الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ابي داود کل احادیث (5274)
حدیث نمبر سے تلاش:

سنن ابي داود
أبواب السلام
ابواب: السلام علیکم کہنے کے آداب
168. باب فِي الرَّجُلِ يُنَادِي الرَّجُلَ فَيَقُولُ لَبَّيْكَ
168. باب: آدمی کسی کو پکارے تو اس کے جواب میں «لبيك» کہنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 5233
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل , حَدَّثَنَا حَمَّادٌ , أَخْبَرَنَا يَعْلَى بْنُ عَطَاءٍ , عَنْ أَبِي هَمَّامٍ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَسَارٍ , أَنَّ أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْفِهْرِيَّ , قَالَ:شَهِدْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حُنَيْنًا , فَسِرْنَا فِي يَوْمٍ قَائِظٍ شَدِيدِ الْحَرِّ , فَنَزَلْنَا تَحْتَ ظِلِّ الشَّجَرَةِ , فَلَمَّا زَالَتِ الشَّمْسُ , لَبِسْتُ لَأْمَتِي وَرَكِبْتُ فَرَسِي , فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي فُسْطَاطِهِ , فَقُلْتُ: السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ , قَدْ حَانَ الرَّوَاحُ , قَالَ: أَجَلْ , ثُمَّ قَالَ: يَا بِلَالُ , قُمْ فَثَارَ مِنْ تَحْتِ سَمُرَةٍ كَأَنَّ ظِلَّهُ ظِلُّ طَائِرٍ , فَقَالَ: لَبَّيْكَ وَسَعْدَيْكَ وَأَنَا فِدَاؤُكَ , فَقَالَ: أَسْرِجْ لِي الْفَرَسَ , فَأَخْرَجَ سَرْجًا دَفَّتَاهُ مِنْ لِيفٍ لَيْسَ فِيهِ أَشَرٌ وَلَا بَطَرٌ , فَرَكِبَ وَرَكِبْنَا" , وَسَاقَ الْحَدِيثَ , قَالَ أَبُو دَاوُدَ: أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْفِهْرِيُّ لَيْسَ لَهُ إِلَّا هَذَا الْحَدِيثُ , وَهُوَ حَدِيثٌ نَبِيلٌ جَاءَ بِهِ حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ.
ابوعبدالرحمٰن فہری کہتے ہیں کہ میں غزوہ حنین میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک تھا، ہم سخت گرمی کے دن میں چلے، پھر ایک درخت کے سایہ میں اترے، جب سورج ڈھل گیا تو میں نے اپنی زرہ پہنی اور اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اس وقت آپ اپنے خیمہ میں تھے، میں نے کہا: «السلام عليك يا رسول الله ورحمة الله وبركاته»  کوچ کا وقت ہو چکا ہے، آپ نے فرمایا: ہاں، پھر آپ نے فرمایا: اے بلال! اٹھو، یہ سنتے ہی بلال ایک درخت کے نیچے سے اچھل کر نکلے ان کا سایہ گویا چڑے کے سایہ جیسا تھا ۱؎ انہوں نے کہا: «لبيك وسعديك وأنا فداؤك» میں حاضر ہوں، حکم فرمائیے، میں آپ پر فدا ہوں آپ نے فرمایا: میرے گھوڑے پر زین کس دو تو انہوں نے زین اٹھایا جس کے دونوں کنارے خرما کے پوست کے تھے، نہ ان میں تکبر کی کوئی بات تھی نہ غرور کی ۲؎ پھر آپ سوار ہوئے اور ہم بھی سوار ہوئے (اور چل پڑے) پھر راوی نے پوری حدیث بیان کی۔ ابوداؤد کہتے ہیں: عبدالرحمٰن فہری سے اس حدیث کے علاوہ اور کوئی حدیث مروی نہیں ہے اور یہ ایک عمدہ اور قابل قدر حدیث ہے جسے حماد بن سلمہ نے بیان کیا ہے۔ [سنن ابي داود/أبواب السلام /حدیث: 5233]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 12067)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/286)، سنن الدارمی/السیر 16 (2496) (حسن)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: حسن

