الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


صحيح البخاري کل احادیث (7563)
حدیث نمبر سے تلاش:

صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
20. بَابُ: {وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَيْثُمَا كُنْتُمْ} إِلَى قَوْلِهِ: {وَلَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ}:
20. باب: آیت کی تفسیر ”اور آپ جس جگہ سے بھی باہر نکلیں، اپنا منہ بوقت نماز مسجد الحرام کی طرف موڑ لیا کریں اور تم لوگ بھی جہاں کہیں ہو اپنا منہ اس کی طرف موڑ لیا کرو“ «ولعلكم تهتدون» تک۔
حدیث نمبر: 4494
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ , عَنْ مَالِكٍ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ , عَنْ ابْنِ عُمَرَ , قَالَ: بَيْنَمَا النَّاسُ فِي صَلَاةِ الصُّبْحِ بِقُبَاءٍ إِذْ جَاءَهُمْ آتٍ , فَقَالَ:" إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أُنْزِلَ عَلَيْهِ اللَّيْلَةَ وَقَدْ أُمِرَ أَنْ يَسْتَقْبِلَ الْكَعْبَةَ فَاسْتَقْبِلُوهَا وَكَانَتْ وُجُوهُهُمْ إِلَى الشَّأْمِ فَاسْتَدَارُوا إِلَى الْقِبْلَةِ".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، ان سے امام مالک نے، ان سے عبداللہ بن دینار نے اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ ابھی لوگ مسجد قباء میں صبح کی نماز پڑھ ہی رہے تھے کہ ایک آنے والے صاحب آئے اور کہا کہ رات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن نازل ہوا ہے اور آپ کو کعبہ کی طرف منہ کرنے کا حکم ہوا ہے۔ اس لیے آپ لوگ بھی اسی طرف منہ کر لیں۔ وہ لوگ شام کی طرف منہ کر کے نماز پڑھ رہے تھے لیکن اسی وقت کعبہ کی طرف پھر گئے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ/حدیث: 4494]
21. بَابُ قَوْلِهِ: {إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِمَا وَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَإِنَّ اللَّهَ شَاكِرٌ عَلِيمٌ}:
21. باب: آیات کی تفسیر ”صفا اور مروہ بیشک اللہ کی یادگار چیزوں میں سے ہیں، پس جو کوئی بیت اللہ کا حج کرے یا عمرہ کرے اس پر کوئی گناہ نہیں کہ ان دونوں کے درمیان سعی کرے اور جو کوئی خوشی سے اور کوئی نیکی زیادہ کرے سو اللہ تو بڑا قدر دان، بڑا ہی علم رکھنے والا ہے“۔
حدیث نمبر: Q4495
شَعَائِرُ: عَلَامَاتٌ وَاحِدَتُهَا شَعِيرَةٌ , وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: الصَّفْوَانُ الْحَجَرُ , وَيُقَالُ: الْحِجَارَةُ الْمُلْسُ الَّتِي لَا تُنْبِتُ شَيْئًا وَالْوَاحِدَةُ، صَفْوَانَةٌ بِمَعْنَى: الصَّفَا، وَالصَّفَا لِلْجَمِيعِ.
