الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ترمذي کل احادیث (3956)
حدیث نمبر سے تلاش:

سنن ترمذي
كتاب الجنائز عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: جنازہ کے احکام و مسائل
19. باب مِنْهُ
19. باب: کفن سے متعلق ایک اور باب۔
حدیث نمبر: 995
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ حَسَّانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا وَلِيَ أَحَدُكُمْ أَخَاهُ فَلْيُحْسِنْ كَفَنَهُ ". وَفِيهِ عَنْ جَابِرٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وقَالَ ابْنُ الْمُبَارَكِ: قَالَ سَلَّامُ بْنُ أَبِي مُطِيعٍ فِي قَوْلِهِ: " وَلْيُحْسِنْ أَحَدُكُمْ كَفَنَ أَخِيهِ "، قَالَ: هُوَ الصَّفَاءُ وَلَيْسَ بِالْمُرْتَفِعِ.
ابوقتادہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں کوئی اپنے بھائی کا (کفن کے سلسلے میں) ولی (ذمہ دار) ہو تو اسے اچھا کفن دے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،
۲- اس باب میں جابر رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے،
۳- ابن مبارک کہتے ہیں کہ سلام بن ابی مطیع آپ کے قول «وليحسن أحدكم كفن أخيه» اپنے بھائی کو اچھا کفن دو کے بارے میں کہتے ہیں کہ اس سے مراد کپڑے کی صفائی اور سفیدی ہے، اس سے قیمتی کپڑا مراد نہیں ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الجنائز عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 995]
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الجنائز 12 (1474) (تحفة الأشراف: 12125) (صحیح)»

20. باب مَا جَاءَ فِي كَفَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
20. باب: نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے کفن کا بیان۔
حدیث نمبر: 996
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: " كُفِّنَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ثَلَاثَةِ أَثْوَابٍ بِيضٍ يَمَانِيَةٍ، لَيْسَ فِيهَا قَمِيصٌ وَلَا عِمَامَةٌ ". قَالَ: فَذَكَرُوا لِعَائِشَةَ قَوْلَهُمْ: فِي ثَوْبَيْنِ وَبُرْدِ حِبَرَةٍ، فَقَالَتْ: قَدْ أُتِيَ بِالْبُرْدِ وَلَكِنَّهُمْ رَدُّوهُ وَلَمْ يُكَفِّنُوهُ فِيهِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تین سفید ۱؎ یمنی کپڑوں میں کفنایا گیا ۲؎ نہ ان میں قمیص ۳؎ تھی اور نہ عمامہ۔ لوگوں نے عائشہ رضی الله عنہا سے کہا: لوگ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دو کپڑوں اور ایک دھاری دار چادر میں کفنایا گیا تھا؟ تو ام المؤمنین عائشہ نے کہا: چادر لائی گئی تھی لیکن لوگوں نے اسے واپس کر دیا تھا، آپ کو اس میں نہیں کفنایا گیا تھا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الجنائز عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 996]
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الجنائز 13 (941)، سنن ابی داود/ الجنائز 34 (3152)، سنن النسائی/الجنائز 39 (900)، سنن ابن ماجہ/الجنائز 11 (1469)، (تحفة الأشراف: 16786) (صحیح) وأخرجہ کل من: صحیح البخاری/الجنائز 18 (1264)، و23 (1271)، و24 (1272)، و94 (1387)، صحیح مسلم/الجنائز (المصدرالمذکور)، الجنائز (3151)، سنن النسائی/الجنائز 39 (1898 و1899)، موطا امام مالک/الجنائز 2 (5)، مسند احمد (6/40، 93، 118، 132، 165، 231) من غیر ہذا الوجہ۔»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1469)

