الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ابي داود کل احادیث (5274)
حدیث نمبر سے تلاش:

سنن ابي داود
كتاب تفريع أبواب الطلاق
کتاب: طلاق کے فروعی احکام و مسائل
حدیث نمبر: 2205
حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ قَتَادَةَ،عَنْ الْحَسَنِ، فِي أَمْرُكِ بِيَدِكِ، قَالَ:" ثَلَاثٌ".
حسن سے «أمرك بيدك» کے سلسلہ میں مروی ہے کہ اس سے تین طلاق واقع ہو گی ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الطلاق /حدیث: 2205]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود وانظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: 14992، 18537) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح مقطوع

14. باب فِي الْبَتَّةِ
14. باب: طلاق بتہ (یعنی قطعی طلاق) کا بیان۔
حدیث نمبر: 2206
حَدَّثَنَا ابْنُ السَّرْحِ، وَإِبْرَاهِيمُ بْنُ خَالِدٍ الْكَلْبِيُّ أَبُو ثَوْرٍ فِي آخَرِينَ، قَالُوا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِدْرِيسَ الشَّافِعِيُّ، حَدَّثَنِي عَمِّي مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ شَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ نَافِعِ بْنِ عُجَيْرِ بْنِ عَبْدِ يَزِيدَ بْنِ رُكَانَةَ، أَنَّ رُكَانَةَ بْنَ عَبْدِ يَزِيدَ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ سُهَيْمَةَ الْبَتَّةَ، فَأَخْبَرَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِذَلِكَ، وَقَالَ: وَاللَّهِ مَا أَرَدْتُ إِلَّا وَاحِدَةً، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" وَاللَّهِ مَا أَرَدْتَ إِلَّا وَاحِدَةً؟" فَقَالَ رُكَانَةُ: وَاللَّهِ مَا أَرَدْتُ إِلَّا وَاحِدَةً، فَرَدَّهَا إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَطَلَّقَهَا الثَّانِيَةَ فِي زَمَانِ عُمَرَ وَالثَّالِثَةَ فِي زَمَانِ عُثْمَانَ. قَالَ أَبُو دَاوُد: أَوَّلُهُ لَفْظُ إِبْرَاهِيمَ وَآخِرُهُ لَفْظُ ابْنِ السَّرْحِ.
نافع بن عجیر بن عبد یزید بن رکانہ سے روایت ہے کہ رکانہ بن عبد یزید نے اپنی بیوی سہیمہ کو طلاق بتہ ۱؎ (قطعی طلاق) دے دی، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر دی اور کہا: اللہ کی قسم! میں نے تو ایک ہی طلاق کی نیت کی تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قسم اللہ کی تم نے صرف ایک کی نیت کی تھی؟ رکانہ نے کہا: قسم اللہ کی میں نے صرف ایک کی نیت کی تھی، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی بیوی انہیں واپس لوٹا دی، پھر انہوں نے اسے دوسری طلاق عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں دی اور تیسری عثمان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں۔ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الطلاق /حدیث: 2206]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن الترمذی/الطلاق 2 (1177)، ق / الطلاق 19 (2051)، (تحفة الأشراف: 3613)، وقد أخرجہ: سنن الدارمی/ الطلاق 8 (2318) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (اس کے راوی نافع مجہول ہیں، نیز اس حدیث میں بہت ہی اضطراب ہے اس لئے بروایت امام ترمذی امام بخاری نے بھی اس کو ضعیف قرارد یا ہے)

قال الشيخ الألباني: ضعيف

حدیث نمبر: 2207
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُونُسَ النَّسَائِيُّ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الزُّبَيْرِ حَدَّثَهُمْ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِدْرِيسَ، حَدَّثَنِي عَمِّي مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ، عَنْ ابْنِ السَّائِبِ، عَنْ نَافِعِ بْنِ عُجَيْرٍ، عَنْ رُكَانَةَ بْنِ عَبْدِ يَزِيدَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بِهَذَا الْحَدِيثِ.
اس سند سے بھی رکانہ بن عبد یزید سے یہی حدیث مرفوعاً مروی ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الطلاق /حدیث: 2207]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: 3613) (ضعیف)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: ضعيف