‏‏‏‏ «شعائر» کے معنی علامات کے ہیں۔ اس کا واحد «شعيرة» ہے۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ «صفوان» ایسے پتھر کو کہتے ہیں جس پر کوئی چیز نہ اگتی ہو۔ واحد «صفوانة» ہے۔ «صفاهى» کے معنی میں اور «صفا» جمع کے لیے آتا ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ/حدیث: Q4495]
حدیث نمبر: 4495
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ , أَخْبَرَنَا مَالِكٌ , عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ , عَنْ أَبِيهِ , أَنَّهُ قَالَ: قُلْتُ لِعَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَنَا يَوْمَئِذٍ حَدِيثُ السِّنِّ:" أَرَأَيْتِ قَوْلَ اللَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى: إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِمَا سورة البقرة آية 158، فَمَا أُرَى عَلَى أَحَدٍ شَيْئًا أَنْ لَا يَطَّوَّفَ بِهِمَا، فَقَالَتْ عَائِشَةُ:" كَلَّا، لَوْ كَانَتْ كَمَا تَقُولُ، كَانَتْ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ لَا يَطَّوَّفَ بِهِمَا إِنَّمَا أُنْزِلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ فِي الْأَنْصَارِ كَانُوا يُهِلُّونَ لِمَنَاةَ، وَكَانَتْ مَنَاةُ حَذْوَ قُدَيْدٍ، وَكَانُوا يَتَحَرَّجُونَ أَنْ يَطُوفُوا بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، فَلَمَّا جَاءَ الْإِسْلَامُ سَأَلُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِمَا سورة البقرة آية 158.
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں ہشام بن عروہ نے، ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا (ان دنوں میں نوعمر تھا) کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے اس ارشاد کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے «إن الصفا والمروة من شعائر الله فمن حج البيت أو اعتمر فلا جناح عليه أن يطوف بهما‏» صفا اور مروہ بیشک اللہ کی یادگار چیزوں میں سے ہیں۔ پس جو کوئی بیت اللہ کا حج کرے یا عمرہ کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں کہ ان دونوں کے درمیان آمدورفت (یعنی سعی) کرے۔ میرا خیال ہے کہ اگر کوئی ان کی سعی نہ کرے تو اس پر بھی کوئی گناہ نہیں ہونا چاہئیے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ ہرگز نہیں جیسا کہ تمہارا خیال ہے۔ اگر مسئلہ یہی ہوتا تو پھر واقعی ان کے سعی نہ کرنے میں کوئی گناہ نہ تھا۔ لیکن یہ آیت انصار کے بارے میں نازل ہوئی تھی (اسلام سے پہلے) انصار منات بت کے نام سے احرام باندھتے تھے، یہ بت مقام قدید میں رکھا ہوا تھا اور انصار صفا اور مروہ کی سعی کو اچھا نہیں سمجھتے تھے۔ جب اسلام آیا تو انہوں نے سعی کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی «إن الصفا والمروة من شعائر الله فمن حج البيت أو اعتمر فلا جناح عليه أن يطوف بهما‏» صفا اور مروہ بیشک اللہ کی یادگار چیزوں میں سے ہیں، سو جو کوئی بیت اللہ کا حج کرے یا عمرہ کرے تو اس پر کوئی بھی گناہ نہیں کہ ان دونوں کے درمیان (سعی) کرے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ/حدیث: 4495]
حدیث نمبر: 4496
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ , حَدَّثَنَا سَفيانُ , عَنْ عَاصِمِ بْنِ سُلَيْمَانَ , قَالَ:" سَأَلْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ , عَنْ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ،فَقَالَ:" كُنَّا نَرَى أَنَّهُمَا مِنْ أَمْرِ الْجَاهِلِيَّةِ، فَلَمَّا كَانَ الْإِسْلَامُ أَمْسَكْنَا عَنْهُمَا، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِمَا سورة البقرة آية 158".
ہم سے محمد بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے عاصم بن سلیمان نے بیان کیا اور انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے صفا اور مروہ کے متعلق پوچھا۔ انہوں نے بتایا کہ اسے ہم جاہلیت کے کاموں میں سے سمجھتے تھے۔ جب اسلام آیا تو ہم ان کی سعی سے رک گئے، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی «إن الصفا والمروة» سے ارشاد «أن يطوف بهما‏» تک۔ یعنی بیشک صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں۔ پس ان کی سعی کرنے میں حج اور عمرہ کے دوران کوئی گناہ نہیں ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ/حدیث: 4496]
22. بَابُ قَوْلِهِ: {وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَتَّخِذُ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَنْدَادًا}:
22. باب: آیت کی تفسیر ”اور کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اللہ کے سوا دوسروں کو بھی اس کا شریک بنائے ہوئے ہیں“۔
حدیث نمبر: Q4497
يَعْنِي أَضْدَادًا وَاحِدُهَا نِدٌّ.