169. باب فِي الرَّجُلِ يَقُولُ لِلرَّجُلِ أَضْحَكَ اللَّهُ سِنَّكَ
169. باب: آدمی کسی کو کہے «أضحك الله سنك» ”اللہ تجھے ہنستا رکھے“
حدیث نمبر: 5234
حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْبِرَكِيُّ , وَسَمِعْتُهُ مِنْ أَبِي الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ , وَأَنَا لِحَدِيثِ عِيسَى أَضْبَطُ , قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْقَاهِرِ بْنُ السَّرِيِّ يَعْنِي السُّلَمِيَّ , حَدَّثَنَا ابْنُ كِنَانَةَ بْنِ عَبَّاسِ بْنِ مِرْدَاسٍ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ جَدِّهِ , قَالَ:" ضَحِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَ لَهُ أَبُو بَكْرٍ أَوْ عُمَرُ: أَضْحَكَ اللَّهُ سِنَّكَ" , وَسَاقَ الْحَدِيثَ.
مرداس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہنسے تو ابوبکر رضی اللہ عنہ یا عمر رضی اللہ عنہ نے آپ سے «أضحك الله سنك» اللہ آپ کو ہمیشہ ہنستا رکھے کہا، پھر راوی نے پوری حدیث بیان کی۔ [سنن ابي داود/أبواب السلام /حدیث: 5234]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن ابن ماجہ/المناسک 56 (3013)، (تحفة الأشراف: 5140)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/15) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (اس کے راوی ابن کنانہ اور خود کنانہ بن عباس مجہول ہیں)