حدیث نمبر: 997
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ السَّرِيِّ، عَنْ زَائِدَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، " أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَفَّنَ حَمْزَةَ بْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فِي نَمِرَةٍ فِي ثَوْبٍ وَاحِدٍ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ عَلِيٍّ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ، وَابْنِ عُمَرَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ فِي كَفَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رِوَايَاتٌ مُخْتَلِفَةٌ، وَحَدِيثُ عَائِشَةَ أَصَحُّ الْأَحَادِيثِ الَّتِي رُوِيَتْ فِي كَفَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالْعَمَلُ عَلَى حَدِيثِ عَائِشَةَ عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، قَالَ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ: يُكَفَّنُ الرَّجُلُ فِي ثَلَاثَةِ أَثْوَابٍ إِنْ شِئْتَ فِي قَمِيصٍ وَلِفَافَتَيْنِ، وَإِنْ شِئْتَ فِي ثَلَاثِ لَفَائِفَ، وَيُجْزِي ثَوْبٌ وَاحِدٌ إِنْ لَمْ يَجِدُوا ثَوْبَيْنِ، وَالثَّوْبَانِ يُجْزِيَانِ، وَالثَّلَاثَةُ لِمَنْ وَجَدَهَا أَحَبُّ إِلَيْهِمْ، وَهُوَ قَوْلُ: الشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق، قَالُوا: تُكَفَّنُ الْمَرْأَةُ فِي خَمْسَةِ أَثْوَابٍ.
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حمزہ بن عبدالمطلب رضی الله عنہ کو ایک ہی کپڑے میں ایک چادر میں کفنایا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- عائشہ رضی الله عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کفن کے بارے میں مختلف احادیث آئی ہیں۔ اور ان سبھی حدیثوں میں عائشہ والی حدیث سب سے زیادہ صحیح ہے،
۳- اس باب میں علی ۱؎، ابن عباس، عبداللہ بن مغفل اور ابن عمر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۴- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اکثر اہل علم کا عمل عائشہ ہی کی حدیث پر ہے،
۵- سفیان ثوری کہتے ہیں: آدمی کو تین کپڑوں میں کفنایا جائے۔ چاہے ایک قمیص اور دو لفافوں میں، اور چاہے تین لفافوں میں۔ اگر دو کپڑے نہ ملیں تو ایک بھی کافی ہے، اور دو کپڑے بھی کافی ہو جاتے ہیں، اور جسے تین میسر ہوں تو اس کے لیے مستحب یہی تین کپڑے ہیں۔ شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے۔ وہ کہتے ہیں: عورت کو پانچ کپڑوں میں کفنایا جائے ۲؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الجنائز عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 997]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 2369) (حسن)»

قال الشيخ الألباني: حسن الأحكام (59 - 60)

21. باب مَا جَاءَ فِي الطَّعَامِ يُصْنَعُ لأَهْلِ الْمَيِّتِ
21. باب: میت کے گھر والوں کے لیے کھانا پکانے کا بیان۔
حدیث نمبر: 998
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، وَعَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ خَالِدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ، قَالَ: لَمَّا جَاءَ نَعْيُ جَعْفَرٍ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اصْنَعُوا لِأَهْلِ جَعْفَرٍ طَعَامًا فَإِنَّهُ قَدْ جَاءَهُمْ مَا يَشْغَلُهُمْ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ كَانَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ يَسْتَحِبُّ أَنْ يُوَجَّهَ إِلَى أَهْلِ الْمَيِّتِ شَيْءٌ لِشُغْلِهِمْ بِالْمُصِيبَةِ، وَهُوَ قَوْلُ: الشَّافِعِيِّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَجَعْفَرُ بْنُ خَالِدٍ: هُوَ ابْنُ سَارَةَ وَهُوَ ثِقَةٌ، رَوَى عَنْهُ ابْنُ جُرَيْجٍ.
عبداللہ بن جعفر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ جب جعفر طیار کے مرنے کی خبر آئی ۱؎ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جعفر کے گھر والوں کے لیے کھانا پکاؤ، اس لیے کہ آج ان کے پاس ایسی چیز آئی ہے جس میں وہ مشغول ہیں ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- بعض اہل علم میت کے گھر والوں کے مصیبت میں پھنسے ہونے کی وجہ سے ان کے یہاں کچھ بھیجنے کو مستحب قرار دیتے ہیں۔ یہی شافعی کا بھی قول ہے،
۳- جعفر بن خالد کے والد خالد سارہ کے بیٹے ہیں اور ثقہ ہیں۔ ان سے ابن جریج نے روایت کی ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الجنائز عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 998]
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الجنائز 30 (3132)، سنن ابن ماجہ/الجنائز 59 (1610) (تحفة الأشراف: 5217) (حسن)»