‏‏‏‏ لفظ «ندادا» بمعنی «أضدادا» جس کا واحد «ند» ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ/حدیث: Q4497]
حدیث نمبر: 4497
حَدَّثَنَا عَبْدَانُ، عَنْ أَبِي حَمْزَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ , عَنْ شَقِيقٍ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ , قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَلِمَةً، وَقُلْتُ أُخْرَى، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ مَاتَ وَهْوَ يَدْعُو مِنْ دُونِ اللَّهِ نِدًّا دَخَلَ النَّارَ" , وَقُلْتُ: أَنَا مَنْ مَاتَ وَهْوَ لَا يَدْعُو لِلَّهِ نِدًّا دَخَلَ الْجَنَّةَ.
ہم سے عبدان نے بیان کیا، ان سے ابوحمزہ نے، ان سے اعمش نے، ان سے شقیق نے اور ان سے عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کلمہ ارشاد فرمایا اور میں نے ایک اور بات کہی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص اس حالت میں مر جائے کہ وہ اللہ کے سوا اوروں کو بھی اس کا شریک ٹھہراتا رہا ہو تو وہ جہنم میں جاتا ہے اور میں نے یوں کہا کہ جو شخص اس حالت میں مرے کہ اللہ کا کسی کو شریک نہ ٹھہراتا رہا تو وہ جنت میں جاتا ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ/حدیث: 4497]
23. بَابُ: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلَى الْحُرُّ بِالْحُرِّ} إِلَى قَوْلِهِ: {عَذَابٌ أَلِيمٌ}:
23. باب: آیت کی تفسیر ”اے ایمان والو! تم پر مقتولوں کے بارے میں بدلہ لینا فرض کر دیا گیا ہے، آزاد کے بدلہ میں آزاد اور غلام کے بدلے میں غلام“ آخر آیت «عذاب أليم» تک۔
حدیث نمبر: Q4498
{عُفِيَ} تُرِكَ.
‏‏‏‏ اور «عفي» بمعنی «ترك» ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ/حدیث: Q4498]
حدیث نمبر: 4498
حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ , حَدَّثَنَا عَمْرٌو , قَالَ: سَمِعْتُ مُجَاهِدًا , قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، يَقُولُ: كَانَ فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ الْقِصَاصُ وَلَمْ تَكُنْ فِيهِمُ الدِّيَةُ , فَقَالَ اللَّهُ تَعَالَى لِهَذِهِ الْأُمَّةِ: كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلَى الْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالأُنْثَى بِالأُنْثَى فَمَنْ عُفِيَ لَهُ مِنْ أَخِيهِ شَيْءٌ سورة البقرة آية 178 فَالْعَفْوُ أَنْ يَقْبَلَ الدِّيَةَ فِي الْعَمْدِ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ وَأَدَاءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسَانٍ سورة البقرة آية 178 يَتَّبِعُ بِالْمَعْرُوفِ وَيُؤَدِّي بِإِحْسَانٍ ذَلِكَ تَخْفِيفٌ مِنْ رَبِّكُمْ وَرَحْمَةٌ سورة البقرة آية 178 مِمَّا كُتِبَ عَلَى مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ فَمَنِ اعْتَدَى بَعْدَ ذَلِكَ فَلَهُ عَذَابٌ أَلِيمٌ سورة البقرة آية 178 قَتَلَ بَعْدَ قَبُولِ الدِّيَةِ".
