الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ترمذي کل احادیث (3956)
حدیث نمبر سے تلاش:

سنن ترمذي
كتاب الديات عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: دیت و قصاص کے احکام و مسائل
حدیث نمبر: 1406
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ , حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ , حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ , حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيُّ , عَنْ أَبِي شُرَيْحٍ الْكَعْبِيِّ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَ مَكَّةَ وَلَمْ يُحَرِّمْهَا النَّاسُ , مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلَا يَسْفِكَنَّ فِيهَا دَمًا , وَلَا يَعْضِدَنَّ فِيهَا شَجَرًا , فَإِنْ تَرَخَّصَ مُتَرَخِّصٌ " , فَقَالَ: " أُحِلَّتْ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِنَّ اللَّهَ أَحَلَّهَا لِي , وَلَمْ يُحِلَّهَا لِلنَّاسِ , وَإِنَّمَا أُحِلَّتْ لِي سَاعَةً مِنْ نَهَارٍ , ثُمَّ هِيَ حَرَامٌ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ , ثُمَّ إِنَّكُمْ مَعْشَرَ خُزَاعَةَ قَتَلْتُمْ هَذَا الرَّجُلَ مِنْ هُذَيْلٍ , وَإِنِّي عَاقِلُهُ , فَمَنْ قُتِلَ لَهُ قَتِيلٌ بَعْدَ الْيَوْمِ فَأَهْلُهُ بَيْنَ خِيرَتَيْنِ: إِمَّا أَنْ يَقْتُلُوا , أَوْ يَأْخُذُوا الْعَقْلَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَحَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ , وَرَوَاهُ شَيْبَانُ أَيْضًا , عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ مِثْلَ هَذَا , وَرُوِي عَنْ أَبِي شُرَيْحٍ الْخُزَاعِيِّ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَنْ قُتِلَ لَهُ قَتِيلٌ , فَلَهُ أَنْ يَقْتُلَ , أَوْ يَعْفُوَ , أَوْ يَأْخُذَ الدِّيَةَ ". وَذَهَبَ إِلَى هَذَا بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ , وَهُوَ قَوْلُ: أَحْمَدَ , وَإِسْحَاق.
ابوشریح کعبی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مکہ کو اللہ نے حرمت والا (محترم) بنایا ہے، لوگوں نے اسے نہیں بنایا، پس جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو وہ اس میں خونریزی نہ کرے، نہ اس کا درخت کاٹے، (اب) اگر کوئی (خونریزی کے لیے) اس دلیل سے رخصت نکالے کہ مکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے حلال کیا گیا تھا (تو اس کا یہ استدلال باطل ہے) اس لیے کہ اللہ نے اسے میرے لیے حلال کیا تھا لوگوں کے لیے نہیں، اور میرے لیے بھی دن کے ایک خاص وقت میں حلال کیا گیا تھا، پھر وہ تاقیامت حرام ہے؟ اے خزاعہ والو! تم نے ہذیل کے اس آدمی کو قتل کیا ہے، میں اس کی دیت ادا کرنے والا ہوں، (سن لو) آج کے بعد جس کا بھی کوئی آدمی مارا جائے گا تو مقتول کے ورثاء کو دو چیزوں میں سے کسی ایک کا اختیار ہو گا: یا تو وہ (اس کے بدلے) اسے قتل کر دیں، یا اس سے دیت لے لیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث بھی حسن صحیح ہے،
۲- اسے شیبان نے بھی یحییٰ بن ابی کثیر سے اسی کے مثل روایت کیا ہے،
۳- اور یہ (حدیث بنام ابوشریح کعبی کی جگہ بنام) ابوشریح خزاعی بھی روایت کی گئی ہے۔ (اور یہ دونوں ایک ہی ہیں) اور انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے، آپ نے فرمایا: جس کا کوئی آدمی مارا جائے تو اسے اختیار ہے یا تو وہ اس کے بدلے اسے قتل کر دے، یا معاف کر دے، یا دیت وصول کرے،
۴- بعض اہل علم اسی طرف گئے ہیں، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الديات عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1406]
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 809 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، الإرواء (2220)

