الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



صحيح مسلم
كِتَاب الْبُيُوعِ
لین دین کے مسائل
14. باب تَحْرِيمِ بَيْعِ الرُّطَبِ بِالتَّمْرِ إِلاَّ فِي الْعَرَايَا:
14. باب: تر کھجور کو خشک کھجور کے بدلے بیچنا حرام ہے مگر عریہ میں درست ہے۔
حدیث نمبر: 3878
وَحَدَّثَنِي وَحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حَدَّثَنَا حُجَيْنُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ ، عَنْ عُقَيْلٍ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ : أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " نَهَى عَنْ بَيْعِ الْمُزَابَنَةِ وَالْمُحَاقَلَةِ "، وَالْمُزَابَنَةُ: أَنْ يُبَاعَ ثَمَرُ النَّخْلِ بِالتَّمْرِ، وَالْمُحَاقَلَةُ: أَنْ يُبَاعَ الزَّرْعُ بِالْقَمْحِ، وَاسْتِكْرَاءُ الْأَرْضِ بِالْقَمْحِ، قَالَ: وَأَخْبَرَنِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: " لَا تَبْتَاعُوا الثَّمَرَ حَتَّى يَبْدُوَ صَلَاحُهُ، وَلَا تَبْتَاعُوا الثَّمَرَ بِالتَّمْرِ ". وقَالَ سَالِمٌ : أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَنَّهُ رَخَّصَ بَعْدَ ذَلِكَ فِي بَيْعِ الْعَرِيَّةِ بِالرُّطَبِ أَوْ بِالتَّمْرِ، وَلَمْ يُرَخِّصْ فِي غَيْرِ ذَلِكَ ".
ابن شہاب نے سعید بن مسیب سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزابنہ اور محاقلہ کی بیع سے منع فرمایا۔ مزابنہ یہ ہے کہ کھجور پر لگے پھل کو خشک کھجور کے عوض فروخت کیا جائے، اور محاقلہ یہ ہے کہ کھیتی کو (کٹنے سے پہلے) گندم کے عوض فروخت کیا جائے اور زمین کو گندم کے عوض کرائے پر دیا جائے۔ (ابن شہاب نے) کہا: مجھے سالم بن عبداللہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خبر دی کہ آپ نے فرمایا: "صلاحیت ظاہر ہونے سے پہلے پھل نہ خریدو، اور نہ (درخت پر لگے) پھل کو خشک کھجور کے عوض خریدو۔" سالم نے کہا: مجھے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے خبر دی، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ نے اس (ممانعت کے عام حکم) کے بعد عَرِیہ کی بیع میں تروتازہ یا خشک کھجور کے عوض بیع کی رخصت دی، اور اس کے سوا کسی بیع میں رخصت نہیں دی
حضرت سعید المسیب رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع مزابنہ اور محاقلہ سے منع فرمایا ہے، مزابنہ یہ ہے کہ درختوں کا پھل، خشک کھجوروں کے عوض بیچا جائے اور محاقلہ یہ ہے کہ کھیتی، گندم کے عوض فروخت کی جائے یا زمین گندم کے عوض بٹائی پر دی جائے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1539
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة

صحیح مسلم کی حدیث نمبر 3878 کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3878  
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
یہ روایت حضرت سعید بن المسیب سے مرسلاً یعنی صحابی کے واسطہ کے بغیر براہ راست نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے اور سعید کبار تابعین میں سے ہیں،
اور ان کی مرسل روایت قبول ہے کیونکہ مرفوع روایات سے اس کی تائید ہوتی ہے۔
بیع مزابنہ،
درخت کا پھل،
توڑی ہوئی کھجوروں سے بیچنا،
یہ اس لیے ناجائز ہے کہ یہ ایک جنس کا پھل ہے،
جس میں کمی و بیشی جائز نہیں ہے،
لیکن درخت کا پھل،
اس کا ناپ یا تول نہیں ہو سکتا،
محض اندازہ لگایا جائے گا۔
جس میں کمی و بیشی کا امکان ہے،
امام شافعی کے نزدیک سودی اشیاء میں مجہول کی مجہول مقدار سے بیع مزابنہ ہے اور امام مالک کے نزدیک ہر قسم کی اشیاء کی مجہول مقدار کی معلوم ناپ،
وزن یا گنتی سے بیع مزابنہ ہے۔
محاقلہ:
حقل کھیتی سے ہے،
اس کی تفسیر میں مختلف اقوال ہیں:
(1)
گندم کے خوشوں اور بالیوں کی گندم سے بیع۔
(2)
تہائی یا چوتھائی پر زمین بٹائی پر دینا،
جس کو مخابرہ کہا جاتا ہے اور بقول بعض زمین،
متعین پیداوار کے عوض بٹائی پر دینا۔
مثلا ایک ایکڑ تیس من گندم کے عوض بٹائی پر دینا۔
(3)
کچی کھیتی فروخت کرنا۔
جمہور ائمہ اور صاحبین کے نزدیک زمین مزارعت پر دینا کہ اس سے جو پیداوار نکلے گی اس کا اتنا حصہ مالک زمین کا ہو گا اور اتنا کسان اور کاشت کار کا جائز ہے،
