الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ترمذي کل احادیث (3956)
حدیث نمبر سے تلاش:

سنن ترمذي
كتاب الجهاد عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: جہاد کے احکام و مسائل
حدیث نمبر: 1710
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " نَهَى عَنِ الْوَسْمِ فِي الْوَجْهِ وَالضَّرْبِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
جابر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے چہرے پر مارنے اور اسے داغنے سے منع فرمایا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الجهاد عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1710]
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/اللباس 29 (2116)، (تحفة الأشراف: 2816)، و مسند احمد (3/318، 378) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، الإرواء (2185) ، صحيح أبي داود (2310)

31. باب مَا جَاءَ فِي حَدِّ بُلُوغِ الرَّجُلِ وَمَتَى يُفْرَضُ لَهُ
31. باب: حد بلوغت کا ذکر اور غنیمت سے اس کو کب حصہ دیا جائے گا اس کا بیان۔
حدیث نمبر: 1711
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْوَزِيرِ الْوَاسِطِيُّ، حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ يُوسُفَ الْأَزْرَقُ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: " عُرِضْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي جَيْشٍ وَأَنَا ابْنُ أَرْبَعَ عَشْرَةَ فَلَمْ يَقْبَلْنِي، ثُمَّ عُرِضْتُ عَلَيْهِ مِنْ قَابِلٍ فِي جَيْشٍ وَأَنَا ابْنُ خَمْسَ عَشْرَةَ فَقَبِلَنِي "، قَالَ نَافِعٌ: فَحَدَّثْتُ بِهَذَا الْحَدِيثِ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِيزِ، فَقَالَ: " هَذَا حَدُّ مَا بَيْنَ الصَّغِيرِ وَالْكَبِيرِ، ثُمَّ كَتَبَ أَنْ يُفْرَضَ لِمَنْ بَلَغَ الْخَمْسَ عَشْرَةَ ".
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ایک لشکر میں مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا گیا، میں چودہ سال کا تھا، تو آپ نے مجھے (جہاد میں لڑنے کے لیے) قبول نہیں کیا، پھر مجھے آپ کے سامنے آئندہ سال ایک لشکر میں پیش کیا گیا اور میں پندرہ سال کا تھا، تو آپ نے مجھے (لشکر میں) قبول کر لیا، نافع کہتے ہیں کہ میں نے اس حدیث کو عمر بن عبدالعزیز سے بیان کیا تو انہوں نے کہا: چھوٹے اور بڑے کے درمیان یہی حد ہے، پھر انہوں نے فرمان جاری کیا کہ جو پندرہ سال کا ہو جائے اسے مال غنیمت سے حصہ دیا جائے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الجهاد عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1711]
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 1361 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2543)

حدیث نمبر: 1711M
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، نَحْوَهُ بِمَعْنَاهُ إِلَّا أَنَّهُ قَالَ: قَالَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ: " هَذَا حَدُّ مَا بَيْنَ الذُّرِّيَّةِ وَالْمُقَاتِلَةِ "، وَلَمْ يَذْكُرْ أَنَّهُ كَتَبَ " أَنْ يُفْرَضَ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ إِسْحَاق بْنِ يُوسُفَ، حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ.
اس سند سے عمر سے اسی جیسی اسی معنی کی حدیث مروی ہے اور اس میں ہے کہ عمر بن عبدالعزیز نے کہا: یہ چھوٹے اور لڑنے والے کے درمیان حد ہے، انہوں نے یہ نہیں بیان کیا کہ عمر بن عبدالعزیز نے مال غنیمت میں سے حصہ متعین کرنے کا فرمان جاری کیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
اسحاق بن یوسف کی حدیث جو سفیان ثوری کی روایت سے آئی ہے، وہ حسن صحیح غریب ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الجهاد عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1711M]
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (تحفة الأشراف: 7903) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2543)