قال الشيخ الألباني: ضعيف

170. باب مَا جَاءَ فِي الْبِنَاءِ
170. باب: مکان بنانے کا بیان۔
حدیث نمبر: 5235
حَدَّثَنَا مُسَدَّدُ بْنُ مُسَرْهَدٍ , حَدَّثَنَا حَفْصٌ , عَنْ الْأَعْمَشِ , عَنْ أَبِي السَّفَرِ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو , قَالَ:" مَرَّ بِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا أُطَيِّنُ حَائِطًا لِي أَنَا وَأُمِّي , فَقَالَ: مَا هَذَا يَا عَبْدَ اللَّهِ؟ , فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , شَيْءٌ أُصْلِحُهُ , فَقَالَ: الْأَمْرُ أَسْرَعُ مِنْ ذَلِكَ".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس سے گزرے، میں اور میری ماں اپنی ایک دیوار پر مٹی پوت رہے تھے، آپ نے فرمایا: عبداللہ! یہ کیا ہو رہا ہے؟ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کچھ مرمت (سرمت) کر رہا ہوں، آپ نے فرمایا: معاملہ تو اس سے بھی زیادہ تیزی پر ہے (یعنی موت اس سے بھی قریب آتی جا رہی ہے، اعمال میں جو کمیاں ہیں ان کی اصلاح و درستگی کی بھی فکر کرو)۔ [سنن ابي داود/أبواب السلام /حدیث: 5235]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن الترمذی/الزھد 25 (2335)، سنن ابن ماجہ/الزھد 13 (4160)، (تحفة الأشراف: 8650)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/161) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 5236
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ , وَهَنَّادٌ الْمَعْنَى , قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ , عَنْ الْأَعْمَشِ بِإِسْنَادِهِ بِهَذَا , قَالَ: مَرَّ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ نُعَالِجُ خُصًّا لَنَا وَهَى , فَقَالَ: مَا هَذَا؟ , فَقُلْنَا: خُصٌّ لَنَا وَهَى فَنَحْنُ نُصْلِحُهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا أَرَى الْأَمْرَ إِلَّا أَعْجَلَ مِنْ ذَلِكَ.
اس سند سے بھی اعمش سے (ان کی سابقہ سند سے) یہی حدیث مروی ہے اس میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس سے گزرے ہم اپنے جھونپڑے کو درست کر رہے تھے جو گرنے کے قریب ہو گیا تھا، آپ نے فرمایا: یہ کیا ہے؟ ہم نے کہا: ہمارا یک بوسیدہ جھونپڑا ہے ہم اس کو درست کر رہے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مگر میں تو معاملہ (موت) کو اس سے زیادہ تیزی سے آگے بڑھتا دیکھ رہا ہوں (زندگی میں جو خامیاں رہ گئی ہیں ان کی اصلاح کی بھی کوشش کرو)۔ [سنن ابي داود/أبواب السلام /حدیث: 5236]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: 8650) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 5237
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ حَكِيمٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ حَاطِبٍ الْقُرَشِيُّ , عَنْ أَبِي طَلْحَةَ الْأَسَدِيِّ , عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ:" أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ , فَرَأَى قُبَّةً مُشْرِفَةً , فَقَالَ: مَا هَذِهِ؟ قَالَ لَهُ أَصْحَابُهُ: هَذِهِ لِفُلَانٍ رَجُلٍ مِنْ الْأَنْصَارِ , قَالَ: فَسَكَتَ وَحَمَلَهَا فِي نَفْسِهِ حَتَّى إِذَا جَاءَ صَاحِبُهَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُسَلِّمُ عَلَيْهِ فِي النَّاسِ , أَعْرَضَ عَنْهُ , صَنَعَ ذَلِكَ مِرَارًا حَتَّى عَرَفَ الرَّجُلُ الْغَضَبَ فِيهِ , وَالْإِعْرَاضَ عَنْهُ , فَشَكَا ذَلِكَ إِلَى أَصْحَابِهِ , فَقَالَ: وَاللَّهِ إِنِّي لَأُنْكِرُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالُوا: خَرَجَ , فَرَأَى قُبَّتَكَ , قَالَ: فَرَجَعَ الرَّجُلُ إِلَى قُبَّتِهِ فَهَدَمَهَا , حَتَّى سَوَّاهَا بِالْأَرْضِ , فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ فَلَمْ يَرَهَا , قَالَ: مَا فَعَلَتِ الْقُبَّةُ؟ , قَالُوا: شَكَا إِلَيْنَا صَاحِبُهَا إِعْرَاضَكَ عَنْهُ فَأَخْبَرْنَاهُ فَهَدَمَهَا , فَقَالَ: أَمَا إِنَّ كُلَّ بِنَاءٍ وَبَالٌ عَلَى صَاحِبِهِ , إِلَّا مَا لَا إِلَّا مَا لَا يَعْنِي مَا لَا بُدَّ مِنْهُ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نکلے (راہ میں) ایک اونچا قبہ دیکھا تو فرمایا: یہ کیا ہے؟ تو آپ کے اصحاب نے بتایا کہ یہ فلاں انصاری کا مکان ہے، آپ یہ سن کر چپ ہو رہے اور بات دل میں رکھ لی، پھر جب صاحب مکان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور لوگوں کی موجودگی میں آپ کو سلام کیا تو آپ نے اس سے اعراض کیا (نہ اس کی طرف متوجہ ہوئے نہ اسے جواب دیا) ایسا کئی بار ہوا، یہاں تک کہ اسے معلوم ہو گیا کہ آپ اس سے ناراض ہیں اور اس سے اعراض فرما رہے ہیں تو اس نے اپنے دوستوں سے اس بات کی شکایت کی اور کہا: قسم اللہ کی! میں اپنے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت و برتاؤ میں تبدیلی محسوس کرتا ہوں، تو لوگوں نے بتایا کہ: آپ ایک روز باہر نکلے تھے اور تیرا قبہ (مکان) دیکھا تھا (شاید اسی مکان کو دیکھ کر آپ ناراض ہوئے ہوں) یہ سن کر وہ واپس اپنے مکان پر آیا، اور اسے ڈھا دیا، حتیٰ کہ اسے (توڑ تاڑ کر) زمین کے برابر کر دیا، پھر ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نکلے اور اس مکان کو نہ دیکھا تو فرمایا: وہ مکان کیا ہوا، لوگوں نے عرض کیا: مالک مکان نے ہم سے آپ کی اس سے بے التفاتی کی شکایت کی، ہم نے اسے بتا دیا، تو اس نے اسے گرا دیا، آپ نے فرمایا: سن لو ہر مکان اپنے مالک کے لیے وبال ہے، سوائے اس مکان کے جس کے بغیر چارہ و گزارہ نہ ہو۔ [سنن ابي داود/أبواب السلام /حدیث: 5237]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 1720)، وقد أخرجہ: سنن ابن ماجہ/الزھد 13 (4161)، مسند احمد (3/220) (حسن) (الصحیحة 2830)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: ضعيف