حدیث نمبر: 2208
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْعَتَكِيُّ، حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ، عَنْ الزُّبَيْرِ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ يَزِيدَ بْنِ رُكَانَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ الْبَتَّةَ، فَأَتَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" مَا أَرَدْتَ؟" قَالَ: وَاحِدَةً، قَالَ:" آللَّهِ؟" قَالَ: آللَّهِ؟ قَالَ:" هُوَ عَلَى مَا أَرَدْتَ". قَالَ أَبُو دَاوُد: وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ جُرَيْجٍ، أَنَّ رُكَانَةَ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ ثَلَاثًا، لِأَنَّهُمْ أَهْلُ بَيْتِهِ وَهُمْ أَعْلَمُ بِهِ. وَحَدِيثُ ابْنِ جُرَيْجٍ رَوَاهُ عَنْ بَعْضِ بَنِي أَبِي رَافِعٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ.
رکانہ بن عبد یزید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی کو طلاق بتہ دے دی پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے پوچھا: تم نے کیا نیت کی تھی؟ انہوں نے کہا: ایک کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا اللہ کی قسم کھا کر کہہ رہے ہو؟ انہوں نے کہا: ہاں اللہ کی قسم کھا کر کہہ رہا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کا تم نے ارادہ کیا ہے وہی ہو گا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ روایت ابن جریج والی روایت سے زیادہ صحیح ہے جس میں ہے کہ رکانہ نے اپنی بیوی کو تین طلاق دی تھی کیونکہ یہ روایت ان کے اہل خانہ کی بیان کردہ ہے اور وہ حقیقت حال سے زیادہ واقف ہیں اور ابن جریج والی روایت بعض بنی رافع (جو ایک مجہول ہے) سے منقول ہے جسے وہ عکرمہ سے روایت کرتے ہیں اور وہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے، (دیکھئیے حدیث نمبر: ۲۰۹۶) [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الطلاق /حدیث: 2208]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏انظر حدیث رقم (2206)، (تحفة الأشراف: 3613) (اس کے تین رواة ضعیف ہیں، دیکھئے: إرواء الغلیل: 2063) (ضعیف)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: ضعيف

15. باب فِي الْوَسْوَسَةِ بِالطَّلاَقِ
15. باب: دل میں طلاق کے خیال آنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 2209
حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِنَّ اللَّهَ تَجَاوَزَ لِأُمَّتِي عَمَّا لَمْ تَتَكَلَّمْ بِهِ أَوْ تَعْمَلْ بِهِ، وَبِمَا حَدَّثَتْ بِهِ أَنْفُسَهَا".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے میری امت سے ان چیزوں کو معاف کر دیا ہے جنہیں وہ زبان پر نہ لائے یا ان پر عمل نہ کرے، اور ان چیزوں کو بھی جو اس کے دل میں گزرے ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الطلاق /حدیث: 2209]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/العتق 6 (2528)، والطلاق 11 (5269)، والأیمان والنذور 15 (6664)، صحیح مسلم/الإیمان 58 (127)، سنن الترمذی/الطلاق 8 (1183)، سنن النسائی/الطلاق 22 (3464، 3465)، سنن ابن ماجہ/الطلاق 14 (2040)، (تحفة الأشراف: 12896)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/393، 398، 425، 474، 481، 491) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

16. باب فِي الرَّجُلِ يَقُولُ لاِمْرَأَتِهِ يَا أُخْتِي
16. باب: آدمی اپنی بیوی کو بہن کہہ کر پکارے تو کیسا ہے؟
حدیث نمبر: 2210
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ. ح وحَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ، وَخَالِدٌ الطَّحَّانُ الْمَعْنَى، كُلُّهُمْ عَنْ خَالِدٍ، عَنْ أَبِي تَمِيمَةَ الْهُجَيْمِيِّ، أَنَّ رَجُلًا قَالَ لِامْرَأَتِهِ: يَا أُخَيَّةُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أُخْتُكَ هِيَ"، فَكَرِهَ ذَلِكَ وَنَهَى عَنْهُ.
ابوتمیمہ ہجیمی سے روایت ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو اے چھوٹی بہن! کہہ کر پکارا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا یہ تیری بہن ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ناپسند فرمایا اور اس سے منع کیا ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الطلاق /حدیث: 2210]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 15599، 18846) (اس کے راوی ابوتمیمة تابعی ہیں اس لئے مرسل ہے) (ضعیف)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: ضعيف

