ابوعبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ) نے کہا مجھ سے عبداللہ بن محمد مسندی نے کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے عبدالملک ابن جریج کے واسطہ سے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے ابن ابی ملیکہ نے کہا کہ اے عبدالملک! اگر تم ابن عباس رضی اللہ عنہما کی مساجد اور ان کے دروازوں کو دیکھتے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الصَّلَاةِ/حدیث: Q468]
ہم سے ابوالنعمان محمد بن فضل اور قتیبہ بن سعید نے بیان کیا کہ ہم سے حماد بن زید نے ایوب سختیانی کے واسطہ سے، انہوں نے نافع سے، انہوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ تشریف لائے (اور مکہ فتح ہوا) تو آپ نے عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہ کو بلوایا۔ (جو کعبہ کے متولی، چابی بردار تھے) انہوں نے دروازہ کھولا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ، بلال، اسامہ بن زید اور عثمان بن طلحہ چاروں اندر تشریف لے گئے۔ پھر دروازہ بند کر دیا گیا اور وہاں تھوڑی دیر تک ٹھہر کر باہر آئے۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ میں نے جلدی سے آگے بڑھ کر بلال سے پوچھا (کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ کے اندر کیا کیا) انہوں نے بتایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اندر نماز پڑھی تھی۔ میں نے پوچھا کس جگہ؟ کہا کہ دونوں ستونوں کے درمیان۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ یہ پوچھنا مجھے یاد نہ رہا کہ آپ نے کتنی رکعتیں پڑھی تھیں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الصَّلَاةِ/حدیث: 468]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 468
حدیث حاشیہ: آنحضرت ﷺ نے کعبہ شریف میں داخل ہوکر کعبہ کا دروازہ اس لیے بند کرادیاتھا کہ اورلوگ اندر نہ آجائیں اور ہجوم کی شکل میں اصل مقصد عبادت فوت ہوجائے۔ اس سے معلوم ہوا کہ خانہ کعبہ کے دروازہ میں زنجیر تھی، یہی ترجمہ باب ہے۔ مساجد میں حفاظت کے لیے کواڑلگانا اوران میں کنڈی وقفل وغیرہ جائز ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 468
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:468
حدیث حاشیہ: 1۔ فتح مکہ کے موقع پر رسول اللہ ﷺ مکہ معظمہ تشریف لائے تو آپ نے کعبے کے چابی برادر حضرت عثمان بن طلحہ ؓ کو بلایا ان سے چابی طلب کی اور خانہ کعبہ کھول کر اندرداخل ہوئے وہاں نماز پڑھی، ہجوم کے پیش نظر اندر سے دروازہ بند کر لیا۔ امام بخاری ؒ کے قائم کردہ باب کے دو اجزاء ثابت ہوگئے کہ خانہ کعبہ میں دروازہ بھی تھا اور اسے بوقت ضرورت بند بھی کر لیا گیا۔ واضح رہے کہ دور جاہلیت میں قریش کے دس خاندانوں کے درمیان عزت و شرافت کے کام تقسیم تھے جن میں پانی پلانے کی خدمت بنو ہاشم سے متعلق تھی اور بنو عبدالدار کے پاس خانہ کعبہ کی چابی تھی اور اس کی نگرانی بھی ان کے سپرد تھی۔ حضرت عثمان بن طلحہ ؓ بھی عبدالدار کی اولاد سے تھے رسول اللہ ﷺ نے حضرت عثمان ؓ سے چابی طلب کی تو انھوں نے اسے پیش کردیا خطبہ دیتے وقت چابی آپ ﷺ کے ہاتھ میں تھی۔ حضرت علی ؓ نے عرض کیا کہ چابی ہمیں دی جائے تاکہ سقایہ زمزم کے ساتھ کلیہ برداری کا شرف بھی حاصل ہو جائے، لیکن آپ نے حضرت عثمان بن طلحہ ؓ کو بلایا اور فرمایا: ” اے آل ابی طلحہ! یہ چابی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے تمھارے پاس رہے گی، ظالم اور غاصب کے علاوہ اسے تم سے کوئی نہیں چھین سکے گا۔ “ 2(المعجم الکبیر للطبراني: 11/120۔ فیه عبد اللہ بن مؤمل قال ابن حجر ضعیف الحدیث) ۔ اس روایت میں ہے کہ ابن عمر ؓ سے یہ بات نسیان کا شکار ہو گئی کہ آپ نے کتنی رکعات پڑھی تھیں؟ جبکہ حدیث نمبر397۔ میں ہے کہ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ کو بتایا تھا کہ نبی ﷺ نے دورکعت پڑھی تھیں ابن حجر ؒ نے اس کے درمیان تطبیق یوں دی ہے کہ حضرت بلال ؓ نے اشارے سے بتایا تھا عبد اللہ بن عمر ؓ نطق سے وضاحت کرنا بھول گئے تھے۔ (فتح الباري: 648/1) واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 468