ: " فَهَلْ تَسْتَطِيعُ أَنْ تَصُومَ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ؟ " قَالَ: لَا، قَالَ: " فَهَلْ تَسْتَطِيعُ أَنْ تُطْعِمَ سِتِّينَ مِسْكِينًا؟ " قَالَ: لَا، قَالَ: " اجْلِسْ " فَجَلَسَ، فَأُتِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَرَقٍ فِيهِ تَمْرٌ وَالْعَرَقُ الْمِكْتَلُ الضَّخْمُ، قَالَ: " تَصَدَّقْ بِهِ " فَقَالَ: مَا بَيْنَ لَابَتَيْهَا أَحَدٌ أَفْقَرَ مِنَّا، قَالَ: فَضَحِكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى بَدَتْ أَنْيَابُهُ، قَالَ: " فَخُذْهُ فَأَطْعِمْهُ أَهْلَكَ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ، وَعَائِشَةَ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي مَنْ أَفْطَرَ فِي رَمَضَانَ مُتَعَمِّدًا مِنْ جِمَاعٍ، وَأَمَّا مَنْ أَفْطَرَ مُتَعَمِّدًا مِنْ أَكْلٍ أَوْ شُرْبٍ، فَإِنَّ أَهْلَ الْعِلْمِ قَدِ اخْتَلَفُوا فِي ذَلِكَ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ: عَلَيْهِ الْقَضَاءُ وَالْكَفَّارَةُ، وَشَبَّهُوا الْأَكْلَ وَالشُّرْبَ بِالْجِمَاعِ، وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَابْنِ الْمُبَارَكِ، وَإِسْحَاق، وقَالَ بَعْضُهُمْ: عَلَيْهِ الْقَضَاءُ وَلَا كَفَّارَةَ عَلَيْهِ، لِأَنَّهُ إِنَّمَا ذُكِرَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْكَفَّارَةُ فِي الْجِمَاعِ وَلَمْ تُذْكَرْ عَنْهُ فِي الْأَكْلِ وَالشُّرْبِ، وَقَالُوا: لَا يُشْبِهُ الْأَكْلُ وَالشُّرْبُ الْجِمَاعَ، وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وقَالَ الشَّافِعِيُّ: وَقَوْلُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلرَّجُلِ الَّذِي أَفْطَرَ فَتَصَدَّقَ عَلَيْهِ خُذْهُ فَأَطْعِمْهُ أَهْلَكَ، يَحْتَمِلُ هَذَا مَعَانِيَ: يَحْتَمِلُ أَنْ تَكُونَ الْكَفَّارَةُ عَلَى مَنْ قَدَرَ عَلَيْهَا، وَهَذَا رَجُلٌ لَمْ يَقْدِرْ عَلَى الْكَفَّارَةِ، فَلَمَّا أَعْطَاهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا وَمَلَكَهُ، فَقَالَ الرَّجُلُ: مَا أَحَدٌ أَفْقَرَ إِلَيْهِ مِنَّا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " خُذْهُ فَأَطْعِمْهُ أَهْلَكَ " لِأَنَّ الْكَفَّارَةَ إِنَّمَا تَكُونُ بَعْدَ الْفَضْلِ عَنْ قُوتِهِ، وَاخْتَارَ الشَّافِعِيُّ لِمَنْ كَانَ عَلَى مِثْلِ هَذَا الْحَالِ أَنْ يَأْكُلَهُ، وَتَكُونَ الْكَفَّارَةُ عَلَيْهِ دَيْنًا فَمَتَى مَا مَلَكَ يَوْمًا مَا كَفَّرَ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص نے آ کر کہا: اللہ کے رسول! میں ہلاک ہو گیا، آپ نے پوچھا: تمہیں کس چیز نے ہلاک کر دیا؟ اس نے عرض کیا: میں رمضان میں اپنی بیوی سے صحبت کر بیٹھا۔ آپ نے پوچھا: کیا تم ایک غلام یا لونڈی آزاد کر سکتے ہو؟ اس نے کہا: نہیں، آپ نے پوچھا: کیا مسلسل دو ماہ کے روزے رکھ سکتے ہو؟ اس نے کہا: نہیں، تو آپ نے پوچھا: کیا ساٹھ مسکین کو کھانا کھلا سکتے ہو؟ اس نے کہا: نہیں، تو آپ نے فرمایا: بیٹھ جاؤ تو وہ بیٹھ گیا۔ اتنے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک بڑا ٹوکرہ لایا گیا جس میں کھجوریں تھیں، آپ نے فرمایا: اسے لے جا کر صدقہ کر دو، اس نے عرض کیا: ان دونوں ملے ہوئے علاقوں کے درمیان کی بستی (یعنی مدینہ میں) مجھ سے زیادہ محتاج کوئی نہیں ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے، یہاں تک کہ آپ کے سامنے کے ساتھ والے دانت دکھائی دینے لگے۔ آپ نے فرمایا: اسے لے لو اور لے جا کر اپنے گھر والوں ہی کو کھلا دو۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ابن عمر، عائشہ اور عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- اہل علم کا اس شخص کے بارے میں جو رمضان میں جان بوجھ کر بیوی سے جماع کر کے روزہ توڑ دے، اسی حدیث پر عمل ہے،
۴- اور جو جان بوجھ کر کھا پی کر روزہ توڑے، تو اس کے بارے میں اہل علم میں اختلاف ہے۔ بعض کہتے ہیں: اس پر روزے کی قضاء اور کفارہ دونوں لازم ہے، ان لوگوں نے کھانے پینے کو جماع کے مشابہ قرار دیا ہے۔ سفیان ثوری، ابن مبارک اور اسحاق بن راہویہ اسی کے قائل ہیں۔ بعض کہتے ہیں: اس پر صرف روزے کی قضاء لازم ہے، کفارہ نہیں۔ اس لیے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے جو کفارہ مذکور ہے وہ جماع سے متعلق ہے، کھانے پینے کے بارے میں آپ سے کفارہ مذکور نہیں ہے، ان لوگوں نے کہا ہے کہ کھانا پینا جماع کے مشابہ نہیں ہے۔ یہ شافعی اور احمد کا قول ہے۔ شافعی کہتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اس شخص سے جس نے روزہ توڑ دیا، اور آپ نے اس پر صدقہ کیا یہ کہنا کہ اسے لے لو اور لے جا کر اپنے گھر والوں ہی کو کھلا دو، کئی باتوں کا احتمال رکھتا ہے: ایک احتمال یہ بھی ہے کہ کفارہ اس شخص پر ہو گا جو اس پر قادر ہو، اور یہ ایسا شخص تھا جسے کفارہ دینے کی قدرت نہیں تھی، تو جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کچھ دیا اور وہ اس کا مالک ہو گیا تو اس آدمی نے عرض کیا: ہم سے زیادہ اس کا کوئی محتاج نہیں۔ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے لے لو اور جا کر اپنے گھر والوں ہی کو کھلا دو، اس لیے کہ روزانہ کی خوراک سے بچنے کے بعد ہی کفارہ لازم آتا ہے، تو جو اس طرح کی صورت حال سے گزر رہا ہو اس کے لیے شافعی نے اسی بات کو پسند کیا ہے کہ وہی اسے کھا لے اور کفارہ اس پر فرض رہے گا، جب کبھی وہ مالدار ہو گا تو کفارہ ادا کرے گا۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيام عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 724]
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الصوم 30 (1936)، صحیح مسلم/الصیام 14 (1111)، سنن ابی داود/ الصیام 37 (2390)، سنن ابن ماجہ/الصیام 14 (1671)، (تحفة الأشراف: 12275)، موطا امام مالک/الصیام 9 (28)، مسند احمد (2/241)، سنن الدارمی/الصوم 19 (1757) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1671)

