15. باب: رمضان المبارک کے مہینے میں مسافر کے لئے جبکہ اس کا سفر دو منزل یا اس سے زیادہ ہو تو روزہ رکھنے اور نہ رکھنے کے جواز کا بیان، اور بہتر یہ ہے کہ جو باب: روزہ کی طاقت رکھتا ہے وہ روزہ رکھے، اور جس کے لیے مشقت ہو تو وہ نہ رکھے۔
احمد بن عثمان نوفلی، ابو داود، شعبہ، یحییٰ ابن ابی کثیر اس طرح ایک اور سند کےساتھ بھی یہ روایت نقل کی گئی ہے جس میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمھیں جو رخصت عطاء فرمائی ہے اس پرعمل کرنا تمہارے لئے ضروری ہے راوی نے کہا کہ جب میں نے ان سے سوال کیا تو ان کو یاد نہیں تھا۔
امام صاحب اپنے استاد احمد بن عثمان نوفلی سے شعبہ کی مذکورہ سند سے اس کے ہم معنی روایت بیان کرتے ہیں اور اس میں یہ اضافہ ہے کہ شعبہ نے کہا، یحییٰ بن ابی کثیر سے مجھے اس روایت میں اضافہ کی اطلاع پہنچتی تھی۔ اس سند میں یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے جو رخصت تمھیں دی ہے اس کو قبول کرو۔“ شعبہ کہتے ہیں جب میں نے یحییٰ بن ابی کثیر سے پوچھا تو انہیں یہ اضافہ یاد نہیں تھا۔
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2614
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ جب سفر میں اللہ تعالیٰ نے روزہ افطار کرنے کی اجازت اور رخصت دی اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی اس پر عمل کیا ہے تو پھر کسی مسلمان کا ایسے حال میں روزہ رکھنا کہ وہ خود مشقت اور کلفت میں مبتلا ہو کر گر جائے اور دوسروں کو اس کی دیکھ بھال میں مصروف ہونا پڑے کوئی نیکی کی بات نہیں اس کا یہ معنی نہیں ہے کہ بلا مشقت وکلفت اور اندیشہ ضرر سفر میں روزہ رکھنا نیکی نہیں جیسا کہ اہل ظاہر نے سمجھا ہے۔