الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4621
4621. حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ نبی ﷺ نے خطبہ دیا۔ میں نے اس جیسا خطبہ کبھی نہیں سنا تھا۔ آپ نے فرمایا: ”جو حقائق میں جانتا ہوں اگر وہ تمہیں معلوم ہو جائیں تو تم ہنسو کم اور روو زیادہ۔“ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ کے اصحاب نے اپنے چہرے ڈھانپ لیے اور ان کے رونے کی آواز آنے لگی۔ اس موقع پر ایک آدمی نے پوچھا: میرے والد کون ہیں؟ آپ نے فرمایا: ”تیرا والد فلاں شخص ہے۔“ اس وقت یہ آیت کریمہ نازل ہوئی: ”تم ایسی باتیں مت پوچھو، اگر تم پر وہ ظاہر کر دی جائیں تو تمہیں ناگوار گزریں۔“ اس حدیث کو نضر اور روح بن عبادہ نے حضرت شعبہ سے بیان کیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4621]
حدیث حاشیہ:
1۔
ایک حدیث میں اس خطبے کا پس منظر بیان ہوا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے کوئی ناگوار بات پہنچی تو آپ نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا:
"ابھی ابھی مجھ پر جنت اور دوزخ پیش کی گئی تھیں۔
آج سے بڑھ کر میں نے کبھی خیر اور شر کونہیں دیکھا جن حقائق کو میں جانتا ہوں اگر وہ تمھیں معلوم ہو جائیں تو تم بہت کم ہنسو اور زیادہ رؤوکرو۔
" (صحیح مسلم، الفضائل، حدیث: 6119۔
(2359)
2۔
بہرحال مذکورہ آیت کریمہ کثرت سے سوالات کرنے کے متعلق نازل ہوئی۔
وہ سوالات استہزاء، امتحان، شرارت اور عناد پر مبنی ہوتے تھے بصورت دیگر امور دین کے متعلق سوالات کرنے کی پابندی نہیں ہے بلکہ بعض اوقات ایسے سوالات کرنا ضروری ہوتے ہیں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"اگر تمھیں علم نہیں ہے تو اہل ذکر سے پوچھا لیا کرو۔
" (النحل: 16۔
43)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4621
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6468
6468. حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں ایک دن نماز پڑھائی، پھر منبر پر تشریف لے گئے اور اپنے ہاتھ سے مسجد کے قبلے کی طرف اشارہ فرمایا جب میں نے تمہیں نماز پڑھائی تو اس وقت مجھے اس دیوار کی طرف جنت اور دوزخ کی تصویر دکھائی گئی۔ میں نے آج تک بہشت کی سى خوبصورت چیز اور جہنم کی سی ڈروانی شکل نہیں دیکھی۔ میں نے آج کے دن کی طرح خیر اور شر جیسی کوئی چیز نہیں دیکھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6468]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث میں نمازی کو خبردار کیا گیا ہے کہ وہ نماز پڑھتے وقت جنت اور دوزخ کا اپنے سامنے استحضار کرے تاکہ نماز میں شیطان کے وسوسے سے پیدا ہونے والی سوچ بچار سے محفوظ رہے۔
جو شخص انہیں اپنے ذہن میں رکھتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں مصروف اور اس کی نافرمانی سے محفوظ رہے گا۔
(2)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ اس حدیث میں عمل پر ہمیشگی کرنے کی طرف اشارہ ہے کیونکہ جو شخص جنت اور دوزخ کو اپنے سامنے ظاہر کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں لگا رہے گا اور اس کی نافرمانی سے رک جائے گا۔
اس طرح حدیث کی عنوان سے مطابقت بھی ظاہر ہو جاتی ہے کہ اعتدال کے ساتھ نیک عمل پر ہمیشگی کرنی چاہیے۔
(فتح الباري: 363/11)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6468
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6486
6486. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”اگر تمہیں معلوم ہو جائے جو میں جانتا ہوں تو تم بہت کم ہنستے اور روتے زیادہ۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6486]
حدیث حاشیہ:
(1)
حقائق سے مراد اللہ تعالیٰ کی عظمت، حرمت کی پامالی پر اس کا انتقام، جان کنی کی سختی، قبر کی وحشت اور قیامت کی ہولناکیاں ہیں۔
اس مقام پر کم ہنسنا اور زیادہ رونا محتاج بیان نہیں ہے۔
(2)
اس حدیث کا پس منظر ان الفاظ میں بیان ہوا ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر سے مسجد کی طرف تشریف لائے تو آپ نے چند صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو دیکھا جو آپس میں گفتگو کر رہے تھے اور ہنس کر ایک دوسرے کے ساتھ تبادلہ خیالات کر رہے تھے، اس وقت آپ نے یہ حدیث بیان فرمائی۔
(فتح الباري: 388/11)
قرآن میں ہے:
”انہیں چاہیے کہ وہ ہنسیں کم اور زیادہ روئیں، اللہ کے ہاں اپنے کیے ہوئے اعمال کا ضرور بدلہ ملے گا۔
“ (التوبة: 82/9)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6486