77. باب: اس باب میں یہ بیان ہے کہ «وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَى» سے کیا مراد ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حق تعالیٰ جل جلالہ کو معراج کی رات میں دیکھا تھا یا نہیں۔
(اسماعیل کے بجائے) عبدالوہاب نے کہا: ہمیں داود نے اسی طرح حدیث سنائی (اسماعیل بن ابراہیم) ابن علیہ سے بیان کی اور اس میں اضافہ کیا کہ (حضرت عائشہؓ نے) فرمایا: اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کسی ایک چیز کو جو آپ پر نازل کی گئی، چھپانے والے ہوتے، تو آپ یہ آیت چھپا لیتے: ” اور جب آپ اس شخص سے کہہ رہے تھے جس پر اللہ نے انعام فرمایا اور آپ نے (بھی) انعام فرمایا کہ اپنی بیوی کو اپنے پاس روکے رکھو اور اللہ سے ڈرو اور آپ اپنے جی میں وہ ہر چیز چھپا رہے تھے جسے اللہ ظاہر کرنا چاہتا تھا، آپ لوگوں (کےطعن و تشنیع) سے ڈر رہے تھے، حالانکہ اللہ ہی سب سے زیادہ حقدار ہے کہ آپ اس سے ڈریں۔“
اور اسی سند سے ابنِ علیہؒ جیسی حدیث بیان کرتے ہیں اور جس میں یہ اضافہ ہے، حضرت عائشہؓ نے فرمایا: ”اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر جو کچھ اتارا گیا ہے، اس کو چھپانے والے ہوتے تو یہ آیت چھپا لیتے: ”اس وقت کو یاد کرو! جب آپ اس شخص سے جس پر اللہ نے احسان فرمایا اور آپ نے انعام فرمایا، کہہ رہے تھے، اللہ سے ڈرو اور اپنی بیوی کو اپنے پاس روکے رکھو، اور آپ اپنے جی میں وہ چیز چھپا رہے تھے جسے اللہ ظاہر کرنا چاہتا تھا۔ آپ لوگوں کے (طعن و تشنیع) سے ڈر رہے تھے، حالانکہ ڈرنے کا حق دار اللہ ہی ہے کہ آپ اس سے ڈریں۔“(الأحزاب: 37)
ترقیم فوادعبدالباقی: 177
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، تقدم تخريجه فى الحديث السابق برقم (438)»
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 440
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: ”جس پر اللہ اور آپ نے انعام فرمایا“ اس سے مراد: آپ ﷺ کے متبنیٰ حضرت زید بن حارثہؓ ہیں۔ آپ ﷺ نے ان کی شادی اپنی پھوپھی زاد حضرت زینب بنت جحشؓ سے کی، جو انتہائی حسین وجمیل تھیں، اور قریشی ہونے کی بنا پر اس شادی پر آمادہ نہ تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کے فیصلہ کو حتمی قرار دیا، جس کی بنا پر وہ راضی ہوگئیں، لیکن وہ اپنے حسن وجمال اور اپنے حسب ونسب کی بلندی کی بنا پر، حضرت زیدؓ کو وہ اہمیت نہ دیتی تھیں جس کے وہ خاوند ہونے کی بنا پر حق دار تھے، اس لیے میاں بیوی میں بحث وتکرار رہتی تھی۔ حضرت زیدؓ اس نتیجہ پر پہنچ چکے تھے، کہ میرا ان سے نباہ ممکن نہیں ہے، اس لیے مجھے اس کوطلاق دے دینی چاہیے۔ اس کے لیے حضرت زیدؓ نے آپ ﷺ نے مشورہ کیا، اللہ تعالیٰ نے حضرت زیدؓ کے حوالہ سے جس طرح متبنی ٰ بنانے کی رسم اور جاہلیت کی اس بات کو ختم کیا، کہ اسے اصل بیٹے کی حیثیت حاصل ہے، اسی طرح جاہلیت کی اس رسم کو بھی ختم کرنا چاہا کہ متبنیٰ کی بیوی کی بیوی سے شادی نہیں ہو سکتی، اور اپنے رسول ﷺ کو آگاہ کر دیا کہ حضرت زیدؓ اپنی بیوی کو طلاق دیں گے، اور آپ ﷺ اس سے شادی فرمائیں گے۔ رسول اکرم ﷺ کو یہ اندیشہ تھا، کہ اگر میں نے زینبؓ سے شادی کر لی، تو کافروں اور منافقوں کو میرے خلاف طعن وتشنیع کا طوفان اٹھانے کا موقع ملے گا۔ لوگ کہیں گے: یہ کیسا نبی ہے، جس نے اپنے منہ بولے بیٹے کی بیوی اور اپنی بہو سے نکاح کر لیا ہے۔ اس لیے آپ ﷺ چاہتے تھے، کہ حضرت زیدؓ طلاق نہ دیں، تاکہ میرے نکاح کی نوبت ہی پیش نہ آئے۔ لیکن چونکہ آپ ﷺ آخری رسول ہیں، اس لیے اگر اس مسئلہ کا حل آپ کی شریعت میں نہ کر دیا جاتا، تو قیامت تک یہ رسم ختم نہیں ہو سکتی تھی۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کی حکمت کا تقاضا یہی تھا کہ حضرت زیدؓ اپنی بیوی کو طلاق دیں، اور نبی اکرم ﷺ اس سے شادی کر لیں، اور آپ کا یہ فعل مسلمانوں کے لیے اس بات کی دلیل وحجت بنے، کہ منہ بولا بیٹا، جس طرح حقیقی بیٹا نہیں ہے، اس طرح اس کی بیوی حقیقی بہو نہیں ہے، کہ اس سے شادی نہ ہو سکے۔ تنبیہ: اس واقعہ سے یہ استدلال کرنا، کہ آپ ﷺ کو علم غیب حاصل ہے، کیونکہ آپ کو معلوم تھا کہ انجام کار کیا ہونا درست نہیں ہے، کیونکہ اگر آپ کوانجام کار کا پتہ تھا، تو آپ ﷺ نے حضرت زیدؓ کو طلاق دینے سے کیوں روکا؟ اور لوگوں کے طعن وتشنیع کا اندیشہ کیوں محسوس کیا؟ اسی طرح آپ ﷺ کے حکم اور فیصلہ کی پابندی لازم ہے، اس کا یہ معنی نہیں ہے کہ آپ امتی کی جان اورمال کے مالک اور مختار ہیں۔ اگر یہ بات ہوتی تو حضرت بریرہؓ کو آپ ﷺ نے جب حضرت مغیثؓ کے نکاح میں رہنے کا کہا تھا، آپ یہ نہ فرماتے: ”یہ میرا مشورہ ہے جس کا ماننا یا نہ ماننا تیرے اختیار میں ہے۔ “ اس نے عرض کیا اگر آپ کا حکم اور فیصلہ ہے تو سر آنکھوں پر، اگر مشورہ ہے تو میں مغیثؓ کے ساتھ نہیں رہ سکتی۔ کیونکہ آپ ﷺ کے مشورہ کی پابندی لازم نہیں ہے۔