171. باب فِي اتِّخَاذِ الْغُرَفِ
171. باب: بالاخانے بنانے کا بیان۔
حدیث نمبر: 5238
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِيمِ بْنُ مُطَرِّفٍ الرُّؤَاسِيُّ , حَدَّثَنَا عِيسَى , عَنْ إِسْمَاعِيل , عَنْ قَيْسٍ , عَنْ دُكَيْنِ بْنِ سَعِيدٍ الْمُزَنِيِّ , قَالَ:" أَتَيْنَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَسَأَلْنَاهُ الطَّعَامَ , فَقَالَ: يَا عُمَرُ , اذْهَبْ فَأَعْطِهِمْ , فَارْتَقَى بِنَا إِلَى عِلِّيَّةٍ , فَأَخَذَ الْمِفْتَاحَ مِنْ حُجْرَتِهِ فَفَتَحَ".
دکین بن سعید مزنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ سے غلہ مانگا تو آپ نے فرمایا: عمر! جاؤ اور انہیں دے دو، تو وہ ہمیں ایک بالاخانے پر لے کر چڑھے، پھر اپنے کمرے سے چابی لی اور اسے کھولا۔ [سنن ابي داود/أبواب السلام /حدیث: 5238]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 3540)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/174) (صحیح الإسناد)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد

172. باب فِي قَطْعِ السِّدْرِ
172. باب: بیر کے درخت کاٹنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 5239
حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ , أَخْبَرَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ أَبِي سُلَيْمَانَ , عَنْ سَعِيدِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حُبْشِيٍّ , قَالَ: قال رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ قَطَعَ سِدْرَةً صَوَّبَ اللَّهُ رَأْسَهُ فِي النَّارِ" , سُئِلَ أَبُو دَاوُدَ عَنْ مَعْنَى هَذَا الْحَدِيثِ , فَقَالَ: هَذَا الْحَدِيثُ مُخْتَصَرٌ , يَعْنِي: مَنْ قَطَعَ سِدْرَةً فِي فَلَاةٍ يَسْتَظِلُّ بِهَا ابْنُ السَّبِيلِ وَالْبَهَائِمُ عَبَثًا وَظُلْمًا بِغَيْرِ حَقٍّ يَكُونُ لَهُ فِيهَا , صَوَّبَ اللَّهُ رَأْسَهُ فِي النَّارِ.
عبداللہ بن حبشی رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص (بلا ضرورت) بیری کا درخت کاٹے گا ۱؎ اللہ اسے سر کے بل جہنم میں گرا دے گا۔ ابوداؤد سے اس حدیث کا معنی و مفہوم پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ: یہ حدیث مختصر ہے، پوری حدیث اس طرح ہے کہ کوئی بیری کا درخت چٹیل میدان میں ہو جس کے نیچے آ کر مسافر اور جانور سایہ حاصل کرتے ہوں اور کوئی شخص آ کر بلا سبب بلا ضرورت ناحق کاٹ دے (تو مسافروں اور چوپایوں کو تکلیف پہنچانے کے باعث وہ مستحق عذاب ہے) اللہ ایسے شخص کو سر کے بل جہنم میں جھونک دے گا۔ [سنن ابي داود/أبواب السلام /حدیث: 5239]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 5242) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 5240
حَدَّثَنَا مَخْلَدُ بْنُ خَالِدٍ وَسَلَمَةُ يَعْنِي ابْنَ شَبِيبٍ , قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ , أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ , عَنْ عُثْمَانَ بْنِ أَبِي سُلَيْمَانَ , عَنْ رَجُلٍ مِنْ ثَقِيفٍ , عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ , يَرْفَعُ الْحَدِيثَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ.
عروہ بن زبیر نے اس حدیث کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح مرفوعاً روایت کیا ہے۔ [سنن ابي داود/أبواب السلام /حدیث: 5240]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 5242، 19044) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (عروہ تابعی ہیں اس لئے یہ روایت مرسل ہے)