حدیث نمبر: 1407
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قُتِلَ رَجُلٌ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَدُفِعَ الْقَاتِلُ إِلَى وَلِيِّهِ , فَقَالَ الْقَاتِلُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , وَاللَّهِ مَا أَرَدْتُ قَتْلَهُ , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَمَا إِنَّهُ إِنْ كَانَ قَوْلُهُ صَادِقًا فَقَتَلْتَهُ دَخَلْتَ النَّارَ " , فَخَلَّى عَنْهُ الرَّجُلُ , قَالَ: وَكَانَ مَكْتُوفًا بِنِسْعَةٍ , قَالَ: فَخَرَجَ يَجُرُّ نِسْعَتَهُ , قَالَ: فَكَانَ يُسَمَّى: ذَا النِّسْعَةِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ , وَالنِّسْعَةُ حَبْلٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک آدمی قتل کر دیا گیا، تو قاتل مقتول کے ولی (وارث) کے سپرد کر دیا گیا، قاتل نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اللہ کی قسم! میں نے اسے قصداً قتل نہیں کیا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خبردار! اگر وہ (قاتل) اپنے قول میں سچا ہے پھر بھی تم نے اسے قتل کر دیا تو تم جہنم میں جاؤ گے ۱؎، چنانچہ مقتول کے ولی نے اسے چھوڑ دیا، وہ آدمی رسی سے بندھا ہوا تھا، تو وہ رسی گھسیٹتا ہوا باہر نکلا، اس لیے اس کا نام ذوالنسعہ (رسی یا تسمے والا) رکھ دیا گیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اور «نسعہ»: رسی کو کہتے ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الديات عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1407]
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الدیات 3 (4498)، سنن النسائی/القسامة 5 (4726)، سنن ابن ماجہ/الدیات 34 (2690)، (تحفة الأشراف: 12507) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2690)

14. باب مَا جَاءَ فِي النَّهْىِ عَنِ الْمُثْلَةِ
14. باب: مردہ کے مثلے کی ممانعت کا بیان۔
حدیث نمبر: 1408
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ , حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ , حَدَّثَنَا سُفْيَانُ , عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ , عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بُرَيْدَةَ , عَنْ أَبِيهِ , قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا بَعَثَ أَمِيرًا عَلَى جَيْشٍ , أَوْصَاهُ فِي خَاصَّةِ نَفْسِهِ بِتَقْوَى اللَّهِ , وَمَنْ مَعَهُ مِنَ الْمُسْلِمِينَ خَيْرًا , فَقَالَ: " اغْزُوا بِسْمِ اللَّهِ , وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ , قَاتِلُوا مَنْ كَفَرَ , اغْزُوا وَلَا تَغُلُّوا , وَلَا تَغْدِرُوا , وَلَا تُمَثِّلُوا , وَلَا تَقْتُلُوا وَلِيدًا " , وَفِي الْحَدِيثِ قِصَّةٌ , قَالَ: وَفِي الْبَاب , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ , وَشَدَّادِ بْنِ أَوْسٍ , وَعِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ , وَأَنَسٍ , وَسَمُرَةَ , وَالْمُغِيرَةِ , وَيَعْلَى بْنِ مُرَّةَ , وَأَبِي أَيُّوبَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ بُرَيْدَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ , وَكَرِهَ أَهْلُ الْعِلْمِ الْمُثْلَةَ.
بریدہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی لشکر پر امیر مقرر کر کے بھیجتے تو خاص طور سے اسے اپنے بارے میں اللہ سے ڈرنے کی وصیت فرماتے، اور جو مسلمان اس کے ساتھ ہوتے انہیں بھلائی کی وصیت کرتے، چنانچہ آپ نے فرمایا: اللہ کے نام سے اس کے راستے میں جہاد کرو، جو کفر کرے اس سے لڑو، جہاد کرو، مگر مال غنیمت میں خیانت نہ کرو، بدعہدی نہ کرو، مثلہ ۱؎ نہ کرو اور نہ کسی بچے کو قتل کرو، حدیث میں کچھ تفصیل ہے ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- بریدہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں عبداللہ بن مسعود، شداد بن اوس، عمران بن حصین، انس، سمرہ، مغیرہ، یعلیٰ بن مرہ اور ابوایوب سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- اہل علم نے مثلہ کو حرام کہا ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الديات عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1408]
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الجہاد 2 (1721)، سنن ابی داود/ الجہاد 90 (2612)، سنن ابن ماجہ/الجہاد 38 (2858)، (تحفة الأشراف: 1929)، و مسند احمد (5/352، 358)، وسنن الدارمی/السیر (2483) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2858)

