الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ترمذي کل احادیث (3956)
حدیث نمبر سے تلاش:

سنن ترمذي
كتاب الجنائز عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: جنازہ کے احکام و مسائل
حدیث نمبر: 985
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمَخْزُومِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْوَلِيدِ الْعَدَنِيُّ، عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، عَنْ أَبِي حَمْزَةَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ نَحْوَهُ، وَلَمْ يَرْفَعْهُ وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ، وَالنَّعْيُ أَذَانٌ بِالْمَيِّتِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ عَنْ أَبِي حَمْزَةَ، وَأَبُو حَمْزَةَ هُوَ: مَيْمُونٌ الْأَعْوَرُ وَلَيْسَ هُوَ بِالْقَوِيِّ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ، قَالَ 12 أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَبْدِ اللَّهِ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَقَدْ كَرِهَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ النَّعْيَ، وَالنَّعْيُ عِنْدَهُمْ أَنْ يُنَادَى فِي النَّاسِ أَنَّ فُلَانًا مَاتَ لِيَشْهَدُوا جَنَازَتَهُ، وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: لَا بَأْسَ أَنْ يُعْلِمَ أَهْلَ قَرَابَتِهِ وَإِخْوَانَهُ، وَرُوِيَ عَنْ إِبْرَاهِيمَ، أَنَّهُ قَالَ: لَا بَأْسَ بِأَنْ يُعْلِمَ الرَّجُلُ قَرَابَتَهُ.
اس سند سے بھی عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ سے اسی طرح مروی ہے، اور راوی نے اسے مرفوع نہیں کیا ہے۔ اور اس نے اس میں اس کا بھی ذکر نہیں کیا ہے کہ «نعی» موت کے اعلان کا نام ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کی حدیث حسن غریب ہے،
۲- یہ عنبسہ کی حدیث سے جسے انہوں نے ابوحمزہ سے روایت کیا ہے زیادہ صحیح ہے،
۳- ابوحمزہ ہی میمون اعور ہیں، یہ اہل حدیث کے نزدیک قوی نہیں ہیں،
۴- بعض اہل علم نے «نعی» کو مکروہ قرار دیا ہے، ان کے نزدیک «نعی» یہ ہے کہ لوگوں میں اعلان کیا جائے کہ فلاں مر گیا ہے تاکہ اس کے جنازے میں شرکت کریں،
۵- بعض اہل علم کہتے ہیں: اس میں کوئی حرج نہیں کہ اس کے رشتے داروں اور اس کے بھائیوں کو اس کے مرنے کی خبر دی جائے،
۶- ابراہیم نخعی کہتے ہیں کہ اس میں کوئی حرج نہیں کہ آدمی کو اس کے اپنے کسی قرابت دار کے مرنے کی خبر دی جائے۔ [سنن ترمذي/كتاب الجنائز عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 985]
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (ضعیف)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف

حدیث نمبر: 986
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْقُدُّوسِ بْنُ بَكْرِ بْنِ خُنَيْسٍ، حَدَّثَنَا حَبِيبُ بْنُ سُلَيْمٍ الْعَبْسِيُّ، عَنْ بِلَالِ بْنِ يَحْيَى الْعَبْسِيِّ، عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ، قَالَ: إِذَا مِتُّ فَلَا تُؤْذِنُوا بِي إِنِّي أَخَافُ أَنْ يَكُونَ نَعْيًا، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " يَنْهَى عَنِ النَّعْيِ ". هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
حذیفہ بن الیمان رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: جب میں مر جاؤں تو تم میرے مرنے کا اعلان مت کرنا۔ مجھے ڈر ہے کہ یہ بات «نعی» ہو گی۔ کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو «نعی» سے منع فرماتے سنا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الجنائز عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 986]
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الجنائز 14 (1497) (تحفة الأشراف: 3303) (حسن)»

قال الشيخ الألباني: حسن، ابن ماجة (1476)

