الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سلسله احاديث صحيحه کل احادیث (4103)
حدیث نمبر سے تلاش:

سلسله احاديث صحيحه
المبتدا والانبياء وعجائب المخلوقات
ابتدائے (مخلوقات)، انبیا و رسل، عجائبات خلائق
2471. خلق خدا کا اندازہ لگانا مخلوق کے بس کی بات نہیں
حدیث نمبر: 3813
-" أرأيت هذا الليل الذي قد كان ألبس عليك كل شيء أين جعل؟ فقال: الله أعلم. قال: فإن الله يفعل ما يشاء".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: اے محمد! آپ کا اس آیت کے بارے میں کیا خیال ہے کہ جنت کی چوڑائی آسمانوں اور زمین کے برابر ہے۔ (‏‏‏‏اگر بات ایسے ہی ہے تو) جہنم کہاں ہو گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تیرا اس بارے میں کیا خیال ہے کہ رات، جو اپنے دورانیے میں تجھ پر ہر چیز خلط ملط کر دیتی ہے، اسے (‏‏‏‏دن کے وقت) کہاں رکھ دیا جاتا ہے؟ ‏‏‏‏ اس نے کہا: اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے، وہ کر لیتا ہے، (‏‏‏‏ ‏‏‏‏لہذا اس موضوع پر سوچنے کی ضرورت ہی نہیں کہ جہنم کہاں ہو گی)۔ [سلسله احاديث صحيحه/المبتدا والانبياء وعجائب المخلوقات/حدیث: 3813]
2472. جہنم کی شکایت اور اس کا ازالہ
حدیث نمبر: 3814
-" اشتكت النار إلى ربها وقالت: أكل بعضي بعضا، فجعل لها نفسين: نفسا في الشتاء ونفسا في الصيف، فأما نفسها في الشتاء فزمهرير وأما نفسها في الصيف فسموم".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب جہنم نے اپنے ربّ سے یہ شکوہ کیا کہ (‏‏‏‏شدت کی وجہ سے) میرا بعض، بعض کو کھا رہا ہے، تو اللہ تعالیٰ نے اسے دو سانس لینے کی اجازت دے دی۔ ایک سانس موسم سرما میں ایک سانس موسم گرما میں۔ سو موسم سرما کی سردی کی شدت وہی سانس ہے اور گرمیوں کے موسم میں گرمی کی شدت بھی اسی سانس کا اثر ہے۔ [سلسله احاديث صحيحه/المبتدا والانبياء وعجائب المخلوقات/حدیث: 3814]
2473. پہلوں اور پچھلوں کے بدبخت
حدیث نمبر: 3815
-" أشقى الأولين عاقر الناقة وأشقى الآخرين الذي يطعنك يا علي. وأشار إلى حيث يطعن".
عبداللہ بن انس مرسلاً بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‏‏‏‏پہلے لوگوں میں سب سے بڑا بدبخت وہ تھا جس نے (‏‏‏‏ سیدنا صالح کے معجزہ) کی اونٹنی کی ٹانگیں کاٹ دی تھیں اور اے علی! پچھلوں میں بدبخت ترین وہ ہو گا جو تجھ پر نیزے کا وار کرے گا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نیزے والی جگہ کی طرف اشارہ بھی کیا۔ [سلسله احاديث صحيحه/المبتدا والانبياء وعجائب المخلوقات/حدیث: 3815]
2474. حسن یوسف
حدیث نمبر: 3816
-" أعطي يوسف شطر الحسن".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یوسف علیہ السلام کو نصف حسن عطا کیا گیا تھا۔ [سلسله احاديث صحيحه/المبتدا والانبياء وعجائب المخلوقات/حدیث: 3816]
2475. یوسف علیہ السلام کی بزرگی اور صبر
حدیث نمبر: 3817