32. باب مَا جَاءَ فِيمَنْ يُسْتَشْهَدُ وَعَلَيْهِ دَيْنٌ
32. باب: اللہ کی راہ میں قتل ہونے والے پر قرض ہو تو کیا حکم ہے؟
حدیث نمبر: 1712
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي قَتَادَةَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ سَمِعَهُ يُحَدِّثُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَامَ فِيهِمْ فَذَكَرَ لَهُمْ: أَنَّ الْجِهَادَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَالْإِيمَانَ بِاللَّهِ، أَفْضَلُ الْأَعْمَالِ، فَقَامَ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرَأَيْتَ إِنْ قُتِلْتُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، يُكَفِّرُ عَنِّي خَطَايَايَ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " نَعَمْ، إِنْ قُتِلْتَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَأَنْتَ صَابِرٌ مُحْتَسِبٌ مُقْبِلٌ غَيْرُ مُدْبِرٍ "، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " كَيْفَ قُلْتَ؟ "، قَالَ: أَرَأَيْتَ إِنْ قُتِلْتُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، أَيُكَفِّرُ عَنِّي خَطَايَايَ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " نَعَمْ، وَأَنْتَ صَابِرٌ مُحْتَسِبٌ مُقْبِلٌ غَيْرُ مُدْبِرٍ، إِلَّا الدَّيْنَ، فَإِنَّ جِبْرِيلَ قَالَ لِي ذَلِكَ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب، عَنْ أَنَسٍ، وَمُحَمَّدِ بْنِ جَحْشٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَرَوَى بَعْضُهُمْ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَ هَذَا، وَرَوَى يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْأَنْصَارِيُّ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ هَذَا، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي قَتَادَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ.
ابوقتادہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کے بیچ کھڑے ہو کر ان سے بیان کیا: اللہ کی راہ میں جہاد کرنا اور اللہ پر ایمان لانا سب سے افضل عمل ہے ۱؎، (یہ سن کر) ایک آدمی کھڑا ہوا اور عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ کا کیا خیال ہے اگر میں اللہ کی راہ میں شہید ہو جاؤں، تو کیا میرے گناہ معاف کر دیئے جائیں گے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں اگر تم اللہ کی راہ میں شہید ہو گئے اس حال میں کہ تم صبر کرنے والے، ثواب کی امید رکھنے والے ہو، آگے بڑھنے والے ہو، پیچھے مڑنے والے نہ ہو، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے کیسے کہا ہے؟ عرض کیا: آپ کا کیا خیال ہے اگر میں اللہ کی راہ میں شہید ہو جاؤں تو کیا میرے گناہ معاف کر دیئے جائیں گے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں اگر تم صبر کرنے والے، ثواب کی امید رکھنے والے ہو اور آگے بڑھنے والے ہو پیچھے مڑنے والے نہ ہو، سوائے قرض کے ۲؎، یہ مجھ سے جبرائیل نے (ابھی) کہا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- بعض لوگوں نے یہ حدیث بسند «سعيد المقبري عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم» اسی طرح روایت کی ہے، یحییٰ بن سعید انصاری اور کئی لوگوں نے اس کو بسند «سعيد المقبري عن عبد الله ابن أبي قتادة عن أبيه عن النبي صلى الله عليه وسلم» سے روایت کی ہے، یہ روایت سعید مقبری کی روایت سے جو بواسطہ ابوہریرہ آئی ہے، زیادہ صحیح ہے،
۴- اس باب میں انس، محمد بن جحش اور ابوہریرہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الجهاد عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1712]
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الإمارة 32 (1885)، (تحفة الأشراف: 12098)، وط/الجہاد 14 (31)، و مسند احمد (5/297، 304، 308)، سنن الدارمی/الجہاد 21 (2456) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، الإرواء (1197)