حدیث نمبر: 2211
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْبَزَّازُ، حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلَامِ يَعْنِي ابْنَ حَرْبٍ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ، عَنْ أَبِي تَمِيمَةَ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ قَوْمِهِ، أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَمِعَ رَجُلًا يَقُولُ لِامْرَأَتِهِ: يَا أُخَيَّةُ، فَنَهَاهُ". قَالَ أَبُو دَاوُد: وَرَوَاهُ عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ الْمُخْتَارِ، عَنْ خَالِدٍ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، عَنْ أَبِي تَمِيمَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. وَرَوَاهُ شُعْبَةُ، عَنْ خَالِدٍ، عَنْ رَجُلٍ، عَنْ أَبِي تَمِيمَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ابو تمیمہ سے روایت ہے، وہ اپنی قوم کے ایک شخص سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو اپنی بیوی کو اے چھوٹی بہن! کہہ کر پکارتے ہوئے سنا تو آپ نے اس سے منع فرمایا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے عبدالعزیز بن مختار نے خالد سے خالد نے ابوعثمان سے اور ابوعثمان نے ابو تمیمہ سے اور ابوتمیمہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرسلاً روایت کیا ہے، نیز اسے شعبہ نے خالد سے خالد نے ایک شخص سے اس نے ابو تمیمہ سے اور ابو تمیمہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرسلاً روایت کیا ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الطلاق /حدیث: 2211]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 15599، 18846) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (اس کی سند میں سخت اضطراب ہے جیسا کہ مؤلف نے بیان کر دیا ہے)

قال الشيخ الألباني: ضعيف

حدیث نمبر: 2212
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،" أَنَّ إِبْرَاهِيمَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَكْذِبْ قَطُّ إِلَّا ثَلَاثًا: ثِنْتَانِ فِي ذَاتِ اللَّهِ تَعَالَى، قَوْلُهُ: إِنِّي سَقِيمٌ سورة الصافات آية 89، وَقَوْلُهُ: بَلْ فَعَلَهُ كَبِيرُهُمْ هَذَا سورة الأنبياء آية 63، وَبَيْنَمَا هُوَ يَسِيرُ فِي أَرْضِ جَبَّارٍ مِنَ الْجَبَابِرَةِ، إِذْ نَزَلَ مَنْزِلًا فَأُتِيَ الْجَبَّارُ، فَقِيلَ لَهُ: إِنَّهُ نَزَلَ هَاهُنَا رَجُلٌ مَعَهُ امْرَأَةٌ هِيَ أَحْسَنُ النَّاسِ، قَالَ: فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ، فَسَأَلَهُ عَنْهَا، فَقَالَ: إِنَّهَا أُخْتِي، فَلَمَّا رَجَعَ إِلَيْهَا، قَالَ: إِنَّ هَذَا سَأَلَنِي عَنْكِ فَأَنْبَأْتُهُ أَنَّكِ أُخْتِي، وَإِنَّهُ لَيْسَ الْيَوْمَ مُسْلِمٌ غَيْرِي وَغَيْرُكِ، وَإِنَّكِ أُخْتِي فِي كِتَابِ اللَّهِ فَلَا تُكَذِّبِينِي عِنْدَهُ" وَسَاقَ الْحَدِيثَ. قَالَ أَبُو دَاوُد: رَوَى هَذَا الْخَبَرَ شُعَيْبُ بْنُ أَبِي حَمْزَةَ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، نَحْوَهُ.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابراہیم علیہ السلام نے صرف تین جھوٹ بولے ۱؎ جن میں سے دو اللہ تعالیٰ کی ذات کے لیے تھے، پہلا جب انہوں نے کہا کہ میں بیمار ہوں ۲؎، دوسرا جب انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا: بلکہ یہ تو ان کے اس بڑے کی کارستانی ہے، تیسرا اس موقعہ پر جب کہ وہ ایک سرکش بادشاہ کے ملک سے گزر رہے تھے ایک مقام پر انہوں نے قیام فرمایا تو اس سرکش تک یہ بات پہنچی، اور اسے بتایا گیا کہ یہاں ایک شخص ٹھہرا ہوا ہے اور اس کے ساتھ ایک انتہائی خوبصورت عورت ہے، چنانچہ اس نے ابراہیم علیہ السلام کو بلوایا اور عورت کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے کہا: یہ تو میری بہن ہے، جب وہ لوٹ کر بیوی کے پاس آئے تو انہوں نے بتایا کہ اس نے مجھ سے تمہارے بارے میں دریافت کیا تو میں نے اسے یہ بتایا ہے کہ تم میری بہن ہو کیونکہ آج میرے اور تمہارے علاوہ کوئی بھی مسلمان نہیں ہے لہٰذا تم میری دینی بہن ہو، تو تم اس کے پاس جا کر مجھے جھٹلا نہ دینا، اور پھر پوری حدیث بیان کی۔ ابوداؤد کہتے ہیں: شعیب بن ابی حمزہ نے ابوالزناد سے ابوالزناد نے اعرج سے، اعرج نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے، ابوہریرہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الطلاق /حدیث: 2212]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 14539)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/أحادیث الأنبیاء 8 (3357)، والنکاح 12(5012)، صحیح مسلم/الفضائل 41 (2371)، سنن الترمذی/تفسیر سورة الأنبیاء (3165)، مسند احمد (2/403) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

