حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 459
´آداب مجلس کا بیان`
«. . . عن ابى واقد الليثي: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم بينما هو جالس فى المسجد والناس معه إذ اقبل نفر ثلاثة، فاقبل اثنان . . .»
”. . . سیدنا ابوواقد اللیثی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے اور لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے کہ اتنے میں تین آدمیوں کا ایک گروہ آیا ان میں سے دو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور ایک واپس چلا گیا . . .“ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 459]
تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 66، ومسلم 2176، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ بغیر شرعی عذر کے کتاب و سنت کے وعظ و تعلیم اور اصلاحی درس کے دوران میں اٹھ کر جانا نہیں چاہئے۔
➋ مسجد میں داخل ہونے کے بعد دو رکعتیں پڑھنا فرض یا واجب نہیں بلکہ سنت مؤکدہ ہے۔
➌ عالم کے پاس مسجد میں بیٹھنا مسنون ہے اور کوشش کرنی چاہئے کہ عالم کے قریب بیٹھا جائے لیکن لوگوں کی گردنیں پھلانگنے اور دوسروں کو تکلیف دینے سے اجتناب کرنا چاہئے بلکہ جہاں خالی جگہ میسر ہو بیٹھ جانا چاہئے۔
➍ مجلس میں پہنچ کر دوران درس یا دوران خطبہ سلام کہنا ثابت ہے جس کا جواب اگر مجلس سے ایک آدمی بھی دے دے تو کافی ہے۔
➎ حافظ ابن عبدالبر کے نزدیک اللہ کے حیا کرنے سے مراد یہ ہے کہ اللہ نے اسے بخش دیا۔ دیکھئے: [التمهيد 1/317]
➏ چہرہ پھیرنے سے مراد دو باتیں ہیں: یا تو وہ شخص منافق تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے ناراض ہو کر اسے اپنی رحمت سے دور کر دیا یا عام مسلمان تھا تو اس سے مجلس کے ثواب سے محروم کر دیا۔
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 126