قال الشيخ الألباني: حسن، ابن ماجة (1610) ، المشكاة (1739)

22. باب مَا جَاءَ فِي النَّهْىِ عَنْ ضَرْبِ الْخُدُودِ، وَشَقِّ الْجُيُوبِ عِنْدَ الْمُصِيبَةِ
22. باب: مصیبت کے وقت چہرہ پیٹنے اور گریبان پھاڑنے کی ممانعت کا بیان۔
حدیث نمبر: 999
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ سُفْيَانَ، قَالَ: حَدَّثَنِي زُبَيْدٌ الْأَيَامِيُّ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَيْسَ مِنَّا مَنْ شَقَّ الْجُيُوبَ وَضَرَبَ الْخُدُودَ وَدَعَا بِدَعْوَةِ الْجَاهِلِيَّةِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو گریبان پھاڑے، چہرہ پیٹے اور جاہلیت کی ہانک پکارے ۱؎ ہم میں سے نہیں ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الجنائز عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 999]
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الجنائز 35 (1294)، والمناقب 8 (3519)، سنن النسائی/الجنائز 19 (1863)، و21 (1865)، سنن ابن ماجہ/الجنائز 52 (1584) (تحفة الأشراف: 9559)، مسند احمد (1/386، 442) (صحیح) ووأخرجہ کل من: صحیح البخاری/الجنائز 38 (1297)، و39 (1298)، والمناقب 8 (3519)، صحیح مسلم/الإیمان 44 (103)، سنن النسائی/الجنائز 17 (1861)، مسند احمد (1/465) من غیر ہذا الوجہ۔»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1584)

23. باب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ النَّوْحِ
23. باب: میت پر نوحہ کرنے کی حرمت کا بیان۔
حدیث نمبر: 1000
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا قُرَّانُ بْنُ تَمَّامٍ، وَمَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ، وَيَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ عُبَيْدٍ الطَّائِيِّ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ رَبِيعَةَ الْأَسَدِيِّ، قَالَ: مَاتَ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ يُقَالُ لَهُ: قَرَظَةُ بْنُ كَعْبٍ، فَنِيحَ عَلَيْهِ فَجَاءَ الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ فَصَعِدَ الْمِنْبَرَ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، وَقَالَ: مَا بَالُ النَّوْحِ فِي الْإِسْلَامِ أَمَا إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " مَنْ نِيحَ عَلَيْهِ عُذِّبَ بِمَا نِيحَ عَلَيْهِ ". وَفِي الْبَاب: عَنْ عُمَرَ، وَعَلِيٍّ، وَأَبِي مُوسَى، وَقَيْسِ بْنِ عَاصِمٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَجُنَادَةَ بْنِ مَالِكٍ، وَأَنَسٍ، وَأُمِّ عَطِيَّةَ، وَسَمُرَةَ، وَأَبِي مَالِكٍ الْأَشْعَرِيِّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ الْمُغِيرَةِ حَدِيثٌ غَرِيبٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
علی بن ربیعہ اسدی کہتے ہیں کہ انصار کا قرظہ بن کعب نامی ایک شخص مر گیا، اس پر نوحہ ۱؎ کیا گیا تو مغیرہ بن شعبہ رضی الله عنہ آئے اور منبر پر چڑھے۔ اور اللہ کی حمد و ثنا بیان کی پھر کہا: کیا بات ہے؟ اسلام میں نوحہ ہو رہا ہے۔ سنو! میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: جس پر نوحہ کیا گیا اس پر نوحہ کیے جانے کا عذاب ہو گا ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- مغیرہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں عمر، علی، ابوموسیٰ، قیس بن عاصم، ابوہریرہ، جنادہ بن مالک، انس، ام عطیہ، سمرہ اور ابو مالک اشعری رضی الله عنہ سے بھی احادیث آئی ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الجنائز عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1000]
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الجنائز 33 (1291)، صحیح مسلم/الجنائز 9 (933)، (تحفة الأشراف: 11520)، مسند احمد (4/245، 252)، (بزیادة في السیاق) (صحیح) وانظر: مسند احمد (2/291، 414، 415، 455، 526، 531)»