13. باب مَا جَاءَ أَنَّ الصَّبْرَ فِي الصَّدْمَةِ الأُولَى
13. باب: صبر وہ ہے جو پہلے صدمہ کے وقت ہو۔
حدیث نمبر: 987
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ سَعْدِ بْنِ سِنَانٍ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " الصَّبْرُ فِي الصَّدْمَةِ الْأُولَى ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صبر وہی ہے جو پہلے صدمے کے وقت ہو ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث اس سند سے غریب ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الجنائز عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 987]
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الجنائز 55 (1596) (تحفة الأشراف: 848) (صحیح)»

حدیث نمبر: 988
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " الصَّبْرُ عِنْدَ الصَّدْمَةِ الْأُولَى ". قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
انس بن مالک رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صبر وہی ہے جو پہلے صدمہ کے وقت ہو۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الجنائز عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 988]
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الجنائز 7 (1252)، و31 (1283)، و42 (1302)، والأحکام 11 (7154)، صحیح مسلم/الجنائز 8 (926)، سنن ابی داود/ الجنائز 27 (3124)، سنن النسائی/الجنائز 22 (1870)، (تحفة الأشراف: 439)، مسند احمد (3/130، 143، 217) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1596)

14. باب مَا جَاءَ فِي تَقْبِيلِ الْمَيِّتِ
14. باب: میت کے بوسہ لینے کا بیان۔
حدیث نمبر: 989
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَائِشَةَ، " أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَبَّلَ عُثْمَانَ بْنَ مَظْعُونٍ وَهُوَ مَيِّتٌ وَهُوَ يَبْكِي " أَوْ قَالَ: " عَيْنَاهُ تَذْرِفَانِ ". وَفِي الْبَاب: عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَجَابِرٍ، وَعَائِشَةَ، قَالُوا: إِنَّ أَبَا بَكْرٍ قَبَّلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مَيِّتٌ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عثمان بن مظعون رضی الله عنہ کا بوسہ لیا - وہ انتقال کر چکے تھے - آپ رو رہے تھے۔ یا (راوی نے) کہا: آپ کی دونوں آنکھیں اشک بار تھیں ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- عائشہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ابن عباس، جابر اور عائشہ سے بھی احادیث آئی ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ابوبکر رضی الله عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا بوسہ لیا ۲؎ اور آپ انتقال فرما چکے تھے۔ [سنن ترمذي/كتاب الجنائز عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 989]
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الجنائز 40 (3163)، سنن ابن ماجہ/الجنائز 7 (2456)، (تحفة الأشراف: 17459)، مسند احمد (6/43، 55) (صحیح) (ملاحظہ ہو: تراجع الألبانی 495)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1456)