29. باب مَا جَاءَ فِي السِّوَاكِ لِلصَّائِمِ
29. باب: روزہ دار کے مسواک کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 725
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: " رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا لَا أُحْصِي يَتَسَوَّكُ وَهُوَ صَائِمٌ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ لَا يَرَوْنَ بِالسِّوَاكِ لِلصَّائِمِ بَأْسًا، إِلَّا أَنَّ بَعْضَ أَهْلِ الْعِلْمِ كَرِهُوا السِّوَاكَ لِلصَّائِمِ بِالْعُودِ وَالرُّطَبِ، وَكَرِهُوا لَهُ السِّوَاكَ آخِرَ النَّهَارِ، وَلَمْ يَرَ الشَّافِعِيُّ بِالسِّوَاكِ بَأْسًا أَوَّلَ النَّهَارِ وَلَا آخِرَهُ، وَكَرِهَ أَحْمَدُ، وَإِسْحَاق السِّوَاكَ آخِرَ النَّهَارِ.
عامر بن ربیعہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو روزہ کی حالت میں اتنی بار مسواک کرتے دیکھا کہ میں اسے شمار نہیں کر سکتا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- عامر بن ربیعہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن ہے،
۲- اس باب میں عائشہ رضی الله عنہا سے بھی روایت ہے۔
۳- اسی حدیث پر اہل علم کا عمل ہے۔ یہ لوگ روزہ دار کے مسواک کرنے میں کوئی حرج نہیں ۱؎ سمجھتے، البتہ بعض اہل علم نے روزہ دار کے لیے تازی لکڑی کی مسواک کو مکروہ قرار دیا ہے، اور دن کے آخری حصہ میں بھی مسواک کو مکروہ کہا ہے۔ لیکن شافعی دن کے شروع یا آخری کسی بھی حصہ میں مسواک کرنے میں حرج محسوس نہیں کرتے۔ احمد اور اسحاق بن راہویہ نے دن کے آخری حصہ میں مسواک کو مکروہ قرار دیا ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيام عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 725]
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الصیام 26 (2364)، (تحفة الأشراف: 5034) (ضعیف) (سند میں عاصم بن عبیداللہ ضعیف راوی ہے)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، الإرواء (68) //، ضعيف أبي داود (511 / 2364) ، المشكاة (2009) //