17. باب فِي الظِّهَارِ
17. باب: ظہار کا بیان۔
حدیث نمبر: 2213
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ الْمَعْنَى، قَالَا: حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ، قَالَ ابْنُ الْعَلَاءِ ابْنِ عَلْقَمَةَ بْنِ عَيَّاشٍ: عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ صَخْرٍ، قَالَ ابْنُ الْعَلَاءِ الْبَيَاضِيُّ، قَالَ: كُنْتُ امْرَأً أُصِيبُ مِنَ النِّسَاءِ مَا لَا يُصِيبُ غَيْرِي، فَلَمَّا دَخَلَ شَهْرُ رَمَضَانَ خِفْتُ أَنْ أُصِيبَ مِنَ امْرَأَتِي شَيْئًا يُتَابَعُ بِي حَتَّى أُصْبِحَ، فَظَاهَرْتُ مِنْهَا حَتَّى يَنْسَلِخَ شَهْرُ رَمَضَانَ، فَبَيْنَمَا هِيَ تَخْدُمُنِي ذَاتَ لَيْلَةٍ إِذْ تَكَشَّفَ لِي مِنْهَا شَيْءٌ، فَلَمْ أَلْبَثْ أَنْ نَزَوْتُ عَلَيْهَا، فَلَمَّا أَصْبَحْتُ خَرَجْتُ إِلَى قَوْمِي فَأَخْبَرْتُهُمُ الْخَبَرَ، وَقُلْتُ: امْشُوا مَعِي إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالُوا: لَا وَاللَّهِ، فَانْطَلَقْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرْتُهُ، فَقَالَ:" أَنْتَ بِذَاكَ يَا سَلَمَةُ"، قُلْتُ: أَنَا بِذَاكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَرَّتَيْنِ، وَأَنَا صَابِرٌ لِأَمْرِ اللَّهِ، فَاحْكُمْ فِيَّ مَا أَرَاكَ اللَّهُ، قَالَ:" حَرِّرْ رَقَبَةً"، قُلْتُ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ مَا أَمْلِكُ رَقَبَةً غَيْرَهَا وَضَرَبْتُ صَفْحَةَ رَقَبَتِي، قَالَ:" فَصُمْ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ"، قَالَ: وَهَلْ أَصَبْتُ الَّذِي أَصَبْتُ إِلَّا مِنَ الصِّيَامِ، قَالَ:" فَأَطْعِمْ وَسْقًا مِنْ تَمْرٍ بَيْنَ سِتِّينَ مِسْكِينًا"، قُلْتُ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ، لَقَدْ بِتْنَا وَحْشَيْنِ مَا لَنَا طَعَامٌ، قَالَ:" فَانْطَلِقْ إِلَى صَاحِبِ صَدَقَةِ بَنِي زُرَيْقٍ فَلْيَدْفَعْهَا إِلَيْكَ، فَأَطْعِمْ سِتِّينَ مِسْكِينًا وَسْقًا مِنْ تَمْرٍ، وَكُلْ أَنْتَ وَعِيَالُكَ بَقِيَّتَهَا"، فَرَجَعْتُ إِلَى قَوْمِي، فَقُلْتُ: وَجَدْتُ عِنْدَكُمُ الضِّيقَ وَسُوءَ الرَّأْيِ وَوَجَدْتُ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ السَّعَةَ وَحُسْنَ الرَّأْيِ، وَقَدْ أَمَرَنِي، أَوْ أَمَرَ لِي، بِصَدَقَتِكُمْ، زَادَ ابْنُ الْعَلَاءِ، قَالَ ابْنُ إِدْرِيسَ: بَيَاضَةُ بَطْنٌ مِنْ بَنِي زُرَيْقٍ.