حدیث نمبر: 1409
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ , حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ , حَدَّثَنَا خَالِدٌ , عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَبِي الْأَشْعَثِ الصَّنْعَانِيِّ، عَنْ شَدَّادِ بْنِ أَوْسٍ , أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِنَّ اللَّهَ كَتَبَ الْإِحْسَانَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ , فَإِذَا قَتَلْتُمْ فَأَحْسِنُوا الْقِتْلَةَ , وَإِذَا ذَبَحْتُمْ فَأَحْسِنُوا الذِّبْحَةَ , وَلْيُحِدَّ أَحَدُكُمْ شَفْرَتَهُ , وَلْيُرِحْ ذَبِيحَتَهُ ". قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ , أَبُو الْأَشْعَثِ الصَّنْعَانِيُّ اسْمُهُ: شَرَاحِيلُ بْنُ آدَةَ.
شداد بن اوس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیشک اللہ نے ہر کام کو اچھے طریقے سے کرنا ضروری قرار دیا ہے، لہٰذا جب تم قتل ۱؎ کرو تو اچھے طریقے سے قتل کرو، اور جب تم ذبح کرو تو اچھے طریقے سے ذبح کرو، تمہارے ہر آدمی کو چاہیئے کہ اپنی چھری تیز کر لے اور اپنے ذبیحہ کو آرام پہنچائے ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الديات عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1409]
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الصید 11 (1955)، سنن ابی داود/ الضحایا 12 (2815)، سنن النسائی/الضحایا 22 (4410)، و 27 (4419)، سنن ابن ماجہ/الذبائح 3 (3170)، (تحفة الأشراف: 8417)، و مسند احمد (4/123، 124، 125)، و سنن الدارمی/الأضاحي 10 (2013) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (3170)

15. باب مَا جَاءَ فِي دِيَةِ الْجَنِينِ
15. باب: حمل (ماں کے پیٹ میں موجود بچہ) کی دیت کا بیان۔
حدیث نمبر: 1410
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ سَعِيدٍ الْكِنْدِيُّ الْكُوفِيُّ , حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي زَائِدَةَ , عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو , عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْجَنِينِ بِغُرَّةٍ عَبْدٍ أَوْ أَمَةٍ , فَقَالَ الَّذِي قُضِيَ عَلَيْهِ , أَيُعْطَى مَنْ لَا شَرِبَ , وَلَا أَكَلَ , وَلَا صَاحَ , فَاسْتَهَلَّ , فَمِثْلُ ذَلِكَ يُطَلَّ , فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ هَذَا لَيَقُولُ بِقَوْلِ شَاعِرٍ: بَلْ فِيهِ غُرَّةٌ عَبْدٌ , أَوْ أَمَةٌ ". وَفِي الْبَاب , عَنْ حَمَلِ بْنِ مَالِكِ بْنِ النَّابِغَةِ , وَالْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ , قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ , وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ , وقَالَ بَعْضُهُمْ: الْغُرَّةُ عَبْدٌ أَوْ أَمَةٌ , أَوْ خَمْسُ مِائَةِ دِرْهَمٍ , وقَالَ بَعْضُهُمْ: أَوْ فَرَسٌ أَوْ بَغْلٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے «جنين» (حمل) کی دیت میں «غرة» یعنی غلام یا لونڈی (دینے) کا فیصلہ کیا، جس کے خلاف فیصلہ کیا گیا تھا وہ کہنے لگا: کیا ایسے کی دیت دی جائے گی، جس نے نہ کچھ کھایا نہ پیا، نہ چیخا، نہ آواز نکالی، اس طرح کا خون تو ضائع اور باطل ہو جاتا ہے، (یہ سن کر) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ شاعروں والی بات کر رہا ہے ۱؎، «جنين» (حمل گرا دینے) کی دیت میں «غرة» یعنی غلام یا لونڈی دینا ہے ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں حمل بن مالک بن نابغہ اور مغیرہ بن شعبہ سے احادیث آئی ہیں،
۳- اہل علم کا اسی پر عمل ہے،
۴- غرہ کی تفسیر بعض اہل علم نے، غلام، لونڈی یا پانچ سو درہم سے کی ہے،
۵- اور بعض اہل علم کہتے ہیں: «غرة» سے مراد گھوڑا یا خچر ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الديات عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1410]
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الطب 46 (5758)، والفرائض 11 (5759)، والدیات 25 (6904)، و 10 6909، 6910)، صحیح مسلم/القسامة 11 (1681)، سنن ابی داود/ الدیات 21 (4576)، القسامة 39 (4822)، سنن ابن ماجہ/الدیات 11 (2639)، (تحفة الأشراف: 5106)، و موطا امام مالک/العقول 7 (5)، و مسند احمد (2/236، 274، 438، 498، 535، 539)، وانظر ما یأتي برقم: 2111 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2639)