حدیث نمبر: 5241
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ بْنِ مَيْسَرَةَ , وَحُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ , قَالَا: حَدَّثَنَا حَسَّانُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ , قَالَ: سَأَلْتُ هِشَامَ بْنَ عُرْوَةَ , عَنْ قَطْعِ السِّدْرِ وَهُوَ مُسْتَنِدٌ إِلَى قَصْرِ عُرْوَةَ , فَقَالَ:" أَتَرَى هَذِهِ الْأَبْوَابَ وَالْمَصَارِيعَ؟ إِنَّمَا هِيَ مِنْ سِدْرِ عُرْوَةَ , كَانَ عُرْوَةُ يَقْطَعُهُ مِنْ أَرْضِهِ وَقَالَ: لَا بَأْسَ بِهِ , زَادَ حُمَيْدٌ , فَقَالَ: هِيَ يَا عِرَاقِيُّ جِئْتَنِي بِبِدْعَةٍ؟ قَالَ: قُلْتُ: إِنَّمَا الْبِدْعَةُ مِنْ قِبَلِكُمْ , سَمِعْتُ مَنْ يَقُولُ بِمَكَّةَ لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ قَطَعَ السِّدْرَ" , ثُمَّ سَاقَ مَعْنَاهُ.
حسان بن ابراہیم کہتے ہیں میں نے ہشام بن عروہ سے جو عروہ کے محل سے ٹیک لگائے ہوئے تھے بیر کے درخت کاٹنے کے بارے میں پوچھا، تو انہوں نے کہا: کیا تم ان دروازوں اور چوکھٹوں کو دیکھ رہے ہو، یہ سب عروہ کے بیر کے درختوں کے بنے ہوئے ہیں، عروہ انہیں اپنی زمین سے کاٹ کر لائے تھے، اور کہا: ان کے کاٹنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ حمید نے اتنا اضافہ کیا ہے کہ ہشام نے کہا: اے عراقی (بھائی) یہی بدعت تم لے کر آئے ہو، میں نے کہا کہ یہ بدعت تو آپ لوگوں ہی کی طرف کی ہے، میں نے مکہ میں کسی کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیر کا درخت کاٹنے والے پر لعنت بھیجی ہے، پھر اسی مفہوم کی حدیث بیان کی۔ [سنن ابي داود/أبواب السلام /حدیث: 5241]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود (حسن) (الصحیحة 615)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: ضعيف

173. باب فِي إِمَاطَةِ الأَذَى عَنِ الطَّرِيقِ
173. باب: راستے سے تکلیف دہ چیزوں کے ہٹا دینے کا بیان۔
حدیث نمبر: 5242
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمَرْوَزِيُّ , قَالَ: حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ حُسَيْنٍ , قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي , قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بُرَيْدَةَ , قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي بُرَيْدَةَ , يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" فِي الْإِنْسَانِ ثَلَاثُ مِائَةٍ وَسِتُّونَ مَفْصِلًا , فَعَلَيْهِ أَنْ يَتَصَدَّقَ عَنْ كُلِّ مَفْصِلٍ مِنْهُ بِصَدَقَةٍ , قَالُوا: وَمَنْ يُطِيقُ ذَلِكَ يَا نَبِيَّ اللَّهِ؟ قَالَ:" النُّخَاعَةُ فِي الْمَسْجِدِ تَدْفِنُهَا , وَالشَّيْءُ تُنَحِّيهِ عَنِ الطَّرِيقِ , فَإِنْ لَمْ تَجِدْ فَرَكْعَتَا الضُّحَى تُجْزِئُكَ".
بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: انسان کے جسم میں تین سو ساٹھ جوڑ ہیں اور انسان کو چاہیئے کہ ہر جوڑ کی طرف سے کچھ نہ کچھ صدقہ دے، لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے نبی! اتنی طاقت کس کو ہے؟ آپ نے فرمایا: مسجد میں تھوک اور رینٹ کو چھپا دینا اور (موذی) چیز کو راستے سے ہٹا دینا بھی صدقہ ہے، اور اگر ایسا اتفاق نہ ہو تو چاشت کی دو رکعتیں ہی تمہارے لیے کافی ہیں۔ [سنن ابي داود/أبواب السلام /حدیث: 5242]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 1965)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/354، 359) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح


Previous    1    2    3    4    5    6    7    8    9    Next