قال الشيخ الألباني: صحيح الأحكام (28 - 29)

حدیث نمبر: 1001
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ، وَالْمَسْعُودِيُّ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ، عَنْ أَبِي الرَّبِيعِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَرْبَعٌ فِي أُمَّتِي مِنْ أَمْرِ الْجَاهِلِيَّةِ لَنْ يَدَعَهُنَّ النَّاسُ: النِّيَاحَةُ، وَالطَّعْنُ فِي الْأَحْسَابِ، وَالْعَدْوَى أَجْرَبَ بَعِيرٌ فَأَجْرَبَ مِائَةَ بَعِيرٍ مَنْ أَجْرَبَ الْبَعِيرَ الْأَوَّلَ، وَالْأَنْوَاءُ مُطِرْنَا بِنَوْءٍ كَذَا وَكَذَا ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری امت میں چار باتیں جاہلیت کی ہیں، لوگ انہیں کبھی نہیں چھوڑیں گے: نوحہ کرنا، حسب و نسب میں طعنہ زنی، اور بیماری کا ایک سے دوسرے کو لگ جانے کا عقیدہ رکھنا مثلاً یوں کہنا کہ ایک اونٹ کو کھجلی ہوئی اور اس نے سو اونٹ میں کھجلی پھیلا دی تو آخر پہلے اونٹ کو کھجلی کیسے لگی؟ اور نچھتروں کا عقیدہ رکھنا۔ مثلاً فلاں اور فلاں نچھتر (ستارے) کے سبب ہم پر بارش ہوئی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الجنائز عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1001]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 14884) (حسن)»

قال الشيخ الألباني: حسن، الصحيحة (735)

24. باب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ الْبُكَاءِ عَلَى الْمَيِّتِ
24. باب: میت پر (آواز سے) رونے کی کراہت کا بیان۔
حدیث نمبر: 1002
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي زِيَادٍ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْمَيِّتُ يُعَذَّبُ بِبُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ ". وَفِي الْبَاب: عَنْ ابْنِ عُمَرَ، وَعِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ كَرِهَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ الْبُكَاءَ عَلَى الْمَيِّتِ، قَالُوا: الْمَيِّتُ يُعَذَّبُ بِبُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ، وَذَهَبُوا إِلَى هَذَا الْحَدِيثِ، وقَالَ ابْنُ الْمُبَارَكِ: أَرْجُو إِنْ كَانَ يَنْهَاهُمْ فِي حَيَاتِهِ أَنْ لَا يَكُونَ عَلَيْهِ مِنْ ذَلِكَ شَيْءٌ.
عمر بن خطاب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میت کو اس کے گھر والوں کے اس پر رونے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- عمر رضی الله عنہ کی حدیث صحیح ہے،
۲- اس باب میں ابن عمر اور عمران بن حصین رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- اہل علم کی ایک جماعت نے میت پر رونے کو مکروہ (تحریمی) قرار دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میت کو اس پر رونے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے۔ اور وہ اسی حدیث کی طرف گئے ہیں،
۴- اور ابن مبارک کہتے ہیں: مجھے امید ہے کہ اگر وہ (میت) اپنی زندگی میں لوگوں کو اس سے روکتا رہا ہو تو اس پر اس میں سے کچھ نہیں ہو گا۔ [سنن ترمذي/كتاب الجنائز عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1002]
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/الجنائز 14 (1851) (تحفة الأشراف: 10527) (صحیح) وأخرجہ کل من: صحیح البخاری/الجنائز 32 (1287)، و33 (1290، 1291)، صحیح مسلم/الجنائز 9 (927)، سنن النسائی/الجنائز 14 (1849)، و15 (1854)، سنن ابن ماجہ/الجنائز 54 (1593)، (تحفة الأشراف: 9031)، مسند احمد (1/26، 36، 47، 50، 51، 54)، من غیر ہذا الوجہ۔و راجع أیضا مسند احمد (6/281)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1593)