حدیث نمبر: 1411
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ , حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ , حَدَّثَنَا شُعْبَةُ , عَنْ مَنْصُورٍ , عَنْ إِبْرَاهِيمَ , عَنْ عُبَيْدِ بْنِ نَضْلَةَ , عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ , أَنَّ امْرَأَتَيْنِ كَانَتَا ضَرَّتَيْنِ , فَرَمَتْ إِحْدَاهُمَا الْأُخْرَى بِحَجَرٍ , أَوْ عَمُودِ فُسْطَاطٍ , فَأَلْقَتْ جَنِينَهَا " فَقَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْجَنِينِ غُرَّةٌ عَبْدٌ , أَوْ أَمَةٌ، وَجَعَلَهُ عَلَى عَصَبَةِ الْمَرْأَةِ ". قَالَ الْحَسَنُ , وَأَخْبَرَنَا زَيْدُ بْنُ حُبَابٍ , عَنْ سُفْيَانَ , عَنْ مَنْصُورٍ , بِهَذَا الْحَدِيثِ نَحْوَهُ , وقَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
مغیرہ بن شعبہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ دو عورتیں سوکن تھیں، ان میں سے ایک نے دوسری کو پتھر یا خیمے کی میخ (گھونٹی) سے مارا، تو اس کا حمل ساقط ہو گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حمل کی دیت میں «غرة» یعنی غلام یا لونڈی دینے کا فیصلہ فرمایا اور دیت کی ادائیگی اس عورت کے عصبہ کے ذمہ ٹھہرائی ۱؎۔ حسن بصری کہتے ہیں: زید بن حباب نے سفیان ثوری سے روایت کی، اور سفیان ثوری نے منصور سے اس حدیث کو اسی طرح روایت کی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الديات عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1411]
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الدیات 25 (6904 - 6908)، صحیح مسلم/القسامة (الحدود)، 11 (1682)، سنن ابی داود/ الدیات 21 (4568)، سنن النسائی/القسامة 39 (4825)، سنن ابن ماجہ/الدیات 7 (2640)، (تحفة الأشراف: 11510)، و مسند احمد (4/224، 245، 246، 249)، و سنن الدارمی/الدیات 20 (2425) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، الإرواء (2206)