اور احناف کا فتویٰ اس کے مطابق ہے،
زراعت کی یہ صورت ناجائز ہے کہ مالک یہ کہے میں فی ایکڑ بیس من گندم یا بیس من چونا لوں گا۔
پیداوار کتنی ہوتی ہے اس سے مجھے غرض نہیں ہے۔
عریہ:
ائمہ فقہاء کے نزدیک مزابنہ بالاتفاق ناجائز ہے اور عریہ بالاتفاق جائز ہے،
لیکن عریہ کی تفسیر میں شدید اختلاف ہے،
اس میں پانچ اقوال ہیں:
(1)
امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک،
عریہ،
بیع مزابنہ ہی ہے جبکہ وہ پانچ وسق سے کم ہو یا تین سو صاع سے کم ہو تو جائز ہے،
اگر پانچ وسق یا اس سے زائد ہو تو ناجائز ہے،
بعض حنابلہ کا بھی یہی نظریہ ہے۔
(2)
امام احمد رحمہ اللہ کے نزدیک عریہ یہ ہے کہ کوئی باغ کا مالک کسی آدمی کو،
پھل دار درخت کا پھل عطیہ اور نحلۃ کے طور پر دیتا ہے تو وہ مالک کے سوا کسی اور کو پھل،
توڑے ہوئے پھل کے عوض بیچ دیتا ہے بشرطیکہ وہ پانچ وسق سے کم ہو۔
(3)
امام مالک کے نزدیک،
عریہ یہ ہے کہ باغ کا مالک ایک درخت یا چند درختوں کا پھل کس کو عنایت کر دیتا ہے،
لیکن اس کی آمد و رفت سے اس کے اہل و عیال کو پریشانی اور تکلیف پہنچتی ہے،
کیونکہ ان کی رہائش باغ کے اندر ہے تو باغ کے مالک کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ اس پھل کا اندازہ لگا کر اس کے عوض خشک پھل دے دے۔
لیکن اس میں شرط یہ ہے کہ (1)
پھل پکنا شروع ہو جائے۔
(2)
پھل پانچ وسق یا اس سے کم ہو۔
(3)
خشک پھل چھوہارے ہے،
پھل توڑنے کے بعد دے،
فوراً نہ دے۔
(4)
دونوں کی قسم یا نوع ایک ہو۔
(5)
امام ابو حنیفہ کا قول بھی امام مالک والا ہے،
لیکن ان کے نزدیک یہ بیع نہیں ہے بلکہ یہ مالک باغ کی رائے کی تبدیلی ہے کہ اس نے تازہ پھل کی بجائے خشک پھل دینے کا ارادہ کر لیا،
اس لیے اس میں امام مالک والی کسی شرط کی ضرورت نہیں ہے،
اس لیے عریہ کو بیع مجازا قرار دیا گیا ہے،
حقیقتا یہ ہبہ کے بارے میں رائے کی تبدیلی ہے،
اور امام ابو حنیفہ کے نزدیک ہبہ جب تک قبضہ میں نہ دیا جائے وہ مکمل نہیں ہوتا،
اس لیے قبضہ میں دینے سے پہلے اس میں تبدیلی جائز ہے۔
(6)
ابو عبید قاسم بن سلام کے نزدیک،
عریہ سے مراد وہ کھجوروں کے درخت ہیں جو صدقہ کی وصولی کے لیے درختوں کے پھل کے اندازہ لگاتے وقت،
مالک باغ کے لیے چھوڑ دئیے جاتے ہیں،
ان کا اندازہ نہیں لگایا جاتا،
تو ضرورت مند اور فقیر و محتاج لوگ جو تازہ کھجور نقدی کے عوض حاصل نہیں کر سکتے۔
وہ چھواروں کے عوض ان درختوں کا پھل اندازہ سے خرید سکتے ہیں۔
لغوی طور پر عریہ سے مراد وہ کھجور کا درخت ہے جس کا پھل کسی محتاج اور ضرورت مند کو دے دیا گیا ہے،
اور بقول علامہ عثمانی اہل لغت کے نزدیک بالاتفاق،
عريه،
هبة ثمرة النخلة،
(درخت کا پھل ہبہ کرنا)
کا نام ہے۔
(فتح الملہم: 1/ج 410)
اب جب فقیر و محتاج کو کوئی درخت کا پھل ہبہ ہوا ہے اور ان کو اس کے بیچنے کی اجازت دی گئی ہے جیسا کہ آگے آ رہا ہے۔
الرية النخله تجعل للقوم فيبيعونها بخرصها تمرا،
کہ عریہ اس درخت کا نام ہے جو کسی کو دیا جاتا ہے اور وہ اسے آگے اندازے سے چھواروں کے عوض بیچ دیتے ہیں،
اب اس بیچنے میں کوئی پابندی نہیں ہے کہ وہ مالک کو اندازہ سے بیچ دیں یا کسی اور کو اس طرح روایات میں خرص (اندازہ)
کر کے چھواروں کے عوح فروخت کرنے کی تصریح موجود ہے اور یہ کام موہوب لہ،
جس کو درخت کا پھل ہبہ کیا گیا ہے کی طرف منسوب کیا گیا اس کے باوجود،
اس کو مالک باغ کی رائے کی تبدیلی کا نام دینا اور ان احادیث کا صحیح معنی یہی قرار دینا سینہ زوری نہیں ہے تو اور کیا ہے؟ اور اہل البیت سے مراد راہب کو قرار دینا،
انتہائی تعجب انگیز ہے کیونکہ لفظ تو یہ ہیں:
يا كلها اهلها رطبا،
تاکہ اس کے اہل تازہ کھجوریں کھا سکیں،
تو کیا،
باغ والوں کے پاس،
عریہ کے درخت کے سوا کوئی اور درخت نہیں ہے جس کا تازہ پھل وہ کھا سکیں؟ اس حدیث کا تقاضا تو یہ ہے کہ یہ درخت ان کو فروخت کیا گیا،
جن کے پاس باغ نہیں ہے جس سے وہ تازہ پھل کھا سکیں،
اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم باغ کا اندازہ لگاتے وقت مالک کو کچھ چھوٹ دے دیتے ہیں تاکہ تازہ پھل کھانے یا کسی کو کھلانے میں اسے دقت پیش نہ آئے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3878