حدیث نمبر: 1003
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنِي أَسِيدُ بْنُ أَبِي أَسِيدٍ، أَنَّ مُوسَى بْنَ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيَّ أَخْبَرَهُ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَا مِنْ مَيِّتٍ يَمُوتُ فَيَقُومُ بَاكِيهِ فَيَقُولُ: وَا جَبَلَاهْ وَا سَيِّدَاهْ أَوْ نَحْوَ ذَلِكَ إِلَّا وُكِّلَ بِهِ مَلَكَانِ يَلْهَزَانِهِ أَهَكَذَا كُنْتَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو کوئی بھی مر جائے پھر اس پر رونے والا کھڑا ہو کر کہے: ہائے میرے پہاڑ، ہائے میرے سردار یا اس جیسے الفاظ کہے تو اسے دو فرشتوں کے حوالے کر دیا جاتا ہے، وہ اسے گھونسے مارتے ہیں (اور کہتے جاتے ہیں) کیا تو ایسا ہی تھا؟۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن غریب ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الجنائز عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1003]
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الجنائز 54 (1594) (تحفة الأشراف: 9031) (حسن)»

قال الشيخ الألباني: حسن، ابن ماجة (1594)

25. باب مَا جَاءَ فِي الرُّخْصَةِ فِي الْبُكَاءِ عَلَى الْمَيِّتِ
25. باب: میت پر رونے کی رخصت کا بیان۔
حدیث نمبر: 1004
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ عَبَّادٍ الْمُهَلَّبِيُّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ يَحْيَى بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " الْمَيِّتُ يُعَذَّبُ بِبُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ ". فَقَالَتْ عَائِشَةُ: يَرْحَمُهُ اللَّهُ لَمْ يَكْذِبْ وَلَكِنَّهُ وَهِمَ، إِنَّمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِرَجُلٍ مَاتَ يَهُودِيًّا: " إِنَّ الْمَيِّتَ لَيُعَذَّبُ وَإِنَّ أَهْلَهُ لَيَبْكُونَ عَلَيْهِ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَقَرَظَةَ بْنِ كَعْبٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَابْنِ مَسْعُودٍ، وَأُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ عَائِشَةَ، وَقَدْ ذَهَبَ أَهْلُ الْعِلْمِ إِلَى هَذَا وَتَأَوَّلُوا هَذِهِ الْآيَةَ وَلا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى سورة الأنعام آية 164، وَهُوَ قَوْلُ: الشَّافِعِيِّ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میت کو اپنے گھر والوں کے اس پر رونے سے عذاب دیا جاتا ہے، ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں: اللہ (ابن عمر) پر رحم کرے، انہوں نے جھوٹ نہیں کہا، انہیں وہم ہوا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یہ بات اس یہودی کے لیے فرمائی تھی جو مر گیا تھا: میت کو عذاب ہو رہا ہے اور اس کے گھر والے اس پر رو رہے ہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- عائشہ رضی الله عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- یہ حدیث دوسری سندوں سے بھی عائشہ رضی الله عنہا سے مروی ہے،
۳- اس باب میں ابن عباس، قرظہ بن کعب، ابوہریرہ، ابن مسعود اور اسامہ بن زید رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۴- بعض اہل علم اسی جانب گئے ہیں اور ان لوگوں نے آیت: «ولا تزر وازرة وزر أخرى» کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا، کا مطلب بھی یہی بیان کیا ہے اور یہی شافعی کا بھی قول ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الجنائز عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1004]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 8564 و17683) (صحیح) وأخرجہ کل من: صحیح البخاری/المغازي 8 (3978)، صحیح مسلم/الجنائز 9 (928-929)، سنن ابی داود/ الجنائز 29 (3129)، سنن النسائی/الجنائز 15 (1856)، مسند احمد (2/38)، و (6/39، 57، 95، 209)، من غیر ہذا الطریق، وانظر أیضا (رقم: 1006)»

قال الشيخ الألباني: صحيح


Previous    1    2    3    4    5    6    7    8    Next