-" إن الكريم ابن الكريم ابن الكريم ابن الكريم يوسف بن يعقوب بن إسحاق بن إبراهيم خليل الرحمن تبارك وتعالى، لو لبثت في السجن ما لبث يوسف ثم جاءني الداعي لأجبت، إذ جاءه الرسول فقال: * (ارجع إلى ربك فاسأله ما بال النسوة اللاتي قطعن أيديهن) *، ورحمة الله على لوط إن كان ليأوي إلى ركن شديد، إذ قال لقومه: * (لو أن لي بكم قوة أو آوي إلى ركن شديد) *، فما بعث الله بعده من نبي إلا في ثروة من قومه".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یوسف بن یعقوب بن اسحاق بن خلیل رحمن ابراہیم، کریم بن کریم بن کریم بن کریم تھے۔ اگر میں (‏‏‏‏محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) اتنا عرصہ جیل میں ٹھہرتا جتنا کہ یوسف علیہ السلام ٹھہرے تھے اور میرے پاس بلانے کے لیے داعی آتا تو میں (‏‏‏‏فوراً) اس کی بات قبول کرتا اور جب ان کے پاس قاصد آیا تو انھوں نے تو کہا: «فَاسْأَلْهُ مَا بَالُ النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ» اس سے پوچھو کہ اب ان عورتوں کا حقیقی واقعہ کیا ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لیے تھے۔ (۱۲-يوسف:۵۰) اور اللہ تعالیٰ لوط علیہ السلام پر رحمت کرے وہ تو کسی مضبوط آسرے کا سہارا لینا چاہتے تھے۔ جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا: «لَوْ أَنَّ لِي بِكُمْ قُوَّةً أَوْ آوِي إِلَى رُكْنٍ شَدِيدٍ» کاش کہ مجھ میں تم سے مقابلہ کرنے کی قوت ہوتی یا میں کسی زبردست کا آسرا پکڑ پاتا۔ (۱۱-هود:۸۰) سو ان کے بعد جب بھی اللہ تعالیٰ نے کوئی نبی بھیجا تو اسے اس کی قوم کے لوگوں کے انبوہ کثیر میں بھیجا۔ [سلسله احاديث صحيحه/المبتدا والانبياء وعجائب المخلوقات/حدیث: 3817]
حدیث نمبر: 3818
-" عجبت لصبر أخي يوسف وكرمه - والله يغفر له - حيث أرسل إليه ليستفتي في الرؤية، ولو كنت أنا لم أفعل حتى أخرج، وعجبت لصبره وكرمه - والله يغفر له - أتى ليخرج فلم يخرج حتى أخبرهم بعذره، ولو كنت أنا لبادرت الباب".
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے اپنے بھائی یوسف علیہ اسلام۔ اللہ تعالیٰ ان کو معاف فرمائے۔ کے صبر اور کشادہ دلی پر بڑا تعجب ہے، جب ان کی طرف خواب کی تعبیر بیان کرنے کا پیغام بھیجا گیا۔ اگر میں وہاں ہوتا تو تعبیر بیان کرنے سے پہلے (‏‏‏‏جیل سے) باہر نکل آتا۔ بس ان کے صبر اور فیاضی پر بڑا تعجب ہے اور اللہ تعالیٰ ان کو معاف فرمائے، ان کے پاس آدمی آیا تاکہ وہ باہر نکل آئیں لیکن وہ اس وقت تک نہ نکلے، جب تک ان پر اپنے عذر کی وضاحت نہیں کر دی۔ اگر میں ہوتا تو دروازے کی طرف لپک پڑتا۔ اگر اپنے آقا کے پاس میرا تذکرہ کرنا۔ (‏‏‏‏سورۂ یوسف ۴۲) والی بات نہ ہوتی تو وہ جیل میں نہ ٹھہرتے، جب کہ وہ غیر اللہ سے پریشانی کا ازالہ چاہ رہے تھے۔ [سلسله احاديث صحيحه/المبتدا والانبياء وعجائب المخلوقات/حدیث: 3818]
حدیث نمبر: 3819
-" لو لبثت في السجن ما لبث يوسف ثم جاء الداعي لأجبته، إذ جاءه الرسول فقال: * (ارجع إلى ربك فاسأله ما بال النسوة اللاتي قطعن أيديهن إن ربي بكيدهن عليم) * ورحمة الله على لوط إن كان ليأوي إلى ركن شديد، إذ قال لقومه: * (لو أن لي بكم قوة أو آوي إلى ركن شديد) *، وما بعث الله من بعده من نبي إلا في ثروة من قومه".