30. باب مَا جَاءَ فِي الْكُحْلِ لِلصَّائِمِ
30. باب: روزہ دار کے سرمہ لگانے کا بیان۔
حدیث نمبر: 726
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى بْنُ وَاصِلٍ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَطِيَّةَ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاتِكَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: اشْتَكَتْ عَيْنِي، " أَفَأَكْتَحِلُ وَأَنَا صَائِمٌ؟ قَالَ: نَعَمْ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي رَافِعٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ لَيْسَ إِسْنَادُهُ بِالْقَوِيِّ، وَلَا يَصِحُّ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذَا الْبَاب شَيْءٌ، وَأَبُو عَاتِكَةَ يُضَعَّفُ، وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي الْكُحْلِ لِلصَّائِمِ فَكَرِهَهُ بَعْضُهُمْ، وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ، وَابْنِ الْمُبَارَكِ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق، وَرَخَّصَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي الْكُحْلِ لِلصَّائِمِ، وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ.
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر پوچھا: میری آنکھ آ گئی ہے، کیا میں سرمہ لگا لوں، میں روزے سے ہوں؟ آپ نے فرمایا: ہاں (لگا لو)۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- انس کی حدیث کی سند قوی نہیں ہے،
۲- اس باب میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی کوئی چیز صحیح نہیں،
۳- ابوعاتکہ ضعیف قرار دیے جاتے ہیں،
۴- اس باب میں ابورافع سے بھی روایت ہے،
۵- صائم کے سرمہ لگانے میں اہل علم کا اختلاف ہے، بعض نے اسے مکروہ قرار دیا ہے ۱؎ یہ سفیان ثوری، ابن مبارک، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے اور بعض اہل علم نے روزہ دار کو سرمہ لگانے کی رخصت دی ہے اور یہ شافعی کا قول ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيام عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 726]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 922) (ضعیف الإسناد) (سند میں ابو عاتک طریف سلمان ضعیف راوی ہے)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد

31. باب مَا جَاءَ فِي الْقُبْلَةِ لِلصَّائِمِ
31. باب: روزہ دار کے بوسہ لینے کا بیان۔
حدیث نمبر: 727
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، وَقُتَيْبَةُ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ زِيَادِ بْنِ عِلَاقَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ " يُقَبِّلُ فِي شَهْرِ الصَّوْمِ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، وَحَفْصَةَ، وَأَبِي سَعِيدٍ، وَأُمِّ سَلَمَةَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَأَنَسٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ فِي الْقُبْلَةِ لِلصَّائِمِ، فَرَخَّصَ بَعْضُ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْقُبْلَةِ لِلشَّيْخِ، وَلَمْ يُرَخِّصُوا لِلشَّابِّ مَخَافَةَ أَنْ لَا يَسْلَمَ لَهُ صَوْمُهُ وَالْمُبَاشَرَةُ عِنْدَهُمْ أَشَدُّ، وَقَدْ قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: الْقُبْلَةُ تُنْقِصُ الْأَجْرَ، وَلَا تُفْطِرُ الصَّائِمَ، وَرَأَوْا أَنَّ لِلصَّائِمِ إِذَا مَلَكَ نَفْسَهُ أَنْ يُقَبِّلَ، وَإِذَا لَمْ يَأْمَنْ عَلَى نَفْسِهِ تَرَكَ الْقُبْلَةَ لِيَسْلَمَ لَهُ صَوْمُهُ، وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَالشَّافِعِيِّ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ماہ صیام (رمضان) میں بوسہ لیتے تھے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- عائشہ رضی الله عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں عمر بن خطاب، حفصہ، ابو سعید خدری، ام سلمہ، ابن عباس، انس اور ابوہریرہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- صائم کے بوسہ لینے کے سلسلے میں صحابہ کرام وغیرہم کا اختلاف ہے۔ بعض صحابہ نے بوڑھے کے لیے بوسہ لینے کی رخصت دی ہے۔ اور نوجوانوں کے لیے اس اندیشے کے پیش نظر رخصت نہیں دی کہ اس کا صوم محفوظ و مامون نہیں رہ سکے گا۔ جماع ان کے نزدیک زیادہ سخت چیز ہے۔ بعض اہل علم نے کہا ہے: بوسہ اجر کم کر دیتا ہے لیکن اس سے روزہ دار کا روزہ نہیں ٹوٹتا، ان کا خیال ہے کہ روزہ دار کو اگر اپنے نفس پر قابو (کنٹرول) ہو تو وہ بوسہ لے سکتا ہے اور جب وہ اپنے آپ پر کنٹرول نہ رکھ سکے تو بوسہ نہ لے تاکہ اس کا روزہ محفوظ و مامون رہے۔ یہ سفیان ثوری اور شافعی کا قول ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيام عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 727]
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الصیام 12 (1110)، سنن ابی داود/ الصیام 33 (2383)، سنن ابن ماجہ/الصیام 19 (1683)، (تحفة الأشراف: 17423) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1683)

32. باب مَا جَاءَ فِي مُبَاشَرَةِ الصَّائِمِ
32. باب: روزہ دار کا بوس و کنار کیا ہے؟
حدیث نمبر: 728
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ أَبِي مَيْسَرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُبَاشِرُنِي وَهُوَ صَائِمٌ، وَكَانَ أَمْلَكَكُمْ لِإِرْبِهِ ".
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روزے کی حالت میں مجھ سے بوس و کنار کرتے تھے، آپ اپنی خواہش پر تم میں سب سے زیادہ کنٹرول رکھنے والے تھے۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيام عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 728]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف وانظر ما بعدہ (تحفة الأشراف: 17418) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1684)

حدیث نمبر: 729
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، وَالْأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَبِّلُ وَيُبَاشِرُ وَهُوَ صَائِمٌ، وَكَانَ أَمْلَكَكُمْ لِإِرْبِهِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو مَيْسَرَةَ اسْمُهُ عَمْرُو بْنُ شُرَحْبِيلَ، وَمَعْنَى لِإِرْبِهِ لِنَفْسِهِ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روزے کی حالت میں بوسہ لیتے اور اپنی بیویوں کے ساتھ لپٹ کر لیٹتے تھے، آپ اپنی جنسی خواہش پر تم میں سب سے زیادہ کنٹرول رکھنے والے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اور «لإربه» کے معنی «لنفسه» اپنے نفس پر کے ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيام عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 729]
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الصیام 12 (1106)، سنن ابی داود/ الصیام 33 (2382)، (تحفة الأشراف: 1595 و17407) (صحیح) وأخرجہ کل من: صحیح البخاری/الصوم 23 (1927)، وصحیح مسلم/الصیام (المصدرالسابق)، وسنن ابن ماجہ/الصیام 19 (1684)، وسنن الدارمی/الصوم 21 (1763)، من غیر ہذا الطریق۔»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1687)