15. باب مَا جَاءَ فِي غُسْلِ الْمَيِّتِ
15. باب: میت کو غسل دینے کا بیان۔
حدیث نمبر: 990
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا خَالِدٌ، وَمَنْصُورٌ، وَهِشَامٌ، فأما خالد، وهشام، فقالا: عَنْ مُحَمَّدٍ، وَحَفْصَةَ، وَقَالَ: مَنْصُورٌ: عَنْ مُحَمَّدٍ، عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ، قَالَتْ: تُوُفِّيَتْ إِحْدَى بَنَاتِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " اغْسِلْنَهَا وِتْرًا ثَلَاثًا أَوْ خَمْسًا أَوْ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ إِنْ رَأَيْتُنَّ، وَاغْسِلْنَهَا بِمَاءٍ وَسِدْرٍ وَاجْعَلْنَ فِي الْآخِرَةِ كَافُورًا، أَوْ شَيْئًا مِنْ كَافُورٍ، فَإِذَا فَرَغْتُنَّ فَآذِنَّنِي "، فَلَمَّا فَرَغْنَا آذَنَّاهُ، فَأَلْقَى إِلَيْنَا حِقْوَهُ، فَقَالَ: " أَشْعِرْنَهَا بِهِ ". قَالَ هُشَيْمٌ: وَفِي حَدِيثِ غَيْرِ هَؤُلَاءِ وَلَا أَدْرِي وَلَعَلَّ هِشَامًا مِنْهُمْ، قَالَتْ: وَضَفَّرْنَا شَعْرَهَا ثَلَاثَةَ قُرُونٍ، قَالَ هُشَيْمٌ: أَظُنُّهُ قَالَ: فَأَلْقَيْنَاهُ خَلْفَهَا، قَالَ هُشَيْمٌ: فَحَدَّثَنَا خَالِدٌ مِنْ بَيْنِ الْقَوْمِ، عَنْ حَفْصَةَ، وَمُحَمَّدٍ، عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ، قَالَتْ: وَقَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " وَابْدَأْنَ بِمَيَامِنِهَا وَمَوَاضِعِ الْوُضُوءِ " وَفِي الْبَاب: عَنْ أُمِّ سُلَيْمٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أُمِّ عَطِيَّةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ إِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ، أَنَّهُ قَالَ: غُسْلُ الْمَيِّتِ كَالْغُسْلِ مِنَ الْجَنَابَةِ، وقَالَ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ: لَيْسَ لِغُسْلِ الْمَيِّتِ عِنْدَنَا حَدٌّ مُؤَقَّتٌ وَلَيْسَ لِذَلِكَ صِفَةٌ مَعْلُومَةٌ وَلَكِنْ يُطَهَّرُ، وقَالَ الشَّافِعِيُّ: إِنَّمَا قَالَ مَالِكٌ قَوْلًا مُجْمَلًا: يُغَسَّلُ وَيُنْقَى، وَإِذَا أُنْقِيَ الْمَيِّتُ بِمَاءٍ قَرَاحٍ أَوْ مَاءٍ غَيْرِهِ، أَجْزَأَ ذَلِكَ مِنْ غُسْلِهِ، وَلَكِنْ أَحَبُّ إِلَيَّ أَنْ يُغْسَلَ ثَلَاثًا فَصَاعِدًا لَا يُقْصَرُ عَنْ ثَلَاثٍ، لِمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اغْسِلْنَهَا ثَلَاثًا أَوْ خَمْسًا، وَإِنْ أَنْقَوْا فِي أَقَلَّ مِنْ ثَلَاثِ مَرَّاتٍ أَجْزَأَ "، وَلَا نَرَى أَنَّ قَوْلَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا هُوَ عَلَى مَعْنَى الْإِنْقَاءِ ثَلَاثًا أَوْ خَمْسًا وَلَمْ يُؤَقِّتْ، وَكَذَلِكَ قَالَ: الْفُقَهَاءُ وَهُمْ أَعْلَمُ بِمَعَانِي الْحَدِيثِ، وقَالَ أَحْمَدُ، وَإِسْحَاق: وَتَكُونُ الْغَسَلَاتُ بِمَاءٍ وَسِدْرٍ، وَيَكُونُ فِي الْآخِرَةِ شَيْءٌ مِنْ كَافُورٍ.