33. باب مَا جَاءَ فِي دَفْنِ الشُّهَدَاءِ
33. باب: شہیدوں کو دفن کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1713
حَدَّثَنَا أَزْهَرُ بْنُ مَرْوَانَ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلَالٍ، عَنْ أَبِي الدَّهْمَاءِ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عَامِرٍ، قَالَ: شُكِيَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْجِرَاحَاتُ يَوْمَ أُحُدٍ فَقَالَ: " احْفِرُوا، وَأَوْسِعُوا، وَأَحْسِنُوا، وَادْفِنُوا الِاثْنَيْنِ وَالثَّلَاثَةَ فِي قَبْرٍ وَاحِدٍ، وَقَدِّمُوا أَكْثَرَهُمْ قُرْآنًا "، فَمَاتَ أَبِي، فَقُدِّمَ بَيْنَ يَدَيْ رَجُلَيْنِ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب، عَنْ خَبَّابٍ، وَجَابِرٍ، وَأَنَسٍ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَرَوَى سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، وَغَيْرُهُ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلَالٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عَامِرٍ، وَأَبُو الدَّهْمَاءِ اسْمُهُ: قِرْفَةُ بْنُ بُهَيْسٍ أَوْ بَيْهَسٍ.
ہشام بن عامر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ احد کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زخموں کی شکایت کی گئی ۱؎، آپ نے فرمایا: قبر کھودو اور اسے کشادہ اور اچھی بناؤ، ایک قبر میں دو یا تین آدمیوں کو دفن کرو، اور جسے زیادہ قرآن یاد ہو اسے (قبلہ کی طرف) آگے کرو، ہشام بن عامر کہتے ہیں: میرے والد بھی وفات پائے تھے، چنانچہ ان کو ان کے دو ساتھیوں پر مقدم (یعنی قبلہ کی طرف آگے) کیا گیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- سفیان ثوری اور دوسرے لوگوں نے اس حدیث کو بسند «أيوب عن حميد بن هلال عن هشام بن عامر» روایت کیا ہے،
۳- اس باب میں خباب، جابر اور انس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الجهاد عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1713]
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الجنائز 1 7 (3215)، سنن النسائی/الجنائز 86 (2012)، و 90 (2017)، و 91 (2020)، سنن ابن ماجہ/الجنائز 41 (1560)، (تحفة الأشراف: 11731)، و مسند احمد (4/19، 20) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1560)

34. باب مَا جَاءَ فِي الْمَشُورَةِ
34. باب: جنگ میں مشورہ کا بیان۔
حدیث نمبر: 1714
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: لَمَّا كَانَ يَوْمُ بَدْرٍ، وَجِيءَ بِالْأُسَارَى، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا تَقُولُونَ فِي هَؤُلَاءِ الْأُسَارَى؟ "، فَذَكَرَ قِصَّةً فِي هَذَا الْحَدِيثِ طَوِيلَةً، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب، عَنْ عُمَرَ، وَأَبِي أَيُّوبَ، وَأَنَسٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَأَبُو عُبَيْدَةَ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ أَبِيهِ، وَيُرْوَى عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: مَا رَأَيْتُ أَحَدًا أَكْثَرَ مَشُورَةً لِأَصْحَابِهِ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب بدر کے دن قیدیوں کو لایا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان کے بارے میں تم لوگ کیا کہتے ہو، پھر راوی نے اس حدیث میں ایک طویل قصہ بیان کیا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن ہے،
۲- ابوعبیدہ نے اپنے باپ سے نہیں سنا ہے،
۳- ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر کسی کو نہیں دیکھا جو اپنے ساتھیوں سے زیادہ مشورہ لیتا ہو ۲؎،
۴- اس حدیث میں عمر، ابوایوب، انس اور ابوہریرہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الجهاد عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1714]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف وأعادہ في تفسیر الأنفال (3084)، (تحفة الأشراف: 9628) (ضعیف) (ابو عبیدہ کا اپنے باپ ابن مسعود رضی الله عنہ سے سماع نہیں ہے)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، الإرواء (5 / 47 - 48) ، وسيأتي (5080 // 598 / 3293 // بزيادة في المتن)