33. باب مَا جَاءَ لاَ صِيَامَ لِمَنْ لَمْ يَعْزِمْ مِنَ اللَّيْلِ
33. باب: جو رات ہی کو روزے کی نیت نہ کرے اس کا روزہ نہیں۔
حدیث نمبر: 730
حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ، أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ حَفْصَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَنْ لَمْ يُجْمِعِ الصِّيَامَ قَبْلَ الْفَجْرِ فَلَا صِيَامَ لَهُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ حَفْصَةَ حَدِيثٌ لَا نَعْرِفُهُ مَرْفُوعًا إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَوْلُهُ وَهُوَ أَصَحُّ، وَهَكَذَا أَيْضًا رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ الزُّهْرِيِّ مَوْقُوفًا، وَلَا نَعْلَمُ أَحَدًا رَفَعَهُ إِلَّا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ، وَإِنَّمَا مَعْنَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ لَا صِيَامَ لِمَنْ لَمْ يُجْمِعِ الصِّيَامَ قَبْلَ طُلُوعِ الْفَجْرِ فِي رَمَضَانَ أَوْ فِي قَضَاءِ رَمَضَانَ أَوْ فِي صِيَامِ نَذْرٍ، إِذَا لَمْ يَنْوِهِ مِنَ اللَّيْلِ لَمْ يُجْزِهِ، وَأَمَّا صِيَامُ التَّطَوُّعِ فَمُبَاحٌ لَهُ أَنْ يَنْوِيَهُ بَعْدَ مَا أَصْبَحَ، وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق.
ام المؤمنین حفصہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے روزے کی نیت فجر سے پہلے نہیں کر لی، اس کا روزہ نہیں ہوا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- حفصہ رضی الله عنہا کی حدیث کو ہم صرف اسی سند سے مرفوع جانتے ہیں، نیز اسے نافع سے بھی روایت کیا گیا ہے انہوں نے ابن عمر سے روایت کی ہے اور اسے ابن عمر ہی کا قول قرار دیا ہے، اس کا موقوف ہونا ہی زیادہ صحیح ہے، اور اسی طرح یہ حدیث زہری سے بھی موقوفاً مروی ہے، ہم نہیں جانتے کہ کسی نے اسے مرفوع کیا ہے یحییٰ بن ایوب کے سوا،
۲- اس کا معنی اہل علم کے نزدیک صرف یہ ہے کہ اس کا روزہ نہیں ہوتا، جو رمضان میں یا رمضان کی قضاء میں یا نذر کے روزے میں روزے کی نیت طلوع فجر سے پہلے نہیں کرتا۔ اگر اس نے رات میں نیت نہیں کی تو اس کا روزہ نہیں ہوا، البتہ نفل روزے میں اس کے لیے صبح ہو جانے کے بعد بھی روزے کی نیت کرنا مباح ہے۔ یہی شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيام عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 730]
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الصیام 71 (2454)، سنن النسائی/الصیام 68 (3333)، سنن ابن ماجہ/الصیام 26 (1700)، (تحفة الأشراف: 15802)، مسند احمد (6/287)، سنن الدارمی/الصوم 10 (1740) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1700)

34. باب مَا جَاءَ فِي إِفْطَارِ الصَّائِمِ الْمُتَطَوِّعِ
34. باب: نفلی روزے کے توڑنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 731
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ ابْنِ أُمِّ هَانِئٍ، عَنْ أُمِّ هَانِئٍ، قَالَتْ: كُنْتُ قَاعِدَةً عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأُتِيَ بِشَرَابٍ فَشَرِبَ مِنْهُ، ثُمَّ نَاوَلَنِي فَشَرِبْتُ مِنْهُ، فَقُلْتُ: إِنِّي أَذْنَبْتُ فَاسْتَغْفِرْ لِي، فَقَالَ: " وَمَا ذَاكِ؟ " قَالَتْ: كُنْتُ صَائِمَةً فَأَفْطَرْتُ، فَقَالَ: " أَمِنْ قَضَاءٍ كُنْتِ تَقْضِينَهُ "، قَالَتْ: لَا، قَالَ: " فَلَا يَضُرُّكِ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، وَعَائِشَةَ.
ام ہانی رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھی ہوئی تھی، اتنے میں آپ کے پاس پینے کی کوئی چیز لائی گئی، آپ نے اس میں سے پیا، پھر مجھے دیا تو میں نے بھی پیا۔ پھر میں نے عرض کیا: میں نے گناہ کا کام کر لیا ہے۔ آپ میرے لیے بخشش کی دعا کر دیجئیے۔ آپ نے پوچھا: کیا بات ہے؟ میں نے کہا: میں روزے سے تھی اور میں نے روزہ توڑ دیا تو آپ نے پوچھا: کیا کوئی قضاء کا روزہ تھا جسے تم قضاء کر رہی تھی؟ عرض کیا: نہیں، آپ نے فرمایا: تو اس سے تمہیں کوئی نقصان ہونے والا نہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
اس باب میں ابو سعید خدری اور ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيام عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 731]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (وأخرجہ النسائي في الکبری) (تحفة الأشراف: 18015) (صحیح) (متابعات وشواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ ”سماک“ جب منفرد ہوں تو ان کی روایت میں بڑا اضطراب پایاجاتا ہے، یہی حال اگلی حدیث میں ہے)»

قال الشيخ الألباني: صحيح تخريج المشكاة (2079) ، صحيح أبي داود (2120)


Previous    1    2    3    4    5    6    7    8    9    Next