سلمہ بن صخر بیاضی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ لوگوں کے مقابلے میں میں کچھ زیادہ ہی عورتوں کا شوقین تھا، جب ماہ رمضان آیا تو مجھے ڈر ہوا کہ اپنی بیوی کے ساتھ کوئی ایسی حرکت نہ کر بیٹھوں جس کی برائی صبح تک پیچھا نہ چھوڑے چنانچہ میں نے ماہ رمضان کے ختم ہونے تک کے لیے اس سے ظہار کر لیا۔ ایک رات کی بات ہے وہ میری خدمت کر رہی تھی کہ اچانک اس کے جسم کا کوئی حصہ نظر آ گیا تو میں اس سے صحبت کئے بغیر نہیں رہ سکا، پھر جب میں نے صبح کی تو میں اپنی قوم کے پاس آیا اور انہیں سارا ماجرا سنایا، نیز ان سے درخواست کی کہ وہ میرے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلیں، وہ کہنے لگے: اللہ کی قسم یہ نہیں ہو سکتا تو میں خود ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پوری بات بتائی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سلمہ! تم نے ایسا کیا؟ میں نے جواب دیا: ہاں اللہ کے رسول، مجھ سے یہ حرکت ہو گئی، دو بار اس طرح کہا، میں اللہ کا حکم بجا لانے کے لیے تیار ہوں، تو آپ میرے بارے میں حکم کیجئے جو اللہ آپ کو سجھائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک گردن آزاد کرو، میں نے اپنی گردن پر ہاتھ مار کر کہا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے اس کے علاوہ میرے پاس کوئی گردن نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو دو مہینے کے مسلسل روزے رکھو، میں نے کہا: میں تو روزے ہی کے سبب اس صورت حال سے دوچار ہوا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو پھر ساٹھ صاع کھجور ساٹھ مسکینوں کو کھلاؤ، میں نے جواب دیا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہم دونوں تو رات بھی بھوکے سوئے، ہمارے پاس کھانا ہی نہیں تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بنی زریق کے صدقے والے کے پاس جاؤ، وہ تمہیں اسے دے دیں گے اور ساٹھ صاع کھجور ساٹھ مسکینوں کو کھلا دینا اور جو بچے اسے تم خود کھا لینا، اور اپنے اہل و عیال کو کھلا دینا، اس کے بعد میں نے اپنی قوم کے پاس آ کر کہا: مجھے تمہارے پاس تنگی اور غلط رائے ملی جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گنجائش اور اچھی رائے ملی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یا میرے لیے تمہارے صدقے کا حکم فرمایا ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الطلاق /حدیث: 2213]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن الترمذی/الطلاق 20 (1198)، سنن ابن ماجہ/الطلاق 25 (2062)، (تحفة الأشراف: 4555)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/37، 5/436)، سنن الدارمی/الطلاق 9 (2319) (حسن صحیح) (ملاحظہ ہو الإرواء: 2091) ویأتی ہذا الحدیث برقم (2213)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: حسن