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر میں (‏‏‏‏محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) اتنا عرصہ جیل میں ٹھہرتا جتنا کہ یوسف علیہ السلام ٹھہرے تھے اور میرے پاس بلانے کے لیے داعی آتا تو میں (‏‏‏‏فوراً) اس کی بات قبول کرتا، لیکن جب ان کے پاس قاصد آیا تو انہوں نے تو کہا «ارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ فَاسْأَلْهُ مَا بَالُ النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ إِنَّ رَبِّي بِكَيْدِهِنَّ عَلِيمٌ» اس سے پوچھو کہ اب ان عورتوں کا حقیقی واقعہ کیا ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لیے تھے، بیشک میرا رب ان کے مکر سے واقف ہے۔ (۱۲-يوسف:۵۰) اور اللہ تعالیٰ لوط علیہ السلام پر رحمت کرے، وہ تو کسی مضبوط آسرے کا سہارا لینا چاہتے تھے۔ جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا: «لَوْ أَنَّ لِي بِكُمْ قُوَّةً أَوْ آوِي إِلَى رُكْنٍ شَدِيدٍ» کاش کہ مجھ میں تم سے مقابلہ کرنے کی قوت ہوتی یا میں کسی زبردست کا آسرا پکڑ پاتا۔ (۱۱-هود:۸۰) سو ان کے بعد جب بھی اللہ تعالیٰ نے کوئی نبی بھیجا تو اسے اس کی قوم کے لوگوں کے انبوہ کثیر میں بھیجا۔ [سلسله احاديث صحيحه/المبتدا والانبياء وعجائب المخلوقات/حدیث: 3819]
2476. قوم موسیٰ کی بڑھیا کی دور اندیشی اور موقع شناسی، یوسف علیہ السلام کو ان کی قبر سے منتقل کرنا
حدیث نمبر: 3820
-" أعجزتم أن تكونوا مثل عجوز بني إسرائيل؟ فقال أصحابه: يا رسول الله وما عجوز بني إسرائيل؟ قال: إن موسى لما سار ببني إسرائيل من مصر، ضلوا الطريق فقال: ما هذا؟ فقال علماؤهم: نحن نحدثك، إن يوسف لما حضره الموت أخذ علينا موثقا من الله أن لا يخرج من مصر حتى ننقل عظامه معنا، قال: فمن يعلم موضع قبره؟ قالوا: ما ندري أين قبر يوسف إلا عجوز من بني إسرائيل، فبعث إليها فأتته فقال: دلوني على قبر يوسف، قالت: لا والله لا أفعل حتى تعطيني حكمي، قال: وما حكمك؟ قالت: أكون معك في الجنة، فكره أن يعطيها ذلك فأوحى الله إليه أن أعطها حكمها، فانطلقت بهم إلى بحيرة موضع مستنقع ماء، فقالت: انضبوا هذا الماء فأنضبوا، قالت: احفروا واستخرجوا عظام يوسف فلما أقلوها إلى الأرض إذا الطريق مثل ضوء النهار".
سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک بدو کے پاس گئے، اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بڑی عزت کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا: تم بھی ہمارے پاس آنا۔ چنانچہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ اور ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک بدو کے پاس ٹھہرے، اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بڑی آؤ بھگت کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا: تم نے ہماری بڑی دیکھ بھال کی ہے، ہمارے پاس بھی آنا۔ چنانچہ وہ بدو ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا: اپنی کسی ضرورت کا اظہار کرو (‏‏‏‏تاکہ میں اسے پورا کر دوں)۔ اس نے کہا: کجاوہ سمیت ایک اونٹنی چاہئیے اور کچھ بکریاں، تاکہ گھر والے دودھ دوہ سکیں۔ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم لوگ بنو اسرائیل کی بڑھیا کی طرح (‏‏‏‏ بھی مطالبہ پیش کرنے سے) عاجز آ گئے ہو؟ صحابہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! یہ بنو اسرائیل کی بڑھیا (‏‏‏‏کا کیا واقعہ) ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب موسیٰ علیہ السلام بنو اسرائیل کو لے کر مصر سے روانہ ہوئے تو وہ راستہ بھول گئے۔ آپ علیہ السلام نے پوچھا یہ کیا ہو گیا ہے؟ ان کے علماء نے کہا ہم بتاتے ہیں، جب یوسف علیہ السلام کی موت کا وقت آ پہنچا تو انہوں نے اللہ تعالیٰ کا واسطہ دے کر ہم سے یہ عہد و پیمان لیا کہ اس وقت تک مصر سے نہ نکلنا، جب تک میری ہڈیاں بھی یہاں سے منتقل نہ کر دو۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا: تو پھر ان کی قبر کے بارے کون جانتا ہے؟ علماء نے کہا: ہمیں تو یوسف علیہ السلام کی قبر کا علم نہیں ہے، ہاں بنو اسرائیل کی ایک بوڑھی عورت کو اس کا علم ہو سکتا ہے۔ آپ علیہ السلام نے اس کی طرف پیغام بھیجا اور وہ آ گئی۔ اسے موسیٰ علیہ السلام نے کہا: مجھے یوسف علیہ السلام کی قبر کے بارے بتاؤ۔ اس نے کہا: نہیں، اللہ کی قسم! میں اس وقت تک نہیں بتلاؤں گی، جب تک آپ میرا مطالبہ پورا نہیں کرتے۔ آپ نے پوچھا: تیرا مطالبہ کیا ہے؟ اس کہا: آپ کے ساتھ جنت میں رہنا چاہتی ہوں۔ موسیٰ علیہ السلام کو یہ ناگوار گزرا کہ اسے یہ ضمانت دے دی جائے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی کی کہ اس بڑھیا کے لیے اس کا مطالبہ ادا کر دو۔ تب وہ ان کو ایک بحیرہ کی طرف لے کر آ گئی، وہاں ایک جوہڑ تھا، اس نے کہا: ‏‏‏‏ اس کا سارا پانی نکال دو۔ انہوں نے سارا پانی وہاں سے خشک کر دیا۔ پھر اس نے کہا اب اس کو کھودو اور یوسف علیہ اسلام کی ہڈیاں نکال لو (‏‏‏‏ان کی مراد یوسف کا وجود تھا)۔ (‏‏‏‏ایسے ہی کیا گیا) جب انہوں نے ان ہڈیوں کو (وجود کو) اٹھایا تو راستہ دن کی طرح روشن ہو گیا۔ [سلسله احاديث صحيحه/المبتدا والانبياء وعجائب المخلوقات/حدیث: 3820]
2477. یہودیوں کے اکہتر، عیسائیوں کے بہتر اور امت مسلمہ کے تہتر فرقے، امت مسلمہ کے عوام و خواص میں فرقہ ناجیہ
حدیث نمبر: 3821
-" افترقت اليهود على إحدى وسبعين فرقة، فواحدة في الجنة وسبعين في النار، وافترقت النصارى على اثنين وسبعين فرقة فواحدة في الجنة وإحدى وسبعين في النار، والذي نفسي بيده لتفترقن أمتي على ثلاث وسبعين فرقة، فواحدة في الجنة، وثنتين وسبعين في النار، قيل: يا رسول الله من هم؟ قال: هم الجماعة".
سیدنا عوف بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہودی اکہتر فرقوں میں بٹ گئے، ان میں سے ایک جنت میں داخل ہوا اور ستر جہنم میں۔ نصاری بہتر فرقوں میں تقسیم ہو گئے، ان میں سے ایک جنت میں داخل ہوا اور بہتر آتش دوزخ میں۔ اور اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گے، ان میں سے ایک جنت میں جائے گا اور بہتر جہنم میں۔ کہا گیا: اے اللہ کے رسول! وہ (‏‏‏‏جنت میں داخل ہونے والے) کون ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو جماعت کی شکل میں ہوں گے۔ [سلسله احاديث صحيحه/المبتدا والانبياء وعجائب المخلوقات/حدیث: 3821]
2478. آدم علیہ السلام کو مٹی کی تین اقسام سے پیدا کیا گیا
حدیث نمبر: 3822
-" إن آدم خلق من ثلاث ترابات سوداء وبيضاء وخضراء".
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیشک آدم علیہ السلام کو تین قسم کی مٹی سے پیدا کیا گیا کالی، سفید اور سبز۔ [سلسله احاديث صحيحه/المبتدا والانبياء وعجائب المخلوقات/حدیث: 3822]

Previous    1    2    3    4    5    6    7    8    Next