16. باب مَا جَاءَ لاَ يُقْتَلُ مُسْلِمٌ بِكَافِرٍ
16. باب: مسلمان کافر کے بدلے قتل نہیں کیا جائے گا۔
حدیث نمبر: 1412
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ , حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ , أَنْبَأَنَا مُطَرِّفٌ , عَنْ الشَّعْبِيِّ، حَدَّثَنَا أَبُو جُحَيْفَةَ، قَالَ: قُلْتُ لِعَلِيٍّ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ هَلْ عِنْدَكُمْ سَوْدَاءُ فِي بَيْضَاءَ لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ , قَالَ: " لَا , وَالَّذِي فَلَقَ الْحَبَّةَ , وَبَرَأَ النَّسَمَةَ , مَا عَلِمْتُهُ إِلَّا فَهْمًا يُعْطِيهِ اللَّهُ رَجُلًا فِي الْقُرْآنِ وَمَا فِي الصَّحِيفَةِ " , قُلْتُ: وَمَا فِي الصَّحِيفَةِ؟ قَالَ: " الْعَقْلُ , وَفِكَاكُ الْأَسِيرِ , وَأَنْ لَا يُقْتَلَ مُؤْمِنٌ بِكَافِرٍ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو , قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَلِيٍّ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ , وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ , وَهُوَ قَوْلُ: سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ , وَمَالِكِ بْنِ أَنَسٍ , وَالشَّافِعِيِّ , وَأَحْمَدَ , وَإِسْحَاق , قَالُوا: لَا يُقْتَلُ مُؤْمِنٌ بِكَافِرٍ , وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: يُقْتَلُ الْمُسْلِمُ بِالْمُعَاهِدِ , وَالْقَوْلُ الْأَوَّلُ أَصَحُّ.
ابوجحیفہ کہتے ہیں کہ میں نے علی رضی الله عنہ سے پوچھا کیا ۱؎: امیر المؤمنین! کیا آپ کے پاس کاغذ میں لکھی ہوئی کوئی ایسی تحریر ہے جو قرآن میں نہیں ہے؟ انہوں نے کہا: نہیں، اس ذات کی قسم جس نے دانے کو پھاڑا اور جان کو پیدا کیا! میں سوائے اس فہم و بصیرت کے جسے اللہ تعالیٰ قرآن کے سلسلہ میں آدمی کو نوازتا ہے اور اس صحیفہ میں موجود چیز کے کچھ نہیں جانتا، میں نے پوچھا: صحیفہ میں کیا ہے؟ کہا: اس میں دیت، قید یوں کے آزاد کرنے کا ذکر اور آپ کا یہ فرمان ہے: مومن کافر کے بدلے قتل نہیں کیا جائے گا ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- علی رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما سے بھی روایت ہے،
۳- بعض اہل علم کے نزدیک اسی پر عمل ہے، سفیان ثوری، مالک بن انس، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے، یہ لوگ کہتے ہیں: مومن کافر کے بدلے نہیں قتل کیا جائے گا،
۴- اور بعض اہل علم کہتے ہیں: ذمی کے بدلے بطور قصاص مسلمان کو قتل کیا جائے گا، لیکن پہلا قول زیادہ صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الديات عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1412]
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/العلم 39 (111)، والجہاد 171 (3047)، والدیات 24 (6903)، و 31 (6915)، سنن النسائی/القسامة 13، 14 (4748)، سنن ابن ماجہ/الدیات 21 (2658)، (تحفة الأشراف: 10311)، و مسند احمد (1/79)، وسنن الدارمی/الدیات 5 (2401) (وانظر ما یأتي برقم 2127) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2658)

17. باب مَا جَاءَ فِي دِيَةِ الْكُفَّارِ
17. باب: کافر کی دیت کا بیان۔
حدیث نمبر: 1413
حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ أَحْمَدَ , وحَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ , عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ , عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ جَدِّهِ , أَنَّ ّرَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَا يُقْتَلُ مُسْلِمٌ بِكَافِرٍ " , وَبِهَذَا الْإِسْنَادِ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " دِيَةُ عَقْلِ الْكَافِرِ , نِصْفُ دِيَةِ عَقْلِ الْمُؤْمِنِ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو فِي هَذَا الْبَابِ حَدِيثٌ حَسَنٌ , وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي دِيَةِ الْيَهُودِيِّ , وَالنَّصْرَانِيِّ , فَذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي دِيَةِ الْيَهُودِيِّ , وَالنَّصْرَانِيِّ إِلَى مَا رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وقَالَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ: دِيَةُ الْيَهُودِيِّ , وَالنَّصْرَانِيِّ , نِصْفُ دِيَةِ الْمُسْلِمِ , وَبِهَذَا يَقُولُ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ.
عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمان کافر کے بدلے قصاص میں قتل نہیں کیا جائے گا، اور اسی سند سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کافر کی دیت مومن کی دیت کا نصف ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- اس باب میں عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کی حدیث حسن ہے،
۲- یہودی اور نصرانی کی دیت میں اہل علم کا اختلاف ہے، یہودی اور نصرانی کی دیت کی بابت بعض اہل علم کا مسلک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی حدیث کے موافق ہے،
۳- عمر بن عبدالعزیز کہتے ہیں: یہودی اور نصرانی کی دیت مسلمان کی دیت کا نصف ہے، احمد بن حنبل اسی کے قائل ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الديات عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1413]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 8661) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح، ابن ماجة (2659)