35. باب مَا جَاءَ لاَ تُفَادَى جِيفَةُ الأَسِيرِ
35. باب: قیدی کی سڑی ہوئی لاش بیچی نہیں جائے گی۔
حدیث نمبر: 1715
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ ابْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ الْحَكَمِ، عَنْ مِقْسَمٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ " أَنَّ الْمُشْرِكِينَ أَرَادُوا أَنْ يَشْتَرُوا جَسَدَ رَجُلٍ مِنَ الْمُشْرِكِينَ، فَأَبَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَبِيعَهُمْ إِيَّاهُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ الْحَكَمِ، وَرَوَاهُ الْحَجَّاجُ بْنُ أَرْطَاةَ أَيْضًا عَنْ الْحَكَمِ، وقَالَ أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ: سَمِعْتُ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، يَقولُ: ابْنُ أَبِي لَيْلَى لَا يُحْتَجُّ بِحَدِيثِهِ، وقَالَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل: ابْنُ أَبِي لَيْلَى صَدُوقٌ وَلَكِنْ لَا نَعْرِفُ صَحِيحَ حَدِيثِهِ مِنْ سَقِيمِهِ وَلَا أَرْوِي عَنْهُ شَيْئًا، وَابْنُ أَبِي لَيْلَى صَدُوقٌ فَقِيهٌ، وَرُبَّمَا يَهِمُ فِي الْإِسْنَادِ، حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دَاوُدَ، عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، قَالَ: فُقَهَاؤُنَا ابْنُ أَبِي لَيْلَى عَبْدُ اللَّهِ بْنُ شُبْرُمَةَ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ مشرکین نے ایک مشرک کی لاش کو خریدنا چاہا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بیچنے سے انکار کر دیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،
۲- ہم اسے صرف حکم کی روایت سے جانتے ہیں، اس کو حجاج بن ارطاۃ نے بھی حکم سے روایت کیا ہے،
۳- احمد بن حنبل کہتے ہیں: ابن ابی لیلیٰ کی حدیث قابل حجت نہیں ہے،
۴- محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں: ابن ابی لیلیٰ صدوق ہیں لیکن ہم کو ان کی صحیح حدیثیں ان کی ضعیف حدیثوں سے پہچان نہیں پاتے، میں ان سے کچھ نہیں روایت کرتا ہوں، ابن ابی لیلیٰ صدوق ہیں فقیہ ہیں، لیکن بسا اوقات ان سے سندوں میں وہم ہو جاتا ہے،
۵- سفیان ثوری کہتے ہیں: ہمارے فقہاء ابن ابی لیلیٰ اور عبداللہ بن شبرمہ ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الجهاد عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1715]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف، (تحفة الأشراف: 6475) (ضعیف) (اس کے راوی محمد بن ابی لیلیٰ ضعیف ہیں)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد

36. باب مَا جَاءَ فِي الْفِرَارِ مِنَ الزَّحْفِ
36. باب: میدان جنگ سے فرار ہونے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1716
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: " بَعَثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَرِيَّةٍ، فَحَاصَ النَّاسُ حَيْصَةً، فَقَدِمْنَا الْمَدِينَةَ، فَاخْتَبَيْنَا بِهَا وَقُلْنَا: هَلَكْنَا، ثُمَّ أَتَيْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، نَحْنُ الْفَرَّارُونَ "، قَالَ: " بَلْ أَنْتُمُ الْعَكَّارُونَ وَأَنَا فِئَتُكُمْ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ، وَمَعْنَى قَوْلِهِ: فَحَاصَ النَّاسُ حَيْصَةً، يَعْنِي: أَنَّهُمْ فَرُّوا مِنَ الْقِتَالِ، وَمَعْنَى قَوْلِهِ: " بَلْ أَنْتُمُ الْعَكَّارُونَ "، وَالْعَكَّارُ: الَّذِي يَفِرُّ إِلَى إِمَامِهِ لِيَنْصُرَهُ، لَيْسَ يُرِيدُ الْفِرَارَ مِنَ الزَّحْفِ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو ایک سریہ میں روانہ کیا، (پھر ہم) لوگ لڑائی سے بھاگ کھڑے ہوئے، مدینہ آئے تو شرم کی وجہ سے چھپ گئے اور ہم نے کہا: ہلاک ہو گئے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم بھگوڑے ہیں، آپ نے فرمایا: بلکہ تم لوگ پیچھے ہٹ کر حملہ کرنے والے ہو اور میں تمہارا پشت پناہ ہوں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن ہے، ہم اسے صرف یزید بن ابی زیاد کی روایت سے جانتے ہیں،
۲- «فحاص الناس حيصة» کا معنی یہ ہے کہ لوگ لڑائی سے فرار ہو گئے،
۳- اور «بل أنتم العكارون» اس کو کہتے ہیں: جو فرار ہو کر اپنے امام (کمانڈر) کے پاس آ جائے تاکہ وہ اس کی مدد کرے نہ کہ لڑائی سے فرار ہونے کا ارادہ رکھتا ہو۔ [سنن ترمذي/كتاب الجهاد عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1716]
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الجہاد 106 (2647)، (تحفة الأشراف: 7298) (ضعیف) (اس کے راوی یزید بن ابی زیاد ضعیف ہیں)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، الإرواء (1203)

37. باب مَا جَاءَ فِي دَفْنِ الْقَتِيلِ فِي مَقْتَلِهِ
37. باب: مقتول کو قتل گاہ ہی میں دفن کر دینے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1717
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنْ الْأَسْوَدِ بْنِ قَيْسٍ، قَال: سَمِعْتُ نُبَيْحًا الْعَنَزِيَّ يُحَدِّثُ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: لَمَّا كَانَ يَوْمُ أُحُدٍ، جَاءَتْ عَمَّتِي بِأَبِي لِتَدْفِنَهُ فِي مَقَابِرِنَا، فَنَادَى مُنَادِي رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " رُدُّوا الْقَتْلَى إِلَى مَضَاجِعِهِمْ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَنُبَيْحٌ ثِقَةٌ.
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ احد کے دن میری پھوپھی میرے باپ کو لے کر آئیں تاکہ انہیں ہمارے قبرستان میں دفن کریں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک منادی نے پکارا: مقتولوں کو ان کی قتل گاہوں میں لوٹا دو (دفن کرو) ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اور نبیح ثقہ ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الجهاد عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1717]
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الجنائز 42 (3165)، سنن النسائی/الجنائز 83 (2006)، سنن ابن ماجہ/الجنائز 28 (1516)، (تحفة الأشراف: 3117)، سنن الدارمی/المقدمة 7 (46) (صحیح) (متابعات وشواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے ورنہ اس کے راوی نبیح عنزی لین الحدیث ہیں)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2516)

38. باب مَا جَاءَ فِي تَلَقِّي الْغَائِبِ إِذَا قَدِمَ
38. باب: آنے والے کے استقبال کا بیان۔
حدیث نمبر: 1718
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، وَسَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمَخْزُومِيُّ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ، قَالَ: " لَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ تَبُوكَ، خَرَجَ النَّاسُ يَتَلَقَّوْنَهُ إِلَى ثَنِيَّةِ الْوَدَاعِ "، قَالَ السَّائِبُ: فَخَرَجْتُ مَعَ النَّاسِ وَأَنَا غُلَامٌ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
سائب بن یزید رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ تبوک سے واپس آئے تو لوگ آپ کے استقبال کے لیے ثنیۃ الوداع تک نکلے: میں بھی لوگوں کے ساتھ نکلا حالانکہ میں کم عمر تھا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الجهاد عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1718]
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الجہاد 196 (3082)، والمغازي 82 (4426)، سنن ابی داود/ الجہاد 176 (2779)، (تحفة الأشراف: 3800) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح


Previous    1    2    3    4    5    6    Next