ام عطیہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک بیٹی ۱؎ کا انتقال ہو گیا تو آپ نے فرمایا: اسے طاق بار غسل دو، تین بار یا پانچ بار یا اس سے زیادہ بار، اگر ضروری سمجھو اور پانی اور بیر کی پتی سے غسل دو، آخر میں کافور ملا لینا، یا فرمایا: تھوڑا سا کافور ملا لینا اور جب تم غسل سے فارغ ہو جاؤ تو مجھے اطلاع دینا، چنانچہ جب ہم (نہلا کر) فارغ ہو گئے، تو ہم نے آپ کو اطلاع دی، آپ نے اپنا تہبند ہماری طرف ڈال دیا اور فرمایا: اسے اس کے بدن سے لپیٹ دو۔ ہشیم کہتے ہیں کہ اور دوسرے لوگوں ۲؎ کی روایتوں میں، مجھے نہیں معلوم شاید ہشام بھی انہیں میں سے ہوں، یہ ہے کہ انہوں نے کہا: اور ہم نے ان کے بالوں کو تین چوٹیوں میں گوندھ دیا۔ ہشیم کہتے ہیں: میرا گمان ہے کہ ان کی روایتوں میں یہ بھی ہے کہ پھر ہم نے ان چوٹیوں کو ان کے پیچھے ڈال دیا ۳؎ ہشیم کہتے ہیں: پھر خالد نے ہم سے لوگوں کے سامنے بیان کیا وہ حفصہ اور محمد سے روایت کر رہے تھے اور یہ دونوں ام عطیہ رضی الله عنہا سے کہ وہ کہتی ہیں کہ ہم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پہلے ان کے داہنے سے اور وضو کے اعضاء سے شروع کرنا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ام عطیہ رضی الله عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ام سلیم رضی الله عنہا سے بھی روایت ہے،
۳- اہل علم کا اسی پر عمل ہے،
۴- ابراہیم نخعی کہتے ہیں کہ میت کا غسل غسل جنابت کی طرح ہے،
۵- مالک بن انس کہتے ہیں: ہمارے نزدیک میت کے غسل کی کوئی متعین حد نہیں اور نہ ہی کوئی متعین کیفیت ہے، بس اسے پاک کر دیا جائے گا،
۶- شافعی کہتے ہیں کہ مالک کا قول کہ اسے غسل دیا جائے اور پاک کیا جائے مجمل ہے، جب میت بیری یا کسی اور چیز کے پانی سے پاک کر دیا جائے تو بس اتنا کافی ہے، البتہ میرے نزدیک مستحب یہ ہے کہ اسے تین یا اس سے زیادہ بار غسل دیا جائے۔ تین بار سے کم غسل نہ دیا جائے، اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے اسے تین بار یا پانچ بار غسل دو، اور اگر لوگ اسے تین سے کم مرتبہ میں ہی پاک صاف کر دیں تو یہ بھی کافی ہے، ہم یہ نہیں سمجھتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا تین یا پانچ بار کا حکم دینا محض پاک کرنے کے لیے ہے، آپ نے کوئی حد مقرر نہیں کی ہے، ایسے ہی دوسرے فقہاء نے بھی کہا ہے۔ وہ حدیث کے مفہوم کو خوب جاننے والے ہیں،
۷- احمد اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں: ہر مرتبہ غسل پانی اور بیری کی پتی سے ہو گا، البتہ آخری بار اس میں کافور ملا لیں گے۔ [سنن ترمذي/كتاب الجنائز عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 990]
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الوضوء 31 (167)، والجنائز 10 (1255)، و11 (1256)، صحیح مسلم/الجنائز 12 (939)، سنن ابی داود/ الجنائز 33 (3144، 3145)، سنن النسائی/الجنائز 31 (1885)، و32 (1886)، (تحفة الأشراف: 18102، و18109، و18111، و18124، 18135) (صحیح) وأخرجہ کل من: صحیح البخاری/الجنائز 8 (1253)، و9 (1254)، و12 (1257)، و13 (1258)، و14 (1260)، و15 (1261)، و16 (1262)، و17 (1263)، صحیح مسلم/الجنائز (المصدرالمذکور)، سنن ابی داود/ الجنائز 33 (3142، 3146، 3147)، سنن النسائی/الجنائز 33 (3142، 3143، 3146، 3147)، سنن النسائی/الجنائز 28 (1882)، و30 (1884)، و33 (1887)، و34 (1888، 1889، 1890)، و35 (1891، 1892)، و36 (1894، 1895)، سنن ابن ماجہ/الجنائز 8 (1458)، موطا امام مالک/الجنائز 1 (2)، مسند احمد (6/407)، من غیر ہذا الوجہ۔»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1458)