حدیث نمبر: 1413M
وَرُوِيَ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ , أَنَّهُ قَالَ: دِيَةُ الْيَهُودِيِّ , وَالنَّصْرَانِيِّ: أَرْبَعَةُ آلَافِ دِرْهَمٍ , وَدِيَةُ الْمَجُوسِيِّ: ثَمَانُ مِائَةِ دِرْهَمٍ , وَبِهَذَا يَقُولُ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ , وَالشَّافِعِيُّ , وَإِسْحَاق , وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: دِيَةُ الْيَهُودِيِّ , وَالنَّصْرَانِيِّ , مِثْلُ دِيَةِ الْمُسْلِمِ , وَهُوَ قَوْلُ: سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ , وَأَهْلِ الْكُوفَةِ.
عمر بن خطاب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ یہودی اور نصرانی کی دیت چار ہزار درہم اور مجوسی کی آٹھ سو درہم ہے۔
(امام ترمذی کہتے ہیں:)
۱- مالک بن انس، شافعی اور اسحاق بن راہویہ اسی کے قائل ہیں،
۲- بعض اہل علم کہتے ہیں: یہودی اور نصرانی کی دیت مسلمانوں کی دیت کے برابر ہے، سفیان ثوری اور اہل کوفہ کا یہی قول ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الديات عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1413M]
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/القسامة 37 (4810)، سنن ابن ماجہ/الدیات 13 (2644)، (تحفة الأشراف:)، و مسند احمد (2/183، 224) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح، ابن ماجة (2659)

18. باب مَا جَاءَ فِي الرَّجُلِ يَقْتُلُ عَبْدَهُ
18. باب: اپنے غلام کو قتل کر دینے والے شخص کا بیان۔
حدیث نمبر: 1414
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ , حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ قَتَادَةَ , عَنْ الْحَسَنِ , عَنْ سَمُرَةَ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ قَتَلَ عَبْدَهُ قَتَلْنَاهُ , وَمَنْ جَدَعَ عَبْدَهُ جَدَعْنَاهُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ , وَقَدْ ذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنَ التَّابِعِينَ , مِنْهُمْ إِبْرَاهِيمُ النَّخَعِيُّ إِلَى هَذَا , وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْهُمْ الْحَسَنُ الْبَصْرِيُّ , وَعَطَاءُ بْنُ أَبِي رَبَاحٍ: لَيْسَ بَيْنَ الْحُرِّ وَالْعَبْدِ قِصَاصٌ فِي النَّفْسِ , وَلَا فِيمَا دُونَ النَّفْسِ , وَهُوَ قَوْلُ: أَحْمَدَ , وَإِسْحَاق , وقَالَ بَعْضُهُمْ: إِذَا قَتَلَ عَبْدَهُ لَا يُقْتَلُ بِهِ , وَإِذَا قَتَلَ عَبْدَ غَيْرِهِ قُتِلَ بِهِ , وَهُوَ قَوْلُ: سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ , وَأَهْلِ الْكُوفَةِ.
سمرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو اپنے غلام کو قتل کرے گا ہم بھی اسے قتل کر دیں گے اور جو اپنے غلام کا کان، ناک کاٹے گا ہم بھی اس کا کان، ناک کاٹیں گے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،
۲- تابعین میں سے بعض اہل علم کا یہی مسلک ہے، ابراہیم نخعی اسی کے قائل ہیں،
۳- بعض اہل علم مثلاً حسن بصری اور عطا بن ابی رباح وغیرہ کہتے ہیں: آزاد اور غلام کے درمیان قصاص نہیں ہے، (نہ قتل کرنے میں، نہ ہی قتل سے کم زخم پہنچانے) میں، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے،
۴- بعض اہل علم کہتے ہیں: اگر کوئی اپنے غلام کو قتل کر دے تو اس کے بدلے اسے قتل نہیں کیا جائے گا، اور جب دوسرے کے غلام کو قتل کرے گا تو اسے اس کے بدلے میں قتل کیا جائے گا، سفیان ثوری اور اہل کوفہ کا یہی قول ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الديات عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1414]
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الدیات 7 (4515)، سنن النسائی/القسامة 10 (4751)، و 11 (4752)، و 17 (4767)، و17 (4768)، سنن ابن ماجہ/الدیات 23 (2663)، (تحفة الأشراف: 4586)، و مسند احمد (5/10، 11، 12، 18) (ضعیف) (قتادہ اور حسن بصری دونوں مدلس ہیں اور روایت عنعنہ سے ہے، نیز حدیث عقیقہ کے سوا دیگر احادیث کے حسن کے سمرہ سے سماع میں سخت اختلاف ہے)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (2663)


Previous    1    2    3    4    Next