ہم سے حمیدی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے عمرو نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے مجاہد سے سنا، انہوں نے کہا کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ بنی اسرائیل میں قصاص یعنی بدلہ تھا لیکن دیت نہیں تھی۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس امت سے کہا کہ تم پر مقتولوں کے باب میں قصاص فرض کیا گیا، آزاد کے بدلے میں آزاد اور غلام کے بدلے میں غلام اور عورت کے بدلے میں عورت، ہاں جس کسی کو اس کے فریق مقتول کی طرف سے کچھ معافی مل جائے۔ تو معافی سے مراد یہی دیت قبول کرنا ہے۔ سو مطالبہ معقول اور نرم طریقہ سے ہو اور مطالبہ کو اس فریق کے پاس خوبی سے پہنچایا جائے۔ یہ تمہارے پروردگار کی طرف سے رعایت اور مہربانی ہے۔ یعنی اس کے مقابلہ میں جو تم سے پہلی امتوں پر فرض تھا۔ سو جو کوئی اس کے بعد بھی زیادتی کرے گا، اس کے لیے آخرت میں درد ناک عذاب ہو گا۔ (زیادتی سے مراد یہ ہے کہ) دیت بھی لے لی اور پھر اس کے بعد قتل بھی کر دیا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ/حدیث: 4498]
حدیث نمبر: 4499
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيُّ , حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ , أَنَّ أَنَسًا حَدَّثَهُمْ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" كِتَابُ اللَّهِ الْقِصَاصُ".
ہم سے محمد بن عبداللہ انصاری نے بیان کیا، کہا ہم سے حمیدی نے بیان کیا، ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کتاب اللہ کا حکم قصاص کا ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ/حدیث: 4499]
حدیث نمبر: 4500
حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُنِيرٍ , سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ بَكْرٍ السَّهْمِيَّ , حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ , عَنْ أَنَسٍ: أَنَّ الرُّبَيِّعَ عَمَّتَهُ، كَسَرَتْ ثَنِيَّةَ جَارِيَةٍ، فَطَلَبُوا إِلَيْهَا الْعَفْوَ، فَأَبَوْا فَعَرَضُوا الْأَرْشَ، فَأَبَوْا فَأَتَوْا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبَوْا إِلَّا الْقِصَاصَ، فَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْقِصَاصِ، فَقَالَ أَنَسُ بْنُ النَّضْرِ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , أَتُكْسَرُ ثَنِيَّةُ الرُّبَيِّعِ لَا، وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ لَا تُكْسَرُ ثَنِيَّتُهَا , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا أَنَسُ ,كِتَابُ اللَّهِ الْقِصَاصُ"، فَرَضِيَ الْقَوْمُ فَعَفَوْا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ مِنْ عِبَادِ اللَّهِ مَنْ لَوْ أَقْسَمَ عَلَى اللَّهِ لَأَبَرَّهُ".
مجھ سے عبداللہ بن منیر نے بیان کیا، کہا کہ میں نے عبداللہ بن بکر سہمی سے سنا، ان سے حمید نے بیان کیا اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ میری پھوپھی ربیع نے ایک لڑکی کے دانت توڑ دئیے، پھر اس لڑکی سے لوگوں نے معافی کی درخواست کی لیکن اس لڑکی کے قبیلے والے معافی دینے کو تیار نہیں ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور قصاص کے سوا اور کسی چیز پر راضی نہیں تھے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قصاص کا حکم دے دیا۔ اس پر انس بن نضر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا ربیع رضی اللہ عنہا کے دانت توڑ دئیے جائیں گے، نہیں، اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے، ان کے دانت نہ توڑے جائیں گے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انس! کتاب اللہ کا حکم قصاص کا ہی ہے۔ پھر لڑکی والے راضی ہو گئے اور انہوں نے معاف کر دیا۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کچھ اللہ کے بندے ایسے ہیں کہ اگر وہ اللہ کا نام لے کر قسم کھائیں تو اللہ ان کی قسم پوری کر ہی دیتا ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ/حدیث: 4500]

Previous    1    2    3    4    5    6    7    8    Next