حدیث نمبر: 2214
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ مَعْمَرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَنْظَلَةَ، عَنْ يُوسُفَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَامٍ، عَنْ خُوَيْلَةَ بِنْتِ مَالِكِ بْنِ ثَعْلَبَةَ، قَالَتْ: ظَاهَرَ مِنِّي زَوْجِي أَوْسُ بْنُ الصَّامِتِ، فَجِئْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَشْكُو إِلَيْهِ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُجَادِلُنِي فِيهِ، وَيَقُولُ:" اتَّقِي اللَّهَ، فَإِنَّهُ ابْنُ عَمِّكِ"، فَمَا بَرِحْتُ حَتَّى نَزَلَ الْقُرْآنُ: قَدْ سَمِعَ اللَّهُ قَوْلَ الَّتِي تُجَادِلُكَ فِي زَوْجِهَا سورة المجادلة آية 1 إِلَى الْفَرْضِ، فَقَالَ:" يُعْتِقُ رَقَبَةً"، قَالَتْ: لَا يَجِدُ، قَالَ:" فَيَصُومُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ"، قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّهُ شَيْخٌ كَبِيرٌ مَا بِهِ مِنْ صِيَامٍ، قَالَ:" فَلْيُطْعِمْ سِتِّينَ مِسْكِينًا"، قَالَتْ: مَا عِنْدَهُ مِنْ شَيْءٍ يَتَصَدَّقُ بِهِ، قَالَتْ: فَأُتِيَ سَاعَتَئِذٍ بِعَرَقٍ مِنْ تَمْرٍ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَإِنِّي أُعِينُهُ بِعَرَقٍ آخَرَ، قَالَ:" قَدْ أَحْسَنْتِ، اذْهَبِي فَأَطْعِمِي بِهَا عَنْهُ سِتِّينَ مِسْكِينًا وَارْجِعِي إِلَى ابْنِ عَمِّكِ"، قَالَ: وَالْعَرَقُ سِتُّونَ صَاعًا. قَالَ أَبُو دَاوُد فِي هَذَا: إِنَّهَا كَفَّرَتْ عَنْهُ مِنْ غَيْرِ أَنْ تَسْتَأْمِرَهُ. قَالَ أَبُو دَاوُد: وَهَذَا أَخُو عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ.
خویلہ بنت مالک بن ثعلبہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میرے شوہر اوس بن صامت نے مجھ سے ظہار کر لیا تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی، میں آپ سے شکایت کر رہی تھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے ان کے بارے میں جھگڑ رہے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے: اللہ سے ڈر، وہ تیرا چچا زاد بھائی ہے، میں وہاں سے ہٹی بھی نہ تھی کہ یہ آیت نازل ہوئی: «قد سمع الله قول التي تجادلك في زوجها» اللہ تعالیٰ نے اس عورت کی گفتگو سن لی ہے جو آپ سے اپنے شوہر کے متعلق جھگڑ رہی تھی (سورۃ المجادلہ: ۱)، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ ایک گردن آزاد کریں، کہنے لگیں: ان کے پاس نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر وہ دو مہینے کے پے در پے روزے رکھیں، کہنے لگیں: اللہ کے رسول! وہ بوڑھے کھوسٹ ہیں انہیں روزے کی طاقت نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو پھر وہ ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائیں، کہنے لگیں: ان کے پاس صدقہ کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں۔ کہتی ہیں: اسی وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھجوروں کی ایک زنبیل آ گئی، میں نے کہا: اللہ کے رسول (آپ یہ دے دیجئیے) ایک اور زنبیل میں دے دوں گی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے ٹھیک ہی کہا ہے، لے جاؤ اور ان کی جانب سے ساٹھ مسکینوں کو کھلا دو، اور اپنے چچا زاد بھائی (یعنی شوہر) کے پاس لوٹ جاؤ۔ راوی کا بیان ہے کہ زنبیل ساٹھ صاع کی تھی۔ ابوداؤد کہتے ہیں: کہ اس عورت نے اپنے شوہر سے مشورہ کئے بغیر اس کی جانب سے کفارہ ادا کیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ عبادہ بن صامت کے بھائی ہیں۔ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الطلاق /حدیث: 2214]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 15825)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/410) (حسن)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: حسن دون قوله والعرق


Previous    1    2    3    4    5    6    7    8    Next