16. باب فِي مَا جَاءَ فِي الْمِسْكِ لِلْمَيِّتِ
16. باب: میت کو مشک خوشبو لگانے کا بیان۔
حدیث نمبر: 991
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ , وَشَبَابَةُ، قَالَا: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ خُلَيْدِ بْنِ جَعْفَرٍ، سَمِعَ أَبَا نَضْرَةَ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَطْيَبُ الطِّيبِ الْمِسْكُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سب سے بہترین خوشبو مشک ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الجنائز عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 991]
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الألفاظ من الأدب 5 (2252)، سنن النسائی/الجنائز 42 (1906)، والزینة 3 (5122)، و74 (5216)، (تحفة الأشراف: 4311) (صحیح) وأخرجہ کل من: صحیح مسلم/المصدرالمذکور، سنن ابی داود/ الجنائز 37 (3158)، سنن النسائی/الجنائز 42 (1907)، مسند احمد (3/36، 40، 46، 62) من غیر ہذا الوجہ۔»

حدیث نمبر: 992
حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ خُلَيْدِ بْنِ جَعْفَرٍ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُئِلَ عَنِ الْمِسْكِ، فَقَالَ: " هُوَ أَطْيَبُ طِيبِكُمْ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ، وَهُوَ قَوْلُ: أَحْمَدَ، وَإِسْحَاق، وَقَدْ كَرِهَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ الْمِسْكَ لِلْمَيِّتِ، قَالَ: وَقَدْ رَوَاهُ الْمُسْتَمِرُّ بْنُ الرَّيَّانِ أَيْضًا، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ عَلِيٌّ: قَالَ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ: الْمُسْتَمِرُّ بْنُ الرَّيَّانِ ثِقَةٌ، قَالَ يَحْيَى: خُلَيْدُ بْنُ جَعْفَرٍ ثِقَةٌ.
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مشک کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: یہ تمہاری خوشبوؤں میں سب سے بہتر خوشبو ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اور اسے مستمر بن ریان نے بھی بطریق: «أبي نضرة عن أبي سعيد عن النبي صلى الله عليه وسلم» روایت کیا ہے، یحییٰ بن سعید کہتے ہیں کہ مستمر بن ریان ثقہ ہیں،
۳- بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے،
۴- اور بعض اہل علم نے میت کے لیے مشک کو مکروہ قرار دیا ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الجنائز عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 992]
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

17. باب مَا جَاءَ فِي الْغُسْلِ مِنْ غُسْلِ الْمَيِّتِ
17. باب: میت کو غسل دینے سے غسل کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 993
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي الشَّوَارِبِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ الْمُخْتَارِ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مِنْ غُسْلِهِ الْغُسْلُ، وَمِنْ حَمْلِهِ الْوُضُوءُ يَعْنِي الْمَيِّتَ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ عَلِيٍّ، وَعَائِشَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ مَوْقُوفًا، وَقَدِ اخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي الَّذِي يُغَسِّلُ الْمَيِّتَ، فَقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ: إِذَا غَسَّلَ مَيِّتًا فَعَلَيْهِ الْغُسْلُ، وقَالَ بَعْضُهُمْ: عَلَيْهِ الْوُضُوءُ. وقَالَ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ: أَسْتَحِبُّ الْغُسْلَ مِنْ غُسْلِ الْمَيِّتِ وَلَا أَرَى ذَلِكَ وَاجِبًا، وَهَكَذَا قَالَ الشَّافِعِيُّ: وقَالَ أَحْمَدُ: مَنْ غَسَّلَ مَيِّتًا أَرْجُو أَنْ لَا يَجِبَ عَلَيْهِ الْغُسْلُ، وَأَمَّا الْوُضُوءُ فَأَقَلُّ مَا قِيلَ فِيهِ، وقَالَ إِسْحَاق: لَا بُدَّ مِنَ الْوُضُوءِ، قَالَ: وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ، أَنَّهُ قَالَ: لَا يَغْتَسِلُ وَلَا يَتَوَضَّأُ مَنْ غَسَّلَ الْمَيِّتَ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میت کو نہلانے سے غسل اور اسے اٹھانے سے وضو ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن ہے،
۲- ابوہریرہ رضی الله عنہ سے یہ موقوفاً بھی مروی ہے،
۳- اس باب میں علی اور عائشہ رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں،
۴- اہل علم کا اس شخص کے بارے میں اختلاف ہے جو میت کو غسل دے۔ صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا خیال ہے کہ جب کوئی کسی میت کو غسل دے تو اس پر غسل ہے،
۵- بعض کہتے ہیں: اس پر وضو ہے۔ مالک بن انس کہتے ہیں: میت کو غسل دینے سے غسل کرنا میرے نزدیک مستحب ہے، میں اسے واجب نہیں سمجھتا ۱؎ اسی طرح شافعی کا بھی قول ہے،
۶- احمد کہتے ہیں: جس نے میت کو غسل دیا تو مجھے امید ہے کہ اس پر غسل واجب نہیں ہو گا۔ رہی وضو کی بات تو یہ سب سے کم ہے جو اس سلسلے میں کہا گیا ہے،
۷-اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں: وضو ضروری ہے ۲؎، عبداللہ بن مبارک سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا کہ جس نے میت کو غسل دیا، وہ نہ غسل کرے گا نہ وضو۔ [سنن ترمذي/كتاب الجنائز عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 993]
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الجنائز 8 (1463) (تحفة الأشراف: 1726) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1463)

18. باب مَا يُسْتَحَبُّ مِنَ الأَكْفَانِ
18. باب: کس رنگ کا کفن مستحب ہے؟
حدیث نمبر: 994
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُثْمَانَ بْنِ خُثَيْمٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْبَسُوا مِنْ ثِيَابِكُمُ الْبَيَاضَ، فَإِنَّهَا مِنْ خَيْرِ ثِيَابِكُمْ وَكَفِّنُوا فِيهَا مَوْتَاكُمْ ". وَفِي الْبَاب: عَنْ سَمُرَةَ، وَابْنِ عُمَرَ، وَعَائِشَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَهُوَ الَّذِي يَسْتَحِبُّهُ أَهْلُ الْعِلْمِ، وقَالَ ابْنُ الْمُبَارَكِ: أَحَبُّ إِلَيَّ أَنْ يُكَفَّنَ فِي ثِيَابِهِ الَّتِي كَانَ يُصَلِّي فِيهَا، وقَالَ أَحْمَدُ، وَإِسْحَاق: أَحَبُّ الثِّيَابِ إِلَيْنَا أَنْ يُكَفَّنَ فِيهَا الْبَيَاضُ وَيُسْتَحَبُّ حُسْنُ الْكَفَنِ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم سفید کپڑے پہنو، کیونکہ یہ تمہارے بہترین کپڑوں میں سے ہیں اور اسی میں اپنے مردوں کو بھی کفناؤ ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابن عباس رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں سمرہ، ابن عمر اور عائشہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- اور اہل علم اسی کو مستحب قرار دیتے ہیں۔ ابن مبارک کہتے ہیں: میرے نزدیک مستحب یہ ہے کہ آدمی انہی کپڑوں میں کفنایا جائے جن میں وہ نماز پڑھتا تھا،
۴- احمد اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں: کفنانے کے لیے میرے نزدیک سب سے پسندیدہ کپڑا سفید رنگ کا کپڑا ہے۔ اور اچھا کفن دینا مستحب ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الجنائز عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 994]
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ اللباس 16 (4061)، سنن ابن ماجہ/الجنائز 12 (1472) (تحفة الأشراف: 5534)، مسند احمد (1/355) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1472)


Previous    1    2    3    4    5    6    7    Next